قم القمدس، حرم سیدہ بی بی معصومہ فاطمہ سلام اللہ علیھا میں ماتمی دستوں کی پرسہ داری
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
ایران کے مختلف شہروں سے ماتمی دستوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس شہر قم میں حرم حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا میں حاضری دی اور پرسہ دیا۔ اسلام ٹائمز۔ سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے قیام اور مظلومانہ شہادت کی یاد اور سوگ میں پوری دنیا میں مجالس عزا اور جلوس ہائے عزاداری منعقد ہو رہے ہیں۔ نویں اور دسویں محرم کو ایران کے مختلف شہروں سے ماتمی دستوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس شہر قم میں روضہ حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا میں حاضری دی۔ حرم کی فضا یاحسینؑ یاحسینؑ کی صداوں سے گونجتی رہی۔ دن رات عزاداران امام حسینؑ دستوں کی صورت میں حضرت معصومہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سلام کی خدمت میں حاضر ہو کر نوحہ خوانی، ماتم و عزاداری کے مراسم انجام دے رہے ہیں اور پرسہ دے رہے ہیں۔ ماتمی دستوں میں لبیک یا حسینؑ اور یاابوالفضل العباسؑ کے بڑھے بڑھے علم اٹھا رکھے ہیں اور مردہ بار امریکہ اور مردہ اسرائیل کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ شعر خوانی اور نعروں کے ذریعے عزاداروں نے یزیدان وقت امریکہ، اسرائیل اور ظالم یورپی طاقتوں کیخلاف اپنا جہاد رکھنے اور فرزند امام حسین علیہ السلام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کیساتھ وفاداری کا اظہار کیا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ماتمی دستوں ایران کے رہے ہیں
پڑھیں:
کربلا میں خواتین کا بے نظیر کردار
اﷲ تعالی نے عورت کو عزت و احترام کا وہ بلند مقام بخشا جو اس کی اصل اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ عورت وہ افضل و برتر وجود ہے جو خود اور پورے معاشرے کو سعادت اور نیک نامی کے ساتھ عظمت و نیک بختی کی سعادت کے راستے پر گام زن کرسکتی ہے۔
یہ عورت ہی ہے جس نے کربلا میں امام حسینؓ کے ساتھ مل کر چراغ انسانیت کو تاقیامت روشن کردیا ہے۔ تاریخ اسلام کا اہم، منفرد اور بے مثل واقعہ جس نے انسانیت کو حقیقت اسلام سے روشناس کرایا اور تاریخ اسلام کو حیات ابدی کا جامہ پہنایا وہ نواسہ رسول کریمؐ حضرت امام حسینؓ کا قیام ہے۔ یہ قیام مرد و زن دونوں کی فدا کاریوں اور جاں نثاریوں پر مشتمل ہے جو انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور مشعل راہ ہیں۔
واقعہ کربلا صبر، استقامت، شجاعت، پرہیزگاری، عقیدہ، اخلاق اور طرز زندگی کے ابواب پر مشتمل ہے۔ اس واقعہ میں خواتین اور مرد، چھوٹے اور بڑے سب شامل ہیں اور ہر ایک کا اپنا ایک الگ کردار ہے۔ درحقیقت کربلا میں کام آنے والے بہادر اپنی ماؤں کے لیے ایک انمول سرمایہ تھے۔
کربلا کے واقعہ کو ابدی حیات بخشنے میں حضرت زینبؓ، حضرت ام کلثومؓ، حضرت سکینہؓ، اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہدا ء کی بیویوں اور ماؤں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی تحریک کا پیغام لوگوں تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کا پیغام، کربلا کی اسیر خواتین نے عوام تک پہنچایا ہے۔ جناب زینبؓ کے بے نظیر کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا کامل نظر آتی ہے۔ حضرت زینبؓ نے روز عاشورہ میں ہی نہیں بل کہ امام حسینؓ کی شہادت کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردار ادا کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی تحریک کو مستحکم بنانے کے لیے خواتین کا کردار اہم ہوتا ہے۔ کربلا کے واقعہ کے بعد عورتوں میں وہ جرأت پیدا ہوگئی اور دنیا میں ہونے والی تمام تحریکوں میں خواتین کا اہم کردار نظر آیا ہے۔
کربلا کا واقعہ حضرت زینبؓ کے بغیر نامکمل ہے۔ حضرت زینبؓ کے علاوہ اور بھی خواتین کربلا کے میدان میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ان میں حضرت ام کلثومؓ، حضرت رقیہ بنت الحسینؓ، حضرت سکینہ بنت الحسینؓ، حضرت فضہؓ، جناب ربابؓ، جناب رملہؓ، جناب ام لیلیؓ، جناب ام وہبؓ، جناب بحریہ بنتِ مسعودؓ، جناب خزرجیہؓ، جناب ہانیہؓ اور حضرت وہب کی منکوحہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ کربلا کی خواتین کے اعمالِ حسنہ اور جدوجہد حق پسند خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
عاشوراء، کربلا کی سر زمین پر ہونے والے واقعہ کا نام نہیں ہے بل کہ ایک تحریک اور مقصد کا نام ہے کیوں کہ امام حسینؓ کی اس عظیم تحریک کا آغاز 28 رجب المرجب 60 ھ سے شروع ہو ا اور یہ تحریک عصر عاشور پر ختم نہیں ہوئی بل کہ ام المصائب حضرت زینبؓ اور امام زین العابدینؓ کی سربراہی میں کوفہ اور شام کے فاسق، جابر اور ظالم حکم رانوں کے درباروں تک پہنچنے کے ساتھ اس انقلاب کی آواز مشرق و مغرب اور عرب و عجم میں بھی سنائی دی۔
حضرت زینبؓ کے خطبات سے کربلا کی تحریک کو قیامت تک اسی احساس کے ساتھ یاد رکھا جائے گا جیسے وہ صدیوں کی بات نہیں بل کہ کل ہی کا واقعہ ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد حضرت زینبؓ نے چند اہم ذمے داریوں کو بہت احسن طریق سے کام یابی کے ساتھ نبھایا۔ جن میں سب سے بڑی ذمے داری امام زین العابدینؓ کی دیکھ بھال اور دشمن سے ان کی حفاظت، دوسری ذمے داری شہداء کی خواتین اور بچوں کی حفاظت۔ تیسری اور اہم ترین ذمے داری امام حسینؓ کی تحریک کو زندہ رکھنا اور کربلا کے پیغام کو دنیا کے ہر گوشے تک پہنچانا تھا۔
جہالت اور خوف میں دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جو مشن امام حسینؓ مدینہ سے لے کر نکلے تھے اس کو حضرت زینبؓ کے کردار اور ان کی گفتار نے انجام تک پہنچایا۔ جناب سیّدہ زینبؓ کی سربراہی میں حضرت امام حسینؓ کے اہل حرم نے کوفہ و شام کی گلی کوچوں میں اپنے خطبوں کے ذریعے یزیدیت کے ظلم کا پردہ چاک کردیا۔ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کے ساتھیوں کو ان کی ماؤں، بیویوں اور بیٹیوں نے ہمت اور حوصلہ دیتے ہوئے کہا: ’’تمہارے ہوتے ہوئے دشمن حضرت امام حسینؓ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے ورنہ روز محشر دختر رسول حضرت زہراؓؓ کو کیا منہ دکھائیں گے۔‘‘
میدان کربلا میں یزیدی ظلم کے خلاف ناصرف یہ کہ خاندان رسالتؐ نے قربانیاں پیش کیں بل کہ اس گھرانے کی کنیزوں اور انصارِ حسینی کی خواتین نے بھی اپنے ایثار اور قربانیوں کے جوہر دکھائے۔ جہاں حضرت زینبؓ اور ام لیلیؓ نے اپنی قربانیاں پیش کیں تو وہیں جناب ام وہبؓ، جناب بحریہ بنتِ مسعودؓ اور جناب خزرجیہؓ نے بھی اپنی قربانیوں کا ہدیہ پیش کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ عظیم خواتین ناصرف اپنی نسلوں کی تربیت کرنے میں باکمال تھیں بل کہ میدان عمل میں بھی ان کی کوئی مثال نہ تھی۔ خواتین نے واقعہ کربلا کو بے نظیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کی مثال آج تک تاریخ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ کربلا کی عورتوں کا کردار ہر زمانے کی خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔