امام حسین (ع) کی یاد میں، 78 واں یومِ آزادی
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا قیام اصول اور حق کی حفاظت کے لیے تھا۔ انہوں نے یزید کے باطل نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اسلام کی اصل تعلیمات کو بچانے کے لیے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان قربان کر دی۔ قیامِ پاکستان میں بھی یہی اصول کار فرما تھے۔ ایمان، قربانی اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانا۔ لاکھوں مسلمانوں نے ہجرت کی، اپنی جانیں اور املاک قربان کیں تاکہ ایک آزاد اسلامی ریاست قائم ہو۔ دونوں تحریکیں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ نظریے کی حفاظت قربانی سے ہی ممکن ہے۔ تحریر: آغا زمانی
14 اگست 1947ء کا دن ہماری قومی تاریخ کا سب سے اہم دن ہے۔ یہ دن اس جدو جہد اور قربانی کی یاد دلاتا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا۔ آج جب ہم 78واں یومِ آزادی منارہے ہیں تو ہمیں اپنے ماضی کو یاد کر کے یہ سوچنا چاہیئے کہ یہ ملک کس مقصد کے لیے بنایا گیا اور ہم نے اسے کس حد تک اس مقصد کے مطابق بنایا ہے۔ اس موقع پر ضروری ہے کہ ہم پاکستان کے قیام کی تاریخ، مکتبِ تشیع کی قربانیوں اور امام حسین علیہ السلام کے قیام سے مماثلت کو بھی سمجھیں۔
نظریۂ پاکستان:
نظریۂ پاکستان کا بنیادی مقصد ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جہاں مسلمان آزاد ہو کر اپنے دین اور تہذیب کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر رہنماؤں نے واضح کیا تھا کہ پاکستان ایک ایسی مملکت ہوگی جو اسلام کے اصولوں پر قائم ہوگی اور جہاں سب کو برابری کے حقوق حاصل ہوں گے۔ یہ صرف زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک نظریہ تھا۔ خود مختاری، دینی آزادی اور انصاف کا نظریہ۔
قائداعظم کا وژن اور سب کے لیے مساوی حقوق:
قائداعظم نے پاکستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر سوچا جہاں ہر شہری کو، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، یکساں انسانی حقوق حاصل ہوں۔ 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا: "آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جانے کے لیے، اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے، یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔" (حوالہ: Speeches and Statements of the Quaid-e-Azam 1947–1948, جلد دوم، مرتب: خواجہ ریاض الدین، صفحہ 404۔ نیز یہ تقریر پاکستان آرکائیوز اور متعدد تاریخی کتب میں بطور "قائداعظم کا 11 اگست کا خطاب" موجود ہے۔) یہ وژن پاکستان کو ایک متحد اور پرامن ملک بنانے کے لیے تھا، جہاں سب ایک قوم کی طرح رہیں۔
پاکستان میں مکتبِ تشیع کی قربانیاں اور خدمات:
شیعہ رہنماؤں، علماء اور عوام نے پاکستان کے قیام اور استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا۔ تاریخی شواہد کے مطابق بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا تعلق خوجہ اثنا عشری شیعہ خاندان سے تھا۔ سید ابوالحسن اصفہانی برصغیر کے نامور شیعہ کاروباری شخصیت اور سیاسی رہنما تھے جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں قائد اعظم کے شانہ بشانہ بھرپور جدو جہد کی۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سرگرم رکن تھے اور برصغیر کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے سیاسی سطح پر مہمات چلائیں۔ قیامِ پاکستان کے حق میں انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کیا، متعدد اجلاسوں اور جلسوں میں کھل کر مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے حق میں دلائل دیے اور کئی مواقع پر قائد اعظم کو عوامی حمایت فراہم کی۔
اسی طرح راجہ صاحب آف محمود آباد، جن کا اصل نام محمد امیر احمد خان تھا، تحریکِ پاکستان کے سب سے بڑے مالی مددگاروں میں سے تھے۔ انہوں نے اپنی جاگیروں، دولت اور وسائل کو تحریکِ پاکستان کے لیے وقف کردیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے نہ صرف سرگرم رکن تھے بلکہ قائد اعظم کے قریبی ساتھی بھی تھے۔ انہوں نے متعدد کانفرنسوں میں مسلمانوں کے حقِ خود ارادیت کے لیے جرات مندانہ تقریریں کیں اور آزادی کی تحریک کے لیے اپنی ذاتی جائیداد تک فروخت کر دی۔ ان بے لوث شخصیات کی قربانیاں اور عزم اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کا قیام صرف سیاسی خواب نہیں بلکہ عملی جدو جہد اور خلوص کی بنیاد پر ممکن ہوا۔ یہ مخلص رہنما فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر ایک متحدہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم رہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا خواب سب مسلمانوں کا مشترکہ مقصد تھا۔
تحریک پاکستان کا ایک اہم نام علامہ ابن حسن جارچوی (1905-1973ء) برصغیر کی ایسی علمی و سیاسی شخصیت تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں فکری، خطیبانہ اور عملی سطح پر نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ ایک جید عالم، فلسفی، مصنف، خطیب اور بے باک سیاستدان تھے جنہوں نے نہ صرف قائد اعظم کے قریبی رفقا کتبِ رہ کر دو قومی نظریے کا دینی جواز پیش کیا بلکہ ایوب خان کی آمریت کے خلاف ڈٹ کر جمہوریت کی حمایت کی۔ انہوں نے تدریس، تصنیف اور مناظروں کے ذریعے ملتِ اسلامیہ خصوصاً شیعہ برادری کو فکری و عملی قوت بخشی اور اپنی زندگی اصول پسندی، درویشی اور علمی خدمات کے لیے وقف کی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے لے کر جدید شیعہ نصاب اور ادارہ جاتی اصلاحات تک ان کی خدمات تاریخ میں محفوظ ہیں۔
متعدد کتب کے مصنف اور شیعہ تھیالوجی کے پہلے پروفیسر کے طور پر وہ پاکستان کے علمی و سیاسی منظرنامے کے ایک فراموش مگر درخشندہ مجاہد قرار دیے جا سکتے ہیں۔ (استفادہ از مضمون ''علامہ ابن حسن جارچوی: تحریکِ پاکستان کا فراموش مجاہد'' تحریر: سید نثار علی ترمذی ۔ حوالہ: https://share.
وطن سے محبت اور قربانی کا جذبہ:
اسلام ہمیں وطن سے محبت اور اس کے دفاع کا درس دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مکہ کو چھوڑتے ہوئے اس کی محبت کا اظہار کیا۔ پاکستان ہم سب کا گھر ہے، اس کی حفاظت اور ترقی کے لیے قربانی دینا ہمارا فرض ہے۔ چاہے یہ قربانی جان کی ہو، وقت کی ہو یا ذاتی مفادات کی۔
قیامِ امام حسین علیہ السلام اور قیامِ پاکستان کا تقابلی جائزہ:
کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا قیام اصول اور حق کی حفاظت کے لیے تھا۔ انہوں نے یزید کے باطل نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اسلام کی اصل تعلیمات کو بچانے کے لیے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان قربان کر دی۔ قیامِ پاکستان میں بھی یہی اصول کار فرما تھے۔ ایمان، قربانی اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانا۔ لاکھوں مسلمانوں نے ہجرت کی، اپنی جانیں اور املاک قربان کیں تاکہ ایک آزاد اسلامی ریاست قائم ہو۔ دونوں تحریکیں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ نظریے کی حفاظت قربانی سے ہی ممکن ہے۔
آج کے دور میں ہماری ذمہ داریاں:
78 سال بعد بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم: نظریۂ پاکستان کی حفاظت کریں۔ فرقہ واریت اور انتشار سے بچیں۔ تعلیم، محنت اور اخلاق سے ملک کو ترقی دیں۔ امام حسین علیہ السلام کی طرح حق کے لیے کھڑے ہوں۔
آخری گزارش:
پاکستان ایک عظیم نعمت ہے جو بے شمار قربانیوں کے بعد ملی۔ شیعہ اور سنی سب نے مل کر اس وطن کے قیام اور بقاء کے لیے کردار ادا کیا۔ قیامِ پاکستان اور قیامِ امام حسین علیہ السلام دونوں ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ اصول، ایمان اور قربانی ہی کامیابی کا راستہ ہیں۔ آج ہمیں عہدی کرنا چاہیے کہ ہم اس وطن کو امن، انصاف اور ترقی کی مثال بنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امام حسین علیہ السلام پاکستان میں پاکستان کے پاکستان کا انہوں نے کی حفاظت کے قیام کا قیام کے لیے ہیں کہ اور اس
پڑھیں:
2025 میں غربت کی شرح میں مزید اضافے کا خطرہ ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(بزنس رپورٹر)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچوئلزفورم اورآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، ایف پی سی سی آئی کی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ نے پاکستان میں غربت میں مزید اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غلط پالیسیوں اورغیرپائیدار ترقیاتی ماڈل نے صورتحال کوبگاڑا ہے۔ عالمی بینک نے خبردارکیا ہے کہ غربت کی شرح جو 19-2018 میں 21.9 فیصد تھی بڑھ کر25۔ 2024 میں 25.3 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے، جس کے نتیجے میں مزید پونے دو کروڑ افراد غربت کا شکارہوجائیں گے۔میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معیشت ابھی تک بیرون ملک سے ترسیلات زراورمقامی مارکیٹ پر انحصار کرتی ہے، جو معیاری اور لوگوں کی ضرورت کے مطابق روزگارفراہم نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی 42.7 فیصد ابھرتی ہوئی مڈل کلاس مہنگائی، سیلاب اور معاشی عدم استحکام سے شدید خطرے میں ہے۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکارہیں اور 75 فیصد پرائمری سطح کی تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں، جس سے مستقبل کی افرادی قوت بنیادی تعلیم سے محروم ہورہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ دیہی علاقوں میں غربت شہری علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، اس لیے قومی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی وقت کی ضرورت ہے۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ کاروباری برادری قومی ترقی کے لیے پرعزم ہے انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کی عوام سینٹرک اصلاحات کی تجویز پر عمل درآمد ایک قومی فریضہ ہے اور قرضوں کے بہترانتظام، اخراجات میں توازن، صنعت و تجارت دوست پالیسیوں میں تیزی لانے کی ضرورت ہے تاکہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری بڑھے اورمعیاری روزگارکے مواقع پیدا ہوں۔میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ تعلیم، صحت، صاف پانی اورصفائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری غربت کوختم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے قلیل مدتی پالیسیوں سے خبردارکرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کوپائیدارمستقبل کے لئے انسانی ترقی اور سٹرکچرل اصلاحات پرتوجہ دینی ہوگی۔