اسوۂ حسینی اور پیغامِ محرم، حق، قربانی اور وحدت کا دائمی پیغام
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کربلا ہمیں آواز دیتی ہے کہ ہم بیدار ہو جائیں، حق کے لیے کھڑے ہو جائیں، امت کو متحد کریں، مظلوموں کے لیے آواز بلند کریں اور دین کی اصل روح کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں۔ آج کے دور میں ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو حسینی فکر کا علمبردار بنائے، اور اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچائے کہ ہم ظلم کے خلاف ہیں، اور ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
تاریخِ انسانیت میں ایسے عظیم واقعات کم ہی رونما ہوتے ہیں جو زمان و مکان کی قیود سے بلند ہو جائیں اور صدیوں بعد بھی ان کی صدائیں ضمیرِ انسانی کو جھنجھوڑتی رہیں۔ واقعۂ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایسا ہی ایک عظیم واقعہ ہے، جو ہر دور میں حق و باطل کی تمیز، عدل و ظلم کے فرق، اور ایمان و نفاق کے درمیان لکیر کھینچتا ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت، اُن کے خانوادے اور جاں نثار رفقاء کی قربانیاں نہ صرف اسلام کی بقا کا ذریعہ بنیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے قیامت تک کے لیے مشعل راہ قرار پائیں۔ ان کی یہ شہادتیں محض تاریخی واقعات نہیں بلکہ زندہ سبق اور بیداری کی علامتیں ہیں۔
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، جو آغازِ سال کے ساتھ ہی ہمیں تجدیدِ عہد کا پیغام دیتا ہے۔ اس ماہ کو اللہ تعالیٰ نے چار حرمت والے مہینوں میں شامل فرمایا ہے جن میں قتال و جدال ممنوع ہے۔ دورِ جاہلیت میں بھی اس مہینے کو قابلِ احترام سمجھا جاتا تھا اور قبیلوں کے درمیان جنگ و جدال روک دی جاتی تھی۔ اسلام نے اس ماہ کی عظمت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ واقعہ کربلا جیسے عظیم الشان امتحان کو اسی مہینے میں رونما کر کے اس کی حرمت میں روحانی عظمت بھی شامل کر دی۔ آج جب محرم آتا ہے تو دل کربلا کی سمت جھک جاتے ہیں، آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، اور زبانیں "یا حسین" کی صداؤں سے تر ہو جاتی ہیں۔
سنہ 61 ہجری میں پیش آنے والا واقعۂ کربلا دراصل حق و باطل کے درمیان معرکۂ فیصلہ کن تھا۔ یزید کی بیعت کو امام حسینؑ نے مسترد کرکے یہ واضح کر دیا کہ ایک جابر، فاسق و فاجر حکمران کے ہاتھ پر بیعت کر لینا دین کی روح کے منافی ہے۔ امام عالی مقام نے مدینہ سے مکہ، اور مکہ سے کربلا تک کا سفر صرف اس لیے طے کیا کہ دین محمدی ﷺ میں آمیزش نہ ہو، ظلم کو دین نہ کہا جائے، اور خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کی سازش کامیاب نہ ہو۔ کربلا میں نواسۂ رسول ﷺ کو ان کے اہلِ بیتؑ سمیت پانی سے محروم کر کے شہید کر دیا گیا، مگر تاریخ نے ثابت کر دیا کہ طاقت، جبر اور ہتھیاروں سے سچ کو کبھی نہیں دبایا جا سکتا۔ امام حسینؑ نے ہمیں سکھایا کہ حق پر ڈٹ جانا ہی اصل کامیابی ہے، چاہے دنیاوی فتح نصیب نہ ہو۔
امام حسینؑ کی شہادت، اُن کے بھائی حضرت عباسؑ کی وفاداری، حضرت علی اکبرؑ کی جوانمردی، حضرت قاسمؑ کی جرأت، اور حضرت علی اصغرؑ کی بے گناہی۔ یہ سب کردار نہ صرف قربانی کی علامت ہیں بلکہ ایمان، وفا، محبت، عدل اور صبر کے حسین پیکر ہیں۔ یہ شہادتیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ جب دین خطرے میں ہو، جب ظالم اقتدار پر قابض ہو جائے، جب امت گمراہی کی طرف بڑھنے لگے، تب ہر سچے مومن کو چاہیے کہ وہ حسینی کردار ادا کرے۔ کربلا کا پیغام یہی ہے کہ حق کے لیے قربانی دو، ظلم کے خلاف آواز بلند کرو، اور اللہ کی رضا کے لیے ہر رشتہ، ہر تعلق اور ہر آسائش کو قربان کر دو۔
آج جب ہم عالمی حالات پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو فلسطین، کشمیر، یمن، شام اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کا حال دیکھ کر کربلا یاد آتی ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں اور معصوم شہریوں پر ظلم ہوتا ہے، اور دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ یہی صورتحال کربلا میں بھی تھی جب امام حسینؑ کے قافلے کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ لیکن جو قوم کربلا کو اپنا سرمایۂ افتخار سمجھتی ہے، اسے چاہیے کہ وہ ظالموں کے خلاف کھڑی ہو جائے۔ کربلا ہمیں سکھاتی ہے کہ صرف جذبۂ محبت کافی نہیں بلکہ عمل، قربانی، یکجہتی اور اتحاد بھی ضروری ہے۔ اگر ہم واقعی حسینی ہیں تو ہمیں مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، باطل کے خلاف زبان اور قلم سے جہاد کرنا ہو گا، اور امت کے درمیان تفرقے ختم کر کے وحدت کا علم بلند کرنا ہو گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ فلسطین کی حمایت کی ہے اور امریکہ و اسرائیل کی کھلی جارحیت کے خلاف کھڑے ہو کر کربلائی فکر کو زندہ کیا ہے۔ کربلا اور غزہ، دونوں کی ایک ہی صدا ہے: مظلوم کو تنہا نہ چھوڑو۔ خواہ تمہاری زبان میں طاقت نہ ہو، مگر تمہارا دل، تمہارا قلم اور تمہارا موقف مظلوم کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ یہی اسوۂ حسینی ہے۔ آج امتِ مسلمہ کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں سب سے بڑا چیلنج انتشار، فرقہ واریت اور خودغرضی ہے۔ امام حسینؑ نے ہمیں سکھایا کہ ذاتی مفاد، دنیاوی اقتدار اور وقتی فائدہ اگر دین کے خلاف ہو تو اُسے مسترد کر دینا ہی ایمان ہے۔
محرم کا مہینہ ہمیں قرآن کے اس پیغام کی یاد دلاتا ہے، وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ (آل عمران: 103)۔ اگر ہم واقعی امام حسینؑ کے پیروکار ہیں تو ہمیں اس حکمِ ربانی پر عمل کرنا ہوگا۔ اتحاد، یکجہتی، مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کے خلاف جرأت مندانہ موقف اپنانا ہی اسوۂ حسینی کا تقاضا ہے۔ محرم الحرام کا مہینہ، واقعۂ کربلا اور امام حسینؑ کی شہادت ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ حق کے راستے میں رکاوٹیں ضرور آئیں گی، قربانیاں دینا ہوں گی، اور جابر قوتوں کا سامنا کرنا ہوگا، مگر انجامِ کار کامیابی اہلِ حق ہی کی ہوگی۔
کربلا ہمیں آواز دیتی ہے کہ ہم بیدار ہو جائیں، حق کے لیے کھڑے ہو جائیں، امت کو متحد کریں، مظلوموں کے لیے آواز بلند کریں اور دین کی اصل روح کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں۔ آج کے دور میں ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو حسینی فکر کا علمبردار بنائے، اور اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچائے کہ ہم ظلم کے خلاف ہیں، اور ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ خدائے و بزرگ سے عاجزانہ دعا ہے کہ اس محرم الحرام کو اہل پاکستان کے لیے بالخصوص اور امت مسلمہ کے لیے بالعموم پیغام امن و سلامتی بنا دے۔ آمین
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے درمیان ہو جائیں کی شہادت کے ساتھ کے خلاف کرنا ہو ظلم کے کے لیے
پڑھیں:
خطبہٴ نکاح کا پیغام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہمارے ہاں نکاح کی مجالس میں خطبہ نکاح پڑھنے کی سنت ادا ہوتی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خطبے میں کیا کہا جارہا ہے اس کا بالکل بھی پتا نہیں ہوتا، حالانکہ اس کا سمجھنا خود عائلی زندگی کے لیے ایک بہت بڑا پیغام رکھتا ہے۔
خطبہ نکاح کا حکم
خطبہ نکاح کا مجلس میں پڑھنا سنت عمل ہے اور خطبے کا سننا واجب ہے، اسی لیے اس دوران بات چیت کرنا یا شور مچانا انتہائی بے ادبی کی بات ہے۔
خطبہ نکاح کی تاریخ
خطبہ نکاح کی تاریخ نہایت دلچسپ ہے، اہل عرب کے ہاں بھی نکاح سے پہلے خطبہ پڑھا جاتا تھا، لیکن اس میں وہ اپنے خاندان، قبیلے اور آباؤ اجداد کے مناقب بیان کیا کرتے تھے، لیکن جب آپ علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو آپ نے دیگر امور کی طرح خطبۂ نکاح کے مندرجات کو بھی تبدیل فرمادیا اور اس میں حمد باری تعالیٰ، رسالت و شہادت، قرآن کریم کی منتخب آیات و روایات کا ایسا حسین مجموعہ جمع فرمایا کہ یہ خطبہ زوجین اور فریقین کے لیے عائلی زندگی کا ایک ایسا خوب صورت پیغام بن گیا جس میں گراں قدر ہدایات موجود ہیں۔
مضمون کا مقصد
عام طور پر ہمارے ہاں جو خطبہ پڑھا جاتا ہے اس کا ترجمہ اور مختصر سی تشریح پیش خدمت ہے، تاکہ اس خطبے کو سننے سمجھنے کا رواج پیدا ہو اور عام لوگ اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرسکیں۔
خطبے میں سب سے پہلے اللہ رب العزت کی تعریف اور شہادت رسالت کا بیان ہوتا ہے۔
مسلمان کی نظریاتی اساس
خطبے کے اس حصے میں اس سبق کو دہرایا جاتا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان نظریاتی طور پر دو چیزوں کو سب سے پہلا درجہ دیتے ہیں:
1۔ توحید
2۔ رسالت
توحید یعنی ہم اللہ کو ایک مانتے ہیں اور تمام قسم کی تعریف اسی ایک ذات کے لیے ہے، کیونکہ وہی ذات ہے جس نے کائنات کو پیدا فرمایا، انسان کو پیدا فرمایا، زندگی موت، نفع نقصان، صحت بیماری، مالداری فقر فاقہ، اولاد و نعمت، ہدایت گمراہی، وغیرہ، سب کا سب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اسی لیے ہمیں یقین اور بھروسہ ہے کہ دنیاو آخرت میں ہماری بخشش، معافی تلافی فقط وہی ذات کرسکتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہماری دوسری نظریاتی اساس یہ ہے کہ وہ اپنا پیغام انبیا کے ذریعے ہم تک پہنچاتا ہے اور انہی انبیا کے سنہری سلسلے کی آخری کڑی آپ علیہ السلام کی ذات مبارک ہے، جو سید البشر، رحمت للعالمین اور ختم نبوت کا تاج لے کر آئے اور ان سے محبت اور ان کا طریقہ پوری انسانیت کے لیے قیامت تک قابل عمل و ناگزیر ہے۔
شادی اور تقوی
اس کے بعد خطبے میں قرآن کریم کے تین مختلف مقامات سے آیات پڑھی جاتی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں آیات میں ”تقوی“ کا ذکر ہے۔ اس کی حکمت علما یہ بیان فرماتے ہیں کہ تقوی کا مطلب اللہ کا خوف و ڈر، خشیت الہی، قیامت کے دن جواب دہی کا احساس ہے اور جب تک یہ احساس بیدار نہ ہو تب تک انسان کسی رشتے کو نبھا نہیں سکتا اور میاں بیوی چونکہ ایک طویل عرصہ ساتھ رہنے کا عہد کرتے ہیں اور اس عرصے میں مزاج کا اختلاف عین ممکن ہے، اس اختلاف کے ساتھ ساری زندگی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا تب ہی ممکن ہے جب اللہ رب العزت کی نگرانی اور جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے، یہ ہوا تو پھر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا جائے گا کہ میرے کسی رویے سے وہ عظیم ذات، جو مجھے ہر آن ہر لمحہ دیکھ سن سمجھ رہی ہے، کہیں میری گرفت نہ کردے اور اس احساس میں آکر ہی زوجین ایک دوسرے کے جانی مالی حقوق کی پروا کرسکتے ہیں اور اگر یہ نہ رہے تو کوئی خاندان کا سربراہ، انجمن، پنچائت، کورٹ کچہری ان کو مکمل پابند نہیں کرسکتا۔
خاتمہ بالخیر کی فکر اور طریقہ
سب سے پہلی آیت میں بیان فرمایا۔ ترجمہ: ”اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے“ (آل عمران)۔
آیت کے آخر میں فرمایا کہ تمہیں ہر گز موت نہ آئے، مگر اسلام کی حالت میں۔ یعنی اپنے خاتمہ بالخیر کی فکر کرو اور ایک دوسری روایت میں خاتمہ بالخیر کا طریقہ یوں سمجھایا کہ: جیسے تم زندگی گزارتے ہو ویسے تمہیں موت آئے گی اور جیسے تمہیں موت آئے گی ویسے ہی تمہیں اٹھایا جائے گا اور تمہارا حشر ہوگا (روح البیان)۔
یعنی دارومدار سارا کا سارا آج کے عمل پر ہے، اگر کسی کا حال درست ہے تو خاتمہ بالخیر کا مستقبل بھی درست رہے گا اور اس سے آگے کی منزل بھی پار لگ جائے گی، لیکن آج متاثر ہے تو ہر طرح کا مستقبل خطرے میں ہے۔
اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ زوجین اپنے حالیہ رویے پر خصوصی نظر رکھیں اور مادی مستقبل کی جستجو کے علاوہ اپنے ایمانی مستقبل کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کریں۔
تخلیق انسانی کا تسلسل
دوسری آیت میں فرمایا۔ ترجمہ: ”لوگو! اپنے رب سے ڈرو ،جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلادیے اور اللہ سے ڈرو ،جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو، بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے“ (النساء )۔
یہاں آیت میں پوری انسانیت کو مخاطب کرکے ان کی تخلیق کا نقطہ آغاز بیان فرمادیا کہ تمہیں آدم علیہ السلام، جو کہ پہلے انسان اور پہلے پیغمبر ہیں، ان سے پیدا فرمایا اور وہ تمہارے آباو اجداد میں اول کا درجہ رکھتے ہیں اور ان ہی سے تمہاری اول ماں بی بی حوا علیہا السلام کو پیدا فرمایا اور پھر یہ سلسلہ چلتے چلتے پوری انسانیت کی تخلیق کا ذریعہ بنا اور سمجھادیا کہ تم اس سرزمین میں کیسے آئے اور کہاں سے آئے، ساتھ میں اشارہ فرمادیا کہ اب تم نکاح کے ذریعے اسی سلسلے کا حصہ بننے جارہے ہو۔
رشتے داروں کا مقام
اس کے ساتھ رشتے داروں کا خاص طور پر ذکر فرمایا کہ ان کے حقوق کے معاملے میں اللہ سے خاص طور پر ڈرو، کیونکہ اب تم بھی ان رشتوں کا حصہ بن چکے ہو، ایک فرد سے جوڑے میں اور جوڑے سے فیملی اور فیملی سے ایک خاندان کا حصہ بننے جارہے ہو اور خاندان میں تم اور تمہارے والدین بیوی بچوں کے علاوہ بھی ایک خوب صورت رشتوں کا گل دستہ موجود ہے، ان کے حقوق کی خصوصی رعایت کرنا، خودغرضی کا شکار مت ہوجانا، ان کے ساتھ اپنے رویے کو درست کرلینا۔
سچائی کا رشتہ
ترجمہ: ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے اس نے بڑی کام یابی پائی“ (احزاب)۔
تیسری آیت میں فرمایا کہ سیدھی سچی کھری اور دوٹوک بات کرنے کی عادت پیدا کرو۔ انسان زندگی میں بہت سے معاملات اور لین دین کرتا رہتا ہے، لیکن نکاح کا معاملہ چونکہ ساری زندگی ساتھ رہے گا اسی لیے اپنی زبان کی خبرگیری کا خاص طور پر خیال رکھنے کا حکم ہورہا ہے کہ اگر تم نے زبان کا ٹھیک استعمال کیا تو یہ رشتہ ایک خوب صورت تعلق میں بدل جائے گا اور اگر تم نے زبان کو قابو میں نہ رکھا تو پھر یہ رشتہ خطرے میں پڑسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی جو روایات عام طور پر خطبے میں پڑھی جاتی ہیں ان میں سب سے پہلی اور معروف روایت یہ ہے۔
نکاح کی عالی نسبت
النکاح من سنتی (ابن ماجہ)، ترجمہ: نکاح میرا طریقہ ہے۔
فمن رغب عن سنتی فلیس منی (بخاری)، ترجمہ: جس نے میرے طریقے کو نظر انداز کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ نکاح کوئی معمولی عمل نہیں، بلکہ یہ میرا طریقہ ہے اور آپ کا اتنا کہنا ہی اس عمل کے ضروری اور اہم ہونے کے لیے کافی ہے ،کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ جو آپ کا طریقہ ہے وہ یقینا کامیابی کا طریقہ ہے ۔
امت کے نوجوان
دوسری روایت میں فرمایا۔ ترجمہ: اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے، یہ نگاہوں کو جھکانے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے میں (دوسری چیزوں کی نسبت) بڑھ کر ہے اور جو استطاعت نہ پائے، وہ خود پر روزے کو لازم کر لے، یہ اس کے لیے اس کی خواہش کو قطع کرنے والا ہے (مسلم)۔
اس روایت میں آپ کے مخاطب امت کا نوجوان طبقہ ہے، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ نکاح بھرپور جوانی میں ہونا چاہیے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اے نوجوانو! اگر مالی پوزیشن ضرورت کی حد تک درست ہے تو ضرور نکاح کرو، اس سے تمہیں دو فائدے حاصل ہوں گے:
1۔ نگاہ کی حفاظت
2۔ شرم گاہ کی حفاظت
نکاح کے فوائد
نکاح کے فوائد میں آپ نے نکاح کا مقصد بھی ذکر فرمادیا۔ چونکہ نوجوان اپنے شباب اور جذبات میں جی رہا ہوتا ہے اور اس کے پاس خدا کی دی ہوئی صحت کی نعمت اپنے جوبن میں ہوتی ہے تو فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ تم اس نعمت کا کہیں غلط استعمال کر بیٹھو اور اپنی صحت اور جوانی کو نقصان پہنچادو، تمہارے ارد گرد فحاشی کے مناظر، خواتین کا جال، موبائل کی سہولت یہ سب تمہیں اپنی قوت کو غیر فطری خرچ کی دعوت دے سکتے ہیں ،اسی لیے تمہارے لیے نکاح ضروری ہے، تاکہ تمہاری قوت صحیح وقت پر صحیح جگہ لگ سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ دو چیزوں کا ذکر خاص طور پر فرمایا، نگاہ اور شرم گاہ، یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے معاون کی حیثیت رکھتے ہیں، نگاہ کی غلطی شرم گاہ کی غلطی پر ختم ہوا کرتی ہے۔ اسی لیے آپ فرماتے ہیں کہ نوجوان کے قیمتی جذبات کو ضائع کرنے کی راہ یہیں سے کھلتی ہے اور جب نکاح نہ ہو تو یہ دونوں سرپھرے آوارہ بن جاتے ہیں اور جب نکاح ہوجائے تو ان کی نگرانی آسان ہوجاتی ہے۔
رشتہ کرنے کا طریقہ
تیسری روایت میں فرمایا کہ: جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا (ترمذی)۔
رشتہ کرنا کا ایک سنہری اصول بیان فرمایا کہ جب رشتہ کرو تو دو چیزیں خاص طور پر پرکھ لیا کرو۔
1۔ دین داری
2۔ اخلاق
جس مرد میں یہ دو جوہر پائے جائیں تو رنگ صورت، مال و متاع کی جنجھٹ مت پالو، بلکہ اللہ کا نام لے کر ہاں کردو، کیوں کہ دین داری ہوگی تو ایسا شخص ایمان، صوم و صلاۃ، رویہ سلوک، لین دین اور حقوق کا خیال رکھنے والا ضرور ہوگا اور ایسا رشتہ ملنا ایک غنیمت ہے۔
ساتھ میں تنبیہ فرمائی کہ ایسا رشتہ کسی مادی سبب کی وجہ سے اگر ٹھکرانے کا رواج بڑھ گیا تو معاشرہ فساد کا شکار ہوجائے گا۔
دین دار خاتون
چوتھی روایت میں ذکر فرمایا کہ: عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دین دار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی) (بخاری)۔
فرمایا کہ عام طور پر لڑکی کے انتخاب میں حسن و جمال، مال و دولت اور خاندانی وجاہت کو دیکھا جاتا ہے، جب کہ اصل چیز دین داری ہے، کیوں کہ باقی ساری چیزیں فانی ہیں اور زندگی کا سکون حاصل کرنے میں مددگار نہیں ہیں، جب کہ دین داری اصل ہے اور زندگی بھر کا سکون دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی صورت ہی میں ممکن ہے اور ایک دوسری روایت میں عورتوں کی دین داری کا مختصر اور خوب صورت نقشہ پیش کردیا فرماتے ہیں: جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے، اپنے ماہ (رمضان) کا روزہ رکھ لے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرلے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں، اس کے جس دروازے سے داخل ہونا چاہے، داخل ہوجا (رَوَاہُ أَبُو نعیم فِی الْحِلْیة)۔