’’ اردو شاعرات کا مزاحمتی لحن‘‘ ایک جائزہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
ڈاکٹر قرۃ العین طارق کا نام تحقیق و تنقید کے اعتبار سے اردو ادب کی تاریخ میں معتبر اور اہمیت کا حامل ہے، ’’اردو شاعرات کا مزاحمتی لحن‘‘ یہ ان کی تیسری کتاب ہے، اس سے قبل وہ تنقیدی بصیرت اور فہم و فراست کی روشنی میں دو کتابیں اور لکھ چکی ہیں۔
ایک کتاب ’’جن سے تیری بزم میں تھے ہنگامے بہت‘‘ ممتاز شاعر و دانشور عزیز حامد مدنی کے فن و شخصیت کا احاطہ کرتی ہے جب کہ دوسری کتاب ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’اردو ادب میں دہشت گردی کی ارتقائی عکاسی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ ہے۔ قرۃ العین نے موضوع کے اعتبار سے بہترین محقق کا کردار ادا کیا ہے، ان کی ادب سے لگن، محنت اورکوشش نے ان کے کام کو توقیر اور اعتبار بخشا ہے، وہ ادب کی تاریخ کا مکمل جائزہ اس طرح پیش کرتی ہیں کہ فکشن نگاری کے قالب میں ڈھالے گئے، وہ کردار جو ظلم اور جبر و قہر کا شکار ہوئے، ایسے کرداروں کو قارئین و ناقدین کے سامنے لانے میں انھوں نے تاریخ کے ان صفحات کو نمایاں کیا ہے جہاں عشق و محبت کی داستانیں رقم نہیں کی گئی ہیں بلکہ سیاسی و معاشرتی طور پر قتل ہونے والے ان لوگوں کی عکاسی کی ہے جو ناانصافی کا شکار ہوئے اور انھیں ان کے ہی خون میں نہلایا گیا۔
مذکورہ کتاب جس پر میں خامہ فرسائی کرنے بیٹھی ہوں ’’ اردو شاعری کا مزاحمتی لحن‘‘ قرۃ العین طارق نے اس وقت کی ان شاعرات اور ان کی شاعری کا فنی جائزہ لیا ہے جب خواتین کا شعر و سخن میں طبع آزمائی کرنا اور اخبار و رسائل میں چھپنا شجر ممنوع سے کم نہیں تھا۔ وہ اکثر مردانہ ناموں سے اپنی تخلیقات کی نقاب کشائی اشاعت کی شکل میں کرتیں اور یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا جو انھوں نے طے کیا۔ ناقد نے ابتدا سے عصر حاضر تک کی شاعری پر روشنی ڈالی ہے۔
یہ کام آسان ہرگز نہیں تھا، بہت محنت طلب، ویسے بھی تنقید ایک بھاری پتھر کی مانند ہے جس کو بہت سے قلم کار اٹھا تو لیتے ہیں لیکن تکمیل کی صورت میں تنقیدی و تحقیقی تحریریں سامنے نہیں آ پاتی ہیں، بس چوما اور رکھ دیا، اس کے برعکس مصنفہ نے اپنی دونوں کتابوں کی طرح مکمل اور بھرپور طریقے سے تحریری فریضہ انجام دیا ہے۔ کتاب پر محمود شام کا عالمانہ اور فصیح و بلیغ مضمون درج ہے، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور حمیدہ شاہین نے بھی اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا ہے۔263 صفحات پر مشتمل کتاب الحمد پبلی کیشنز لاہور سے شایع ہوئی ہے، سرورق دیدہ زیب اور اشاعتی غلطیاں دور دور تک نظر نہیں آتی ہیں۔
باب اول میں ابتدا سے 1947 تک کی شاعرات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ تحقیقی کام کی تکمیل آسان ہرگز نہیں ہوتی ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو تاریخ کو کھنگالنا پڑتا ہے، تب کہیں گوہر مقصود ہاتھ لگتا ہے، ہیرے اور موتیوں کی کان آگہی کی روشنی میں نمایاں ہوجاتی ہے اور لفظوں کی قندیل جگ مگ کرتی ہے۔ ناقد کی حیثیت ایک جوہری کی سی ہوتی ہے کہ وہ پرکھے کس کا کام موتیوں سے مشابہت رکھتا ہے اور سونے چاندی کے ڈھیر میں کتنے ذرے اپنی آب و تاب دکھا رہے ہیں ان کا کوئی خریدار نہیں، لیکن مخلص و دیانت دار مبصر و مدبر اور وسیع النظر قلم کار ان ہیرے موتیوں کو ادب کے ٹھیکیداروں سے بچا کر اپنی تحریروں کی زینت بنا لیتا ہیں، کم ظرف اور تنگ نظر، جھوٹے، خوشامد پسند ناقدین کی عزت پر داغ لگ جاتا ہے اور حق کا خوب بول بالا ہوتا ہے۔
تو میں عرض یہ کر رہی ہوں کہ قرۃ العین کا شمار ایسے ہی اعلیٰ ظرف ناقدین میں ہوتا ہے۔ انھوں نے بلاتعصب ان شاعرات کے مزاحمتی لحن کا ادراک کرتے ہوئے قلم اٹھایا ہے۔
ایسی ہی کاوش پر نقاد اور ادب کا قاری داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر قرۃ العین نے مزاحمتی شاعرات کے نام اورکام کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے ’’اردو شاعرات کے کلام میں ’’ مزاحمتی لحن‘‘ کی ابتدا شاید اسی وقت ہو گئی تھی جب پہلی شاعرہ نے اپنی صنفی محکومی اور معاشرتی مجبوریوں کو بیان کیا تھا، اس وقت وہ برملا اس کا اظہار نہ کرسکی، لیکن اس کے فہم و ادراک میں مزاحمتی رویے پروان چڑھتے رہے،کبھی چھپے لفظوں کی صورت میں نمایاں ہوئے تو کبھی مردانہ لب و لہجے میں اپنے ردعمل کو ظاہرکیا۔
اس ضمن میں دکن اور شمالی ہند میں شعرا کا تو ذکر ملتا ہے لیکن شاعرات کا نہیں۔ پہلی مرتبہ مولوی کریم الدین پانی پتی نے تذکرہ گلدستہ ناز نیناں 1845 میں شایع کیا جس میں دس شاعرات کا کلام شامل تھا، وہ بھی انتخاب کی شکل میں۔ حکیم فصیح الدین رنج میرٹھی کا ’’ بہارستان ناز‘‘ اس کے طبع دوم اشاعت 1869 میں شاعرات اور طبع سوم 1882 میں 174 شاعرات کا کلام موجود ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق ’’بہارستان ناز‘‘ میں بیش تر شاعرات طبقہ طوائف سے تعلق رکھتی ہیں۔ اکثر شریف زادیوں نے بھی شعر و سخن میں اپنا رنگ جمایا ہے، اور ناانصافی، ستم ظریفی کا نقشہ موثرانداز میں کھینچا ہے۔
قرۃ العین نے اس زمانے کی شاعرات کی شاعری کے نمونے بھی درج کیے ہیں۔ بادشاہ بیگم کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:
لے اڑی طرز فغاں بلبل نالاں ہم سے
گل نے سیکھی روش چاک گریباں ہم سے
انھوں نے ماحول اور ان حالات سے پیدا ہونے والے مسائل کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا ہے کہ جبر و قہر اور ناانصافی کی فضا نے کس طرح شاعرات کو متاثر کیا تھا۔ نظم ’’پیش لفظ‘‘ میں ادا جعفری نے اس ستم گری کا نقشہ پیش کیا ہے جو خواتین کو درپیش تھے۔
شفیق فاطمہ نے عورتوں کے دکھوں اور محرومیوں کا ذکر اپنی شاعری میں ایک المیے کی طرح بیان کیا ہے۔
گیلی سلکتی لکڑی عورت
سیل زماں میں مدغم ہو گئی
خیر ہو یا رب دشت و دمن کی
آنکھ جنوں کی پرنم ہو گئی
1980 تا عصر حاضر۔ اس کتاب کا تیسرا باب ہے ، قرۃ العین نے 1977 کے مارشل لا کا ذکر نہایت کرب اور دکھ کے احساس سے کیا ہے، کہ گزرے زمانوں میں عورت نے قید و بند کی صعوبتیں کس طرح برداشت کیں۔
بے بس و معصوم انسانوں پر ہونے والے مظالم کو شاعری کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس دور میں ادا جعفری، فہمیدہ ریاض، شفیق فاطمہ، سیدہ فرحت، وحیدہ نسیم، پروین شاکر اور فاطمہ حسن کے کلام کی وہ جھلکیاں دکھائی ہیں جب شاعرات نے آپ بیتی اور جگ بیتی کو لفظوں کی قندیل عطا کی۔ مثال کے طور پر۔
میں اپنے حق کے واسطے تنہا کھڑی رہی
میزان عدل پر مجھے تولا نہیں گیا
غیرت کے نام پہ کبھی حرمت کے نام پر
بکتی رہی زمانے میں بکنا نہیں گیا
ادا جعفری ترقی پسند شعرا میں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں، ان کی شاعری میں نسائی جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ قرۃ العین ان کے بارے میں لکھتی ہیں ’’ ادا جعفری کی شاعری کا آغاز ایسے دور میں ہوا جو قومی و بین الاقوامی سطحوں پر انتشار و سیاسی تغیرات کا دور تھا، ایک طرف آزادی کی تحریک عروج پر تھی اور دوسری طرف برطانوی اقتدار سے نجات پانے کی آخری جنگ جاری تھی۔ ان حالات میں ادا جعفری کے طرز سخن میں مزاحمت کی لے ابھری۔ نظم ’’ پیش لفظ‘‘ میں ادا جعفری نے برملا ان رجحانات کی ترجمانی کی ہے، مثال کے طور پر یہ اشعار:
انھیں روندی ہوئی ٹھکرائی ہوئی راہوں میں
کتنی نوخیز امیدوں کے سجیلے سپنے
کتنی معصوم امیدوں کے سجیلے سپنے
چند دانوں کے عوض بکتے رہے بکتے رہے
بربریت کے ستم سہتے رہے سہتے رہے
زندگی میرے لیے خواب نہ تھی، گیت نہ تھی
ہماری دعا ہے قرۃ العین کا قلم اندھیروں سے تخلیق کی روشنی کشید کرتا رہے، مبارکاں!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قرۃ العین نے مزاحمتی لحن شاعرات کا انھوں نے کی شاعری کیا ہے
پڑھیں:
جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
بچھڑے آبائی شہرمیں قدم رکھتے ہی یادوں کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، مگر آج اس شہر میں قدم رکھا، تو یوں لگا، جیسے یہ کوئی اور ہی شہر ہو۔ پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا، کسی دریا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بعض محلوں میں کشتیوں کے ذریعہ شہریوں کو کھانے پینے کا سامان پہنچایا جا رہا تھا۔
یہ دلدوز مناظر آج تک اس شہر کی آنکھوں نے نہیں دیکھے تھے؛ اس وقت بھی نہیں، جب کہتے ہیں کہ دریاے چناب شہر کے ایک بیرونی دروازے کے پاس سے گزرتا تھا۔ یہ دروازہ، جو بعد میں اس مقام پر صاحب مزار شاہدولہ دریائی کے نام سے منسوب ہوا، گجرات شہر کے ان چار بیرونی دروازوں میں سے ایک تھا، جو مغل بادشاہ اکبرکے زمانے میں دریائے چناب کے کنارے بلند ٹیلے پر’اکبری قلعہ‘ کی تعمیر کے بعد اس کے گردا گرد بتدریج بس جانے والی بستی کے داخلی و خارجی راستے تھے، اور رات کو بند کر دیے جاتے تھے۔ تاہم، یہ شہر اس سے دو ہزار سال قبل راجہ پورس کے عہد میں بھی آباد تھا، جس کی راجدھانی دوآبہ چج ( دریاے چناب اور دریاے جہلم کے درمیانی علاقہ، موجودہ ضلع گجرات ) میں قائم تھی، اور عسکری طورپر یہ اس کا اہم ترین شہر تھا۔
یاد رہے کہ سنسکرت اور قدیم ہندی میں گج کے معنی ’ہاتھی‘ اورگجرات کے ’ہاتھی بان‘ کے ہیں۔ راجہ پورس اور اس کی فوج کی وجہ شہرت یہی ہاتھی اور ہاتھی بان تھے، ا ور یہ شہرت اس وقت مقدونیہ ( یونان ) تک پہنچ گئی، جب راجہ پورس نے مقدونیہ کے خلاف ایران کے بادشاہ دارا کو ہاتھی دستے کی کمک فراہم کی تھی۔ ابھی چند سال پہلے تک بھی یہ شہر اپنی سیاسی اہمیت کے لحاظ سےKing's City کہلاتا تھا۔ اس پس منظر میں اندرون اور بیرون ملک ہر جگہ گجرات شہر ڈوبنے کے روح فرسا مناظر ناقابل یقین تھے۔
حیرت انگیز طور پر اکبری قلعہ سے متصل شہر کا مرکزی بازار بھی زیرآب آ چکا تھا۔ شورومز کے بیسمنٹ اسٹور تباہ، جب کہ اونچی عمارتوںکے زیرزمین پارکنگ سینٹر تالاب بن گئے تھے۔ محلوں میں گھروں کے آگے اس طرح جم کے کھڑا ہو گیا تھا کہ شہریوں کا باہر نکلنا ناممکن تھا۔ شہر کے وسط میں مسلم اسکول اور نارمل ایلیمنٹری اسکول، جو سڑک کی سطح سے نیچے ہیں، کے اندونی مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب مسلم ہائی اسکول شیشیانوالہ گیٹ کی پرانی عمارت چھن جانے کے بعد نارمل اسکول کی اس عمارت میں منتقل ہوا، تو پہلے پہل ہم انھی کمروں، برآمدوں اور ان کے باہر سبزہ زاروں میں درختوں اور پیڑوں کے نیچے بیٹھ کے پڑھا کرتے تھے، جو آج گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ بڑا کمرہ جو ہیڈماسٹر نیک عالم صاحب کا دفتر ہوتا تھا، اس کے اندر دیوار پر صرف قائداعظم کی تصویر سلامت بچی تھی، نیچے سب کچھ پانی میں گم ہو چکا تھا۔ اسکول کے عقب میں وسیع گراونڈ، جس میں چھٹی کے بعد شام تک بیک وقت درجنوں کرکٹ ٹیمیں کھیل رہی ہوتی تھیں، جوہڑ بن چکی تھی۔
علامہ اقبال نے میٹرک کا امتحان اسی اسکول کے امتحانی ہال میں دیا تھا ،جو اب ’اقبال ہال‘ کہلاتا ہے، وہ بھی غرق ِآب تھا۔ محلہ غریب پورہ، اس میں واقع گورنمنٹ گرلز اسکول، ا ورگردونواح کے محلے بھی آفت زدہ علاقوں کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ اسٹیڈیم،کچہری، اسپتال، اسکول،کالج، یونیورسٹی، میونسپل کارپوریشن، سرکاری دفاتر، قبرستان، کوئی چیز بھی پانی کی دستبرد سے محفوظ نظر نہ آرہی تھی۔ اس سے بھی کرب ناک احساس یہ تھا کہ اس نازک اور مشکل گھڑی میںگجرات کے نام نہاد ’ ’منتخب نمایندوں‘‘ میں سے کوئی بھی تباہ حال شہر اور اس کے شہریوں کی ڈھارس بندھانے کے لیے موجود نہ تھا، یا عوامی غیظ و غضب کے خوف سے اس کی جرات نہیں کر پا رہا تھا۔
معلوم ہوا، گزشتہ شب پانی شہر میں داخل ہوا، تو اس سے قبل شہر میں طوفانی بارش ضرور ہوئی، مگر یہ تھم چکی تھی، بلکہ دریائے چناب سے پانی کا خطرناک سیلابی ریلا بھی شہر کو گزند پہنچائے بغیرگزر چکا تھا۔ آزادکشمیر سے موسلادھار بارشوں اور ندی نالوں کے بپھرنے کی اطلاعات ضرور آ رہی تھیں، مگر انتظامیہ اور’منتخب نمایندوں‘ کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ خطرے کی بات نہیں، ان نالوں کے آگے حفاظتی بند باندھے جا چکے ہیں۔
یوں اہل شہر ان کے بھروسے پر اطمینان سے سو گئے؛ مگرسوہنی کے شہر کے باسیوں کو کیا خبر تھی کہ اس طرح کے طوفانوں میں وہ کبھی جس کے مضبوط کندھوں کے سہارے دریا کے پار محفوظ اُتر جایا کرتے تھے، وہ پکا گھڑا کب کا کچے گھڑوں سے بدلا جا چکا ہے۔ سو، آدھی رات کے بعد جب شہر میں اچانک سائرن بجنا اور مسجدوں سے اذانیں اور اعلانات ہونا شروع ہوئے، اورشہری بازاروںکی طرف اپنی جمع پونجی بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے، اورگھروں میں ضروری سامان چھتوں اور ممٹیوں پر پھینک رہے تھے، جو اس طوفانی رات میں ’ سوہنی‘ کی تھی، جس کا کچا گھڑا پانی میںگھل رہا تھا،وہ پکار رہی تھی، ’مینوں پار لنگھا دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کردی‘۔ مگر،کوئی آہ و فریادکام نہ آئی۔
کچھ ہی دیر میں ’سوہنی‘ ڈوب چکی تھی، اور پانی اس کے شہر پر قابض ہو چکا، اورسانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ کہا جاتا ہے، بہت سارے شہری اس وجہ سے بھی اپنا مال اسباب بچانے کے لیے بروقت کاروباری مراکز، دکانوں، بیسمنٹوں اور زیرزمین پارکنگز میں نہ پہنچ سکے کہ آخری وقت پر بھی ان کو خطرے کی حقیقی نوعیت کے بارے میںکچھ بتانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ ستم یہ ہے، جب سارا شہر ڈوب چکا تھا، تب بھی وزیراعلیٰ کو انتظامیہ کی طرف سے یہی بتایا جا رہا تھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، صرف شہر کے بیس فی صد حصہ میں کچھ ’اضافی پانی‘ جمع ہو گیا ہے۔
شہر کیوں ڈوبا ؟ اس حوالہ سے متعدد کہانیاں زیر ِگردش ہیں۔ ایک کہانی یہ ہے کہ نالہ بھمبرکے سیلابی پانی کو شہر کی طرف جانے سے روکنے کے لیے جو بند باندھے گئے، رات کو کسی نے ان کو توڑ کر پانی کا رخ شہرکی طرف موڑ دیا، اور ایک نہیں، دومرتبہ یہ وقوعہ ہوا۔ اس پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کس طرح محض چند افراد بغیر کسی موثر پشت پناہی کے پورا شہر ڈبونے کی جرات کر سکتے ہیں۔
ایک کہانی یہ ہے کہ مون سون میں آزادکشمیر کی طرف سے آنے والے بارشی پانی کی راہ میں ناجائز تجاوزات کے باعث اس کے دریا کی طرف قدرتی بہاو کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ جب اس پانی کو نکاس کے لیے قدرتی راستہ نہیں ملا، تو اس نے شہر کا رخ کر لیا۔ ایک کہانی یہ ہے کہ شہر چونکہ حکومت مخالف تحریک انصاف اور چوہدری پرویزالٰہی کا سپورٹر ہے۔
اس لیے حکومت اور اس کے مقامی اتحادیوں کو شہرکی کوئی پروا نہ تھی کہ جب شہر نے انھیں ووٹ ہی نہیں دیا، تو ان کی بلا سے شہر ڈوبے یا ترے۔ ماضی میں اس طرح کی صورتحال میں جو لوگ شہر کے ’ناقص سیوریج سسٹم‘کو مورد الزام ٹھیرا کے بری الذمہ ہو جاتے تھے، آج ان کی مشکل یہ ہے کہ اپنی وزیراعلیٰ کے ہمراہ اسی گروپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔ تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویزالٰہی اور سلمان اکرم راجہ چند روز پہلے متاثرین کی دلجوئی کے لیے آئے اور جو انکشاف کیا ، وہ بھی ان دنوں شہر میں زبان زد خاص وعام ہے۔ ان کا کہنا تھا، انھوں نے جیل چوک سے بولے پل تک بارشی پانی کی نکاسی کے لیے جو پائب لائن بچھائی تھی، اسے شاہ حسین اور چاہ ترنگ نالوں پرکنکریٹ کی سڑکیں بنا کر غیر موثر کر دیا گیا، بلکہ ان کی مخالفت میں نکاسی آب کے ان کے دوسرے منصوبے بھی روک دیے گئے۔
یہ حقیقت ہے، اگر دریاے چناب کے پانی کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے چوہدری پرویزالٰہی نے اپنے پہلے دور میں بند نہ بنوائے ہوتے، اور دریا ے چناب کا پانی بھی شہر میں داخل ہو جاتا، تو جو خوفناک حالات پیدا ہوتے، ان کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔
بہرحال یہ تو شاید کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ شہر محض کسی کی غفلت یا نااہلی سے ڈوبا، یا انتہائی درجہ کی سفاکی کا شکار ہوا، مگر یہ واضح ہے کہ اس تباہی و بربادی کا ازالہ کرنا اب آسان نہیں، بلکہ سیاسی طور پر بھی یہ شہر اب عرصہ تک اس خوداعتمادی سے محروم رہے گا، جو گزشتہ دو عشروں میں سیاسی، تجارتی اور تعلیمی میدانوں میں شہر کی مسلسل پیش رفت سے اس کے اندر پیدا ہو چکی تھی۔ جن لوگوں نے یہ شہر ڈوبتے اور اس کے کئی روز بعد تک اسے بے یارومدگاراور خانماں برباد دیکھا ہے، وہ یہ اندوہ گیں مناظرکبھی فراموش نہیں کر سکیں گے، بلکہ حیرت اور افسوس کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی سنایا کریں گے، بقول حافظؔ
شب ِ تاریک و بیم ِ موج و گردابی چنین ہائل
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحلہا