Express News:
2025-07-05@03:12:15 GMT

قیامِ امام حسین عالی مقامؓ

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

 رب کائنات کا حکم ہے کہ نماز میں زینت اختیار کرو۔ حضرت امام عالی مقام حسینؓ اپنے تمام خوب صورت رشتوں کے ہم راہ خود کو مزّین کیے، اپنے جد ِ امجد ابراھیمؑ کی طرح قربانی کے لیے میدانِ کربلا میں حاضر تھے۔ زینت کا یہ انداز فرشتوں کو بھی حیران کرگیا۔ جنّت کے شہزادے کی سج دھج ایسی ہی متوقع تھی۔ صراط ِ مستقیم کے راہی اسی شان کے ہوتے ہیں۔

اقامۃ الصلوٰۃ یعنی نماز کا قائم کرنا یہ ہے کہ آپ اﷲ کی حاکمیت کو اپنی زندگی کے نظریاتی اور عملی گوشوں میں نافذ کریں۔ جب آپ معاشرے، معاش اور خاندان سے کٹتے ہوئے ہر اذان پر اﷲ کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں، تو گویا آپ اعلان کر دیتے ہیں کہ اگر ان تینوں میں سے کسی اکائی نے مجھے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے اصول و ضوابط کے برعکس دیگر اصالیب کی طرف مائل کیا تو میں ان سب اکائیوں کے برعکس اﷲ کے ساتھ کھڑا ہو جاؤں گا۔ حضرت امام حسینؓ نے یزید کے مقابلے میں اقامۃ الصلوٰۃ کا بالکل یہی اسلوب اختیار کیا اور اپنے نانا رسول کریم ﷺ کی طرح اپنے رب کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔

خالص نظریات سے وضو کے بعد حضرت حسینؓ کو اقامۃ الصلوٰۃ کا فریضہ ادا کرنا تھا، جس کے متعلق، آپ ﷺ نے انہیں ان کی شہادت سے پہلے، خواب میں تلقین کی تھی۔ ابلیس اور اس کے حواری یزید نے آپ ؓ کو اس اقامۃ الصلوٰۃ ، سے باز رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ مسلسل مصیبتوں کے بعد آپ ؓ نے اقامۃ الصلوٰۃ کی آخری ادا کو سرانجام دیا۔ نماز سر پھیرنے پر تحلیل ہوتی ہے، لیکن کربلا میں اقامۃ الصلوٰۃ کا عمل سر کٹنے پر تمام ہوتا ہے۔

آپؓ نے اپنے جد ِ امجد حضرت ابراھیمؑ کی طرح آگ و خون کے دریا میں کود کر نماز ِ عشق کی ادائی میں حضرت ابراھیمؑ سے نسبت پائی۔ جب کہ یزید نے اقامۃ الصلوٰۃ سے بغاوت کرکے ابلیس اور نمرود سے رشتہ جوڑا۔ ابلیس نے بھی سجدے سے انکار کرکے ثابت کیا تھا کہ اس نے اپنی نماز کو اپنے نظریات اور عملی گوشوں پر قائم نہیں کیا۔ یزید نے بھی اپنی خواہش پرستی اور شیطانیت کے بدلے میں اقامۃ الصلوٰۃ کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ یوں ابلیس و یزید ہم جماعت ہوگئے۔

حضرت امام حسینؓ بھی مسلمان تھے اور یزید ملعون بھی خود کو مسلمان ہی کہتا تھا، مگر اقامۃ الصلوٰۃ میں حضرت امام حسینؓ، یزید پر ہر طرح سے بازی لے گئے اور نظریات و اعمال میں، اﷲ کی حاکمیت ِ اعلی کی عمل داری کو درجۂ کمال تک پہنچا گئے۔ یزید نے آمریت کی راہ اپنائی اور اپنی معاشرتی زندگی میں، اﷲ کی حاکمیت کی تسلیم کو چھوڑ کر اپنی مرضی کی راہ کو پسند و مسلط کیا۔ اور معاشرے کے ہم خیال لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملالیا۔

نماز کو قائم کرتے ہوئے انسان معاشرتی، معاشی اور خاندانی زندگی کا ہی کوئی عمل کررہا ہوتا ہے لیکن نظریاتی اور عملی گوشوں میں اقامۃ الصلوٰۃ کے اس عمل کے دوران اﷲ کی موجودی کا احساس اور اﷲ سے ڈرتے ہوئے اخروی ثواب و لذت سے آشنائی کا احساس اتنا متاثرکن ہوتا ہے کہ اﷲ کے نزدیک بھی اس دوران، بہ ظاہر دنیاوی عمل گویا نماز ہی بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالی نے قرآن ِ مجید میں نماز کے قائم کرنے کے متعلق احکامات نازل فرمائے ہیں۔

امام حسینؓ کے پاس ایک اختیار یہ بھی تو تھا کہ وہ یزید کی بات کو مان لیتے اور اپنی اور اپنے خاندان والوں کی زندگی کی ضمانت پاتے۔ مگر نماز ِ عشق کی قضا تو کسی صورت نہیں ہوتی۔ اور پھر امام حسینؓ کا یہ مقام ہی نہیں تھا کہ یہ نماز قضا چلی جاتی۔ ایسا ہونے پر، اﷲ کی حاکمیت کے مقابلے میں شیطانیت اور آمریت بہ ظاہر جیت جاتی۔ ایسا کوئی عمل امام حسین ؓ کے شایان بھلا کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔ ؟

حضرت امام حسینؓ، انسانی زندگی میں حاکمیت ِ اعلی کی عمل داری کے نظریے پر کس قدر کاربند تھے، اس کا اندازہ آپ ؓ کے اس خط کے متن کے مختصر حوالے سے لگایا جاسکتا ہے جو، امام حسین ؓ نے اپنی شہادت سے پہلے، اہل ِ بصرہ کی طرف بھیجا تھا کہ: ’’آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ رسول ﷺ کی سنت مٹ رہی ہے اور بدعات پھیلائی جا رہی ہیں، میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ اﷲ کی کتاب اور سنت ِ رسول ﷺ کی حفاظت کرو اور ان کے احکام کی تنفید کے لیے کوشش کرو۔‘‘

آپؓ کے سارے ساتھی بھی محض بے کسی، بے بسی اور بہ امر مجبوری آپؓ کے ہم راہ نہیں تھے، بل کہ وہ پورے شعوری احساس اور بیداری کے ساتھ اپنی جانیں ہتھیلی پر لیے اﷲ کے لیے، میدان ِ کربلا میں آپ ؓ کے ساتھ موجود تھے۔

اقامۃ الصلوٰۃ کے حسینی انداز کی جس قدر ضرورت آج ہے شاید ہی کبھی رہی ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی نماز کو اپنے نظریاتی اور عملی گوشوں میں قائم کریں ورنہ تو یزید بھی خود کو مسلمان ہی کہتا تھا۔ اگر اقامۃ الصلوٰۃ کی صورت، اﷲ کی حاکمیت کی عمل داری ہمارے نظریات و اعمال میں موج زن نہیں تو ہمیں اپنے نظریات اور اعمال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔ تفسیر ِکربلا ہمیں اقامۃ الصلوٰۃ کے حسینی انداز کا یہی عظیم درس دے رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

انصاران امام حسین علیہ السلام کا تعارف

اسلام ٹائمز: سعید بن عبداللہ حنفیؒ کی زندگی وفا، قربانی، بصیرت، اخلاص اور امام شناسی کا ایسا روشن نمونہ ہے جو ہر زمانے میں پیروکاران امام علیہ السلام کے لیے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے صرف زبان سے نہیں، عمل سے وفاداری کو ثابت کیا۔ آج بھی ان کا کردار ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر امام وقت کو نصرت کی ضرورت ہو، تو سفر، مشقت، جان و مال سب کچھ امام کی راہ میں قربان کرنا ہی سچے شیعہ ہونے کی پہچان ہے۔ تحریر و تحقیق: ڈاکٹر سید سارا کاظمی

سعید بن عبداللہ حنفیؒ، کربلا کے جاں نثار سپاہی

تعارف:
سعید بن عبداللہ حنفیؒ، واقعۂ کربلا کے عظیم ترین وفادار انصار امام حسین علیہ السلام میں سے ایک تھے۔ وہ قبیلہ بنی حنیفہ سے تعلق رکھتے تھے اور کوفہ کے شیعہ اصحاب میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ دین، بصیرت اور امام شناسی کے میدان میں ان کی گہری معرفت نے انہیں امام حسینؑ کے قریبی اصحاب میں شامل کیا۔ ان کا شمار ان ممتاز افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے امام حسینؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دینے میں عملی کردار ادا کیا، اور پھر ان کے ساتھ مکہ سے کربلا تک کا سفر طے کیا۔

حضرت مسلم بن عقیلؑ کے وفادار ساتھی:
سعید بن عبداللہ حنفیؒ ان ابتدائی افراد میں شامل تھے جنہوں نے حضرت مسلم بن عقیلؑ کے ساتھ کوفہ میں امام حسینؑ کی نمائندگی کے لیے قربت اختیار کی۔ انہوں نے مسلمؑ کے ساتھ لوگوں سے بیعت لینا، انہیں امام کے مقصد سے آگاہ کرنا اور تحریکِ حسینیؑ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کسی بھی موقع پر مسلم ع کو تنہا نہیں چھوڑا ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ یہی وفاداری کا تسلسل بعد میں امام حسینؑ کے لیے ان کی قربانی میں بھی نظر آتا ہے۔

مکہ و کوفہ کے درمیان خط رسانی:
جب کوفہ کے شیعہ امام حسینؑ کو خطوط لکھ کر بلاتے تھے تو ان خطوط کو بھروسا مند اور وفادار افراد کے ذریعے امام تک پہنچایا جاتا تھا۔ ان میں سعید بن عبداللہ حنفیؒ کا کردار نمایاں تھا۔ ذیل میں چند اہم نکات بیان کیے جا رہے ہیں:

خط رسانی کا پہلا سفر:
جب امام حسینؑ مدینہ سے مکہ تشریف لائے، تب کوفہ سے ہزاروں خطوط آئے۔ ان میں بعض خطوط سعید بن عبداللہ کے ہاتھوں امام کو پہنچائے گئے۔ بعض مورخین کے مطابق وہ مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفہ کے حالات سے مسلسل امام کو باخبر رکھتے تھے۔

بار بار سفر کی روایت:
روایات کے مطابق وہ 3 یا 4 مرتبہ کوفہ اور مکہ کے درمیان سفر کر چکے تھے:
● ایک بار کوفی شیعوں کے خطوط کے ساتھ۔
● ایک بار مسلم بن عقیلؑ کا خط لے کر امام حسینؑ کی خدمت میں مکہ پہنچے۔
● ایک بار امام کے خط کو لے کر مسلم بن عقیل تک واپس پہنچے۔
بعض روایات کے مطابق انہوں نے آخری مرتبہ امام سے مکہ میں ملاقات کی اور پھر امام کے ہمراہ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔

مکہ سے امام کے قافلے کے ہمراہ روانگی:
جب امام حسینؑ نے 8 ذوالحجہ کو مکہ سے کوفہ کی جانب روانگی کا ارادہ فرمایا، تو سعید بن عبداللہ بھی اُن منتخب اصحاب میں شامل تھے جو امام علیہ السلام کے قافلے کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ تاہم راستے میں جب کوفہ والوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم بن عقیلؑ کی شہادت کی خبر پہنچی، تو امام حسینؑ نے کوفہ کے بجائے کربلا کی طرف رخ فرمایا، اور سعید بن عبداللہ بھی امام کے ساتھ کربلا پہنچے۔

کربلا میں فدائیت اور کردار:
جب امام حسینؑ کربلا میں پہنچے، تو سعید بن عبداللہؒ ہر مرحلے پر ان کے ساتھ رہے۔ روز عاشور، جب امام حسینؑ نے نماز ظہر باجماعت ادا کرنا چاہی، تو دشمن نے تیروں سے حملہ کر دیا۔ سعید بن عبداللہؒ نے فوراً امام کے سامنے آ کر اپنے جسم کو ڈھال بنا لیا اور اس وقت تک کھڑے رہے جب تک ان کا جسم تیر و نیزے سے چھلنی نہ ہوگیا۔

مؤرخین لکھتے ہیں:
انہوں نے اتنے تیر اپنے بدن پر سہے کہ زمین پر گرنے سے پہلے ان کا بدن تیر و تلواروں سے چھلنی ہو چکا تھا، مگر ان کے ہونٹوں پر امام حسینؑ کے لیے دعائے خیر تھی۔ 

فدائی خدمت کے لیے سبقت:
بعض روایات کے مطابق، جب دیگر اصحاب نے بھی امام کی حفاظت کے لیے آگے بڑھنے کی خواہش ظاہر کی، تو سعید بن عبداللہؒ نے کہا کہ یہ خدمت میں انجام دوں گا، کیونکہ میں نے سفر کیے ہیں، خط اٹھائے ہیں، اس وقت کے لیے خود کو تیار کیا ہے، اور یہ فریضہ میرا ہے۔ اگرچہ یہ الفاظ مستند کتب میں بعینہٖ محفوظ نہیں، تاہم ان کے عمل اور حالات سے یہ مفہوم واضح طور پر جھلکتا ہے کہ یہ فدائی اقدام انہوں نے خود اختیار کیا اور امام پر جان نچھاور کر دی۔

سعید بن عبداللہؒ کے الفاظ، وفاداری کی انتہا:
شب عاشور امام حسینؑ سے گفتگو:

جب رات کی تاریکی چھا گئی تو امام حسینؑ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا: جس میں بعد از حمد و ثنائے رب جلیل کے امام نے فرمایا۔  میں کسی کے اصحاب کو اپنے اصحاب سے زیادہ نیک اور اپنے اہل بیت سے زیادہ اچھا کسی کے اہل بیتؑ کو نہیں جانتا۔ خدا تم سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ یہ رات کا سناٹا ہے، اس کو غنیمت جانو اور تم میں سے ہر ایک میری اہل بیتؑ کے مردوں میں سے ایک ایک کو اپنے ہمراہ لے کر چلے جاؤ اور مجھے اس لشکر کے پاس اپنے حال پر چھوڑ دو کیونکہ انہیں میرے سوا کسی اور سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہ خطبہ سننے کے بعد امام حسینؑ کے بھائیوں، اولاد عبداللہ ابن جعفر ،مسلم بن عقیل  سب نے امام علیہ السلام سے وفاداری کا عہد کیا اور جانے سے انکار کر دیا۔

اصحاب میں سب سے پہلے مسلم بن عوسجہ کھڑے ہوئے انہوں نے اپنی وفاداری کا عہد کیا اور جانے سے انکار کر دیا۔ ان کے بعد سعید بن عبد اللہ حنفی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اے فرزند پیغمبر خداؑ کی قسم ہم آپ کو کبھی تنہا نہ چھوڑیں گے تا کہ خدا یہ جان لے کہ ہم نے آپ کے بارے میں جو رسول خداؐ کی وصیت سنی تھی اسے یاد رکھا، اور اگر میں یہ جان لوں کہ آپ کی راہ میں مجھے قتل کیا جائے گا اور پھر زندہ کیا جائے اور پھر زندہ جلا دیا جائے گا اور یہاں تک کہ مجھے اسی طرح ستر (۷۰) مرتبہ ہی کیوں نہ جلا دیا جائے۔ پھر بھی میں آپ سے جدا نہ ہوں گا اور اپنی جان آپ سے پہلے قربان کروں گا۔ اور کیوں نہ آپ کے لئے جان نثار کروں، جب کہ ایک مرتبہ مرنا تو ہے ہی اور اس کے بعد ابدی عزت و سعادت ہے۔ 

نماز ظہر کے وقت جملہ (روز عاشور):
جب روز عاشور امام حسینؑ نے نماز ظہر باجماعت ادا کرنا چاہی تو دشمن نے تیر برسانا شروع کیا۔ سعید بن عبداللہ امام کے سامنے ڈھال بن گئے۔ اس وقت، زخمی ہونے کے باوجود ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے: اللهم العنهم لعن عاد وثمود! اللهم أبلغ نبيك عني السلام، وأبلغه ما لقيت من ألم الجراح، فإني أردت بذلك نصرة ذرية نبيك۔ "اے اللہ! ان (دشمنوں) پر عاد اور ثمود کی لعنت کی طرح لعنت نازل فرما۔ اے اللہ! اپنے نبیؐ کو میری طرف سے سلام پہنچا دے، اور یہ بھی بتا دے کہ میں نے کیسے تیر و تلوار کے زخم برداشت کیے، کیونکہ میں نے یہ سب تیرے نبیؐ کی ذریت کی نصرت کے لیے کیا ہے۔"

شہادت:
نماز کے دوران اور بعد میں جب سعید بن عبداللہ کا جسم تیروں اور تلواروں سے شدید زخمی ہو کر  زمین پر گرنے لگا تو آپ نے امام علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اوفیت یابن رسول اللہؑ"۔ یابن رسول اللہ! کیا میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا؟ امام علیہ السلام نے ان کے سرہانے آکر فرمایا: "نعم، أنت أمامي في الجنة"۔ ہاں، تم میرے آگے جنت میں ہو۔

زیارتِ ناحیہ مقدسہ میں سعید بن عبداللہ حنفی القاری کا مقام:
امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ شریف نے زیارتِ ناحیہ مقدسہ میں ان پر خاص سلام بھیجا۔ "السلام على سعد بن عبد الله الحنفي، القارئ للكتاب، المجاهد في المحارب، المحامي عن الولي، التالي للسهم و الرماح بجسده، حين أقام الصلاة." سلام ہو سعید بن عبداللہ حنفیؒ پر، جو قرآن کے قاری، میدانِ جنگ کے مجاہد، ولی خدا (امام حسینؑ) کے محافظ، اور اپنے جسم سے نیزے و تیروں کو روکنے والے تھے، جب امام نے نماز قائم کی۔

سعید بن عبداللہ حنفیؒ کی زندگی وفا، قربانی، بصیرت، اخلاص اور امام شناسی کا ایسا روشن نمونہ ہے جو ہر زمانے میں پیروکاران امام علیہ السلام کے لیے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے صرف زبان سے نہیں، عمل سے وفاداری کو ثابت کیا۔ آج بھی ان کا کردار ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر امام وقت کو نصرت کی ضرورت ہو، تو سفر، مشقت، جان و مال سب کچھ امام کی راہ میں قربان کرنا ہی سچے شیعہ ہونے کی پہچان ہے۔

حوالہ جات:
↳ شیخ مفید، الإرشاد،
↳ ابن شہر آشوب، مناقب آل أبي طالب، 
↳ طبری، تاریخ الأمم والملوك، 
↳ شیخ عباس قمی، نفس المهموم، 
↳ شیخ طبرسی، إعلام الورى،
↳ مقتل لھوف سید ابن طاوس
↳ حدیث کربلا علامہ طالب جوہری
↳ مقتل خوارزمی، 
↳ بحار الأنوار، علامہ مجلسی،
↳ زیارت ناحیہ مقدسہ، مفاتیح الجنان

متعلقہ مضامین

  • ہیرو آف کربلا
  • کربلا میں خواتین کا بے نظیر کردار
  • چشم فلک تُو دیکھ، ہے زندہ حسینیت ؛ پیکرِ تسلیم و رضا، محافظ حُرمت اسلام امام حسینؓ
  • مقامِ شہادت
  • کراچی میں 9ویں محرم الحرام کا مرکزی جلوس نشتر پارک سے برآمد ہوگا
  • کراچی، سادات امروہہ کے تحت 8 محرم کا جلوس نشتر پارک سے برآمد ہوکر مقررہ مقام پر اختتام پذیر
  • امام حسینؑ مولانا مودودیؒ کی نظر میں
  • شہادتِ امام حسینؓ کا پیغام
  • انصاران امام حسین علیہ السلام کا تعارف