ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کیلئے خطرہ، بین الاقوامی ادارے معاونت کریں: وزیر خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کاپ 30 کانفرنس سے ویڈیو لنک خطاب میں کہا کہ پاکستان تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہے۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، نمٹنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ گرین کلائمیٹ فنڈز سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں، گرین کلائمیٹ فنڈز سے استفادہ کیلئے رکاوٹیں دور کرنا ہوںگی، ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کم کرنے کیلئے عالمی مربوط تعاون ضروری ہے۔ ملکی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے گرین سکوک بانڈ جاری کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے سادہ اور تیز رفتار کلائمیٹ فنانسنگ کا مطالبہ کرتے کہا ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے وجود کیلئے خطرہ ہے۔ بین الاقوامی اداروں سے مالیاتی امداد کے ساتھ ساتھ تکنیکی معاونت چاہتے ہیں۔ عالمی ادارے گرین فنڈ کے طریقہ کار کو آسان بنائیں، لاس اینڈ ڈیمیج فنڈز کو جلد فعال کیا جائے، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ہماری بقاء کا مسئلہ ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
بین الاقوامی صہیونی اتحاد میں دراڑ
اسلام ٹائمز: اہم شخصیت گوستی یهوشوا برونر نے بھی لیکوڈ کی کوششوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نہیں چاہتے کہ یہ ادارہ نوکریوں کی تقسیم گاہ بن جائے، بلکہ یہ شفافیت اور صلاحیت کا مرکز ہونا چاہیے۔" لاپید کی کھلی تنقید اور سیاسی مؤقف نے ثابت کیا کہ اسرائیل کے داخلی تنازعات اب صہیونیوں کے تاریخی بین الاقوامی اداروں تک بھی پہنچ چکے ہیں، اور طاقت کی اس کشمکش نے عالمی صہیونی کانگریس، جو کبھی اتحاد کی علامت تھی اس کو اندرونی ٹکڑاؤ کے میدان میں بدل دیا ہے۔ خصوصی رپورٹ:
اس سال عالمی صہیونی کانگریس، جو دنیا بھر کے صہیونی یہودیوں کا سب سے اہم ماورائے ریاست ادارہ ہے، لیکوڈ پارٹی کی جانب سے اس ادارے پر قبضہ جمانے کی کوششوں کے باعث شدید سیاسی تنازعات کا شکار ہوا، اور اجلاس کسی کلیدی عہدے کے انتخاب کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔ بین الاقوامی خبرگزاری تسنیم کے مطابق عالمی صہیونی کانگریس کا اجلاس اس بار غیر معمولی سیاسی ہنگامہ آرائی کی نذر ہو گیا۔
چونتیسویں اجلاس کا ماحول اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاهو اور اپوزیشن کے درمیان جاری کشمکش، نیز یائیر لاپید کے شدید بیانات کے اثرات سے منفی متاثر ہوا۔ عبرانی میڈیا نے نشاندہی کی کہ پچھلے چند برسوں میں اسرائیلی سیاستدانوں کے داخلی اختلافات عالمی صہیونی کانگریس اور اس کے ذیلی اداروں، جیسے یہودی ایجنسی، یہودی نیشنل فنڈ، اور دیگر تنظیمیوں کی سمت اور قیادت پر نمایاں اثر ڈال رہے ہیں، حالانکہ یہ کانگریس صہیونی ریاست کا سب سے بڑا بین الاقوامی پشت پناہ ادارہ ہے۔
اختلافات کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟:
کنست کی جماعتوں نے اجلاس سے قبل 28 اکتوبر کو ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت، یہودی نیشنل فنڈ (JNF) کی سربراہی یائیر لاپید کی جماعت یش عتید کو ملنی تھی، اور عالمی صہیونی تنظیم کے سیکریٹری جنرل کا عہدہ لیکوڈ کے پاس جانا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ہر جماعت کو اپنے امیدوار مختلف عہدوں پر تعینات کرنے کا حق حاصل تھا۔ لیکوڈ کے پاس عالمی صہیونی تنظیم کے میڈیا اور ڈائسپورا ڈویژن کے سربراہ کی نامزدگی کا اختیار بھی تھا، جو وزیر کے برابر حیثیت رکھتا ہے۔
لیکن ووٹنگ کے روز لیکوڈ نے اس معاہدے سے انحراف کیا، اور جب لیکوڈ نے نتن یاہو کے بیٹے یائیر نتن یاہو کا نام ایک اہم عہدے کے لیے پیش کیا تو ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ یائیر لاپید نے اس پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے سابق معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا، نتن یاہو پر سیاسی رشتہ دار نوازی اور اپنے خاندان و حامیوں میں عہدے تقسیم کرنے کا الزام لگایا۔ تنازع کے نتیجے میں کنست رکن مایر کوہن کی JNF کی سربراہی پر تعیناتی مؤخر ہوگئی، اور خاخام دورون پرتز کی عالمی صہیونی تنظیم کے نئے صدر کے طور پر نامزدگی بھی روک دی گئی۔
یہودی مالیاتی فنڈز کی اہمیت اور سیاسی کوششیں:
دو بڑے مالیاتی ادارے کیرن کاییمت (JNF) اور کیرن ہیسود، عالمی صہیونی کانگریس کے ماتحت ہیں، اور صہیونی ریاست کو عالمی یہودی امداد دلوانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جنگ کے جاری خرچوں نے اسرائیل کی معیشت پر شدید دباؤ بڑھایا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان فنڈز کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ نتن یاہو کی جانب سے ان اداروں پر سیاسی کنٹرول کی کوشش نے شدید مخالفت کو جنم دیا۔
لاپید نے ایک سخت بیان میں کہا "ہم ان اداروں کو اصلاحات کے ذریعے پاک کرنا چاہتے تھے، مگر تمام تفصیلات واضح ہونے کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ اصلاح ممکن نہیں، اسے بند کر دینا چاہیے۔" انہوں نے مزید کہا کہ لیکوڈ عالمی صہیونی تنظیم کے اداروں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، اپنے خاندان (خصوصاً یائیر نتن یاہو) اور باوفا کاروباری طبقات کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتا ہے، اور چھ نئی غیر ضروری ڈویژنز قائم کرکے سینکڑوں عہدے اپنے حامیوں میں بانٹنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
کانگریس کے سینئر اراکین کی ناراضگی:
کانگریس کی ایک اہم شخصیت گوستی یهوشوا برونر نے بھی لیکوڈ کی کوششوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نہیں چاہتے کہ یہ ادارہ نوکریوں کی تقسیم گاہ بن جائے، بلکہ یہ شفافیت اور صلاحیت کا مرکز ہونا چاہیے۔" لاپید کی کھلی تنقید اور سیاسی مؤقف نے ثابت کیا کہ اسرائیل کے داخلی تنازعات اب صہیونیوں کے تاریخی بین الاقوامی اداروں تک بھی پہنچ چکے ہیں، اور طاقت کی اس کشمکش نے عالمی صہیونی کانگریس، جو کبھی اتحاد کی علامت تھی اس کو اندرونی ٹکڑاؤ کے میدان میں بدل دیا ہے۔
بین الاقوامی صہیونی اتحاد میں دراڑیں:
اس تنازع کی اہمیت یہ ہے کہ عالمی صہیونی کانگریس 1948 سے اسرائیلی ریاست کی مالی و سیاسی پشت پناہی کا مرکز رہا ہے، مگر اب داخلی اختلافات نے اسے بھی متزلزل کر دیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں بین الاقوامی صہیونی تنظیموں جیسے AIPAC کے اندر بھی اختلافات بڑھے ہیں، اور کئی اہم یہودی گروہ تل ابیب کی حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ اسرائیل کی دائیں بازو، انتہائی مذہبی اور آمرانہ پالیسیوں نے لبرل یہودیوں کو بدظن کیا ہے، جبکہ جنگی جرائم نے عالمی سطح پر ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے، خصوصاً امریکہ میں۔