اسلام ٹائمز: کربلا ہمیں آواز دیتی ہے کہ ہم بیدار ہو جائیں، حق کے لیے کھڑے ہو جائیں، امت کو متحد کریں، مظلوموں کے لیے آواز بلند کریں اور دین کی اصل روح کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں۔ آج کے دور میں ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو حسینی فکر کا علمبردار بنائے، اور اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچائے کہ ہم ظلم کے خلاف ہیں، اور ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

تاریخِ انسانیت میں ایسے عظیم واقعات کم ہی رونما ہوتے ہیں جو زمان و مکان کی قیود سے بلند ہو جائیں اور صدیوں بعد بھی ان کی صدائیں ضمیرِ انسانی کو جھنجھوڑتی رہیں۔ واقعۂ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایسا ہی ایک عظیم واقعہ ہے، جو ہر دور میں حق و باطل کی تمیز، عدل و ظلم کے فرق، اور ایمان و نفاق کے درمیان لکیر کھینچتا ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت، اُن کے خانوادے اور جاں نثار رفقاء کی قربانیاں نہ صرف اسلام کی بقا کا ذریعہ بنیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے قیامت تک کے لیے مشعل راہ قرار پائیں۔ ان کی یہ شہادتیں محض تاریخی واقعات نہیں بلکہ زندہ سبق اور بیداری کی علامتیں ہیں۔

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، جو آغازِ سال کے ساتھ ہی ہمیں تجدیدِ عہد کا پیغام دیتا ہے۔ اس ماہ کو اللہ تعالیٰ نے چار حرمت والے مہینوں میں شامل فرمایا ہے جن میں قتال و جدال ممنوع ہے۔ دورِ جاہلیت میں بھی اس مہینے کو قابلِ احترام سمجھا جاتا تھا اور قبیلوں کے درمیان جنگ و جدال روک دی جاتی تھی۔ اسلام نے اس ماہ کی عظمت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ واقعہ کربلا جیسے عظیم الشان امتحان کو اسی مہینے میں رونما کر کے اس کی حرمت میں روحانی عظمت بھی شامل کر دی۔ آج جب محرم آتا ہے تو دل کربلا کی سمت جھک جاتے ہیں، آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، اور زبانیں "یا حسین" کی صداؤں سے تر ہو جاتی ہیں۔

سنہ 61 ہجری میں پیش آنے والا واقعۂ کربلا دراصل حق و باطل کے درمیان معرکۂ فیصلہ کن تھا۔ یزید کی بیعت کو امام حسینؑ نے مسترد کرکے یہ واضح کر دیا کہ ایک جابر، فاسق و فاجر حکمران کے ہاتھ پر بیعت کر لینا دین کی روح کے منافی ہے۔ امام عالی مقام نے مدینہ سے مکہ، اور مکہ سے کربلا تک کا سفر صرف اس لیے طے کیا کہ دین محمدی ﷺ میں آمیزش نہ ہو، ظلم کو دین نہ کہا جائے، اور خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کی سازش کامیاب نہ ہو۔ کربلا میں نواسۂ رسول ﷺ کو ان کے اہلِ بیتؑ سمیت پانی سے محروم کر کے شہید کر دیا گیا، مگر تاریخ نے ثابت کر دیا کہ طاقت، جبر اور ہتھیاروں سے سچ کو کبھی نہیں دبایا جا سکتا۔ امام حسینؑ نے ہمیں سکھایا کہ حق پر ڈٹ جانا ہی اصل کامیابی ہے، چاہے دنیاوی فتح نصیب نہ ہو۔

امام حسینؑ کی شہادت، اُن کے بھائی حضرت عباسؑ کی وفاداری، حضرت علی اکبرؑ کی جوانمردی، حضرت قاسمؑ کی جرأت، اور حضرت علی اصغرؑ کی بے گناہی۔ یہ سب کردار نہ صرف قربانی کی علامت ہیں بلکہ ایمان، وفا، محبت، عدل اور صبر کے حسین پیکر ہیں۔ یہ شہادتیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ جب دین خطرے میں ہو، جب ظالم اقتدار پر قابض ہو جائے، جب امت گمراہی کی طرف بڑھنے لگے، تب ہر سچے مومن کو چاہیے کہ وہ حسینی کردار ادا کرے۔ کربلا کا پیغام یہی ہے کہ حق کے لیے قربانی دو، ظلم کے خلاف آواز بلند کرو، اور اللہ کی رضا کے لیے ہر رشتہ، ہر تعلق اور ہر آسائش کو قربان کر دو۔

آج جب ہم عالمی حالات پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو فلسطین، کشمیر، یمن، شام اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کا حال دیکھ کر کربلا یاد آتی ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں اور معصوم شہریوں پر ظلم ہوتا ہے، اور دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ یہی صورتحال کربلا میں بھی تھی جب امام حسینؑ کے قافلے کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ لیکن جو قوم کربلا کو اپنا سرمایۂ افتخار سمجھتی ہے، اسے چاہیے کہ وہ ظالموں کے خلاف کھڑی ہو جائے۔ کربلا ہمیں سکھاتی ہے کہ صرف جذبۂ محبت کافی نہیں بلکہ عمل، قربانی، یکجہتی اور اتحاد بھی ضروری ہے۔ اگر ہم واقعی حسینی ہیں تو ہمیں مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، باطل کے خلاف زبان اور قلم سے جہاد کرنا ہو گا، اور امت کے درمیان تفرقے ختم کر کے وحدت کا علم بلند کرنا ہو گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ فلسطین کی حمایت کی ہے اور امریکہ و اسرائیل کی کھلی جارحیت کے خلاف کھڑے ہو کر کربلائی فکر کو زندہ کیا ہے۔ کربلا اور غزہ، دونوں کی ایک ہی صدا ہے: مظلوم کو تنہا نہ چھوڑو۔ خواہ تمہاری زبان میں طاقت نہ ہو، مگر تمہارا دل، تمہارا قلم اور تمہارا موقف مظلوم کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ یہی اسوۂ حسینی ہے۔ آج امتِ مسلمہ کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں سب سے بڑا چیلنج انتشار، فرقہ واریت اور خودغرضی ہے۔ امام حسینؑ نے ہمیں سکھایا کہ ذاتی مفاد، دنیاوی اقتدار اور وقتی فائدہ اگر دین کے خلاف ہو تو اُسے مسترد کر دینا ہی ایمان ہے۔

محرم کا مہینہ ہمیں قرآن کے اس پیغام کی یاد دلاتا ہے، وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ (آل عمران: 103)۔ اگر ہم واقعی امام حسینؑ کے پیروکار ہیں تو ہمیں اس حکمِ ربانی پر عمل کرنا ہوگا۔ اتحاد، یکجہتی، مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کے خلاف جرأت مندانہ موقف اپنانا ہی اسوۂ حسینی کا تقاضا ہے۔ محرم الحرام کا مہینہ، واقعۂ کربلا اور امام حسینؑ کی شہادت ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ حق کے راستے میں رکاوٹیں ضرور آئیں گی، قربانیاں دینا ہوں گی، اور جابر قوتوں کا سامنا کرنا ہوگا، مگر انجامِ کار کامیابی اہلِ حق ہی کی ہوگی۔

کربلا ہمیں آواز دیتی ہے کہ ہم بیدار ہو جائیں، حق کے لیے کھڑے ہو جائیں، امت کو متحد کریں، مظلوموں کے لیے آواز بلند کریں اور دین کی اصل روح کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں۔ آج کے دور میں ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو حسینی فکر کا علمبردار بنائے، اور اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچائے کہ ہم ظلم کے خلاف ہیں، اور ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ خدائے و بزرگ سے عاجزانہ دعا ہے کہ اس محرم الحرام کو اہل پاکستان کے لیے بالخصوص اور امت مسلمہ کے لیے بالعموم پیغام امن و سلامتی بنا دے۔ آمین

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے درمیان ہو جائیں کی شہادت کے ساتھ کے خلاف کرنا ہو ظلم کے کے لیے

پڑھیں:

پشاور، تحریک بیداری کے زیراہتمام وحدتِ امت کانفرنس

اسلام ٹائمز: شرکائے کانفرنس نے غزہ کے مظلومین کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے امت مسلمہ کے موجودہ کردار پر سوال اٹھائے۔ اس موقع پر علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ اسوقت امت سو رہی ہے، پاکستان کے عوام اگر بیدار ہوتے تو ہمارے وزیراعظم کو شرم الشیخ کانفرنس میں جاکر مظلومین فلسطین کے حوالے سے منہ پر کالک ملنے کی جرات نہ ہوتی۔ متعلقہ فائیلیںرپورٹ: سید عدیل عباس

تحریک بیداری امت مصطفیٰ (ص) پشاور کے زیراہتمام "وحدتِ امت کانفرنس بعنوان: غزہ کے میدان میں امت کا امتحان" کا انعقاد صوبائی دارالحکومت میں کیا گیا، جس سے صدارتی خطاب جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کیا، جبکہ دیگر مقررین میں جماعت اسلامی کے سابق مرکزی امیر سراج الحق، مولانا طیب قریشی، علامہ جمیل حسن شیرازی، مولانا عابد شاکری، مولانا محمد شعیب اور دیگر شامل تھے۔ کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی مذہبی شخصیات نے شرکت کی اور غزہ کے مظلومین کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے امت مسلمہ کے موجودہ کردار پر سوال اٹھائے۔ اس موقع پر علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ اس وقت امت سو رہی ہے، پاکستان کے عوام اگر بیدار ہوتے تو ہمارے وزیراعظم کو شرم الشیخ کانفرنس میں جاکر مظلومین فلسطین کے حوالے سے منہ پر کالک ملنے کی جرات نہ ہوتی۔ مزید احوال اس ویڈیو رپورٹ میں مالاحظہ فرمائیں۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial

متعلقہ مضامین

  • الاقصیٰ کے امام شیخ عکرمہ صبری پر ’اشتعال انگیزی‘ کا مقدمہ؛ الزامات من گھڑت قرار
  • پشاور، تحریک بیداری کے زیراہتمام وحدتِ امت کانفرنس
  • پشاور، تحریک بیداری زیراہتمام ’وحدتِ امت کانفرنس
  • حرمِ مطہر امام رضا علیہ‌السلام میں علامہ طباطبائیؒ کی یاد میں تقریب
  • امام مسجد کے گھر میں ڈکیتی، چور لاکھوں مالیت کا سونا اور نقدی لے اڑے
  • حزب اللہ کے بانی رہنماء شہید سید عباس موسوی کی بیٹی کا انٹرویو 
  • ملتان، مجلس وحدت مسلمین تحصیل سٹی و صدر کا الیکشن
  • دائمی اورمتعدی بیماریوں میں مبتلاافراد کےحج ادا کرنےپرپابندی عائد
  • جھل مگسی، ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی شوریٰ کا اجلاس، نئی کابینہ کا انتخاب
  • عقیدہ ختم نبوت امت میں وحدت و اتفاق کی علامت ہے، مولانا فضل الرحمن