Juraat:
2025-07-06@05:35:49 GMT

میدانِ کربلا کے عظیم شہسوارسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

میدانِ کربلا کے عظیم شہسوارسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

مفتی محمد وقاص رفیعؔ

٭سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے ساتھ مشابہت رکھتا تھا ٭اللہ تعالی نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ حسن باطنی سے بھی وافر حصہ عطاء فرما رکھا تھا ٭حضرت حسین رضی اللہ عنہ عرب کے فصیح و بلیغ اور ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے‘ ان کے شعروںمیں تقوی کادرس ملتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نام و نسب
آپ کا نام نامی اسم گرامی حسین، کنیت ابو عبد اللہ، لقب ’’سیدا شباب اہل الجنہ‘‘ (جنت کے نوجوانوں کے سردار) والد کا نام علی ؓدادا کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہؓ ہے۔

والد کی طرف سے سلسلۂ نسب یہ ہے: ’’حسین ؓبن علیؓ بن ابی طالب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان…الخ‘‘ (البدایہ والنہایہ:۷/۳۳۲)

ولادت باسعادت
امام حسین رضی اللہ عنہ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف روایات مروی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ آپؓ مؤرخہ ۵/شعبان المعظم ۴ ؁ہجری میں پیدا ہوئے۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۲۹) اور دوسری روایت حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ آپؓ ۶ ؁ھ کے پانچ (۵) ماہ اور پندرہ (۱۵) یوم بعد پیدا ہوئے، لیکن ان دونوں روایات میں پہلی روایت زیادہ صحیح ہے اور اسی پر اکثر مؤرخین کا اتفاق ہے۔(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہؓ)اور اسی کو حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے شرح بخاری میں اختیار فرمایا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری)

ولادت کے بعد آپؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شہد چٹایا، اُن کے دہن مبارک کو اپنی زبان مبارک سے تر فرمایا، اُن کو دعائیں دیں اور ’’حسین‘‘ نام رکھا۔ (المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ: ص۳۵۸)

ایک نیک خواب
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی مشہور صحابیہ حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے حمل کے زمانہ میں ایک عجیب و غریب خواب دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک سے ایک ٹکڑا کاٹ کر حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا کی گود میں ڈالا گیا ہے، یہ خواب دیکھ کر حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا چونک کر رہ گئیں، لیکن صبح کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اپنا خواب بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’تم نے بہت مبارک خواب دیکھا ہے، اور اس کی تعبیر یہ ارشاد فرمائی کہ: ’’ان شاء اللہ! (حضرت) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے یہاں لڑکا پیدا ہوگا اور وہ تمہاری گود میں پرورش پائے گا۔‘‘

چنانچہ اِس خواب کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا تولد ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے عین مطابق آپؓ کو حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا کی گود میں پرورش کے لئے دیا گیا۔(مشکوٰۃ المصابیح)

حلیہ مبارک
امام ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ : ’’سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے ساتھ مشابہت رکھتا تھا۔‘‘ (البدایہ والنہایہ: ۶/۱۵۰) چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی روایت ہے کہ: ’’امام حسن رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک نصف اعلیٰ میں سر سے لے کر سینہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت زیادہ مشابہ تھا ، اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک نصف اسفل میں سینہ سے لے کر پاؤں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت زیادہ مشابہ تھا۔(جامع ترمذی)

فضائل و مناقب
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔‘‘(کنز العمال: ۶/ ۲۲۳) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ: ’’ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،حضرت حسن اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدر (سینہ ) مبارک پر چڑھ کر کھیل رہے تھے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت کرتے ہیں؟۔ ‘‘ (آپؐ نے ) فرمایا: کیوں نہیں ٗ یہ دونوں دُنیا میں میرے پھول ہیں۔‘‘ اور حارث (حضرت) علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ: ’’حسن و حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔‘‘ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی تو اُن کی والدہ (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا) سے فرمایا کہ: ’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اِن کا رونا مجھے اندوہ گیں کرتا ہے؟۔‘‘(معجم طبرانی)

محاسن و کمالات
امام حسین رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے حسن ظاہری کے ساتھ ساتھ حسن باطنی سے بھی وافر حصہ عطاء فرما رکھا تھا۔ چنانچہ ارباب تاریخ و سیر نے لکھا ہے کہ آپؓ بڑے عبادت گزارتھے، نماز، روزہ اور حج کا بہت اہتمام فرماتے تھے، آپؓ نے بیس (۲۰) حج پیادہ پا (پیدل سفر کرکے) کیے تھے۔ (الجوہرۃ: ۲/۲۱۳)عاجزی ، انکساری اور فروتنی آپؓ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوکر کہیں سے گزر رہے تھے، غرباء کی ایک جماعت نظر آئی جو زمین پر بیٹھی روٹی کے ٹکڑے کھا رہی تھی، آپؓ نے اُن کو سلام کیا، اُن لوگوں نے کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے شہزادے ! تشریف لایئے اور ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمایئے! ‘‘ آپؓ گھوڑے سے اُتر کر اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے اور اُن کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگئے۔ اِس موقع پر آپؓ نے یہ آیت مبارک تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔‘‘ (سورۃ النحل: ۲۳) امام حسین رضی اللہ عنہ جب ان لوگوں کی روٹی کے ٹکڑوں پر شرکت فرماچکے اور فارغ ہوئے تو آپؓ نے فرمایا: ’’بھائیو! آپ نے مجھے دعوت دی ، میں نے قبول کیا، اب آپ سب میری دعوت قبول کیجئے! اُن لوگوں نے بھی دعوت قبول کی، اور آپ ؓکے مکان پر آئے، جب سب آکر بیٹھے تو آپؓ نے فرمایا: ’’رباب! لانا جو بھی بچا ہوا محفوظ رکھا ہے۔‘‘ (الجوہرۃ: ۲/۲۱۳، ۲۱۴)

شرف صحابیت
امام حسین رضی اللہ عنہ پیدائش کے وقت سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری لمحہ حیات تک خاص محبوب اولاد اور شرفِ صحبت سے مشرف رہے، جس کی مدت حافظ ابن کثیر ؒ کی تصریح کے مطابق کم و بیش پانچ سال بنتی ہے۔ (البدایہ والنہایہ: ۸/۱۵۰) لیکن اِس کے باوجود اُن کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انہوں نے باوجود اپنی اس کم سنی کے کئی احادیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے براہِ راست سن کر بیان فرمائی ہیں۔(البدایہ والنہایہ: ۸/۲۵۷) مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمایئے! : (سنن ابن ماجہ: ۱/۱۱۶، مسند امام احمد، تہذیب التہذیب: ۲/۳۴۵،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب: ۱/۱۴۵)

شعر و شاعری
حضرت حسین رضی اللہ عنہ عرب کے فصیح و بلیغ اور ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے ۔ آپؓ کے اشعار آج کل کے عام شعراء کے اشعار کی طرح عشق و محبت ،موج ومستی اور دُنیوی لذت و سرور وغیرہ جیسی فانی لذتوں سے نہیںبلکہ نیک و صالح اور متقی و پرہیز گار فنا فی اللہ شعراء کی طرح خشیت و للہیت، تقویٰ و طہارت، زہد و عبادت، علو ہمت، ترک دُنیا اور فکرآخرت جیسے گراں قدر مواعظ و نصائح سے مملو ہیں ۔چنانچہ بطورِ نمونہ کے آپؓ کے بعض اشعار کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے ، اگرچہ اِس کا حقیقی مزہ عربی زبان ہی میں پڑھنے سے نصیب ہوتا ہے : (۱)اگر یہ بات صحیح ہے کہ دُنیا کی نعمتیں ایک نفیس چیز شمار کی جاتی ہیںتو دارِ آخرت میں جو ثواب ملے گا وہ بہت اعلیٰ اور بہت بہتر ہے۔ (۲)اور چوں کہ یہ تمام بدن انسانوں کے فناہی کے لئے بنائے گئے ہیںاس لئے انسان کا اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے فنا ہو جانا سب سے افضل ہے ۔ (۳) اور چوں کہ تمام روزیاں اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمادی ہیں اس لئے روزی کمانے کے سلسلے میں ہلکی پھلکی کوشش کرنا انسان کے لئے بہت ہی زیادہ مناسب ہے۔

بیعت یزید
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید  نے اپنے لئے لوگوں سے بیعت لینے کا انتظام شروع کیا اور اپنے قرب و جوار کے تمام علاقوں میں لوگوں کو اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کی دعوت پر آمادہ کیا ۔ چنانچہ تمام علاقوں کے تقریباًسبھی لوگوں نے یزید کی بیعت قبول کرلی اور اُس کے ہاتھ پر بیعت کرلی، سوائے چند حضرات (حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ حضرت حسین بن علیؓ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ) کے کہ اُنہوں نے یزید کی بیعت کو قبول نہیں کیا ، اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے صاف انکار کردیا۔
چنانچہ جب یزید اور اُس کے عمال کی طرف سے بیعت طلب کرنے میں سختی ہوئی تو امام حسین رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں آکر پناہ گزین ہوگئے، اُدھر اہل کوفہ نے آپؓ کی طرف ڈیڑھ سو کے قریب خطوط لکھ کر ،قسمیں کھاکر اور طرح طرح کی ہمدردی و خیر خواہی کے دعوے کرکے آپؓ کو کوفہ بلالیا ، اورآپؓ مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف چل دیئے۔

کوفہ کی طرف روانگی
کوفہ میں جب ابن زیاد کو امام حسین رضی اللہ عنہ کی کوفہ کی طرف روانگی کی اطلاع ملی تو اس نے مقابلہ کے لئے پیشگی ہی اپنا ایک سپاہی قادسیہ کی طرف روانہ کردیا ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ جب مقام زیالہ پر پہنچے تو آپ کو یہ خبر ملی کہ آپ کے رضاعی اور چچا زاد دونوں بھائیوں کو اہل کوفہ نے قتل کردیا ہے ۔ اب امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے ہیں ۔

امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ابھی راستہ میں چل ہی رہے تھے کہ دوپہر کے وقت دور سے کچھ چیزیں حرکت کرتی نظر آئیں ، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ گھوڑ سوار ہیں ۔ اس لئے امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑی کے قریب پہنچ کر محاذ ِ جنگ بنالیا ۔
ابھی یہ حضرات محاذ کی تیاری میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھڑ سوار وں کی فوج حر بن یزید کی قیادت میں مقابلہ پر آگئی اور ان کے مقابلہ کے لئے آکر پڑاؤ ڈال دیا ۔ حر بن یزید کو حصین بن نمیر نے ایک ہزار گھڑ سواروں کی فوج دے کر قادسیہ بھیجا تھا ، یہ اور اس کا لشکر آکر امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقابل ٹھہر گئے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حر بن یزید سے فرمایا: ’’تمہارا کیا ارادہ ہے؟۔‘‘ حر بن یزیدنے کہا: ’’ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آپ کو ابن زیاد کے پاس پہنچادیں ۔‘‘ امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’میں تمہارے ساتھ ہر گز نہیں جاسکتا ۔‘‘ حر بن یزید نے کہا: ’’اللہ کی قسم ! پھر ہم بھی آپ کو یہاں تنہا نہ چھوڑیں گے۔‘‘

یوم عاشوراء (دس محرم)
چنانچہ دسویں محرم جمعہ یا ہفتہ کے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی عمرو بن سعد یزیدی لشکر لے کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے آگیا ۔ اس وقت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کل بہتر (۷۲) اصحاب تھے ، جن میں سے بتیس (۳۲) گھڑ سوار اور چالیس (۴۰) پیادہ پا تھے ۔چنانچہ آپ ؓنے بھی اس کے مقابلہ کے لئے اپنے اصحاب کی صف بندی فرمالی۔
لڑائی شروع ہوگئی اور گھمسان کا رن پڑنے لگا، امام حسین رضی اللہ عنہ چوں کہ کئی دنوں سے پیاسے تھے، دُشمنوں نے آپؓ کا پانی بند کر رکھا تھا، اس لئے جب آپؓ کی پیاس حد کو پہنچ گئی تو وہ پانی پینے کے لئے دریائے فرات کے قریب تشریف لے گئے ، مگر حصین بن نمیر ایک ظالم شخص نے آپؓ کی طرف ایک تیر پھینکا جو آپ ؓکے منہ پر جاکر لگا جس سے آپ کے دہن مبارک سے خون پھوٹنے لگ گیا۔

شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ:
اس کے بعد شمر ذی الجوشن دس آدمی اپنے ساتھ لے کر امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف آگے بڑھا ، اس وقت آپؓ پیاس کی شدت اور زخموں سے چور ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اور جس طرف سے آپ آگے بڑھتے یہ سب کے سب وہاں سے بھاگتے نظر آتے تھے ۔ شمر نے جب یہ دیکھا امام حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے میں ہر شخص لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو اُس نے آواز لگائی کہ :’’ سب یک بارگی ان پر حملہ کردو ۔‘‘ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور نیزوں اور تلواروں سے یک بارگی امام حسین رضی اللہ عنہ پر حملہ کردیا اور اس طرح ان ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے کرتے آخر کار آپ نے جا م شہادت نوش فرمالیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
شمر ذی الجوشن نے خولی بن یزید سے کہا کہ ان کا سر بدن سے جدا کردو ! مگر آگے بڑھتے ہی اس کے ہاتھ کانپ کر رہ گئے ، پھر ایک اور بدبخت سنان بن انس آگے بڑھا اور اس نے یہ کارنامہ سر انجام دیا اور آپؓ کا سر بدن سے جدا کر دیا ۔
بعد میں جب آپ کی لاش کو دیکھا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر تینتیس ( ۳۳) زخم نیزوں کے ، چونتیس (۳۴) زخم تلواروں کے اور متعدد زخم تیروں کے بھی تھے۔رضی اللہ عنہم وارضاہ ورزقنا حبہ وحب من والاہ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ا نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امام حسین رضی اللہ عنہ کے امام حسین رضی اللہ عنہ کا رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صلی اللہ علیہ وسلم کی صلی اللہ علیہ وسلم نے رضی اللہ عنہ کی اللہ تعالی نے فرمایا فرمایا کہ ن کے ساتھ عبد اللہ ن لوگوں ہے کہ ا کی طرف کے بعد ہے اور کے لئے اور اس کا نام

پڑھیں:

ہیرو آف کربلا

محرم الحرام کا مبارک چاند صدیوں سے اپنے دامن میں بے شمار برکتیں، رحمتیں اور تاریخ اسلام کی عظیم قربانی کی یاد لیے طلوع ہوتا چلا آ رہا ہے۔ دراصل 10 محرم الحرام کی تاریخ ہمیں عہدِ اسلامی کے اس دور میں لے جاتی ہے جہاں سے توحید، عشق، ایثار و قربانی اور کامل بندگی کا نیا باب شروع ہوتا ہے۔

یہ مہینہ دراصل ان عظیم الشان قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو دین اسلام کی عظمت، اس کے تقدس اور بقا کی خاطر حضرت امام حسینؑ اور آپ کے رفقا نے کربلا کے میدان میں پیش کی تھیں، جن کے طفیل ہی دین اسلام کا رکا ہوا قافلہ دوبارہ متحرک ہو پایا تھا۔

انہی قربانیوں کے پس منظر میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا: “زندہ از قوت شبیری است” یعنی حق فقط حسینؑ کی طاقت سے ہی دنیا میں زندہ ہے۔

اگر تاریخ کے گھوڑوں کو آج سے 1400 سال پیچھے کی طرف سرپٹ دوڑائیں تو کربلا کے تپتے ریگزار پر زخموں سے چور ایک جوان کھڑا دکھائی دیتا ہے، جو اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے اپنا سب کچھ گنوا چکا ہے۔

وہ اپنی آنکھوں میں امڈی نمی کے ساتھ اپنے پیاروں کی لاشوں کو نظر بھر کر دیکھتا ہے، پھر اپنا رُخِ روشن آسمان کی طرف کر کے غیبی طاقت سے کچھ توانائی، کچھ حوصلہ حاصل کرتا ہے اور پھر پوری دنیا کو ایک واضح پیغام دیتا ہے۔

’میری جدوجہد کا اصل مقصد، میری اس تحریک اور اقدام کا اصل ہدف اُمت مسلمہ کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔‘

یزید اِزم کے خلاف امام حسینؑ کا یہ پیغام ہر زمانے اور ہر عمر کے مسلمانوں کے لیے تھا۔ یہ ابدی پیغام دراصل جہاد تھا ان گمراہ اور باطل طاقتوں کے خلاف جو ہر دور میں حق، سچائی اور اخلاق کا گلہ گھونٹ کر دنیا کے سامنے اپنا بدصورت چہرہ لیے نمودار ہوتی رہی ہیں۔

حضرت امام حسینؑ کا کربلا کی جانب سفر دراصل دین اسلام کی بقا اور احیاء کا سفر تھا۔ یہ ایک ایسا تاریخی سفر تھا جس نے ظلم و تشدد کے راستوں کو ہمیشہ کے لیے مسدود کر دیا اور ظالم و مظلوم کی جنگ میں باطل قوتوں کو دنیا کے سامنے بیچ چوراہے پر ننگا کر دیا تھا۔

یہ وہ جدوجہد تھی جس نے حق و صداقت کے بجھتے چراغ کو جبری طوفانوں سے بچا کر ظالم ہواؤں کا رخ موڑا تھا اور اسے اپنے خون کی شکل میں ایندھن فراہم کر کے ہمیشہ کے لیے روشن تر کر دیا تھا۔ اسی روحانی سفر کے طفیل ہی اُمت محمدیہ کے عقیدہ و ایمان کی تجدید ہوئی تھی اور اسی انقلابی تحریک نے ہی انہیں شرک و بدعت اور فسق و فجور کی تمام آلائشوں سے پاک کیا تھا۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں جب کبھی حریت کی کوئی داستان لکھی گئی یا جب کبھی جبر سے مسلط رہنے والی حکومتوں کو عوامی مزاحمت درپیش آئی تو آزادی کی ان تمام تحریکوں نے کربلا کے ہیرو سے کہیں نہ کہیں استفادہ ضرور کیا۔

دنیا کے ہر صاحبِ عقل، صاحبِ شعور اور صاحبِ انصاف انسان نے اپنے دل میں امام حسینؑ کی جدوجہد کو ظلم، جبر و تشدد اور فساد کے خلاف ایک عالمگیر تحریک کی حیثیت سے نمایاں جگہ دی ہے۔

اپنے وقت کے بڑے بڑے دانشوروں اور سکالروں نے حسینؑ کی فکر کا مطالعہ کرنے کے بعد اُن کی جدوجہد کو معاشروں کی تبدیلی اور جبر کے خلاف ایک رہنما قوت کے طور پر تسلیم کیا ہے، حتیٰ کہ امام حسینؑ غیر مسلموں کے بھی رول ماڈل بن کر ابھرے ہیں۔

برصغیر کے عظیم لیڈر موہن داس کرم چند گاندھی (مہاتما گاندھی) حضرت امام حسین کے عدم تشدد پر مبنی فلسفہ کے نہ صرف قائل تھے بلکہ انہوں نے عدم تشدد پر مبنی تحریک آزادی کی بنیاد ہی فلسفہ حسینی سے متاثر ہو کر رکھی تھی۔ گاندھی نے آپ کے بارے میں کہا تھا:

ترجمہ: (میں نے یہ حسین سے سیکھا کہ ظلم سہہ کر بھی فتح مند ہوا جا سکتا ہے)

گاندھی جی نے ایک اور موقع پر کہا تھا:

ترجمہ: (میں سمجھتا ہوں کہ میرے پاس ہندوستانی قوم کے لیے کوئی نیا نظریہ، کوئی نئی تحریک نہیں سوائے اس سوچ اور فکر کے جو کربلا کے ہیرو نے پیش کی تھی)

پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا:

ترجمہ: (حسین کی سچائی کے راستوں پر دی گئی مثالی قربانی دراصل تمام گروہوں اور تمام طبقوں کے لیے مثالی ہے)

شایدا سی تناظر میں اردو کے مشہور شاعر جوش ملیح آبادی نے کہا تھا:

’انسان کو ذرا بیدار تو ہو لینے دو۔ ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین‘

ہندوستان کے نوبل ایوارڈ یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور لکھتے ہیں:

ترجمہ: (انصاف اور سچائی کو طاقت اور ہتھیاروں کی بجائے جانوں کی قربانی سے بھی زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے حسین نے کر کے دکھایا)

لبنانی عیسائی مصنف انتونے بارا اپنی کتاب Husayn in Christian Ideology میں لکھتا ہے:

ترجمہ: (انسانی تاریخ میں کوئی جنگ ایسی نہیں گزری جس نے اتنی زیادہ عزت و شہرت اور ہمدردی حاصل کی ہو جتنی کربلا کی جنگ اور امام حسینؑ کی شہادت نے حاصل کی تھی)

امام حسینؑ نے اپنے خطبے میں واضح فرمایا تھا:

’اے لوگو! یہ (حکمران) اطاعت خدا کو ترک کر چکے ہیں اور شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بنا چکے ہیں۔ یہ ظلم اور فساد کو اسلامی معاشرے میں رواج دے رہے ہیں۔ مال ‘فے’ کو انہوں نے اپنے لیے مختص کر لیا ہے اور خدا کے حرام و حلال کو یکسر بدل چکے ہیں۔‘

اس خطبے سے عیاں ہوتا ہے کہ یزیدی دور کے حکمران احکام شریعت اور سنت نبوی کو بھول کر فسق و فجور، گمراہی اور گناہ کی دلدل میں اتر کر آلودہ ہو چکے تھے۔

کرپشن، عیاشی، حرام کاری اور عدل و انصاف کی عدم دستیابی کے باعث معاشی ناہمواری، غربت و افلاس میں اضافہ اور جہالت فروغ پا رہی تھی۔ سنت رسول ختم اور بدعت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ قرآن پاک اور قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا جا چکا تھا اور اسلامی معاشرہ تباہی کی طرف گامزن تھا۔

ایسی صورت حال میں امام حسینؑ پر ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ ان تمام برائیوں کے خلاف ڈٹ جائیں، انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور ظالم کا ہاتھ روک دیں۔ آپ کی جدوجہد کا مقصد ہرگز دولت و شہرت، عزت و حشمت، مال و متاع یا حکمرانی نہ تھا بلکہ صرف اور صرف اصلاح اُمت کا جذبہ کارفرما تھا۔

مشہور امریکی تاریخ دان Irvin Washington حضرت امام حسینؑ کی جدوجہد کو کچھ ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہے:

ترجمہ: (حسین کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ یزید کی ناجائز خواہشات کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے۔ لیکن اصلاح اُمت کے حوالے سے اُن پر عائد بھاری ذمہ داری نے انہیں یزید کی بیعت پر قطعاً راضی نہ ہونے دیا۔ اس کے برعکس انہوں نے وحشی اور کرپٹ اموی حکمرانوں کے ہاتھوں ہر قسم کے مصائب اور تکالیف گوارا کرنا قبول کیا۔ سر پر آگ کے شعلے اگلتا سورج، پاؤں کے نیچے تپتی زمین اور کربلا کے جلتے ریگزار کی گلہ گھونٹنے والی حدت کے خلاف لافانی حسین ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ حسینؑ کے صبر و استقامت کی روحانی داستان تا ابد زندہ رہے گی)

مشہور برطانوی ناول نگار چارلس ڈکنز لکھتے ہیں:

ترجمہ: (اگر حسین کی لڑائی صرف مادی خواہشات کے حصول کی خاطر ہوتی تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور خاندان کو ساتھ لے کر نکل کھڑے ہوتے۔ حسین کا طرز عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ اس نے صرف اسلام کی خاطر قربانی دی)

ہندوستان کے مشہور سوامی شنکر اچاریہ نے کہا تھا:

ترجمہ: (حسینؑ کی قربانی سے ہی اسلام دوبارہ زندہ ہوا، ورنہ آج کی دنیا میں کوئی بھی اس کا نام لیوا نہ ملتا)

امام حسینؑ کی قربانی جہاں دین اسلام کی بقا، تحفظ اور اسلامی شعائر کی تجدید کا مکمل احاطہ کرتی ہے، وہیں یہ قربانی اسباب کی نفی، خدا پر توکل، باطل کے خلاف کھلی بغاوت، ایمان کی طاقت اور ایک اعلیٰ درجے کی سچی محبت کی روشن دلیل بھی پیش کرتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارا آج کا مسلم معاشرہ امام حسینؑ کی جدوجہد، دین کے لیے ان کی دی گئی قربانیوں اور ان کی تحریک کو یکسر بھلا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف فرقہ پرستی، خود غرضی، مادہ پرستی، حرص و طمع، نفس پرستی، منافقت، بزدلی، مخبری، احساس کمتری اور کینہ پروری کے وائرس پھیل چکے ہیں۔

ان جراثیموں نے نہ صرف ہماری اخلاقی اور دینی حالت کو پست کر دیا ہے بلکہ ہمیں اپنے مفادات کا غلام بنا کر ذات برادری، جماعت و مسلک اور فرقے کے مفادات کا اسیر بنا دیا ہے۔

آج اگر ہم نظر اٹھا کر دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے مسلکی خانوں میں بٹ کر کمزور سے کمزور تر ہو چکے ہیں اور ہمہ وقت اپنے اپنے فرقے کی برتری کے لیے نہ صرف متعین رہتے ہیں بلکہ اس کی خاطر مخالف فرقے کے فرد کا سر اتارنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔

ایک وہ دور تھا جب ایک خدا، ایک دین، ایک پیغمبر اور ایک ہی قبلہ پر متفق مسلمان سمندر کی طرح ناقابلِ تسخیر ہوا کرتے تھے، مگر جب سے ہم صراطِ مستقیم سے بھٹکے ہیں، تب سے ہی ہماری قوت ختم ہوئی اور ہم سمندر سے ندی نالوں میں تقسیم ہو کر بے اثر ہو چکے ہیں۔

فکرِ حسینؑ سے دوری کی واحد وجہ یہی ہے کہ آج ہم میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا نہ حوصلہ پایا جاتا ہے اور نہ تلاشِ حق کا جذبہ۔

امام حسینؑ اور ان کے رفقا کی قربانیوں کے تناظر میں ہم سب مسلمانوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے موجودہ حالات کا نئے سرے سے جائزہ لیں، اپنی زندگیوں میں جو غلطیاں، فساد اور تحریف نظر آئیں، انہیں دور کرنے کی نہ صرف کوشش کریں بلکہ باطل کا ساتھ دینے کی بجائے طاقت کے اصل سرچشمے (اللہ کی ذات) کی طرف رجوع کریں۔

ہمیں چاہیے کہ امام حسینؑ کی عملی جدوجہد کو نہ صرف خود اپنائیں بلکہ اپنی آئندہ نسلوں تک بھی اس جدوجہد کے ثمرات کو منتقل کرنے کی فکر کریں، کیونکہ امام حسینؑ کی تحریک باطل قوتوں کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک تھی جو حق تلفی، ناانصافی اور ظلم کے خاتمے کے لیے شروع کی گئی، جس میں حق بالاخر فاتح ٹھہرا۔

امام حسینؑ کی کوشش، فکر اور سعی صرف کربلا پر آ کر تمام نہیں ہوئی، بلکہ وقت کی یزیدی طاقتوں (امریکہ و اسرائیل) سے ہم آج بھی برسرِ پیکار ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عباس سیال، سڈنی

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔

امام حسین کربلا محرم الحرام

متعلقہ مضامین

  • گرین سبیل: شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک غیر روایتی انداز
  • یوم عاشور آج، مرکزی جلوس نثار حویلی سے برآمد: صبر، قربانی، حق گوئی کا پیغام: صدر، وزیراعظم
  • واقعہ کربلا ظلم کیخلاف جرأت کی ترغیب دیتا ہے: مریم نواز
  • وقعہ کربلا سے ہمیں بے لوث ،عظیم تر بھلائی کیلئے قربانی کی اہمیت کا درس ملتا ہے: مسرت جمشید چیمہ
  • کربلا کی جنگ سے ہمیں بے لوث ،عظیم تر بھلائی کیلئے قربانی کی اہمیت کا درس ملتا ہے‘ مسرت جمشید چیمہ
  • واقعہ کربلا حق پر ڈٹ جانے کی عظیم داستان ہے‘محمد یوسف
  • ہیرو آف کربلا
  • کربلا میں خواتین کا بے نظیر کردار
  • امام حسینؑ مولانا مودودیؒ کی نظر میں