لفظ ’’پاکستان‘‘ کے موجد چودھری رحمت علی کا آج یوم ولادت منایا جا رہا ہے WhatsAppFacebookTwitter 0 16 November, 2025 سب نیوز

لاہور: (آئی پی ایس) لفظ ’’پاکستان‘‘ کے موجد چودھری رحمت علی کا آج یوم ولادت منایا جا رہا ہے، چودھری رحمت علی کا شمار برصغیر کے نہایت متحرک اور فعال سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان میں ایک منفرد اور مثالی کردار ادا کیا۔

نقاش پاکستان چودھری رحمت علی 16 نومبر 1897ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں ایک متوسط زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے، جالندھر سے میٹرک اور 1918ء میں لاہور سے بی اے کیا۔

انہوں نے محض 18 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ 1915ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں بزم شبلی کے افتتاحی اجلاس میں ہندوستان کے شمالی علاقوں کو ایک مسلم ریاست میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی، پھر 1928ء میں ایچی سن کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔

چودھری رحمت علی صحافت سے بھی منسلک رہے، 1933ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے قانون اور سیاست کی ڈگریاں لیں، اسی دوران لندن میں تیسری گول میز کانفرنس کے موقع پر مشہور زمانہ کتابچہ ’’ناؤ آر نیور‘‘ میں پہلی بار لفظ “پاکستان” کو مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کیلئے استعمال کیا۔

بالآخر 14 اگست 1947ء کو چودھری رحمت علی کے تجویز کردہ نام کو تعبیر مل گئی اور پاکستان وجود میں آگیا، چودھری رحمت علی اپریل 1948ء میں پاکستان تشریف لائے لیکن قائد اعظم کی وفات کے بعد واپس انگلستان لوٹ گئے جہاں 3 فروری 1951ء کو وفات پائی اور کیمبرج میں آسودہ خاک ہوئے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبر:صیہونی افواج نے تاریخی ابراہیمی مسجد کو کرفیو لگا غیر قانونی آباکاروں کیلیے کھول دیا ڈاکٹر طار ق سلیم اور سیدعارف شیرازی کا ضلع راولپنڈی کے عہدے داران کے جائزہ اجلاس سے خطاب چینی وزیر خارجہ کی جانب سے اسلام آباد میں ہونے والے حملے کی شدید مذمت پارک روڈ پر شہریوں کو حادثات سے بچانے کے لئے 3 پلوں کی تعمیر کا فیصلہ صدر مملکت نے پاک فوج سے متعلق ترمیمی بل 2025 پر دستخط کر دیے ’مرچیں جلانا، بکرے کے سر قبرستان پھینکوانا‘، بشریٰ کے آنے کے بعد عمران خان کے گھر عجیب رسومات شروع ہوئیں: دی اکانومسٹ پاکستان ٹوبیکو انڈسٹری انٹر فیرنس انڈیکس رپورٹ کی تقریب رونمائی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: چودھری رحمت علی کا

پڑھیں:

کامنی کوشل، اس دل میں لاہور کی یادوں کا باغ تھا

معروف اداکارہ کامنی کوشل کے جہان گزراں سے چلے جانے کے بعد انڈیا میں لاہور کی ایک اور قیمتی نشانی کم ہو گئی ہے۔ یہ شہر ان کی جنم بھومی تھا۔ اس کی یاد ان کے دل سے کبھی نہیں اتری۔

انہوں نے راجیہ سبھا ٹی وی سے انٹرویو میں سبزے میں گھرے اپنے خوبصورت گھر کو بڑی محبت سے یاد کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’مجھے اب تک اس کے سپنے آتے ہیں۔‘ یہ گھر چوبرجی کے نواح میں راج گڑھ کے علاقے میں تھا جس کے اردگرد یوکلپٹس کے درخت ایستادہ تھے۔ کھٹے کی باڑ تھی اور گھر کے مکینوں سے پہلے گل وگلزار سے ملاقات ہوتی تھی۔ اسے پھولوں والی کوٹھی کہا جاتا تھا۔ تقسیم کے وقت اس گلشن سے طائروں کو نکلنا پڑا لیکن لاہور کی یادیں کریدتے ہوئے کامنی کوشل کے لہجے میں تلخی کا شائبہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ بڑے رسان سے شہر پرکمال کے بام ودر اور اس سے منسلک یادیں بیان کرتی چلی جاتی تھیں۔

کامنی کوشل تقسیم کے بعد 1962 میں اپنا گھر دیکھنے لاہور آئی تھیں۔ 50 سال بعد انہوں نے معروف تاریخ دان ڈاکٹر اشتیاق احمد سے اس دورے کی یادیں سانجھا کی تھیں۔ کامنی کوشل کا گھر اس وقت ان کے ہمسایوں کے تصرف میں تھا جنہیں وہ تقسیم سے پہلے اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ بڑی خوش دلی سے اس گھر کی اصل وارث سے ملے۔ کامنی کوشل یہ دیکھ کر حیران ہوئیں کہ مجسمے، تصاویر اور بہت سا فرنیچر 15 برس بعد بھی اپنے ٹھکانے پر تھے۔ ان کی سہیلی جمیلہ کو ہم جولی کے لاہور آنے کی اطلاع ملنے کی دیر تھی کہ وہ اڑتے ہوئے کراچی سے ملنے کے لیے چلی آئیں اور پھر بڑی جذباتی فضا میں ان سکھیوں نے ایامِ عشرتِ فانی کو یاد کیا۔

کامنی کوشل کے لاہور سے رشتے کی حکایت بڑے تواتر سے بیان ہوتی رہی ہے جس کی سب سے معتبر راوی وہ آپ تھیں۔ یادوں کی اس خزینے سے میں نے آپ کے لیے وہ موتی چنے ہیں جنہیں بڑے نامور ادیبوں نے اپنی کتابوں میں پرویا ہے۔

کامنی کوشل کی فنی زندگی کی بنیاد کا ایک پتھر آل انڈیا ریڈیو کا لاہور اسٹیشن تھا جہاں انہوں نے رفیع پیر اور امتیاز علی تاج کے ڈراموں میں کام کیا۔

پنجابی کے معروف لکھاری کرتار سنگھ دگل ان دنوں لاہور ریڈیو میں پروگرام افسر تھے۔ ان کی خود نوشت ‘کس پہ کھولوں گنٹھڑی’ میں اس زمانے کی کہانی مؤثر اسلوب میں بیان ہوئی ہے جس سے کامنی کوشل کی ریڈیو پر ہنرمندی کی خبر ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’جو لڑکی بعد میں کامنی کوشل کے نام سے فلمی دنیا میں مشہور ہوئی وہ میری ڈراما آرٹسٹ تھی۔ ان دنوں اسکول میں پڑھتی تھی۔ اکثر بچوں کے پروگرام کے پارٹ کرتی تھی۔ امتیاز علی تاج کے مشہور ریڈیو ناٹک ‘ورجینا’ میں اس نے ورجینا کا پارٹ ادا کیا تھا۔ تب بھی اس کی اہلیت، اس کی ڈرامے کی لگن، کلاکار کے طور پر اس کی سوجھ بوجھ بے جوڑ تھی۔ ظاہر ہے اس طرح کے آرٹسٹ کی قدر ہوتی تھی۔ حسیب اس طرح کی لڑکیوں کی کچھ زیادہ ہی خاطر تواضع کرتا تھا۔ کامنی کوشل کا اصل نام اوما ہے۔ اوما کیشپ کے نام سے وہ براڈ کاسٹ کیا کرتی تھی۔ اوما کی ہر بات مانی جاتی تھی۔ ‘

کامنی کوشل نے لیڈی میکلگن اسکول کے بعد کنیئرڈ کالج کا رخ کیا اور وہاں سے گریجویشن کی تھی۔ ان تعلیمی اداروں نے کامنی کی فطری صلاحیتوں کی آبیاری کی۔ 1988 میں کنئیرڈ کالج کے قیام کے 75 سال پورے ہونے کی مناسبت سے تقریبات میں کامنی کوشل کو مدعو کیا گیا تو وہ اپنی مادرِ علمی تشریف لائیں اور ہم عصر طالبات سے مل کر جی شاد کیا۔ اس دورے کی رعایت سے ممتاز ادیب انتظار حسین نے ‘مشرق’ اخبار میں ان کی فلموں میں اپنی دلچسپی کا احوال رقم کیا تھا۔

پاکستان کے ابتدائی برسوں میں انتظار حسین جوانی کی منزل پر تھے اور فلمیں بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ اس شوق میں ان کے دو صحافی دوست امجد حسین اور حمید ہاشمی بھی شریک تھے جن کے ساتھ انہوں نے کامنی کوشل کی فلمیں کئی کئی بار دیکھی تھیں، ان زمانوں کی یاد کرتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا:

‘یہ وہ زمانہ تھا جب ‘امروز’ کا دفتر ایبٹ روڈ پر ہوا کرتا تھا، ہم تینوں مولانا چراغ حسن حسرت سے نظر بچا کر اور اپنا کام دوسرے رفیقوں کے سر ڈال کر چپکے سے باہر نکلتے اور آس پاس کے کسی سنیما گھر میں جس میں کامنی کوشل کی فلم لگی ہوتی جا بیٹھتے۔ یہ دونوں ہی دوست کامنی کوشل کے بلا شرکت غیرے پروانے ہوا کرتے تھے مگر ہم نے تو ‘جوگن’ بھی دیکھ رکھی تھی، ہم تو نرگس کا بھی اتنا ہی لوہا مانتے تھے جتنا کامنی کوشل کا بلکہ شاید تھوڑا زیادہ ہی۔’

انتظار حسین نے لکھا کہ کامنی کوشل اب اس شہر آئی ہیں تو ‘ندیا کے پار’ ، ‘ضدی’ اور ‘آرزو’ کا زمانہ بعید بن چکا ہے اگر وہ ان فلموں کے زمانے میں لاہور آتیں تو پورا شہر کنیئرڈ کالج پر امڈ پڑتا۔

کامنی کوشل نے 1946 میں ‘نیچا نگر’ سے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا تو اس وقت وہ لاہور کی باسی تھیں۔ اس فلم کا لاہور اور اس کے طالب علموں سے گہرا تعلق تھا۔ کامنی کنیئرڈ کالج کی طالبہ تھیں۔ فلم کے ڈائریکٹر چیتن آنند گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل تھے۔ ان کی کامنی کوشل کے بھائی سے دوستی تھی۔ انہی کے کہنے پر وہ فلم میں کام کرنے پر رضامند ہوئی تھیں۔ چیتن نے اوما کیشپ کو کامنی کوشل بنایا تھا۔ گورنمنٹ کالج کے سابق طالب علم اور لاہور ریڈیو، تھیٹر اور ادب کی معروف ہستی رفیع پیر نے فلم میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں چھوٹا موٹا رول صفدر میر نے بھی کیا تھا جو گورنمنٹ کالج کے طالب علم تھے اور بعد میں استاد بن گئے۔ پاکستان میں وہ ڈراما نگار، شاعر، کالم نویس اور دانشور کے طور پر لاہور کی تہذیبی و ادبی زندگی کے نمایاں فرد کے طور پر ابھرے۔

نیچا نگر سے اڑان بھرنے کے بعد کامنی کوشل کی پرواز اونچی ہوتی گئی۔ لاہور ان سے چھٹ گیا لیکن ان کے حسن کی چکا چوند اس شہر کے باسیوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتی رہی۔

معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ‘لاہور آوارگی’ میں ایک باب ‘لاہور کی محبوب عورتیں’ کے عنوان سے ہے۔ اس میں وہ لاہور میں سنیماؤں کے سنہری دور کو یاد کرتے ہوئے فلمی ہیروئنوں کے سحر آگیں حسن کا تذکرہ کرتے ہیں جو لاہوریوں کے دلوں و دماغ پر حاوی ہو جاتا تھا۔ ان کے بقول:

’آج کے عہد میں کوئی تصور نہیں کر سکتا کہ ان زمانوں میں سنیما گھروں کی جادو نگری ایک کوہ قاف تھی جہاں آپ کے گیلے خوابوں کی پریاں رقص کرتی تھیں، وہ کسی دلیپ کمار، راج کپور یا دیو آنند سے نہیں آپ سے عشق کا اظہار کرتی تھیں۔ اگر مدھو بالا ‘بے ایمان تورے نینوا، نندیا نہ آئے’ گاتی تھی تو آپ کے نینوں سے ‘اپنی نیند اڑ جاتی تھی۔ کامنی کوشل اگر ‘ندیا کے پار جاتی تھی تو آپ سے ملنے کے لیے اس لیے بھی جاتی تھی کہ وہ بھی ایک لاہورن تھی کنیئرڈ کالج میں پڑھا کرتی تھی۔’

مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ٹی وی پروگرام ’کارواں سرائے‘ میں بھی کامنی کوشل کے لاہور سے تعلق پر بات کی تھی۔

معروف براڈ کاسٹر، شاعرہ اور خاکہ نگار سحاب قزلباش نے لندن میں کامنی کوشل سے ملاقات کی روداد ‘روشن چہرے’ میں رقم کی ہے، اس میں لاہور کا حوالہ لامحالہ آنا ہی تھا کیوں کہ اس کے بغیر کامنی کوشل کی زندگی ادھوری رہتی ہے۔

کامنی کوشل کی یادوں کے نشان لاہور میں جگہ جگہ ثبت تھے۔ ان میں ایک یادگار لارنس گارڈن میں اوپن ائیر تھیٹر بھی تھا۔

اس حوالے سے سحاب قزلباش نے کامنی کوشل کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ‘رات کے دو بجے تم لارنس گارڈن پہاڑی کے قریب تھیٹر دیکھنے گئیں۔ اپنے میک اپ کے کمرے میں بھی گھومیں۔ ساری بتیاں جلا کر تم چپ چاپ اسٹیج پر بیٹھی رہیں اور لوگ تمہیں پاگل سمجھ رہے تھے۔’

سحاب نے کامنی کے حوالے سے ایک فقرہ امتیاز علی تاج کے بارے میں بھی نقل کیا ہے:

‘ان کا نام کون بھول سکتا ہے’

لاہور میں پرانے قریوں میں تصور کی آنکھ سے ماضی میں جھانکنے کی ایک مثال گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کے دورے سے بھی ملتی ہے اور اپنے اس تجربے کے بارے میں بھی انہوں نے ڈاکٹر اشتیاق احمد کو بتایا تھا۔

گورنمنٹ کالج میں وہ بچپن میں اپنے والد کے ساتھ جایا کرتی تھیں جو اس عظیم تعلیمی ادارے میں باٹنی (نباتیات) کے پروفیسر تھے۔ ان کے کمرے میں ان کی چیزیں طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی موجود تھیں، حتیٰ کہ ان کے دور کی دوات بھی۔ وہ سارا زمانہ ان کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور والد کے کمرے میں جانا ان کے لیے ایک روحانی تجربہ بن گیا۔

لاہور ان کے سپنوں میں آتا تھا۔ اسے وہ رہ رہ کر یاد کرتی تھیں۔ ذاتی اور فلمی اداکارہ دونوں حیثیتوں سے اس شہر کے باسیوں سے ان کا تعلق قائم رہا اور بڑے بڑے ادیبوں نے ان کے اس شہر سے تعلق کو اجاگر کیا ہے۔ ان کی محبت کے مختلف مظاہر دیکھ کر لاہور سے کرشن چندر کی محبت کے پیش نظر صہبا لکھنوی نے ایک جملہ کہا تھا جو کامنی کوشل کے حسب حال معلوم ہوتا ہے:

’کرشن چندر جسمانی طور پر بمبئی میں آباد تھے لیکن ان کا دل اور روح لاہور کے گلی کوچوں میں سیر کرتی رہی۔’

صاحبو! لاہور باغوں کا شہر تھا۔ لیکن اس سے بچھڑنے والے ان باغوں کو اپنے دل میں سمیٹ کر لے جاتے رہے۔ کامنی بھی ایک پھول ہی تو ہے۔ قضا نے اسے مرجھا دیا لیکن ان کے دل میں بسا لاہور کا یہ باغ ان کی یادوں میں مہکتا رہے گا اور پھول رنگ بکھیرتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews تقسیم برصغیر کامنی کوشل لاہور محمودالحسن وی نیوز یادیں

متعلقہ مضامین

  • کامنی کوشل، اس دل میں لاہور کی یادوں کا باغ تھا
  • اجتماع عام ٗتیاریاں و عوامی رابطہ مہم تیز ٗ شہربھر میں کیمپ قائم ، موٹر سائیکل سوار قافلہ آج لاہور روانہ ہوگا
  • نواز شریف لندن پہنچ گئے‘2 ہفتے قیام کریں گے
  • اجتماع عام ،کمشنرلاہور و دیگر افسران کامینار پاکستان کا دورہ
  • تبدیلی کا نعرہ جعلی، گم راہ کن تھا، عون چودھری
  • چوہدری رحمت علی: تحریک پاکستان کا نظر انداز ہیرو
  • سپریم کورٹ کے 2 ججز کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جج نے بھی استعفیٰ دے دیا
  • پاکستان متحد‘ علماء اپنی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں: مولانا عبدالخبیرآزاد
  • لاہور: نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان و ناظم اجتما ع عام لیاقت بلوچ مینار پاکستان میں مشاورتی اجلاس سے خطاب کررہے ہیں