کربلا میں خواتین کا بے نظیر کردار
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
اﷲ تعالی نے عورت کو عزت و احترام کا وہ بلند مقام بخشا جو اس کی اصل اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ عورت وہ افضل و برتر وجود ہے جو خود اور پورے معاشرے کو سعادت اور نیک نامی کے ساتھ عظمت و نیک بختی کی سعادت کے راستے پر گام زن کرسکتی ہے۔
یہ عورت ہی ہے جس نے کربلا میں امام حسینؓ کے ساتھ مل کر چراغ انسانیت کو تاقیامت روشن کردیا ہے۔ تاریخ اسلام کا اہم، منفرد اور بے مثل واقعہ جس نے انسانیت کو حقیقت اسلام سے روشناس کرایا اور تاریخ اسلام کو حیات ابدی کا جامہ پہنایا وہ نواسہ رسول کریمؐ حضرت امام حسینؓ کا قیام ہے۔ یہ قیام مرد و زن دونوں کی فدا کاریوں اور جاں نثاریوں پر مشتمل ہے جو انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور مشعل راہ ہیں۔
واقعہ کربلا صبر، استقامت، شجاعت، پرہیزگاری، عقیدہ، اخلاق اور طرز زندگی کے ابواب پر مشتمل ہے۔ اس واقعہ میں خواتین اور مرد، چھوٹے اور بڑے سب شامل ہیں اور ہر ایک کا اپنا ایک الگ کردار ہے۔ درحقیقت کربلا میں کام آنے والے بہادر اپنی ماؤں کے لیے ایک انمول سرمایہ تھے۔
کربلا کے واقعہ کو ابدی حیات بخشنے میں حضرت زینبؓ، حضرت ام کلثومؓ، حضرت سکینہؓ، اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہدا ء کی بیویوں اور ماؤں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی تحریک کا پیغام لوگوں تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کا پیغام، کربلا کی اسیر خواتین نے عوام تک پہنچایا ہے۔ جناب زینبؓ کے بے نظیر کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا کامل نظر آتی ہے۔ حضرت زینبؓ نے روز عاشورہ میں ہی نہیں بل کہ امام حسینؓ کی شہادت کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردار ادا کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی تحریک کو مستحکم بنانے کے لیے خواتین کا کردار اہم ہوتا ہے۔ کربلا کے واقعہ کے بعد عورتوں میں وہ جرأت پیدا ہوگئی اور دنیا میں ہونے والی تمام تحریکوں میں خواتین کا اہم کردار نظر آیا ہے۔
کربلا کا واقعہ حضرت زینبؓ کے بغیر نامکمل ہے۔ حضرت زینبؓ کے علاوہ اور بھی خواتین کربلا کے میدان میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ان میں حضرت ام کلثومؓ، حضرت رقیہ بنت الحسینؓ، حضرت سکینہ بنت الحسینؓ، حضرت فضہؓ، جناب ربابؓ، جناب رملہؓ، جناب ام لیلیؓ، جناب ام وہبؓ، جناب بحریہ بنتِ مسعودؓ، جناب خزرجیہؓ، جناب ہانیہؓ اور حضرت وہب کی منکوحہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ کربلا کی خواتین کے اعمالِ حسنہ اور جدوجہد حق پسند خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
عاشوراء، کربلا کی سر زمین پر ہونے والے واقعہ کا نام نہیں ہے بل کہ ایک تحریک اور مقصد کا نام ہے کیوں کہ امام حسینؓ کی اس عظیم تحریک کا آغاز 28 رجب المرجب 60 ھ سے شروع ہو ا اور یہ تحریک عصر عاشور پر ختم نہیں ہوئی بل کہ ام المصائب حضرت زینبؓ اور امام زین العابدینؓ کی سربراہی میں کوفہ اور شام کے فاسق، جابر اور ظالم حکم رانوں کے درباروں تک پہنچنے کے ساتھ اس انقلاب کی آواز مشرق و مغرب اور عرب و عجم میں بھی سنائی دی۔
حضرت زینبؓ کے خطبات سے کربلا کی تحریک کو قیامت تک اسی احساس کے ساتھ یاد رکھا جائے گا جیسے وہ صدیوں کی بات نہیں بل کہ کل ہی کا واقعہ ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد حضرت زینبؓ نے چند اہم ذمے داریوں کو بہت احسن طریق سے کام یابی کے ساتھ نبھایا۔ جن میں سب سے بڑی ذمے داری امام زین العابدینؓ کی دیکھ بھال اور دشمن سے ان کی حفاظت، دوسری ذمے داری شہداء کی خواتین اور بچوں کی حفاظت۔ تیسری اور اہم ترین ذمے داری امام حسینؓ کی تحریک کو زندہ رکھنا اور کربلا کے پیغام کو دنیا کے ہر گوشے تک پہنچانا تھا۔
جہالت اور خوف میں دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جو مشن امام حسینؓ مدینہ سے لے کر نکلے تھے اس کو حضرت زینبؓ کے کردار اور ان کی گفتار نے انجام تک پہنچایا۔ جناب سیّدہ زینبؓ کی سربراہی میں حضرت امام حسینؓ کے اہل حرم نے کوفہ و شام کی گلی کوچوں میں اپنے خطبوں کے ذریعے یزیدیت کے ظلم کا پردہ چاک کردیا۔ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کے ساتھیوں کو ان کی ماؤں، بیویوں اور بیٹیوں نے ہمت اور حوصلہ دیتے ہوئے کہا: ’’تمہارے ہوتے ہوئے دشمن حضرت امام حسینؓ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے ورنہ روز محشر دختر رسول حضرت زہراؓؓ کو کیا منہ دکھائیں گے۔‘‘
میدان کربلا میں یزیدی ظلم کے خلاف ناصرف یہ کہ خاندان رسالتؐ نے قربانیاں پیش کیں بل کہ اس گھرانے کی کنیزوں اور انصارِ حسینی کی خواتین نے بھی اپنے ایثار اور قربانیوں کے جوہر دکھائے۔ جہاں حضرت زینبؓ اور ام لیلیؓ نے اپنی قربانیاں پیش کیں تو وہیں جناب ام وہبؓ، جناب بحریہ بنتِ مسعودؓ اور جناب خزرجیہؓ نے بھی اپنی قربانیوں کا ہدیہ پیش کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ عظیم خواتین ناصرف اپنی نسلوں کی تربیت کرنے میں باکمال تھیں بل کہ میدان عمل میں بھی ان کی کوئی مثال نہ تھی۔ خواتین نے واقعہ کربلا کو بے نظیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کی مثال آج تک تاریخ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ کربلا کی عورتوں کا کردار ہر زمانے کی خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کربلا میں کی خواتین کربلا کے کربلا کی کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
شریکۃ الحسین، ثانی زہرا، صحیفۂ وفا، سفیر کربلا سیّدہ زینبؓ
اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’سب سے افضل جہاد سُلطان جابر کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہے۔‘‘ عالم نسواں کو فخر ہے کہ سلطان جابر کے سامنے کلمۂ حق کہنے کے اس افضل ترین جہاد کی روایت نبی ﷺ کی بیٹیوں سے قائم ہوئی۔
جناب زینبؓ نے شہادت امام حسینؓ کے بعد بازار کوفہ، دربار کوفہ اور دربار یزید میں ابن زیاد اور یزید جیسے جابروں کے سامنے جس طرح کلمۂ حق بلند کیا ہے وہ انسان کی جرأت کردار کا معجزہ ہے۔ بازار کوفہ میں جناب زینبؓ کے خطبے کے بعد دوسری منزل وہ تھی جب اسرائے آل محمدؐ کوفہ کے گورنر ابن زیاد کے دربار میں لائے گئے۔ شہادت امام حسینؓ کے بعد ابن زیاد اپنی ظاہری فتح کے نشے میں چُور یہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے ظلم کے خلاف ہر آواز کو خاموش کردیا۔
ابن زیاد نے جناب زینبؓ کی طرف اشارہ کرکے پوچھا: ’’یہ کون ہے۔‘‘
آپؓ نے کوئی جواب نہ دیا، تیسری مرتبہ پوچھنے پر کسی طرف سے آواز آئی:
’’یہ زینب بنت فاطمہؓ بنت رسول خدا ﷺ ہیں۔‘‘
ابن زیاد نے فخریہ کہا: ’’خُدا کا شکر ہے جس نے تم لوگوں کو رُسوا کیا۔ تمہیں قتل کیا اور تمہارا جُھوٹ ظاہر کردیا۔‘‘
جناب زینبؓ نے جواب دیا: ’’حمد ہے اس خُدا کی جس نے ہم کو عزّت دی۔ محمد مصطفیٰ ﷺ کے ساتھ اور پاک و پاکیزہ قرار دیا۔ اس طرح جو حق ہے پاکیزہ قرار دینے کا نہ وہ کہ جو تُو کہتا ہے۔ رسوا وہ ہوتا ہے جو فاسق و فاجر ہو اور جُھوٹ اس کا کُھلتا جس کے پیش نظر سچائی نہ ہو اور وہ ہم نہیں بل کہ ہمارا وَغرُ ہے۔
باب مدینۃ العلمؓ کی بیٹی نے چند الفاظ میں قدرت کا یہ اٹل اصول بیان فرما دیا کہ رسوا کون ہوتا ہے اور جُھوٹ کس کا کُھلتا ہے۔
ظاہر ہے ابن زیاد کے لیے یہ جواب غیر متوقع ہی نہیں بل کہ ہوش اُڑا دینے والا تھا۔ بس گھبرا کر اپنی فتح کا دوسرا ثبوت دیتا ہے: ’’اے علیؓ کی بیٹی! تم نے دیکھا نہیں خدا نے تمہارے بھائی اور اس کے سرکش ساتھیوں کے ساتھ کیا کیا۔‘‘
بی بیؓ فوراً جواب دیتی ہیں: ’’ خُدا نے میرے بھائی کے ساتھ جو کیا اس میں میں نے خوبی ہی خوبی دیکھی۔ وہ خاصان خُدا تھے جن کے لیے درجۂ شہادت تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا اور وہ اپنے پیروں سے چل کر اپنی قربان گاہ کی طرف گئے اور وہ دن دُور نہیں جب درپیش خدا تیرا اور ان کا سامنا ہوگا اور تجھے اپنے کرتوت کی جواب دہی کرنا ہوگی۔‘‘ اور تاریخ گواہی دے رہی ہے کس کا ذکر بلند ہوا۔
کوفہ کے بعد اسرائے آل محمد ﷺ کو قیدی بناکر معروف راستوں اور مشہور شہروں سے ہوتے ہوئے ملوکیت کے مرکز دمشق لے جایا گیا۔ ظالموں نے یہ راستہ اس لیے منتخب کیا تھا کہ آل محمد ﷺ کو رُسوا کیا جائے۔ لیکن انسان اپنا مَکر کرتا ہے اور خدا کی اپنی مصلحت ہوتی ہے، یہی منصوبہ اہل بیتؓ کے پیغام کی تبلیغ اور واقعۂ کربلا کی اشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا۔ جہاں سے اسیروں کا قافلہ گزرا احتجاج ہوتے گئے۔
دمشق میں دربار یزید میں فتح کے جشن کا اہتمام کیا گیا۔ دربار میں چار سُو کرسی نشیں موجود تھے جن میں دوسرے ملکوں کے سفیر، اپنی حکومت کے امراء اور سرداران لشکر شامل تھے۔ اتنے میں قیدیوں کا قافلہ دربار میں داخل ہوا۔ یزید شراب کے نشے میں چُور تھا اور اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے: ’’ کاش میرے بدر کے مقتولین زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ دین محمدیؐ کے اعضاء کس طرح نیزوں میں گِھر گئے تو وہ خوش ہوکر مجھے دعائیں دیتے۔ بنی ہاشم نے حصول سلطنت کے لیے ایک کھیل کھیلا تھا۔ حقیقت میں نہ کوئی خبر آئی تھی نہ کوئی وحی نازل ہوئی تھی۔‘‘
پیشتر اس کے کہ یزید کے درباری اور گورنر بھی یہی زبان بولنے لگیں اور رفتہ رفتہ عوام کی بھی یہی سوچ بن جائے، رسول ﷺ کی نواسی نے اس سلسلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔
یہ بدر کے مقتولین کون تھے؟ عتبہ بن ربیع، شیبہ بن ربیع اور ولید بن عتبہ۔ اب کربلا کا راز کُھل کر سامنے آجاتا ہے۔ ایک طرف مقتولین بدر کا وارث ہے جو چاہتے تھے کہ جبر و استحصال کا قبائلی نظام باقی رہے۔ دوسری طرف اﷲ کے رسول ﷺ کی اولاد ہے جو انسان کو ان زنجیروں سے رہائی دلاکر معاشرے میں عدل و احسان اور انسانیت کے حقوق کے احترام کا پیغام زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور اسلام کی قدروں کا تحفظ چاہتے ہیں۔ خواہ کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ بی بیؓ حمد خدا اور رسول ﷺ پر درود و سلام کے بعد فرماتی ہیں:
’’ اے یزید! جب تُونے زمین و آسمان کو ہمارے لیے تنگ کردیا۔ ہم قیدیوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ پھرائے گئے تو کیا تُونے یہ سمجھ لیا کہ خدا نے ہمیں ذلیل اور تجھے بلند کیا۔ کیا تجھ کو یہ گمان ہے کہ جو کچھ ہوا وہ اس لیے کہ تُو پیش خدا منزلت رکھتا ہے۔ اسی لیے تُو خوش ہو ہو کر اپنے دائیں بائیں دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا تیرے موافق ہوگئی۔ تیری سب مرادیں پوری ہوگئیں۔ کیا تُو بھول گیا خدا کا یہ فرمان: ’’ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ ہرگز یہ خیال نہ کریں اور ہم نے جو انہیں فارغ البالی دی ہے وہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ ہم نے مہلت صرف اس لیے دی ہے کہ وہ خوب گناہ کرلیں آخر ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (سورہ آلعمران)
بی بی ؓ کا خطاب آگے بڑھتا ہے آپ فرماتی ہیں:
’’اے فرزند طلقاء! کیا اسلام یہی ہے کہ تُونے اپنی بیٹیوں اور کنیزوں کو تو پردے میں رکھا اور رسول خدا ﷺ کی بیٹیوں کو مثل قیدیوں کے لوگوں کے تماشے کے لیے سربازار پھراتا ہے۔ ان کی آوازوں کو گلے میں گھونٹتا ہے اور ان کو سر برہنہ اونٹوں کی پشت پر دشمنوں کی نگرانی میں ایک شہر سے دوسرے شہر تشہیر کراتا ہے۔‘‘
اس لفظ طلقاء میں عجیب کاٹ ہے۔ بی بیؓ یزید کو اس کے بزرگوں کا ماضی یاد دلاتی ہیں کہ تُو ان کا فرزند ہے جو اپنی حرکتوں کی وجہ سے غلام بنائے جانے کے لائق تھے لیکن جنہیں ہمارے جد محمد ﷺ کی رحمت نے آزاد کردیا۔
پھر بی بیؓ فرماتی ہیں: ’’جن کے بزرگوں نے شہداء کے کلیجے چبائے ہوں، جن کا گوشت اور پوست شہداء کے خون سے بنا ہو، جنہوں نے رسول خدا ﷺ کے خلاف احزاب کیے ہوں، اس سے اس کے علاوہ کیا امید کی جاسکتی ہے جو تُونے ہمارے ساتھ کیا۔
خطبہ آگے بڑھتا ہے: ’’اگرچہ حوادث روزگار نے مجھے تجھ سے کلام کرنے پر مجبور کردیا ہے لیکن مجھے تیری کچھ پروا نہیں۔ تجھے اتنا حقیر سمجھتی ہوں کہ تیری سرزنش بھی مجھ پر گراں ہے لیکن کیا کروں، دل میں آگ لگی ہوئی ہے۔‘‘
اور پھر سچّے نبیؐ کی سچّی بیٹی ایک پیشن گوئی فرماتی ہیں:
’’اے یزید! جہاں تک ہوسکے اپنی تدابیر اور کوشش کرلے۔ خُدا کی قسم تو ہمارے ذکر کو محو نہیں کرسکتا اور اس وحی کو مُردہ نہیں کرسکتا جو ہمارے گھر میں اتری۔‘‘