آئندہ برس مون سون رواں سال سے 26 فیصد زیادہ شدید ہو گا: مصدق ملک
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
اسلام آباد (خبر نگار) وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک نے کہا ہے کہ آئندہ سال مون سون رواں سال سے 26 فیصد زیادہ شدید ہو گا۔ مصدق ملک اور چیئرمین این ڈی ایم اے نے پریس کانفرنس کی۔ مصدق ملک نے کہا کہ اگلے سال مون سون سیزن زیادہ شدت سے آئے گا۔ اور اگلے دو سو دن میں مربوط اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سیلاب میں جانی نقصانات سے بچاؤ ہماری سیاست کا محور ہونا چاہئے۔ اس سال سیلاب سے 31 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ ہمارا نکاسی کا نظام موجودہ موسمی شدت کا مقابلہ نہیں کر پا رہا ہے۔ طویل مدتی حکمت عملی کے تحت پانچ سال میں موسمیاتی مطابقت کا حامل انفراسٹرکچر تیار کرنا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: مصدق ملک
پڑھیں:
وزیراعظم کی آئندہ مون سون سے قبل ہنگامی تیاریاں مکمل کرنے کی ہدایت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے ہدایات دی ہیں کہ آئندہ برس مون سون سے قبل ملک میں پیشگی انتظامات ہر صورت مکمل ہونے چاہییں۔
وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے اہم اجلاس میں وزیراعظم کو موسمیاتی تبدیلی کے عالمی اشاروں، ممکنہ موسمی پیٹرنز اور وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے تیار کی گئی مختصر، درمیانی اور طویل مدتی منصوبہ بندی پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ عالمی تخمینوں کے مطابق آئندہ مون سون سیزن بھی معمول سے ہٹ کر ہو سکتا ہے، اسی لیے وزیراعظم نے پیشگی تیاری کو ناگزیر قرار دیا۔
اجلاس میں وزیراعظم نے قلیل مدتی منصوبے کی باضابطہ منظوری دیتے ہوئے اس پر فوری عملدرآمد کی ہدایات جاری کیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال مون سون کے دوران ملک کو جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر بروقت حفاظتی اقدامات نہ کیے جائیں تو صورتحال مزید سنگین ہوسکتی ہے۔
اسی تناظر میں وزیراعظم نے این ڈی ایم اے، وزارت منصوبہ بندی اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کو ہدایت کی کہ وہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ قریبی رابطہ رکھتے ہوئے ایک متحدہ اور جامع حکمتِ عملی تیار کریں۔
شہباز شریف نے نیشنل واٹر کونسل کا اجلاس جلد بلانے کی بھی ہدایت کی تاکہ ملک میں پانی کے بہتر انتظام، ممکنہ سیلابی صورتحال، دریاؤں کے بہاؤ اور ڈیموں کی حالت کا جائزہ لے کر بروقت فیصلے کیے جا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اب صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ براہ راست قومی معیشت، دفاعی حکمت عملی، زرعی پیداوار اور شہری زندگی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ہر 3 سال بعد جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ ان نقصانات کی تلافی پر خرچ ہو جاتا ہے جو کہ ملکی ترقی کی رفتار کو شدید متاثر کرتا ہے۔
وزیراعظم نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کا عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن اس کے باوجود ملک کو موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہ بڑے آلودگی پھیلانے والے ملکوں میں شامل ہیں اور نہ ہی دنیا کے بڑے صنعتی ممالک کی طرح بے تحاشہ وسائل رکھتے ہیں، تاہم اس کے باوجود پاکستان کو شدید ہیٹ ویوز، شدید بارشوں، سیلاب، خشک سالی اور زرعی نقصانات جیسے خطرناک رجحانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے متعلقہ اداروں کو سختی سے ہدایت کی کہ مون سون سے قبل نالوں کی صفائی، شہری نکاسی آب کے نظام کی بہتری، خطرے والے علاقوں کی نشاندہی، سیلابی پانی کی گزرگاہوں کی بحالی، اور ریلیف کے ممکنہ مراکز کی تیاری جیسے تمام اقدامات بروقت مکمل کیے جائیں۔ یہ تمام منصوبہ بندی صرف کاغذوں تک محدود نہ رہے بلکہ عملی پیش رفت واضح طور پر نظر آئے۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ موسمیاتی خطرات کو کم کرنے کے لیے مربوط، ڈیٹا پر مبنی اور سائنسی پلاننگ اہم ہے اور اس عمل میں وفاق اور صوبے دونوں کو مشترکہ ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر آج سے ہی مناسب تیاری کر لی جائے تو آئندہ مون سون میں جانی و مالی نقصان میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔