قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی کا مفہوم ہے: ’’جب حضرت ابراھیمؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ خانہ کعبہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے تو انہوں نے عرض کی، مفہوم: ’’اے پالنے والے! ہماری خدمت کو قبول فرما اور ہم دونوں کو اپنا مسلمان بندہ بنائے رکھنا، ہماری ذریت کو بھی امتِ مسلمہ بنائے رکھنا۔‘‘

اسی طرح قرآنِ پاک میں ایک اور موقع پر ارشادِ قدرت ہُوا، مفہوم: ’’جب ابراھیم کو خدا نے بعض باتوں میں آزمایا تو پھر انھوں نے اُسے پورا کیا، خدا نے اُن سے فرمایا کہ میں تمھیں لوگوں کے لیے پیشوا بنانے والا ہوں۔‘‘ (سورہ بقرہ) مزید فرمایا: ’’اور ہم نے ابراھیمؑ کو دنیا و آخرت میں نیکوں اور صالحین میں لے لیا ہے، جب رب نے اُن سے کہا کہ اپنے آپ کو ہمارے سپرد کردو تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو سپردِ پروردگار کرتا ہوں۔‘‘ پھر ایک اور جگہ فرمایا: ’’بے شک! وہ لوگ جو خدا کے فرماں بردار ہوئے اور ایک طرف کے ہورہے، وہ مشرکین میں سے نہ تھے، خدا کی نعمتوں کے شکرگزار تھے، خدا نے اُنھیں برگزیدہ کیا اور سیدھی راہ پر چلایا اور ہم نے اُنہیں دنیا میں بھی دیا، وہ دنیا و آخرت میں بے شک صالحین خدا میں سے تھے۔‘‘

یہ ایک تاریخی اور مسلمہ حقیقت ہے کہ بارگاہِ الہی میں جس کا ایمان جس قدر مضبوط ہوگا، اسی قدر امتحان اور آزمائش کا مرحلہ بھی سخت ترین ہوگا۔ انبیاء و مرسلین میں حضرت ابراھیمؑ ہی کو لے لیں اُنھیں خدا نے مختلف آزمائش و امتحانات سے گزارا، وہ اپنی جلالتِ قدر کے لحاظ سے ہر مرتبہ امتحان و آزمائش میں کام یاب ثابت ہوئے۔ جب اُنھیں نمرود کے حکم سے آگ میں ڈالا گیا تو انھوں نے اُس وقت جو صبر و استقامت اور عزم و ہمت کا ثبوت پیش کیا یہ انھی کا کام تھا۔

بعدازاں جب حضرت اسمٰعیلؑ و ہاجرا ؓ کو بیابانِ فاران میں چھوڑنے کا حکم ملا تو وہ بھی ایک سخت ترین مرحلہ و آزمائش تھا۔ اب سب سے کٹھن امتحان اور آزمائش جو سب امتحانوں سے سخت ترین تھا۔ حضرت ابراھیمؑ خلیلِ خدا خواب میں تین شبوں تک یہی دیکھتے رہے کہ خدا کے حکم سے اپنے لختِ جگر اسمٰعیلؑ کو قربان کررہا ہوں۔ پیکرِ تسلیم و رضا ابراھیمؑ فوراً آمادہ ہوگئے کہ حکم خدا کی تعمیل کریں۔ تاہم چوں کہ یہ معاملہ اُن کے بیٹے سے متعلق تھا جن کی قربانی کا حکم تھا، لہذا حضرت ابراھیم ؑ نے اپنے فرماں بردار اور اطاعت شعار نورِنظر کو اپنا خواب بتایا اور حکم خدا سنایا۔ حضرت اسمٰعیلؑ چوں کہ خلیلِ خدا حضرت ابراھیمؑ کے بیٹے تھے لہذا انھوں نے سرِ تسلیم فورا خم کردیا اور عرض کی کہ ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

پھر ابراھیمؑ نے اپنے بیٹے اسمٰعیلؑ کو پیشانی کے بل لٹایا تو ہم نے کہا کہ اے ابراھیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ہم مخلصین کو ایسے صلہ دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بڑی آزمائش تھی جسے ہم نے ’’فدیناہ بذبح عظیم‘‘ قرار دے دیا اور آنے والی نسلوں کے لیے باقی رکھا، سلام ہو ابراھیم ؑ پر، ہم انہیں معروفات بجا لانے کا ایسا صلہ دیتے ہیں یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہیں۔ (سورہ الصافات)

ذاتِ الہی کے حکم کی تعمیل عقل و دانش میں آئے نہ آئے لازم ہے۔ کیوں کہ آتشِ نمرود میں کودنے کا کرشمہ عشق ہے۔ جب کہ عقل تو محوِ تماشائے لبِ بام نظر آتی ہے۔ یہی حسین ابن علیؓ کا عشقِ الہی تھا کہ عزت و حرمت اور رفعت و وقار کا ماہِ محرم نواسۂ رسول الثقلینؐ، شہزادۂ کونین حضرت امام حسینؓ کی اپنے فرماں بردار، اطاعت شعار اصحاب ؓ باوفا اور اولادِ اطہارؓ کی لہو رنگ لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے۔

جسے تاریخ انسانی میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے اور تاریخ بشری اس عظیم ترین قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر و عاجز ہے۔ شریعت ِ مصطفویؐ میں یہ قربانی قربِ الہی کا وسیلہ قرار پائی جو دربارِ الہی میں عجز و انکساری اور تسلیم و رضا کا سرچشمہ ہے، جس سے دنیائے شریعت کی سربلندی، عالم اسلام کی یگانگت، قوم و ملت کی سلامتی اور اعلیٰ دینی اقدار کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔

تسلیم و رضا کی اس لازوال داستان کو دہرانا اور خاص طور پر محرم الحرام میں اس کا تذکرہ کرنا دینی فریضہ ہی نہیں، بل کہ انسانی اقدار اور اخلاقی فضائل و کمالات کی حیات کا ضامن ہے۔ امام عالی مقامؓ کا تعلق کسی مخصوص مکتب، مذہب یا فرقے اور ملک سے نہیں بل کہ ہر باضمیر انسان بارگاہِ مظلوم کربلا میں مودب اور مغموم دکھائی دیتا ہے۔

حضرت امام حسینؓ نے روزِ عاشورہ اپنے72جاں نثاروں کو اسلام کے تقدس کی خاطر قربان کردیا اور اُس پر آنچ نہ آنے دی۔ یہاں تک کہ فاسق و فاجر کے ہاتھ میں اس کی زمام دینا بھی گوارا نہیں کیا اور اس کے خلاف آوازِ حق بلند کرکے شعائر اﷲ کے احترام کا تا قیامت سلیقہ سکھا دیا۔

حضرت امام حسینؓ نے بیعت ِ یزید کے مطالبے کو ٹھوکر مار کر دنیا کو بتا دیا کہ ہم خانوادہِ رسول ﷺ ہیں، کسی ظالم و جابر کے سامنے نہیں جھکتے اور نوکِ سناں پر بھی کلمہ حق بلند کرتے ہیں۔ اسی لیے آپؓ نے گورنر مدینہ کے سامنے اپنا تعارف یوں کرایا:

’’اے ولید! ہم خانوادہِ نبوتؐ اور معدنِ رسالت ہیں، ہم پر فرشتوں کی آمد ہوتی ہے، خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، خدا نے اسلام کو ہمارے گھرانے سے شروع کیا اور ہم ہی پر اختتام کرے گا۔ لیکن یزید جس کی بیعت کی تو ہم سے توقع رکھتا ہے وہ شراب خوار ہے، بے گناہ افراد کا قاتل ہے، احکام خدا کو پامال کرنے والا ہے، کھلے عام فسق و فجور کرتا ہے اور مجھ ایسا اس یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔‘‘

امام عالی مقامؓ نے اس خطاب میں اپنا موقف کھلے الفاظ میں بیان کردیا کہ وہ بیعت ِ یزید کو غیر اسلامی اور غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ نواسۂ رسول ﷺ حضرت امام حسین ابن علی کرم اﷲ وجہہ کی جدوجہد اور شجاعت کا اہم ترین مقصد اُس قوت کو مٹانا تھا جو ناصرف یہ چاہتی تھی کہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود خلافتِ اسلامیہ کے منصب پر قابض ہو، ظلم اور دنگا و فساد کی ترویج کرکے اُمتِ مسلمہ کے مخالف نہ ہونے کی صورت میں خلافت ِ اسلامیہ کے نقاب میں چھپ کر قرآن و اسلام کے خلاف اُن شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے جو حضور ﷺ کے زمانے میں جدل و جدال سے کام یاب نہ ہونے پائے تھے۔ درحقیقت اسی یزیدی قوت کو ملیامیٹ کرنا حسینؓ کی ذمے داری تھی جسے آپؓ نے یوں بیان فرمایا: ’’میں معروفات کا حکم اور منکرات سے روکنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے نانا نام دار ﷺ اور بابا بزرگوار کی سیرت پر چلوں۔‘‘

اسی لیے امام مظلوم کربلا نے یہ رجز پڑھا:

’’میں حسینؓ ہوں، میں نے قسم کھائی ہے کہ دشمنِ خدا و رسول ﷺ کے سامنے سر نہیں جھکاؤں گا، احکاماتِ خداوندی کی حفاظت کروں گا، یہاں تک کہ دین نبی ﷺ کی راہ میں مارا جاؤں۔‘‘

ایک اور جگہ امام عالی مقامؓ نے فرمایا: ’’میں علیؓ کا بیٹا ہوں جو آل ہاشم کے بہترین فرد ہیں، یہی میرا سب سے بڑا افتخار ہے کہ میرے جدِامجد رسول ﷺ خدا ہیں جو تاریخ کی بہترین شخصیت ہیں، ہم خدا کے چراغ ہیں جو روشن رہنے والے ہیں، میرے بابا علیؓ اور ماں فاطمہ زہراؓ دخترِ احمدِ مرسل ﷺ ہیں، عم بزرگوار جعفر طیارؓ جو ذوالجناحین کے لقب سے مشہور ہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے، جس نے ہمیں ہدایت و راہ نمائی کے منصب پر فائز کیا ہے، ہم تمام مخلوقات کے لیے خدا کی طرف سے پناہ گاہ ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جس کا ہم کبھی کھل کر اعلانیہ اور کبھی پوشیدہ طور پر بتاتے ہیں، ہم ساقی حوضِ کوثر ہیں، قیامت کے روز جسے چاہیں جام کوثر سے سیراب کریں، یہی وہ حوضِ کوثر ہے جو قیامت کے دن جائے سعادت ہے اور دشمن نقصان اُٹھائیں گے۔‘‘

حضرت امام حسینؓ عزت و جاہ، دولت و ثروت کے خواہاں نہ تھے۔ وہ نہ شر و فساد پھیلانا چاہتے تھے نہ مسلمانوں کے امور میں رخنہ ڈالنا چاہتے تھے۔ بل کہ اُن کی شہادت کا مقصد اسلام کی سربلندی، حرمتِ انسانی کا تحفظ، شریعت ِ محمدی ﷺ کو افراط و تفریط سے بچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امام عالی مقامؓ نے اپنے اصحاب باوفا اور اولادِ اطہارؓ کی شہادت پیش کرکے عقول بشری کو سربلند کرکے جو اقدار فراہم کیں وہ انسان کو عظیم ترین مرتبے پر فائز کرتی ہیں۔

آج اگر پوری کائنات میں صدائے توحید گونج رہی ہے اور ہر مسلمان کے قلب پر نقش ہے تو یہ قربانی حسینؓ کا صدقہ ہے۔ حسینؓ نے اپنی اور اپنے پیاروں و جاں نثاروں کی لازوال قربانی دے کر نہ صرف کلمۂ توحید اور مشن رسالت ﷺ کی لاج رکھی، وہاں تا ابد ہر مظلوم و ناکس کو ظالموں سے ٹکرانے اور آمروں پر چھا جانے کا حوصلہ بھی عطا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حریت پسند ہی نہیں بلاتفریق مذہب ہر قوم حسینؓ کو سلام پیش کرتی ہے۔

شہادت حسینؓ مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار اور اس کے ثمرات امت مسلمہ کے لیے بیش بہا انمول سرمایہ ہیں۔ ہر عہد میں صدائے حسینیؓ کی گونج مسلمانوں میں دین سے وابستگی اور راہ خدا میں قربانی کا جذبہ بیدار رکھے ہوئے ہے۔ یہ حسینؓ کی قربانی کا ہی اعجاز ہے کہ اسلام کا ہر سپاہی ارفع و اعلی مقاصد کے لیے ہنس کر شہادت کا جام پیتا ہے۔ یزید اپنے ظلم، جبر اور ناپاک ارادوں کے ساتھ ذلّت کی عمیق گہرائیوں میں غرق ہوگیا، لیکن رسولؐ کا پیارا حسینؓ آج بھی عظیم ترین مقصد کے لیے دی گئی لازوال قربانی کی بہ دولت ہر عہد ہر زمانے پر راج کررہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امام عالی مقام تسلیم و رضا اسم عیل رسول ﷺ اور ہم کے لیے خدا کی ہے اور

پڑھیں:

ایک کیخلاف جارحیت دوسرے پر بھی تصور، پاک فوج حرم شریف، روضہ رسولؐ کی محافظ: پاکستان، سعودی عرب میں تاریخی دفاعی معاہدہ

ریاض+ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی+ خبر نگار خصوصی) وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار‘ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر‘ وزیر دفاع خواجہ آصف‘ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب‘ وفاقی وزیر مصدق ملک‘ معاون خصوصی طارق فاطمی شریک تھے۔ اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کیلئے قصر ’’ال یمامہ‘‘ پیلس پہنچے۔ شاہی دیوان پہنچنے پر وزیراعظم کا سعودی پروٹوکول کے ساتھ گھڑ سواروں نے استقبال کیا گیا۔  سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے وزیراعظم کا پرجوش استقبال کیا۔ وزیراعظم کو سعودی مسلح افواج کے دستوں نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ وزیراعظم کی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال‘ مسئلہ فلسطین اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاک سعودی تعلقات کو مزید فروغ دینے اور تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ دونوں رہنماؤں نے قطر پر اسرائیلی حملے کی ایک بار پھر مذمت کی۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے امن کیلئے مسئلہ فلسطین کا حل ناگزیر ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین پر دو ٹوک مؤقف اختیار کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان مسئلہ فلسطین پر سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق دفاعی معاہدے کی کامیابی میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان حرمین شریفین کے تحفظ میں سعودی عرب کا پارٹنر بن گیا۔ پاک فوج حرم شریف اور روضہ رسولﷺ کی محافظ بن گئی۔ دونوں رہنماؤں، پاکستان اور سعودی عرب کے وفود کی موجودگی میں مذاکرات کا باضابطہ اجلاس  ہوا۔ اجلاس کے آغاز میں، وزیر اعظم شہباز شریف نے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کیلئے خیرمقدم کا اظہار کرتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔  فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور سٹرٹیجک تعلقات اور مشترکہ دلچسپی کے متعدد موضوعات کا جائزہ لیا اور تبادلہ خیال کیا۔ مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری، بھائی چارہ اور اسلامی یکجہتی کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ سٹرٹیجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے تناظر میں، ولی عہد و وزیرِ اعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین  ’’سٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدے‘‘ (SMDA) پر دستخط کئے۔  اس کے بعد ولی عہد شہباز شریف سے پرجوش انداز میں گلے ملے۔ یہ معاہدہ، جو دونوں ممالک کی اپنی سلامتی کو بڑھانے اور خطے اور دنیا میں سلامتی اور امن کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون  کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اپنے اور پاکستانی وفد کے پرتپاک استقبال اور فراخدلی سے مہمان نوازی پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ خادم الحرمین شریفین، شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود، ولی عہد و وزیرِ اعظم سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور سعودی عرب کے برادر عوام کے لیے مسلسل ترقی، خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ولی عہد نے وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی اچھی صحت، تندرستی اور پاکستان کے برادر عوام کی مزید ترقی اور خوشحالی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ دریں اثناء  سعودی اعلیٰ عہدیدار نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں کہا ہے کہ دفاعی معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان طویل المدتی تعاون کا عکاس ہے۔ سعودی عرب پاکستان دفاعی معاہدہ کسی مخصوص واقعہ کا ردعمل نہیں۔ سعودی پاکستان دفاعی معاہدہ جامع دفاعی معاہدہ ہے۔ سعودی پاکستان دفاعی معاہدہ تمام فوجی وسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ قبل ازیں کنگ خالد ائر پورٹ ریاض پہنچنے پر ریاض کے نائب گورنر محمد بن عبدالرحمن بن عبدالعزیز‘ پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی‘ پاکستان کے سعودی عرب میں سفیر احمد فاروق اور اعلیٰ سفارتی حکام نے وزیراعظم اور پاکستانی وفد کا پرتپاک استقبال کیا۔ وزیراعظم کی ریاض آمد پر پورے شہر میں سبز ہلالی پرحم لہرائے گئے۔ اس موقع پر ریاض میں وزیراعظم کو 21 توپوں کی سلامی اور سعودی عرب کی افواج کے چاق و چوبند دستے نے سلامی پیش کی۔ وزیراعظم شہباز شریف کے طیارے کے سعودی فضائی حدود میں داخلے پر سعودی F-15لڑاکا طیاروں نے وزیراعظم کے طیارے کو حصار میں لیتے ہوئے شاندار استقبال کیا۔ وزیراعظم نے سعودی لڑاکا طیاروں کو سلامی پیش کی اور کاک پٹ میں جاکر مائیک کے ذریعے سعودی ولی عہد شہزادہ بن محمد سلمان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا کہ سعودی ائر فورس کے جہازوں نے وزیراعظم شہباز شریف کے جہاز کو سعودی ائر سپیس میں داخل ہوتے ہی اپنی حفاظت میں لیا۔ ایکس پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب حکومت کی طرف سے برادرانہ محبت اور احترام کا مظاہرہ‘ عالم اسلام میں یہ مقام اللہ کی مہربانی‘ شہباز شریف کی سفارتی مہارت اور ہماری افواج کی بے مثال کامیابیوں کا ثمر ہے۔ وزیر اعظم  شہباز شریف نے نوجوانوں کے جذبے کی تعریف کرتے ہوئے کہا  ہے کہ بیرونی بیانیہ کی جنگ میں ان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ وزیر اعظم  نے  پاکستان ٹی وی ڈیجیٹل کا دورہ کیا اور انگریزی چینل کا افتتاح بھی کر دیا۔ وزیر اعظم نے پاکستان ٹیلی ویژن میں قائم کردہ پاکستان ٹی وی ڈیجیٹل کے قیام کی تختی کی نقاب کشائی کی اور بعدازاں ڈیجیٹل چینل کی باقاعدہ نشریات کے آغاز کا افتتاح بھی کیا۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ، سیکرٹری اطلاعات عنبرین جان اور دیگر اعلی حکام موجود تھے۔ وزیر اعظم نے نئے چینل کے مختلف سیکشنز کا دورہ بھی کیا اور وہاں کام کرنے والے نوجوانوں سے بات چیت کی۔ انہوں نے نوجوانوں کے جذبے کی تعریف کی اور کہا کہ بیرونی بیانیہ کی جنگ میں ان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اس ڈیجیٹل چینل کے آغاز کا بنیادی مقصد مسلسل حقیقی خبریں فراہم کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں ہونے والی غلط بیانی اور پراپیگنڈے کا موثر جواب دینا ہے۔ وزیر اعظم نے پاکستان ٹی وی ڈیجیٹل کی نشریات کے  لئے  اپنا پہلا انٹرویو بھی ریکارڈ کروایا۔ افتتاح کے موقع پر وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے وزیر اعظم کو پاکستان ٹی وی ڈیجیٹل کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان ٹی وی ڈیجیٹل عالمی سامعین کو پاکستان کے لیے ایک فعال اور مستند آواز فراہم کرنے، معلومات کے فرق کو ختم کرنے اور عوامی سفارت کاری کے لیے انگریزی زبان کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف دورہ سعودیہ مکمل کر کے برطانیہ روانہ ہوں گے۔ وزیراعظم کی برطانوی حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف 21 ستمبر کو برطانیہ سے امریکہ  جائیں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کا امکان ہے۔ وزیراعظم نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب 26 ستمبر کو ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی 22 ستمبر کو فلسطین سے متعلق دو ریاستی حل کی سربراہ کانفرنس میں شرکت بھی متوقع ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افواج پاکستان کا حرمین شریفین کا محافظ بننا سعادت کی بات ہے، ڈاکٹر حاجی حنیف طیب
  • گوگل نے ڈسکور کو مزید دلچسپ بنا دیا، سوشل میڈیا مواد بھی شامل
  • کیا زمین کی محافظ اوزون تہہ بچ پائے گی؟ سائنسدانوں اور اقوام متحدہ نے تازہ صورتحال بتادی
  • شہید ارتضیٰ عباس کو خراجِ عقیدت؛ معرکۂ حق میں عظیم قربانی کی داستان
  • ایک کیخلاف جارحیت دوسرے پر بھی تصور، پاک فوج حرم شریف، روضہ رسولؐ کی محافظ: پاکستان، سعودی عرب میں تاریخی دفاعی معاہدہ
  • اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ رانا تنویر حسین گنے کی فصل پر کیڑوںکے حملے کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں
  • پاکستان حرمین شریفین کا محافظ بن گیا، پاک سعودی دفاعی معاہدے کے اہم نکات
  • کیا زمین کی محافظ اوزون تہہ بچ پائے گی، سائنسدانوں اور اقوام متحدہ نے تازہ صورتحال بتادی
  • اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘
  •  یہ دن قربانی اور جدوجہد کی  یاد دلاتا ہے‘ناصر شاہ