موضوع: حضرت زینب ّمعاصر دنیا کی رول ماڈل کیوں اور کیسے
اشاعت کی تاریخ: 31st, October 2025 GMT
دین و دنیا پروگرام اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ پر ہر جمعہ نشر کیا جاتا ہے، اس پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو خصوصاً امام و رہبر کی نگاہ سے، مختلف ماہرین کے ساتھ گفتگو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کا انتظار رہتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار  پروگرام دین و دنیا
 موضوع: حضرت زینب ّمعاصر دنیا کی رول ماڈل کیوں اور کیسے
 مہمان: حجہ الاسلام و المسلمین عون حیدر علوی
 میزبان: محمد سبطین علوی
 پیشکش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
  
 موضوعات گفتگو:
 ????حضرت زینب کی عظمت اور فضیلت کا اصل سبب کیا ہے، اور کیا یہ صرف نسبی تعلقات پر منحصر ہے؟
 ????حضرت زینب کبریٰ کو "حسینِ ّدوم" کیوں کہا گیا، اور یہ تصور اس عظیم الہٰی قیام میں ان کے مرکزی کردار کو کیسے واضح کرتا ہے؟
 ????آج کے دور کی خواتین کے لیے، حضرت زینب کبریٰ کیسے ایک مثالی رول ماڈل ہیں۔
 خلاصہ گفتگو:
 حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی عظمت صرف نسبی تعلق پر نہیں بلکہ ان کی ایمان، بصیرت اور جہاد کی بنیاد پر قائم ہے۔ وہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے امام حسینؑ کے قیام کو جاودان بنا دیا۔ کربلا کے بعد جب ظاہری طور پر سب کچھ ختم ہوتا نظر آیا، تو حضرت زینبؑ نے اپنی خطابت، صبر اور شعور سے دشمن کے دربار میں حق کو زندہ کیا۔ اسی لیے انہیں "حسینِ دوم" کہا گیا، کیونکہ امام حسینؑ نے تلوار سے اور زینبؑ نے زبان سے وہی مشن جاری رکھا۔ آیت اللہ خامنہای کے بقول، اگر زینبؑ نہ ہوتیں تو عاشورا ایک دن کی تاریخ بن کر رہ جاتا۔ آج کی خواتین کے لیے زینبؑ ایک کامل رول ماڈل ہیں — باحیا، باشعور اور بااستقامت عورت جو معاشرے کی اصلاح اور دین کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ زینبؑ کا پیغام ہے کہ ایمان، علم اور حیا کو یکجا رکھ کر ہی عورت کربلا کی وارث بن سکتی ہے۔
   
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
افغان طالبان تشدد کو ’بزنس ماڈل‘ کے طور پر استعمال کررہے ہیں, بریگیڈیئر (ر) راشد ولی
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور سینیئر دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) راشد ولی نے کہا ہے کہ طالبان اب تشدد کو ایک ’بزنس ماڈل‘ کے طور پر استعمال کررہے ہیں تاکہ دنیا سے مالی امداد حاصل کریں۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان کو ہر ہفتے 70 ملین ڈالرز کی امداد دی گئی، مگر یہ رقوم عوام کی فلاح کے بجائے دہشتگرد سرگرمیوں میں صرف ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان پاکستان کے خلاف غیر ریاستی عناصر کو بطور دباؤ استعمال کر رہے ہیں۔ بارڈر کراسنگ اور اسمگلنگ کو وہ تجارت کا نام دیتے ہیں تاکہ اپنی معیشت کو سہارا دے سکیں۔ پاکستان کی افواج نے 1500 سے زائد کراسنگ پوائنٹس کو محفوظ کیا ہوا ہے، مگر افغان سائیڈ پر کوئی کنٹرول نہیں۔
پاکستان اور افغانستان کی موجودہ کشیدہ صورتحال کے حوالے سے بریگیڈیئر (ر) راشد ولی کہتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا اضطراب بجا ہے کیونکہ جب روز اپنے جوانوں کے جنازے اٹھانے پڑیں تو صبر اور برداشت کی حد تمام ہوجاتی ہے۔
ان کے مطابق افغانستان کی موجودہ حکومت ایک سخت گیر اور ناتجربہ کار سوچ رکھتی ہے، جس کے پاس ریاستی حکمت عملی یا سفارتکاری کی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ پاکستان نے ان کے ساتھ مثبت سفارتی روابط کی ہر ممکن کوشش کی، مگر انہوں نے دہشتگرد گروہوں جیسے ٹی ٹی پی، داعش اور دیگر کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔
راشد ولی نے کہا کہ افغانستان کی معیشت کمزور ہے، وہاں کی 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور صحت کے شعبے میں ایمرجنسی کی کیفیت ہے۔ پاکستان جب دباؤ ڈالنے کے لیے بارڈر بند کرتا ہے تو افغان عوام سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں، مگر طالبان حکومت اپنی روش نہیں بدلتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترکیہ اس عمل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن طالبان کے اندرونی اختلافات، خاص طور پر کابل اور قندھاری دھڑوں کی تقسیم، کسی اتفاق رائے کو ممکن نہیں بننے دے رہی۔ طالبان ٹی ٹی پی پر قابو پانے کو اپنی نظریاتی موت سمجھتے ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) راشد ولی نے ممکنہ سیکیورٹی منظرناموں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان کو شکست ہوئی تو کابل میں ایک نئی مخلوط حکومت قائم ہوسکتی ہے جس میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی ہو لیکن اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کرنے پڑیں گے کیونکہ طالبان کے پاس روایتی فوجی ڈھانچہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس کی طاقت موجود ہے جس کے ذریعے اہداف کو درست نشانہ بنایا جاسکتا ہے، مگر کسی بھی کارروائی میں شہری آبادی کے نقصان سے بچنا ہوگا۔
اندرونی صورتحال پر بات کرتے ہوئے راشد ولی نے کہا کہ پاکستان کے اندر انتہا پسندی ایک سنگین خطرہ ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ایک مذہبی شدت پسند گروہ پر پابندی خوش آئند قدم ہے۔ ان کے مطابق ایسے گروہوں کو جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے جو مذہب کے نام پر تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد ناگزیر ہے، ورنہ یہ شدت پسندی کا عفریت دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشی مسائل، بے روزگاری، ناخواندگی اور محرومی نے ایک زہریلا ماحول پیدا کردیا ہے، جس میں انتہا پسندی کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ اگر مذہب کے نام پر لوگوں کو بھڑکایا گیا تو حالات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ مساجد اور مدارس کے نظام کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے، جیسے سعودی عرب، ترکیہ اور ملائیشیا میں ہوتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی پر بات کرتے ہوئے راشد ولی نے کہا کہ پاکستان میں منصوبے تو بہت بن جاتے ہیں، مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ گورننس کا اصل مطلب ہی عملدرآمد ہے۔ اگر قانون پر عمل نہ ہو تو کوئی بھی شہر یا ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے رول آف لا اور قانون کے نفاذ کے نظام میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے پیش نظر پاکستان کو ہر وقت چوکس رہنا ہوگا۔ بھارتی حکومت داخلی سیاسی مقاصد کے لیے سرحدی شرارتیں کرسکتی ہے، مگر پاکستان کو ہوشیاری سے سفارتی محاذ پر سرگرم رہنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
 مودی اڈانی گٹھ جوڑ نے بھارت کو کرپشن کی دلدل میں دھکیل دیا، واشنگٹن پوسٹ کا انکشاف
مودی اڈانی گٹھ جوڑ نے بھارت کو کرپشن کی دلدل میں دھکیل دیا، واشنگٹن پوسٹ کا انکشاف