موبائل فون سروس ملک کے کن شہروں میں بند؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
ویب ڈیسک: پشاور میں نویں محرم الحرام کی سکیورٹی کے پیش نظرموبائل فون سروس کی جزوی بندش ہے۔
پشاور کے علاقے صدرمیں ماتمی جلوس کے اردگرد کے علاقوں میں سروس معطل رہے گی،محرم الحرام کے دوران سکیورٹی اقدامات کے تحت پشاور میں 9 اور 10 محرم کو موبائل فون سروس بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
موبائل فون سروس 8 محرم الحرام جمعہ نماز کے بعد بند کر دی گئی تھی۔حکام کے مطابق سکیورٹی ادارے ڈرون کیمروں، سی سی ٹی وی اور دیگر ٹیکنالوجی سے جلوسوں کی نگرانی بھی کریں گے۔
شمالی علاقہ جات میں سیلابی صورتحال کا الرٹ جاری
پولیس کے مطابق یہ اقدام حساس علاقوں میں نگرانی بہتر بنانے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کیلئے کیا گیا ہے۔
گزشتہ روز سکیورٹی خدشات کے پیش نظر سکھر اور گردونواح میں موبائل سروس جزوی طور پر بند کردی گئی ، 8 اور 9 محرم کے روز روہڑی میں موبائل سروس مکمل طور پر جبکہ نواحی علاقوں میں جزوی طور پر بند رہے گی.
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 10 محرم کے روز ضلع بھر میں موبائل سروس مکمل طور پر بند رہے گی.
سکھر ؛ موبائل سروس بند
علاوہ ازیں شیخوپورہ ،گجرانوالہ،نارووال ،گجرات ،منڈی بہاوالدین اور وزیر آباد سمیت 23 اضلاع میں متعین کردہ مختلف اوقات کے دوران موبائیل و انٹرنیٹ سروس بند رہیں گی۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: موبائل فون سروس
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔