WE News:
2025-07-05@07:07:22 GMT

ہیرو آف کربلا

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

ہیرو آف کربلا

محرم الحرام کا مبارک چاند صدیوں سے اپنے دامن میں بے شمار برکتیں، رحمتیں اور تاریخ اسلام کی عظیم قربانی کی یاد لیے طلوع ہوتا چلا آ رہا ہے۔ دراصل 10 محرم الحرام کی تاریخ ہمیں عہدِ اسلامی کے اس دور میں لے جاتی ہے جہاں سے توحید، عشق، ایثار و قربانی اور کامل بندگی کا نیا باب شروع ہوتا ہے۔

یہ مہینہ دراصل ان عظیم الشان قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو دین اسلام کی عظمت، اس کے تقدس اور بقا کی خاطر حضرت امام حسینؑ اور آپ کے رفقا نے کربلا کے میدان میں پیش کی تھیں، جن کے طفیل ہی دین اسلام کا رکا ہوا قافلہ دوبارہ متحرک ہو پایا تھا۔

انہی قربانیوں کے پس منظر میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا: “زندہ از قوت شبیری است” یعنی حق فقط حسینؑ کی طاقت سے ہی دنیا میں زندہ ہے۔

اگر تاریخ کے گھوڑوں کو آج سے 1400 سال پیچھے کی طرف سرپٹ دوڑائیں تو کربلا کے تپتے ریگزار پر زخموں سے چور ایک جوان کھڑا دکھائی دیتا ہے، جو اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے اپنا سب کچھ گنوا چکا ہے۔

وہ اپنی آنکھوں میں امڈی نمی کے ساتھ اپنے پیاروں کی لاشوں کو نظر بھر کر دیکھتا ہے، پھر اپنا رُخِ روشن آسمان کی طرف کر کے غیبی طاقت سے کچھ توانائی، کچھ حوصلہ حاصل کرتا ہے اور پھر پوری دنیا کو ایک واضح پیغام دیتا ہے۔

’میری جدوجہد کا اصل مقصد، میری اس تحریک اور اقدام کا اصل ہدف اُمت مسلمہ کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔‘

یزید اِزم کے خلاف امام حسینؑ کا یہ پیغام ہر زمانے اور ہر عمر کے مسلمانوں کے لیے تھا۔ یہ ابدی پیغام دراصل جہاد تھا ان گمراہ اور باطل طاقتوں کے خلاف جو ہر دور میں حق، سچائی اور اخلاق کا گلہ گھونٹ کر دنیا کے سامنے اپنا بدصورت چہرہ لیے نمودار ہوتی رہی ہیں۔

حضرت امام حسینؑ کا کربلا کی جانب سفر دراصل دین اسلام کی بقا اور احیاء کا سفر تھا۔ یہ ایک ایسا تاریخی سفر تھا جس نے ظلم و تشدد کے راستوں کو ہمیشہ کے لیے مسدود کر دیا اور ظالم و مظلوم کی جنگ میں باطل قوتوں کو دنیا کے سامنے بیچ چوراہے پر ننگا کر دیا تھا۔

یہ وہ جدوجہد تھی جس نے حق و صداقت کے بجھتے چراغ کو جبری طوفانوں سے بچا کر ظالم ہواؤں کا رخ موڑا تھا اور اسے اپنے خون کی شکل میں ایندھن فراہم کر کے ہمیشہ کے لیے روشن تر کر دیا تھا۔ اسی روحانی سفر کے طفیل ہی اُمت محمدیہ کے عقیدہ و ایمان کی تجدید ہوئی تھی اور اسی انقلابی تحریک نے ہی انہیں شرک و بدعت اور فسق و فجور کی تمام آلائشوں سے پاک کیا تھا۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں جب کبھی حریت کی کوئی داستان لکھی گئی یا جب کبھی جبر سے مسلط رہنے والی حکومتوں کو عوامی مزاحمت درپیش آئی تو آزادی کی ان تمام تحریکوں نے کربلا کے ہیرو سے کہیں نہ کہیں استفادہ ضرور کیا۔

دنیا کے ہر صاحبِ عقل، صاحبِ شعور اور صاحبِ انصاف انسان نے اپنے دل میں امام حسینؑ کی جدوجہد کو ظلم، جبر و تشدد اور فساد کے خلاف ایک عالمگیر تحریک کی حیثیت سے نمایاں جگہ دی ہے۔

اپنے وقت کے بڑے بڑے دانشوروں اور سکالروں نے حسینؑ کی فکر کا مطالعہ کرنے کے بعد اُن کی جدوجہد کو معاشروں کی تبدیلی اور جبر کے خلاف ایک رہنما قوت کے طور پر تسلیم کیا ہے، حتیٰ کہ امام حسینؑ غیر مسلموں کے بھی رول ماڈل بن کر ابھرے ہیں۔

برصغیر کے عظیم لیڈر موہن داس کرم چند گاندھی (مہاتما گاندھی) حضرت امام حسین کے عدم تشدد پر مبنی فلسفہ کے نہ صرف قائل تھے بلکہ انہوں نے عدم تشدد پر مبنی تحریک آزادی کی بنیاد ہی فلسفہ حسینی سے متاثر ہو کر رکھی تھی۔ گاندھی نے آپ کے بارے میں کہا تھا:

ترجمہ: (میں نے یہ حسین سے سیکھا کہ ظلم سہہ کر بھی فتح مند ہوا جا سکتا ہے)

گاندھی جی نے ایک اور موقع پر کہا تھا:

ترجمہ: (میں سمجھتا ہوں کہ میرے پاس ہندوستانی قوم کے لیے کوئی نیا نظریہ، کوئی نئی تحریک نہیں سوائے اس سوچ اور فکر کے جو کربلا کے ہیرو نے پیش کی تھی)

پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا:

ترجمہ: (حسین کی سچائی کے راستوں پر دی گئی مثالی قربانی دراصل تمام گروہوں اور تمام طبقوں کے لیے مثالی ہے)

شایدا سی تناظر میں اردو کے مشہور شاعر جوش ملیح آبادی نے کہا تھا:

’انسان کو ذرا بیدار تو ہو لینے دو۔ ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین‘

ہندوستان کے نوبل ایوارڈ یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور لکھتے ہیں:

ترجمہ: (انصاف اور سچائی کو طاقت اور ہتھیاروں کی بجائے جانوں کی قربانی سے بھی زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے حسین نے کر کے دکھایا)

لبنانی عیسائی مصنف انتونے بارا اپنی کتاب Husayn in Christian Ideology میں لکھتا ہے:

ترجمہ: (انسانی تاریخ میں کوئی جنگ ایسی نہیں گزری جس نے اتنی زیادہ عزت و شہرت اور ہمدردی حاصل کی ہو جتنی کربلا کی جنگ اور امام حسینؑ کی شہادت نے حاصل کی تھی)

امام حسینؑ نے اپنے خطبے میں واضح فرمایا تھا:

’اے لوگو! یہ (حکمران) اطاعت خدا کو ترک کر چکے ہیں اور شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بنا چکے ہیں۔ یہ ظلم اور فساد کو اسلامی معاشرے میں رواج دے رہے ہیں۔ مال ‘فے’ کو انہوں نے اپنے لیے مختص کر لیا ہے اور خدا کے حرام و حلال کو یکسر بدل چکے ہیں۔‘

اس خطبے سے عیاں ہوتا ہے کہ یزیدی دور کے حکمران احکام شریعت اور سنت نبوی کو بھول کر فسق و فجور، گمراہی اور گناہ کی دلدل میں اتر کر آلودہ ہو چکے تھے۔

کرپشن، عیاشی، حرام کاری اور عدل و انصاف کی عدم دستیابی کے باعث معاشی ناہمواری، غربت و افلاس میں اضافہ اور جہالت فروغ پا رہی تھی۔ سنت رسول ختم اور بدعت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ قرآن پاک اور قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا جا چکا تھا اور اسلامی معاشرہ تباہی کی طرف گامزن تھا۔

ایسی صورت حال میں امام حسینؑ پر ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ ان تمام برائیوں کے خلاف ڈٹ جائیں، انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور ظالم کا ہاتھ روک دیں۔ آپ کی جدوجہد کا مقصد ہرگز دولت و شہرت، عزت و حشمت، مال و متاع یا حکمرانی نہ تھا بلکہ صرف اور صرف اصلاح اُمت کا جذبہ کارفرما تھا۔

مشہور امریکی تاریخ دان Irvin Washington حضرت امام حسینؑ کی جدوجہد کو کچھ ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہے:

ترجمہ: (حسین کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ یزید کی ناجائز خواہشات کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے۔ لیکن اصلاح اُمت کے حوالے سے اُن پر عائد بھاری ذمہ داری نے انہیں یزید کی بیعت پر قطعاً راضی نہ ہونے دیا۔ اس کے برعکس انہوں نے وحشی اور کرپٹ اموی حکمرانوں کے ہاتھوں ہر قسم کے مصائب اور تکالیف گوارا کرنا قبول کیا۔ سر پر آگ کے شعلے اگلتا سورج، پاؤں کے نیچے تپتی زمین اور کربلا کے جلتے ریگزار کی گلہ گھونٹنے والی حدت کے خلاف لافانی حسین ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ حسینؑ کے صبر و استقامت کی روحانی داستان تا ابد زندہ رہے گی)

مشہور برطانوی ناول نگار چارلس ڈکنز لکھتے ہیں:

ترجمہ: (اگر حسین کی لڑائی صرف مادی خواہشات کے حصول کی خاطر ہوتی تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور خاندان کو ساتھ لے کر نکل کھڑے ہوتے۔ حسین کا طرز عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ اس نے صرف اسلام کی خاطر قربانی دی)

ہندوستان کے مشہور سوامی شنکر اچاریہ نے کہا تھا:

ترجمہ: (حسینؑ کی قربانی سے ہی اسلام دوبارہ زندہ ہوا، ورنہ آج کی دنیا میں کوئی بھی اس کا نام لیوا نہ ملتا)

امام حسینؑ کی قربانی جہاں دین اسلام کی بقا، تحفظ اور اسلامی شعائر کی تجدید کا مکمل احاطہ کرتی ہے، وہیں یہ قربانی اسباب کی نفی، خدا پر توکل، باطل کے خلاف کھلی بغاوت، ایمان کی طاقت اور ایک اعلیٰ درجے کی سچی محبت کی روشن دلیل بھی پیش کرتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارا آج کا مسلم معاشرہ امام حسینؑ کی جدوجہد، دین کے لیے ان کی دی گئی قربانیوں اور ان کی تحریک کو یکسر بھلا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف فرقہ پرستی، خود غرضی، مادہ پرستی، حرص و طمع، نفس پرستی، منافقت، بزدلی، مخبری، احساس کمتری اور کینہ پروری کے وائرس پھیل چکے ہیں۔

ان جراثیموں نے نہ صرف ہماری اخلاقی اور دینی حالت کو پست کر دیا ہے بلکہ ہمیں اپنے مفادات کا غلام بنا کر ذات برادری، جماعت و مسلک اور فرقے کے مفادات کا اسیر بنا دیا ہے۔

آج اگر ہم نظر اٹھا کر دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے مسلکی خانوں میں بٹ کر کمزور سے کمزور تر ہو چکے ہیں اور ہمہ وقت اپنے اپنے فرقے کی برتری کے لیے نہ صرف متعین رہتے ہیں بلکہ اس کی خاطر مخالف فرقے کے فرد کا سر اتارنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔

ایک وہ دور تھا جب ایک خدا، ایک دین، ایک پیغمبر اور ایک ہی قبلہ پر متفق مسلمان سمندر کی طرح ناقابلِ تسخیر ہوا کرتے تھے، مگر جب سے ہم صراطِ مستقیم سے بھٹکے ہیں، تب سے ہی ہماری قوت ختم ہوئی اور ہم سمندر سے ندی نالوں میں تقسیم ہو کر بے اثر ہو چکے ہیں۔

فکرِ حسینؑ سے دوری کی واحد وجہ یہی ہے کہ آج ہم میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا نہ حوصلہ پایا جاتا ہے اور نہ تلاشِ حق کا جذبہ۔

امام حسینؑ اور ان کے رفقا کی قربانیوں کے تناظر میں ہم سب مسلمانوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے موجودہ حالات کا نئے سرے سے جائزہ لیں، اپنی زندگیوں میں جو غلطیاں، فساد اور تحریف نظر آئیں، انہیں دور کرنے کی نہ صرف کوشش کریں بلکہ باطل کا ساتھ دینے کی بجائے طاقت کے اصل سرچشمے (اللہ کی ذات) کی طرف رجوع کریں۔

ہمیں چاہیے کہ امام حسینؑ کی عملی جدوجہد کو نہ صرف خود اپنائیں بلکہ اپنی آئندہ نسلوں تک بھی اس جدوجہد کے ثمرات کو منتقل کرنے کی فکر کریں، کیونکہ امام حسینؑ کی تحریک باطل قوتوں کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک تھی جو حق تلفی، ناانصافی اور ظلم کے خاتمے کے لیے شروع کی گئی، جس میں حق بالاخر فاتح ٹھہرا۔

امام حسینؑ کی کوشش، فکر اور سعی صرف کربلا پر آ کر تمام نہیں ہوئی، بلکہ وقت کی یزیدی طاقتوں (امریکہ و اسرائیل) سے ہم آج بھی برسرِ پیکار ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عباس سیال، سڈنی

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔

امام حسین کربلا محرم الحرام.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کربلا محرم الحرام کی قربانی جدوجہد کو دین اسلام کی جدوجہد کربلا کے اسلام کی نے اپنے دنیا کے کہا تھا چکے ہیں کے خلاف کی خاطر کر دیا کی طرف کے لیے

پڑھیں:

چشم فلک تُو دیکھ، ہے زندہ حسینیت ؛ پیکرِ تسلیم و رضا، محافظ حُرمت اسلام امام حسینؓ

قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی کا مفہوم ہے: ’’جب حضرت ابراھیمؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ خانہ کعبہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے تو انہوں نے عرض کی، مفہوم: ’’اے پالنے والے! ہماری خدمت کو قبول فرما اور ہم دونوں کو اپنا مسلمان بندہ بنائے رکھنا، ہماری ذریت کو بھی امتِ مسلمہ بنائے رکھنا۔‘‘

اسی طرح قرآنِ پاک میں ایک اور موقع پر ارشادِ قدرت ہُوا، مفہوم: ’’جب ابراھیم کو خدا نے بعض باتوں میں آزمایا تو پھر انھوں نے اُسے پورا کیا، خدا نے اُن سے فرمایا کہ میں تمھیں لوگوں کے لیے پیشوا بنانے والا ہوں۔‘‘ (سورہ بقرہ) مزید فرمایا: ’’اور ہم نے ابراھیمؑ کو دنیا و آخرت میں نیکوں اور صالحین میں لے لیا ہے، جب رب نے اُن سے کہا کہ اپنے آپ کو ہمارے سپرد کردو تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو سپردِ پروردگار کرتا ہوں۔‘‘ پھر ایک اور جگہ فرمایا: ’’بے شک! وہ لوگ جو خدا کے فرماں بردار ہوئے اور ایک طرف کے ہورہے، وہ مشرکین میں سے نہ تھے، خدا کی نعمتوں کے شکرگزار تھے، خدا نے اُنھیں برگزیدہ کیا اور سیدھی راہ پر چلایا اور ہم نے اُنہیں دنیا میں بھی دیا، وہ دنیا و آخرت میں بے شک صالحین خدا میں سے تھے۔‘‘

یہ ایک تاریخی اور مسلمہ حقیقت ہے کہ بارگاہِ الہی میں جس کا ایمان جس قدر مضبوط ہوگا، اسی قدر امتحان اور آزمائش کا مرحلہ بھی سخت ترین ہوگا۔ انبیاء و مرسلین میں حضرت ابراھیمؑ ہی کو لے لیں اُنھیں خدا نے مختلف آزمائش و امتحانات سے گزارا، وہ اپنی جلالتِ قدر کے لحاظ سے ہر مرتبہ امتحان و آزمائش میں کام یاب ثابت ہوئے۔ جب اُنھیں نمرود کے حکم سے آگ میں ڈالا گیا تو انھوں نے اُس وقت جو صبر و استقامت اور عزم و ہمت کا ثبوت پیش کیا یہ انھی کا کام تھا۔

بعدازاں جب حضرت اسمٰعیلؑ و ہاجرا ؓ کو بیابانِ فاران میں چھوڑنے کا حکم ملا تو وہ بھی ایک سخت ترین مرحلہ و آزمائش تھا۔ اب سب سے کٹھن امتحان اور آزمائش جو سب امتحانوں سے سخت ترین تھا۔ حضرت ابراھیمؑ خلیلِ خدا خواب میں تین شبوں تک یہی دیکھتے رہے کہ خدا کے حکم سے اپنے لختِ جگر اسمٰعیلؑ کو قربان کررہا ہوں۔ پیکرِ تسلیم و رضا ابراھیمؑ فوراً آمادہ ہوگئے کہ حکم خدا کی تعمیل کریں۔ تاہم چوں کہ یہ معاملہ اُن کے بیٹے سے متعلق تھا جن کی قربانی کا حکم تھا، لہذا حضرت ابراھیم ؑ نے اپنے فرماں بردار اور اطاعت شعار نورِنظر کو اپنا خواب بتایا اور حکم خدا سنایا۔ حضرت اسمٰعیلؑ چوں کہ خلیلِ خدا حضرت ابراھیمؑ کے بیٹے تھے لہذا انھوں نے سرِ تسلیم فورا خم کردیا اور عرض کی کہ ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

پھر ابراھیمؑ نے اپنے بیٹے اسمٰعیلؑ کو پیشانی کے بل لٹایا تو ہم نے کہا کہ اے ابراھیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ہم مخلصین کو ایسے صلہ دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بڑی آزمائش تھی جسے ہم نے ’’فدیناہ بذبح عظیم‘‘ قرار دے دیا اور آنے والی نسلوں کے لیے باقی رکھا، سلام ہو ابراھیم ؑ پر، ہم انہیں معروفات بجا لانے کا ایسا صلہ دیتے ہیں یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہیں۔ (سورہ الصافات)

ذاتِ الہی کے حکم کی تعمیل عقل و دانش میں آئے نہ آئے لازم ہے۔ کیوں کہ آتشِ نمرود میں کودنے کا کرشمہ عشق ہے۔ جب کہ عقل تو محوِ تماشائے لبِ بام نظر آتی ہے۔ یہی حسین ابن علیؓ کا عشقِ الہی تھا کہ عزت و حرمت اور رفعت و وقار کا ماہِ محرم نواسۂ رسول الثقلینؐ، شہزادۂ کونین حضرت امام حسینؓ کی اپنے فرماں بردار، اطاعت شعار اصحاب ؓ باوفا اور اولادِ اطہارؓ کی لہو رنگ لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے۔

جسے تاریخ انسانی میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے اور تاریخ بشری اس عظیم ترین قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر و عاجز ہے۔ شریعت ِ مصطفویؐ میں یہ قربانی قربِ الہی کا وسیلہ قرار پائی جو دربارِ الہی میں عجز و انکساری اور تسلیم و رضا کا سرچشمہ ہے، جس سے دنیائے شریعت کی سربلندی، عالم اسلام کی یگانگت، قوم و ملت کی سلامتی اور اعلیٰ دینی اقدار کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔

تسلیم و رضا کی اس لازوال داستان کو دہرانا اور خاص طور پر محرم الحرام میں اس کا تذکرہ کرنا دینی فریضہ ہی نہیں، بل کہ انسانی اقدار اور اخلاقی فضائل و کمالات کی حیات کا ضامن ہے۔ امام عالی مقامؓ کا تعلق کسی مخصوص مکتب، مذہب یا فرقے اور ملک سے نہیں بل کہ ہر باضمیر انسان بارگاہِ مظلوم کربلا میں مودب اور مغموم دکھائی دیتا ہے۔

حضرت امام حسینؓ نے روزِ عاشورہ اپنے72جاں نثاروں کو اسلام کے تقدس کی خاطر قربان کردیا اور اُس پر آنچ نہ آنے دی۔ یہاں تک کہ فاسق و فاجر کے ہاتھ میں اس کی زمام دینا بھی گوارا نہیں کیا اور اس کے خلاف آوازِ حق بلند کرکے شعائر اﷲ کے احترام کا تا قیامت سلیقہ سکھا دیا۔

حضرت امام حسینؓ نے بیعت ِ یزید کے مطالبے کو ٹھوکر مار کر دنیا کو بتا دیا کہ ہم خانوادہِ رسول ﷺ ہیں، کسی ظالم و جابر کے سامنے نہیں جھکتے اور نوکِ سناں پر بھی کلمہ حق بلند کرتے ہیں۔ اسی لیے آپؓ نے گورنر مدینہ کے سامنے اپنا تعارف یوں کرایا:

’’اے ولید! ہم خانوادہِ نبوتؐ اور معدنِ رسالت ہیں، ہم پر فرشتوں کی آمد ہوتی ہے، خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، خدا نے اسلام کو ہمارے گھرانے سے شروع کیا اور ہم ہی پر اختتام کرے گا۔ لیکن یزید جس کی بیعت کی تو ہم سے توقع رکھتا ہے وہ شراب خوار ہے، بے گناہ افراد کا قاتل ہے، احکام خدا کو پامال کرنے والا ہے، کھلے عام فسق و فجور کرتا ہے اور مجھ ایسا اس یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔‘‘

امام عالی مقامؓ نے اس خطاب میں اپنا موقف کھلے الفاظ میں بیان کردیا کہ وہ بیعت ِ یزید کو غیر اسلامی اور غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ نواسۂ رسول ﷺ حضرت امام حسین ابن علی کرم اﷲ وجہہ کی جدوجہد اور شجاعت کا اہم ترین مقصد اُس قوت کو مٹانا تھا جو ناصرف یہ چاہتی تھی کہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود خلافتِ اسلامیہ کے منصب پر قابض ہو، ظلم اور دنگا و فساد کی ترویج کرکے اُمتِ مسلمہ کے مخالف نہ ہونے کی صورت میں خلافت ِ اسلامیہ کے نقاب میں چھپ کر قرآن و اسلام کے خلاف اُن شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے جو حضور ﷺ کے زمانے میں جدل و جدال سے کام یاب نہ ہونے پائے تھے۔ درحقیقت اسی یزیدی قوت کو ملیامیٹ کرنا حسینؓ کی ذمے داری تھی جسے آپؓ نے یوں بیان فرمایا: ’’میں معروفات کا حکم اور منکرات سے روکنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے نانا نام دار ﷺ اور بابا بزرگوار کی سیرت پر چلوں۔‘‘

اسی لیے امام مظلوم کربلا نے یہ رجز پڑھا:

’’میں حسینؓ ہوں، میں نے قسم کھائی ہے کہ دشمنِ خدا و رسول ﷺ کے سامنے سر نہیں جھکاؤں گا، احکاماتِ خداوندی کی حفاظت کروں گا، یہاں تک کہ دین نبی ﷺ کی راہ میں مارا جاؤں۔‘‘

ایک اور جگہ امام عالی مقامؓ نے فرمایا: ’’میں علیؓ کا بیٹا ہوں جو آل ہاشم کے بہترین فرد ہیں، یہی میرا سب سے بڑا افتخار ہے کہ میرے جدِامجد رسول ﷺ خدا ہیں جو تاریخ کی بہترین شخصیت ہیں، ہم خدا کے چراغ ہیں جو روشن رہنے والے ہیں، میرے بابا علیؓ اور ماں فاطمہ زہراؓ دخترِ احمدِ مرسل ﷺ ہیں، عم بزرگوار جعفر طیارؓ جو ذوالجناحین کے لقب سے مشہور ہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے، جس نے ہمیں ہدایت و راہ نمائی کے منصب پر فائز کیا ہے، ہم تمام مخلوقات کے لیے خدا کی طرف سے پناہ گاہ ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جس کا ہم کبھی کھل کر اعلانیہ اور کبھی پوشیدہ طور پر بتاتے ہیں، ہم ساقی حوضِ کوثر ہیں، قیامت کے روز جسے چاہیں جام کوثر سے سیراب کریں، یہی وہ حوضِ کوثر ہے جو قیامت کے دن جائے سعادت ہے اور دشمن نقصان اُٹھائیں گے۔‘‘

حضرت امام حسینؓ عزت و جاہ، دولت و ثروت کے خواہاں نہ تھے۔ وہ نہ شر و فساد پھیلانا چاہتے تھے نہ مسلمانوں کے امور میں رخنہ ڈالنا چاہتے تھے۔ بل کہ اُن کی شہادت کا مقصد اسلام کی سربلندی، حرمتِ انسانی کا تحفظ، شریعت ِ محمدی ﷺ کو افراط و تفریط سے بچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امام عالی مقامؓ نے اپنے اصحاب باوفا اور اولادِ اطہارؓ کی شہادت پیش کرکے عقول بشری کو سربلند کرکے جو اقدار فراہم کیں وہ انسان کو عظیم ترین مرتبے پر فائز کرتی ہیں۔

آج اگر پوری کائنات میں صدائے توحید گونج رہی ہے اور ہر مسلمان کے قلب پر نقش ہے تو یہ قربانی حسینؓ کا صدقہ ہے۔ حسینؓ نے اپنی اور اپنے پیاروں و جاں نثاروں کی لازوال قربانی دے کر نہ صرف کلمۂ توحید اور مشن رسالت ﷺ کی لاج رکھی، وہاں تا ابد ہر مظلوم و ناکس کو ظالموں سے ٹکرانے اور آمروں پر چھا جانے کا حوصلہ بھی عطا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حریت پسند ہی نہیں بلاتفریق مذہب ہر قوم حسینؓ کو سلام پیش کرتی ہے۔

شہادت حسینؓ مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار اور اس کے ثمرات امت مسلمہ کے لیے بیش بہا انمول سرمایہ ہیں۔ ہر عہد میں صدائے حسینیؓ کی گونج مسلمانوں میں دین سے وابستگی اور راہ خدا میں قربانی کا جذبہ بیدار رکھے ہوئے ہے۔ یہ حسینؓ کی قربانی کا ہی اعجاز ہے کہ اسلام کا ہر سپاہی ارفع و اعلی مقاصد کے لیے ہنس کر شہادت کا جام پیتا ہے۔ یزید اپنے ظلم، جبر اور ناپاک ارادوں کے ساتھ ذلّت کی عمیق گہرائیوں میں غرق ہوگیا، لیکن رسولؐ کا پیارا حسینؓ آج بھی عظیم ترین مقصد کے لیے دی گئی لازوال قربانی کی بہ دولت ہر عہد ہر زمانے پر راج کررہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کربلا کی جنگ سے ہمیں بے لوث ،عظیم تر بھلائی کیلئے قربانی کی اہمیت کا درس ملتا ہے‘ مسرت جمشید چیمہ
  • واقعہ کربلا حق پر ڈٹ جانے کی عظیم داستان ہے‘محمد یوسف
  • واقعہ کربلا حق پر ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے: علامہ راغب حسین نعیمی
  • کربلا میں خواتین کا بے نظیر کردار
  • قیامِ امام حسین عالی مقامؓ
  • چشم فلک تُو دیکھ، ہے زندہ حسینیت ؛ پیکرِ تسلیم و رضا، محافظ حُرمت اسلام امام حسینؓ
  • کربلا حق و باطل کا معرکہ ہے، امام حسینؑ کا پیغام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا، علامہ مبشر حسن
  • کربلا میں جو کچھ ہوا وہ درحقیقت عدل اور ظلم کے درمیان فیصلہ تھا، علامہ شہنشاہ نقوی
  • اسوۂ حسینی اور پیغامِ محرم، حق، قربانی اور وحدت کا دائمی پیغام