بین الاقوامی صہیونی اتحاد میں دراڑ
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اہم شخصیت گوستی یهوشوا برونر نے بھی لیکوڈ کی کوششوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نہیں چاہتے کہ یہ ادارہ نوکریوں کی تقسیم گاہ بن جائے، بلکہ یہ شفافیت اور صلاحیت کا مرکز ہونا چاہیے۔" لاپید کی کھلی تنقید اور سیاسی مؤقف نے ثابت کیا کہ اسرائیل کے داخلی تنازعات اب صہیونیوں کے تاریخی بین الاقوامی اداروں تک بھی پہنچ چکے ہیں، اور طاقت کی اس کشمکش نے عالمی صہیونی کانگریس، جو کبھی اتحاد کی علامت تھی اس کو اندرونی ٹکڑاؤ کے میدان میں بدل دیا ہے۔ خصوصی رپورٹ:
اس سال عالمی صہیونی کانگریس، جو دنیا بھر کے صہیونی یہودیوں کا سب سے اہم ماورائے ریاست ادارہ ہے، لیکوڈ پارٹی کی جانب سے اس ادارے پر قبضہ جمانے کی کوششوں کے باعث شدید سیاسی تنازعات کا شکار ہوا، اور اجلاس کسی کلیدی عہدے کے انتخاب کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔ بین الاقوامی خبرگزاری تسنیم کے مطابق عالمی صہیونی کانگریس کا اجلاس اس بار غیر معمولی سیاسی ہنگامہ آرائی کی نذر ہو گیا۔
چونتیسویں اجلاس کا ماحول اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاهو اور اپوزیشن کے درمیان جاری کشمکش، نیز یائیر لاپید کے شدید بیانات کے اثرات سے منفی متاثر ہوا۔ عبرانی میڈیا نے نشاندہی کی کہ پچھلے چند برسوں میں اسرائیلی سیاستدانوں کے داخلی اختلافات عالمی صہیونی کانگریس اور اس کے ذیلی اداروں، جیسے یہودی ایجنسی، یہودی نیشنل فنڈ، اور دیگر تنظیمیوں کی سمت اور قیادت پر نمایاں اثر ڈال رہے ہیں، حالانکہ یہ کانگریس صہیونی ریاست کا سب سے بڑا بین الاقوامی پشت پناہ ادارہ ہے۔
اختلافات کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟:
کنست کی جماعتوں نے اجلاس سے قبل 28 اکتوبر کو ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت، یہودی نیشنل فنڈ (JNF) کی سربراہی یائیر لاپید کی جماعت یش عتید کو ملنی تھی، اور عالمی صہیونی تنظیم کے سیکریٹری جنرل کا عہدہ لیکوڈ کے پاس جانا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ہر جماعت کو اپنے امیدوار مختلف عہدوں پر تعینات کرنے کا حق حاصل تھا۔ لیکوڈ کے پاس عالمی صہیونی تنظیم کے میڈیا اور ڈائسپورا ڈویژن کے سربراہ کی نامزدگی کا اختیار بھی تھا، جو وزیر کے برابر حیثیت رکھتا ہے۔
لیکن ووٹنگ کے روز لیکوڈ نے اس معاہدے سے انحراف کیا، اور جب لیکوڈ نے نتن یاہو کے بیٹے یائیر نتن یاہو کا نام ایک اہم عہدے کے لیے پیش کیا تو ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ یائیر لاپید نے اس پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے سابق معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا، نتن یاہو پر سیاسی رشتہ دار نوازی اور اپنے خاندان و حامیوں میں عہدے تقسیم کرنے کا الزام لگایا۔ تنازع کے نتیجے میں کنست رکن مایر کوہن کی JNF کی سربراہی پر تعیناتی مؤخر ہوگئی، اور خاخام دورون پرتز کی عالمی صہیونی تنظیم کے نئے صدر کے طور پر نامزدگی بھی روک دی گئی۔
یہودی مالیاتی فنڈز کی اہمیت اور سیاسی کوششیں:
دو بڑے مالیاتی ادارے کیرن کاییمت (JNF) اور کیرن ہیسود، عالمی صہیونی کانگریس کے ماتحت ہیں، اور صہیونی ریاست کو عالمی یہودی امداد دلوانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جنگ کے جاری خرچوں نے اسرائیل کی معیشت پر شدید دباؤ بڑھایا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان فنڈز کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ نتن یاہو کی جانب سے ان اداروں پر سیاسی کنٹرول کی کوشش نے شدید مخالفت کو جنم دیا۔
لاپید نے ایک سخت بیان میں کہا "ہم ان اداروں کو اصلاحات کے ذریعے پاک کرنا چاہتے تھے، مگر تمام تفصیلات واضح ہونے کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ اصلاح ممکن نہیں، اسے بند کر دینا چاہیے۔" انہوں نے مزید کہا کہ لیکوڈ عالمی صہیونی تنظیم کے اداروں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، اپنے خاندان (خصوصاً یائیر نتن یاہو) اور باوفا کاروباری طبقات کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتا ہے، اور چھ نئی غیر ضروری ڈویژنز قائم کرکے سینکڑوں عہدے اپنے حامیوں میں بانٹنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
کانگریس کے سینئر اراکین کی ناراضگی:
کانگریس کی ایک اہم شخصیت گوستی یهوشوا برونر نے بھی لیکوڈ کی کوششوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نہیں چاہتے کہ یہ ادارہ نوکریوں کی تقسیم گاہ بن جائے، بلکہ یہ شفافیت اور صلاحیت کا مرکز ہونا چاہیے۔" لاپید کی کھلی تنقید اور سیاسی مؤقف نے ثابت کیا کہ اسرائیل کے داخلی تنازعات اب صہیونیوں کے تاریخی بین الاقوامی اداروں تک بھی پہنچ چکے ہیں، اور طاقت کی اس کشمکش نے عالمی صہیونی کانگریس، جو کبھی اتحاد کی علامت تھی اس کو اندرونی ٹکڑاؤ کے میدان میں بدل دیا ہے۔
بین الاقوامی صہیونی اتحاد میں دراڑیں:
اس تنازع کی اہمیت یہ ہے کہ عالمی صہیونی کانگریس 1948 سے اسرائیلی ریاست کی مالی و سیاسی پشت پناہی کا مرکز رہا ہے، مگر اب داخلی اختلافات نے اسے بھی متزلزل کر دیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں بین الاقوامی صہیونی تنظیموں جیسے AIPAC کے اندر بھی اختلافات بڑھے ہیں، اور کئی اہم یہودی گروہ تل ابیب کی حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ اسرائیل کی دائیں بازو، انتہائی مذہبی اور آمرانہ پالیسیوں نے لبرل یہودیوں کو بدظن کیا ہے، جبکہ جنگی جرائم نے عالمی سطح پر ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے، خصوصاً امریکہ میں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عالمی صہیونی تنظیم کے عالمی صہیونی کانگریس بین الاقوامی نتن یاہو
پڑھیں:
دہلی و اسلام آباد کے زخم: پس ِ پردہ کون ہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251113-03-3
پچھلے دو روزہ واقعات نے جنوبی ایشیا کو ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا کر دیا ہے جہاں ہر واقعہ محض ایک بم یا شعلہ نہیں بلکہ وسیع الجہت سیاسی، عسکری اور سفارتی گردشوں کا نتیجہ بنتا محسوس ہوتا ہے۔ 10 نومبر بروز پیر نئی دہلی کے لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب کار دھماکے میں کئی شہری ہلاک ہو گئے، اور اس کے اگلے ہی دن 11 نومبر کو اسلام آباد کے ضلعِ کچہری کے قریب ہونے والے دھماکے میں متعدد افراد شہید و زخمی ہوئے یہ واقعات وقت، مقام اور نوعیت کے اعتبار سے بیک وقت وقوع پذیر ہو کر نہ صرف دونوں دارالحکومتوں کے عوام میں خوف و اضطراب پیدا کر رہے ہیں بلکہ خطے کی خراب ہوتی ہوئی سلامتی کی تصویر کو بھی واضح کر رہے ہیں۔ پہلا سوال جو ہر ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کس کا ہاتھ ہے؟ ابتدائی انٹیلی جنس اور میڈیا رپورٹس میں اسلام آباد دھماکے سے قبل افغانستان سے مشابہ نوعیت کی سوشل میڈیا پوسٹس کا حوالہ دیا گیا بعض اکاؤنٹس پر ’Coming soon Islamabad‘ جیسے پیغامات منظر عام پر آئے، اور مختلف طالبان منسلک آن لائن پروفائلز نے دھمکی آمیز بیانات شایع کیے۔ اسی طرز کی اطلاعات اور تشویش نے پاکستان کی سرکاری قیادت کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ واقعہ بیرونی عناصر یا بین الاقوامی روابط رکھنے والی پراکسی نیٹ ورکنگ کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ تاہم فیکٹ اور الزام عائد کرنا دو الگ عمل ہیں فوجداری تحقیقات، سی سی ٹی وی، فورینزک تجزیہ اور بین الاقوامی انٹیلی جنس تعاون کے بغیر حتمی نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاک بھارت تعلقات میں تشدد و پراکسی مداخلت کا سانچہ نیا نہیں۔ کشمیر، سرحدی جھڑپیں، اور متنازع عسکری حمایت کے الزامات نے کئی بار دونوں ملکوں کو عالمی سطح پر تنائو کے قریب پہنچایا ہے۔ مگر اس بار واقعات کی بیک وقت اور دارالحکومتوں کو ہدف بنائے جانا ایک مختلف اور خطرناک پیغام لیے ہوئے ہے کہ یہ محض علاقائی دہشت گردی کا عمل نہیں بلکہ معلوماتی اور نفسیاتی جنگ کی ایک کڑی بھی ہو سکتی ہے جس کا مقصد عوامی حوصلہ پست کرنا، داخلی سیاسی اجزاء کو کمزور کرنا اور دو ایٹمی قوتوں کے مابین سرد جنگ کو گرم تقابل میں تبدیل کرنا ہے۔ داخلی سیکورٹی کے تناظر میں پاکستان کو فوری طور پر تین سطحی حکمت ِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے کہ؛ ۱۔ شہری سطح پر فوری حفاظتی اقدامات اور عدالتی مراکز، تعلیمی اداروں و عوامی جگہوں کی سخت حفاظت؛ ۲، انٹیلی جنس شیئرنگ کے تقاضے پورے کر کے افغانستان اور دیگر ملکوں کے ساتھ بین الاقوامی تعاون؛ اور ۳۔ دہشت گردی کے بنیادی سبب یعنی عسکریت پسندی کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے طویل المدت سماجی و معاشی اصلاحات۔ صرف عسکری ردعمل ہی محدود کامیابی دلا سکتا ہے؛ اس کے بغیر پائیدار امن ناممکن رہے گا۔
بھارت کے لیے بھی تنبیہ واضح ہے کہ اگرچہ ہر ملک کو اپنے اندرونی سیکورٹی چیلنج درپیش ہوتے ہیں، مگر سرحد پار پراکسیز کے ذریعے اثراندازی یا کسی بھی شکل کی کارروائی خطے کی سلامتی کے لیے تیل پر آگ ڈالنے کے مترادف ہے۔ عالمی برادری نے ماضی میں متعدد مواقع پر اس خطے میں شواہد کی بنیاد پر ثالثی اور تحقیقات کی حمایت کی؛ موجودہ حالات میں شواہد کی شفاف پیشکاری، مشترکہ تحقیقات اور بین الاقوامی تفتیشی میکانزم کی شمولیت ہی تنازعے کو مزید بڑھنے سے روک سکتی ہے۔ معاشی و سماجی اثرات بھی شدت کے ساتھ سامنے آئیں گے۔ خوف و عدم استحکام سرمایہ کاری کو روکے گا، تجارت متاثر ہوگی، اور طویل المدت ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ شہری عوام کا معمولی نقل و حرکت متاثر ہونا، تعلیمی اداروں کا عارضی بند ہونا، اور روزمرہ کی زندگی میں اضافہ شدہ حفاظتی لاگت ایک معاشی بوجھ کے طور پر ظاہر ہو گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر عوامی عزم کمزور پڑا اور خوف غالب آیا تو اس کا ثمر وہی ہوتا ہے جو دہشت گرد چاہتے ہیں کہ سماجی شقاق اور ریاستی کارکردگی میں کمی۔ بین الاقوامی سطح پر صورتحال کا تسلسل خاص طور پر خطرناک ہے کیونکہ دونوں اطراف کے ردعمل میں غلط فہمی یا تندی کسی بھی لمحے عملیاتی محاذ پر بدل سکتی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کا وجود کسی بھی محاذ آرائی کو محدود نہیں کرتا بلکہ اس کے خطرات کو ناقابل ِ تصور حد تک بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے سفارتی چینلوں کو کھلا رکھنا، اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ذریعے جلد از جلد ثالثی کے راستے تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ شورش کو قابو میں لایا جا سکے اور مستقبل میں باہمی اعتماد کے لیے ساختی اقدامات کیے جائیں۔
آخرکار، شواہد اور ذمے داری کی تصدیق کے لیے پیش کیے گئے تمام بیانات اور الزامات کو ایک آزاد، شفاف اور بین الاقوامی شراکت داروں کی موجودگی میں جانچا جانا چاہیے۔ حقائق سامنے آئیں گے تو مناسب قانونی اور سفارتی ردعمل ممکن ہوگا؛ مگر اس سے پہلے جو کام ہر شہری اور ہر ریاستی ادارے کر سکتا ہے وہ ہے ضبط ِ نفس، فوری طبی و امدادی کارروائی، اور وہ اجتماعی کوششیں جن سے دہشت گردی کے جڑواں مسائل عدم روزگار، سرحدی بے قاعدگیاں، اور انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ بصورتِ دیگر، ایک چھوٹی سی چنگاری بڑے پیمانے پر بھڑک سکتی ہے اور دونوں ملکوں کے عوام، خطے کی معیشت اور بین الاقوامی امن بھاری قیمت چکا سکتے ہیں۔