شریکۃ الحسین، ثانی زہرا، صحیفۂ وفا، سفیر کربلا سیّدہ زینبؓ
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’سب سے افضل جہاد سُلطان جابر کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہے۔‘‘ عالم نسواں کو فخر ہے کہ سلطان جابر کے سامنے کلمۂ حق کہنے کے اس افضل ترین جہاد کی روایت نبی ﷺ کی بیٹیوں سے قائم ہوئی۔
جناب زینبؓ نے شہادت امام حسینؓ کے بعد بازار کوفہ، دربار کوفہ اور دربار یزید میں ابن زیاد اور یزید جیسے جابروں کے سامنے جس طرح کلمۂ حق بلند کیا ہے وہ انسان کی جرأت کردار کا معجزہ ہے۔ بازار کوفہ میں جناب زینبؓ کے خطبے کے بعد دوسری منزل وہ تھی جب اسرائے آل محمدؐ کوفہ کے گورنر ابن زیاد کے دربار میں لائے گئے۔ شہادت امام حسینؓ کے بعد ابن زیاد اپنی ظاہری فتح کے نشے میں چُور یہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے ظلم کے خلاف ہر آواز کو خاموش کردیا۔
ابن زیاد نے جناب زینبؓ کی طرف اشارہ کرکے پوچھا: ’’یہ کون ہے۔‘‘
آپؓ نے کوئی جواب نہ دیا، تیسری مرتبہ پوچھنے پر کسی طرف سے آواز آئی:
’’یہ زینب بنت فاطمہؓ بنت رسول خدا ﷺ ہیں۔‘‘
ابن زیاد نے فخریہ کہا: ’’خُدا کا شکر ہے جس نے تم لوگوں کو رُسوا کیا۔ تمہیں قتل کیا اور تمہارا جُھوٹ ظاہر کردیا۔‘‘
جناب زینبؓ نے جواب دیا: ’’حمد ہے اس خُدا کی جس نے ہم کو عزّت دی۔ محمد مصطفیٰ ﷺ کے ساتھ اور پاک و پاکیزہ قرار دیا۔ اس طرح جو حق ہے پاکیزہ قرار دینے کا نہ وہ کہ جو تُو کہتا ہے۔ رسوا وہ ہوتا ہے جو فاسق و فاجر ہو اور جُھوٹ اس کا کُھلتا جس کے پیش نظر سچائی نہ ہو اور وہ ہم نہیں بل کہ ہمارا وَغرُ ہے۔
باب مدینۃ العلمؓ کی بیٹی نے چند الفاظ میں قدرت کا یہ اٹل اصول بیان فرما دیا کہ رسوا کون ہوتا ہے اور جُھوٹ کس کا کُھلتا ہے۔
ظاہر ہے ابن زیاد کے لیے یہ جواب غیر متوقع ہی نہیں بل کہ ہوش اُڑا دینے والا تھا۔ بس گھبرا کر اپنی فتح کا دوسرا ثبوت دیتا ہے: ’’اے علیؓ کی بیٹی! تم نے دیکھا نہیں خدا نے تمہارے بھائی اور اس کے سرکش ساتھیوں کے ساتھ کیا کیا۔‘‘
بی بیؓ فوراً جواب دیتی ہیں: ’’ خُدا نے میرے بھائی کے ساتھ جو کیا اس میں میں نے خوبی ہی خوبی دیکھی۔ وہ خاصان خُدا تھے جن کے لیے درجۂ شہادت تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا اور وہ اپنے پیروں سے چل کر اپنی قربان گاہ کی طرف گئے اور وہ دن دُور نہیں جب درپیش خدا تیرا اور ان کا سامنا ہوگا اور تجھے اپنے کرتوت کی جواب دہی کرنا ہوگی۔‘‘ اور تاریخ گواہی دے رہی ہے کس کا ذکر بلند ہوا۔
کوفہ کے بعد اسرائے آل محمد ﷺ کو قیدی بناکر معروف راستوں اور مشہور شہروں سے ہوتے ہوئے ملوکیت کے مرکز دمشق لے جایا گیا۔ ظالموں نے یہ راستہ اس لیے منتخب کیا تھا کہ آل محمد ﷺ کو رُسوا کیا جائے۔ لیکن انسان اپنا مَکر کرتا ہے اور خدا کی اپنی مصلحت ہوتی ہے، یہی منصوبہ اہل بیتؓ کے پیغام کی تبلیغ اور واقعۂ کربلا کی اشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا۔ جہاں سے اسیروں کا قافلہ گزرا احتجاج ہوتے گئے۔
دمشق میں دربار یزید میں فتح کے جشن کا اہتمام کیا گیا۔ دربار میں چار سُو کرسی نشیں موجود تھے جن میں دوسرے ملکوں کے سفیر، اپنی حکومت کے امراء اور سرداران لشکر شامل تھے۔ اتنے میں قیدیوں کا قافلہ دربار میں داخل ہوا۔ یزید شراب کے نشے میں چُور تھا اور اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے: ’’ کاش میرے بدر کے مقتولین زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ دین محمدیؐ کے اعضاء کس طرح نیزوں میں گِھر گئے تو وہ خوش ہوکر مجھے دعائیں دیتے۔ بنی ہاشم نے حصول سلطنت کے لیے ایک کھیل کھیلا تھا۔ حقیقت میں نہ کوئی خبر آئی تھی نہ کوئی وحی نازل ہوئی تھی۔‘‘
پیشتر اس کے کہ یزید کے درباری اور گورنر بھی یہی زبان بولنے لگیں اور رفتہ رفتہ عوام کی بھی یہی سوچ بن جائے، رسول ﷺ کی نواسی نے اس سلسلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔
یہ بدر کے مقتولین کون تھے؟ عتبہ بن ربیع، شیبہ بن ربیع اور ولید بن عتبہ۔ اب کربلا کا راز کُھل کر سامنے آجاتا ہے۔ ایک طرف مقتولین بدر کا وارث ہے جو چاہتے تھے کہ جبر و استحصال کا قبائلی نظام باقی رہے۔ دوسری طرف اﷲ کے رسول ﷺ کی اولاد ہے جو انسان کو ان زنجیروں سے رہائی دلاکر معاشرے میں عدل و احسان اور انسانیت کے حقوق کے احترام کا پیغام زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور اسلام کی قدروں کا تحفظ چاہتے ہیں۔ خواہ کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ بی بیؓ حمد خدا اور رسول ﷺ پر درود و سلام کے بعد فرماتی ہیں:
’’ اے یزید! جب تُونے زمین و آسمان کو ہمارے لیے تنگ کردیا۔ ہم قیدیوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ پھرائے گئے تو کیا تُونے یہ سمجھ لیا کہ خدا نے ہمیں ذلیل اور تجھے بلند کیا۔ کیا تجھ کو یہ گمان ہے کہ جو کچھ ہوا وہ اس لیے کہ تُو پیش خدا منزلت رکھتا ہے۔ اسی لیے تُو خوش ہو ہو کر اپنے دائیں بائیں دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا تیرے موافق ہوگئی۔ تیری سب مرادیں پوری ہوگئیں۔ کیا تُو بھول گیا خدا کا یہ فرمان: ’’ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ ہرگز یہ خیال نہ کریں اور ہم نے جو انہیں فارغ البالی دی ہے وہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ ہم نے مہلت صرف اس لیے دی ہے کہ وہ خوب گناہ کرلیں آخر ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (سورہ آلعمران)
بی بی ؓ کا خطاب آگے بڑھتا ہے آپ فرماتی ہیں:
’’اے فرزند طلقاء! کیا اسلام یہی ہے کہ تُونے اپنی بیٹیوں اور کنیزوں کو تو پردے میں رکھا اور رسول خدا ﷺ کی بیٹیوں کو مثل قیدیوں کے لوگوں کے تماشے کے لیے سربازار پھراتا ہے۔ ان کی آوازوں کو گلے میں گھونٹتا ہے اور ان کو سر برہنہ اونٹوں کی پشت پر دشمنوں کی نگرانی میں ایک شہر سے دوسرے شہر تشہیر کراتا ہے۔‘‘
اس لفظ طلقاء میں عجیب کاٹ ہے۔ بی بیؓ یزید کو اس کے بزرگوں کا ماضی یاد دلاتی ہیں کہ تُو ان کا فرزند ہے جو اپنی حرکتوں کی وجہ سے غلام بنائے جانے کے لائق تھے لیکن جنہیں ہمارے جد محمد ﷺ کی رحمت نے آزاد کردیا۔
پھر بی بیؓ فرماتی ہیں: ’’جن کے بزرگوں نے شہداء کے کلیجے چبائے ہوں، جن کا گوشت اور پوست شہداء کے خون سے بنا ہو، جنہوں نے رسول خدا ﷺ کے خلاف احزاب کیے ہوں، اس سے اس کے علاوہ کیا امید کی جاسکتی ہے جو تُونے ہمارے ساتھ کیا۔
خطبہ آگے بڑھتا ہے: ’’اگرچہ حوادث روزگار نے مجھے تجھ سے کلام کرنے پر مجبور کردیا ہے لیکن مجھے تیری کچھ پروا نہیں۔ تجھے اتنا حقیر سمجھتی ہوں کہ تیری سرزنش بھی مجھ پر گراں ہے لیکن کیا کروں، دل میں آگ لگی ہوئی ہے۔‘‘
اور پھر سچّے نبیؐ کی سچّی بیٹی ایک پیشن گوئی فرماتی ہیں:
’’اے یزید! جہاں تک ہوسکے اپنی تدابیر اور کوشش کرلے۔ خُدا کی قسم تو ہمارے ذکر کو محو نہیں کرسکتا اور اس وحی کو مُردہ نہیں کرسکتا جو ہمارے گھر میں اتری۔‘‘
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فرماتی ہیں ابن زیاد رسول ﷺ کے بعد ہے اور کے لیے اور اس
پڑھیں: