حضرت امام حسینؓ اور شہدائے کربلا کا چہلم عقیدت و احترام سے منایا گیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
لاہور+راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ+نامہ نگار +جنرل رپورٹر) لاہور سمیت ملک بھر میں حضرت سیدنا امام حسینؓ اور شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کا چہلم روایتی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔ ملک بھر سے علم اور ذوالجناح کے جلوس برآمد ہوئے جن میں نوحہ خوانی اور ماتم برپا کر کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ لاہور میں چہلم حضرت امام حسینؓ کے باعث سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔ عزاداری جلوسوں، مجالس اور عرس کی تقریبات کے لئے پنجاب پولیس ہائی الرٹ رہی۔ مجالس، عزاداری جلوسوں، عرس تقریبات کو بھرپور سکیورٹی انتظامات فراہم کئے گئے۔ چہلم حضرت امام حسینؓ کے موقع پر 644 مجالس منعقد، 392 عزاداری جلوس برآمد ہوئے جن کیلئے 37 ہزار سے زائد پولیس افسران اور اہلکار سکیورٹی پر تعینات تھے۔ ادھر کراچی میں چہلم امام حسینؓ کا مرکزی جلوس دن ایک بجے نشتر پارک سے برآمد ہوا۔ جلوس کی سکیورٹی کے لئے ایم اے جناح روڈ اور اطراف کی گلیوں کو کنٹینرز لگا کر بند کردیا گیا۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں موبائل فون سروس بند کردی گئی اور موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد رہی۔ پشاور میں چہلم کے سلسلے میں سہ پہر 3 بجے دو مرکزی جلوس برآمد ہوئے۔ جلوس ذوالجناح امام بارگاہ اخوندآباد محلہ نوبجوڑی کوہاٹی سے جبکہ دوسرا جلوس کوچہ رسالدار قصہ خوانی سے برآمد ہوا۔ کوئٹہ میں چہلم کا مرکزی جلوس مومن آباد امام بارگاہ علمدار روڈ سے برآمد ہوا جس میں 22 دستے شاملتھے۔ جلوس کی حفاظت کے لیے پولیس، بی سی اور ایف سی کی 5 ہزار نفری تعینات تھی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: میں چہلم
پڑھیں:
اسرائیل اور امریکہ گریٹر اسرائیل کے لئے عراق میں انتشار چاہتے ہیں، امام جمعہ بغداد
آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے مؤقف کا ذکر کرتے ہوئے امام جمعہ نے کہا کہ انہوں نے حکم دیا ہے کہ انتخابات میں شرکت ضروری ہے، یہ ذوق و شوق کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ایک ذمہ داری ہے جو ہر شہری کے کندھوں پر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عراقی دارالحکومت بغداد کے نماز جمعہ کے امام آیت اللہ سید یاسین الموسوی نے عراق میں افراتفری پھیلانے کی سازش کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ انہوں نے آئندہ پارلیمانی انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ان میں عراقی عوام کی بھرپور شرکت کو ملک اور خطے کے موجودہ حساس حالات میں ایک ناقابل تردید ضرورت قرار دیا۔ آیت اللہ سید یاسین الموسوی نے آئندہ پارلیمانی انتخابات اور ان میں عراقی عوام کی بھرپور شرکت کو ملک اور خطے کے موجودہ حساس حالات میں اہم اور ناقابل تردید ضرورت قرار دیا اور کہا کہ عراقی عوام کو چاہیے کہ وہ آئندہ انتخابات میں اتحاد اور یکجہتی کو نشانہ بنانے والے منصوبوں سے ملک کی حفاظت کریں۔
آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے مؤقف کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے حکم دیا ہے کہ انتخابات میں شرکت ضروری ہے، یہ ذوق و شوق کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ایک ذمہ داری ہے جو ہر شہری کے کندھوں پر ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ملک کو تباہی اور افراتفری کی طرف لے جانے کی سازش کی جاری ہے،ایسی سازش جس کو امریکہ اور اسرائیل گریٹر اسرائیل منصوبے کے فریم ورک میں کامیاب بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آیت اللہ سید علی سیستانی کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کے بارے میں حکم کی کوئی حقیقت نہیں،یہ الفاظ خالص جھوٹ اور بہتان ہیں، ان کا دفتر ہر ایک کے لیے کھلا ہے اور کوئی بھی براہ راست ان دعووں کی سچائی کی تصدیق کر سکتا ہے۔
الموسوی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ میں اپنے بیانات میں آزاد ہوں لیکن میں دینی فریضہ اور حاکمیت کی پیروی کرتا ہوں، مزید کہا کہ میں آیت اللہ سیستانی کی طرف کوئی لفظ منسوب نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود نہ کہیں۔ بغداد میں نماز جمعہ کے امام نے کہا کہ آیت اللہ سید علی سیستانی نے کبھی بھی لوگوں سے کسی مخصوص شخص یا تحریک کو ووٹ دینے کے لیے نہیں کہا ہے، بلکہ یہ کہ حتمی فیصلہ اور انتخاب ووٹرز کی ذمہ داری ہے اور اسے میرٹ اور پاکیزگی کے معیار کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے شہید سید ہاشم صفی الدین کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں ایک متقی، پرہیزگار اور بہادر شہید قرار دیا۔ بین الاقوامی تناظر میں، الموسوی نے ایران، سعودی عرب، مصر، کویت، لبنان، حتیٰ کہ قطر سمیت عراق اور پورے خطے کے خلاف خطرناک منصوبوں کے بارے میں خبردار کیا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ عراق اور ایران کو نقصان پہنچانے اور تہران کی حکومت کو سیکولر اور مذہب مخالف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی طرح حشد الشعبی اور سید علی سیستانی کی شخصیت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بعض مساجد میں پھیلنے والے "تعارف سلفیت کے منصوبے" کے خطرے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ رجحان امریکہ کے مقرر کردہ حکمران کی مطلق اطاعت کو فروغ دیتا ہے اور اتھارٹی اور مذہبی علماء کی نفی کرتا ہے، چاہے شیعہ ہوں یا سنی"۔ الموسوی نے اس منصوبے کو عراق اور خطے کو سابق حکومت کے زوال اور مذہبی تشخص اور حسینی روایات کے خاتمے سے پہلے کے دور کی طرف لوٹنے کی کوششوں کا تسلسل قرار دیا۔