Express News:
2025-07-06@03:45:59 GMT

’’ اردو شاعرات کا مزاحمتی لحن‘‘ ایک جائزہ

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

ڈاکٹر قرۃ العین طارق کا نام تحقیق و تنقید کے اعتبار سے اردو ادب کی تاریخ میں معتبر اور اہمیت کا حامل ہے، ’’اردو شاعرات کا مزاحمتی لحن‘‘ یہ ان کی تیسری کتاب ہے،  اس سے قبل وہ تنقیدی بصیرت اور فہم و فراست کی روشنی میں دو کتابیں اور لکھ چکی ہیں۔

ایک کتاب ’’جن سے تیری بزم میں تھے ہنگامے بہت‘‘ ممتاز شاعر و دانشور عزیز حامد مدنی کے فن و شخصیت کا احاطہ کرتی ہے جب کہ دوسری کتاب ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’اردو ادب میں دہشت گردی کی ارتقائی عکاسی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ ہے۔ قرۃ العین نے موضوع کے اعتبار سے بہترین محقق کا کردار ادا کیا ہے، ان کی ادب سے لگن، محنت اورکوشش نے ان کے کام کو توقیر اور اعتبار بخشا ہے، وہ ادب کی تاریخ کا مکمل جائزہ اس طرح پیش کرتی ہیں کہ فکشن نگاری کے قالب میں ڈھالے گئے، وہ کردار جو ظلم اور جبر و قہر کا شکار ہوئے، ایسے کرداروں کو قارئین و ناقدین کے سامنے لانے میں انھوں نے تاریخ کے ان صفحات کو نمایاں کیا ہے جہاں عشق و محبت کی داستانیں رقم نہیں کی گئی ہیں بلکہ سیاسی و معاشرتی طور پر قتل ہونے والے ان لوگوں کی عکاسی کی ہے جو ناانصافی کا شکار ہوئے اور انھیں ان کے ہی خون میں نہلایا گیا۔

مذکورہ کتاب جس پر میں خامہ فرسائی کرنے بیٹھی ہوں ’’ اردو شاعری کا مزاحمتی لحن‘‘ قرۃ العین طارق نے اس وقت کی ان شاعرات اور ان کی شاعری کا فنی جائزہ لیا ہے جب خواتین کا شعر و سخن میں طبع آزمائی کرنا اور اخبار و رسائل میں چھپنا شجر ممنوع سے کم نہیں تھا۔ وہ اکثر مردانہ ناموں سے اپنی تخلیقات کی نقاب کشائی اشاعت کی شکل میں کرتیں اور یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا جو انھوں نے طے کیا۔ ناقد نے ابتدا سے عصر حاضر تک کی شاعری پر روشنی ڈالی ہے۔ 

یہ کام آسان ہرگز نہیں تھا، بہت محنت طلب،  ویسے بھی تنقید ایک بھاری پتھر کی مانند ہے جس کو بہت سے قلم کار اٹھا تو لیتے ہیں لیکن تکمیل کی صورت میں تنقیدی و تحقیقی تحریریں سامنے نہیں آ پاتی ہیں، بس چوما اور رکھ دیا، اس کے برعکس مصنفہ نے اپنی دونوں کتابوں کی طرح مکمل اور بھرپور طریقے سے تحریری فریضہ انجام دیا ہے۔ کتاب پر محمود شام کا عالمانہ اور فصیح و بلیغ مضمون درج ہے، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور حمیدہ شاہین  نے بھی اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا ہے۔263 صفحات پر مشتمل کتاب الحمد پبلی کیشنز لاہور سے شایع ہوئی ہے، سرورق دیدہ زیب اور اشاعتی غلطیاں دور دور تک نظر نہیں آتی ہیں۔

باب اول میں ابتدا سے 1947 تک کی شاعرات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ تحقیقی کام کی تکمیل آسان ہرگز نہیں ہوتی ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو تاریخ کو کھنگالنا پڑتا ہے، تب کہیں گوہر مقصود ہاتھ لگتا ہے، ہیرے اور موتیوں کی کان آگہی کی روشنی میں نمایاں ہوجاتی ہے اور لفظوں کی قندیل جگ مگ کرتی ہے۔ ناقد کی حیثیت ایک جوہری کی سی ہوتی ہے کہ وہ پرکھے کس کا کام موتیوں سے مشابہت رکھتا ہے اور سونے چاندی کے ڈھیر میں کتنے ذرے اپنی آب و تاب دکھا رہے ہیں  ان کا کوئی خریدار نہیں، لیکن مخلص و دیانت دار مبصر و مدبر اور وسیع النظر قلم کار ان ہیرے موتیوں کو ادب کے ٹھیکیداروں سے بچا کر اپنی تحریروں کی زینت بنا لیتا ہیں، کم ظرف اور تنگ نظر، جھوٹے، خوشامد پسند ناقدین کی عزت پر داغ لگ جاتا ہے اور حق کا خوب بول بالا ہوتا ہے۔

تو میں عرض یہ کر رہی ہوں کہ قرۃ العین کا شمار ایسے ہی اعلیٰ ظرف ناقدین میں ہوتا ہے۔ انھوں نے بلاتعصب ان شاعرات کے مزاحمتی لحن کا ادراک کرتے ہوئے قلم اٹھایا ہے۔

ایسی ہی کاوش پر نقاد اور ادب کا قاری داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر قرۃ العین نے مزاحمتی شاعرات کے نام اورکام کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے ’’اردو شاعرات کے کلام میں ’’ مزاحمتی لحن‘‘ کی ابتدا شاید اسی وقت ہو گئی تھی جب پہلی شاعرہ نے اپنی صنفی محکومی اور معاشرتی مجبوریوں کو بیان کیا تھا، اس وقت وہ برملا اس کا اظہار نہ کرسکی، لیکن اس کے فہم و ادراک میں مزاحمتی رویے پروان چڑھتے رہے،کبھی چھپے لفظوں کی صورت میں نمایاں ہوئے تو کبھی مردانہ لب و لہجے میں اپنے ردعمل کو ظاہرکیا۔

اس ضمن میں دکن اور شمالی ہند میں شعرا کا تو ذکر ملتا ہے لیکن شاعرات کا نہیں۔ پہلی مرتبہ مولوی کریم الدین پانی پتی نے تذکرہ گلدستہ ناز نیناں 1845 میں شایع کیا جس میں دس شاعرات کا کلام شامل تھا، وہ بھی انتخاب کی شکل میں۔ حکیم فصیح الدین رنج میرٹھی کا ’’ بہارستان ناز‘‘ اس کے طبع دوم اشاعت 1869 میں شاعرات اور طبع سوم 1882 میں 174 شاعرات کا کلام موجود ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق ’’بہارستان ناز‘‘ میں بیش تر شاعرات طبقہ طوائف سے تعلق رکھتی ہیں۔ اکثر شریف زادیوں نے بھی شعر و سخن میں اپنا رنگ جمایا ہے، اور ناانصافی، ستم ظریفی کا نقشہ موثرانداز میں کھینچا ہے۔

قرۃ العین نے اس زمانے کی شاعرات کی شاعری کے نمونے بھی درج کیے ہیں۔ بادشاہ بیگم کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:

لے اڑی طرز فغاں بلبل نالاں ہم سے

گل نے سیکھی روش چاک گریباں ہم سے

انھوں نے ماحول اور ان حالات سے پیدا ہونے والے مسائل کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا ہے کہ جبر و قہر اور ناانصافی کی فضا نے کس طرح شاعرات کو متاثر کیا تھا۔ نظم ’’پیش لفظ‘‘ میں ادا جعفری نے اس ستم گری کا نقشہ پیش کیا ہے جو خواتین کو درپیش تھے۔

شفیق فاطمہ نے عورتوں کے دکھوں اور محرومیوں کا ذکر اپنی شاعری میں ایک المیے کی طرح بیان کیا ہے۔

گیلی سلکتی لکڑی عورت

سیل زماں میں مدغم ہو گئی

خیر ہو یا رب دشت و دمن کی

آنکھ جنوں کی پرنم ہو گئی

1980 تا عصر حاضر۔ اس کتاب کا تیسرا باب ہے ، قرۃ العین نے 1977 کے مارشل لا کا ذکر نہایت کرب اور دکھ کے احساس سے کیا ہے، کہ  گزرے زمانوں میں عورت نے قید و بند کی صعوبتیں کس طرح برداشت کیں۔

بے بس و معصوم انسانوں پر ہونے والے مظالم کو شاعری کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس دور میں ادا جعفری، فہمیدہ ریاض، شفیق فاطمہ، سیدہ فرحت، وحیدہ نسیم، پروین شاکر اور فاطمہ حسن کے کلام کی وہ جھلکیاں دکھائی ہیں جب شاعرات نے آپ بیتی اور جگ بیتی کو لفظوں کی قندیل عطا کی۔ مثال کے طور پر۔

میں اپنے حق کے واسطے تنہا کھڑی رہی

میزان عدل پر مجھے تولا نہیں گیا

غیرت کے نام پہ کبھی حرمت کے نام پر

بکتی رہی زمانے میں بکنا نہیں گیا

ادا جعفری ترقی پسند شعرا میں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں، ان کی شاعری میں نسائی جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ قرۃ العین ان کے بارے میں لکھتی ہیں ’’ ادا جعفری کی شاعری کا آغاز ایسے دور میں ہوا جو قومی و بین الاقوامی سطحوں پر انتشار و سیاسی تغیرات کا دور تھا، ایک طرف آزادی کی تحریک عروج پر تھی اور دوسری طرف برطانوی اقتدار سے نجات پانے کی آخری جنگ جاری تھی۔ ان حالات میں ادا جعفری کے طرز سخن میں مزاحمت کی لے ابھری۔ نظم ’’ پیش لفظ‘‘ میں ادا جعفری نے برملا ان رجحانات کی ترجمانی کی ہے، مثال کے طور پر یہ اشعار:

انھیں روندی ہوئی ٹھکرائی ہوئی راہوں میں

کتنی نوخیز امیدوں کے سجیلے سپنے

کتنی معصوم امیدوں کے سجیلے سپنے

چند دانوں کے عوض بکتے رہے بکتے رہے

بربریت کے ستم سہتے رہے سہتے رہے

زندگی میرے لیے خواب نہ تھی، گیت نہ تھی

ہماری دعا ہے قرۃ العین کا قلم اندھیروں سے تخلیق کی روشنی کشید کرتا رہے، مبارکاں!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قرۃ العین نے مزاحمتی لحن شاعرات کا انھوں نے کی شاعری کیا ہے

پڑھیں:

درختوں کا قتل

لاہور کے درخت زد پر آتے ہیں تو ممتاز ادیب انتظار حسین کی یاد ضرور آتی ہے جنہیں درخت دل وجان سے عزیز تھے اس لیے قاتل تیشے ان پر وار کرتے تو وہ مضطرب ہو جاتے۔ اپنے کرب کا اظہار کالم میں کرتے۔ ادبی محفلوں اور دوستوں کی منڈلی میں آواز اٹھاتے جسے ترقی کے جویا احباب سنی ان سنی کر دیتے تھے۔

1964 میں مال روڈ پر ایک درخت کو گرانے پر انتظار حسین نے ‘ درخت کی شہادت ‘ کے عنوان سے کالم لکھا جو اس شہر میں کٹنے والے درختوں کا ہمیشہ کے لیے نوحہ بن گیا:

‘پنجاب یونیورسٹی کے سر سے اس کے بزرگ کا سایہ اٹھ گیا ہے۔ یہاں گیٹ کے برابر مال روڈ پر ایک اونچا گھنا درخت بہت زمانے سے کھڑا تھا۔ اس یونورسٹی میں بہت وائس چانسلر آئے اور چلے گئے مگر یہ وائس چانسلر اپنی ایک وضع کے ساتھ قائم تھا اور یونیورسٹی کی باوقار روایت کا حصہ بنا ہوا تھا۔ اس ہفتے عجب افتاد پڑی کہ سڑک کی توسیع کی فکر کرنے والوں نے اس پر آرا چلایا اور اس صاحب منزلت مقتول کی لاش کئی دن مال روڈ پر پڑی رہی۔’

1963 میں مال روڈ پر انارکلی کی طرف جانے والی سڑک کے موڑ پر کھڑے بزرگ درخت کے زمین بوس ہونے پر انتظار صاحب ملول ہوئے تو بیرسٹر افسانہ نگار نے ان سے کہا:

 ‘تم نوسٹالجیا میں مبتلا ہو۔ اپنی بستی کے املی کے پیڑوں کا نوحہ کرتے کرتے لاہور کے درختوں کے بارے میں جذباتی ہونے لگے مگر یہ کوئی قصبہ نہیں ہے یہ نیا شہر ہے اور ہم 20ویں صدی میں رہتے ہیں۔’

  حلقہ اربابِ ذوق میں اپنی آہ وفغاں پر ردعمل کے بارے میں ‘ چراغوں کا دھواں میں وہ لکھتے ہیں :

‘جب میں حلقے میں روتا گاتا تھا کہ بلند و بالا درخت شہید کیے جا رہے ہیں تو ترقی پسند دوست کہتے تھے کہ یہ تو صنعتی ترقی کا لازمہ ہے۔’

انتظار صاحب نے اپنے ہاں کے ادیبوں و شاعروں کی بے اعتنائی کے مقابلے میں البرٹو موراویا کا حوالہ دیا تھا جو  درخت کاٹنے پر عدالت چلے گئے تھے کہ ان  کا زندہ ہم عصر شہید کیا گیا ہے۔

انتظار صاحب نے مذکورہ کالم میں کبیر کا شعر بھی نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے درختوں کے بیری بڑے پرانے ہیں:

بڑھئی آوت دیکھ کر ترور ڈالن لاگ

ہم کٹے تو اب کٹے، پکھیرو تو بھاگ

انتظار صاحب نے پنجاب یونیورسٹی کے باہر کٹنے والے درخت کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کیا ہے تو یونیورسٹی کے اندر اس نوع  کی واردات کی تخلیقی شہادت ڈاکٹر خورشید رضوی نے ‘اورینٹل کالج کے لیے ایک نظم’ میں دی  ہے :

جو آ کے کلاس رُوم کے پاس

بازو پھیلا کے رُک گیا تھا

بچوں پر اپنے جھک گیا تھا

برگد کا وہ پیڑ کٹ چکا ہے

لاشہ بھی یہاں سے ہٹ چکا ہے

انتظار صاحب کی درختوں سے محبت کا حوالہ ان کے کالموں تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ ادبی مضامین اور فکشن میں بھی درختوں کا مقدمہ لڑتے نظر آتے ہیں۔ یہ ان زمانوں کی بات ہے جب شہر اپنی جون بدل رہا تھا اور ترقی کے نام پر درختوں کی بیخ کنی ہو رہی تھی اور اس عمل سے آنے والے وقت میں شہر جس مصیبت میں گرفتار ہونے کو تھا اس کا ادراک کسی کسی کو تھا۔

1964 میں تحریر کردہ کالم کا حوالہ آپ دیکھ چکے ہیں۔ اب آجاتے ہیں شمس الرحمٰن فاروقی کے ‘ شب خون’ کی طرف جس کے جون 1972 کے شمارے میں انتظار حسین کا مضمون ‘ درخت اور افسانے’ شائع ہوا تھا۔ اس میں تخلیقی عمل اور درختوں کے تعامل پر بڑی پتے کی باتیں انہوں نے کی ہے۔

ان کی دانست میں شاعری اور افسانہ خالص انسانی ذریعہ اظہار نہیں ہیں بلکہ انہوں نے انسان اور غیر انسان کے سنجوگ سے جنم لیا ہے۔ ان کے خیال میں تخلیقی عمل صرف انسان سے سروکار پر منحصر نہیں ہوتا، فطرت کے مختلف عناصر تخیل کو بلندی عطا کرتے ہیں ۔ ان کے بقول ‘گیان دھیان اور تخیل کی تربیت برگد کی چھاؤں میں بھی ہو سکتی ہے اور پہاڑوں کی گپھاؤں میں بھی ، مگر کارخانے کی دیوار کے سائے میں نہیں ہو سکتی اور فلک بوس عمارتیں اونچے پہاڑوں کا بدل نہیں بن سکتیں۔’

انتظار صاحب درخت کاٹ کاٹ کر نئی سڑکیں بنانے اور پرانی سڑکوں کو وسیع کرنے کے مسئلے پر اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ترقی کے دوسرے مظاہر کے جلو میں آنے والی تباہی کا عکس اپنے آئینہ ادراک میں دیکھ کر فطرت کی سخت تعزیروں سے خبردار کرتے ہیں:

‘ہم اپنی فلک بوس عمارتوں ،شور مچاتے کارخانوں اور بھاری بھرکم مشینوں کے ساتھ ایک نئے عہد بربریت میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب نما بربریت کی بدولت تجربے کا منطقہ سکڑتا جا رہا ہے اور اطلاعات و معلومات کا جنگل پھیلتا جا رہا ہے… ہماری راہیں اتنی پرشور ہیں کہ کان پڑی آواز  سنائی نہیں دیتی۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے انسان اور غیر انسان کے درمیان مکالمہ ممکن نہیں رہا۔’

اس اقتباس سے علامہ اقبال اور احمد مشتاق کے شعر ایک ساتھ ذہن میں آئے ہیں جو بالترتیب ملاحظہ کیجیے:

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

دھویں  سے آسماں کا رنگ میلا ہوتا جاتا ہے

ہرے جنگل بدلتے جا رہے ہیں کارخانوں میں

انتظار حسین کے کالم اور مضمون سے گزر کر ہم نے ان کے ناول ‘ تذکرہ ‘ تک پہنچنا تھا کیونکہ اس سے ہم جان سکیں  گے کہ کمرشلائزیشن کا عذاب بستیوں پر کیسے اترتا ہے اور کس طریقے سے انہیں تاراج کر کے اپنی حکمرانی قائم کرتا ہے لیکن اس سے پہلے ‘ بستی’ کا خیال بھی آتا ہے جس میں ذاکر نیم کے پیڑ کی تلاش میں ہے اور اس کے دوست کا بیان ہے:

‘یہ سب درخت میرے دوست ہیں’

ایک دن ذاکر درخت دوست افضال سے  پوچھتا ہے یہاں نیم کا درخت نہیں ہوتا تو وہ اسے پارک کے ایک درخت کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیتا ہے کہ ‘ یہ رہا تمھارا نیم .’

لیکن وہ نیم کے بجائے بکائن کا درخت نکلتا ہے ۔

نیم کو افضال زنانہ پیڑ گردانتا ہے اور برگد کی شان میں رواں ہو جاتا ہے کیوں کہ اس کی چھاؤں میں نروان ملتا ہے۔ ذاکر برگد کی گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں میں گھاس پر لیٹ کر تصورات کی دنیا میں کھو جاتا ہے:

‘مجھے اپنے گمشدہ پیڑ یاد آرہے تھے ۔ گمشدہ پیڑ ،گمشدہ پرندے ،گمشدہ صورتیں۔ نیم کے موٹے ٹہنے میں پڑا ہوا جھولا ،صابرہ، لمبے جھونٹے، نیم کی نبولی پکی، ساون کب کب آوے گا۔ بوندوں سے بھیگے گال پر گری ہوئی گیلی لٹ۔  جیوے موری ماں کا جایا۔ ڈولی بھیج بلاوے گا۔ دور کے پیڑ سے آتی ہوئی کوئل کی آواز ۔

نیم کا پیڑ بھی میں نے دریافت کر ہی لیا مگر کوئل کی آواز پہلے سنی ۔اس دیار میں وہ میرا پہلے پہل کوئل کی آواز سننا:

از کجا می آید ایں آواز دوست’

اس ایک اقتباس میں کتنے رنگ اور اسلوب سمو گئے ہیں۔

اب ہم آجاتے ہیں ‘تذکرہ’ پر جس میں سوانحی رنگ بھی شامل ہیں ۔ ناول میں الاٹمنٹ کے دھندے کا تذکرہ ہے۔ شہر کے کمرشلائزیشن کی لپیٹ میں آجانے کی بات ہے جس کے لیے درختوں پر آرے چلنا لازمی ہے ۔اس میں  ہاؤسنگ سوسائٹی بھی ہے اور خرانٹ پراپرٹی ڈیلر بھی۔ ناول میں ضیاء الحق کے زمانے کے لاہور کا نقشہ مصنف نے مؤثر اسلوب میں کھینچا ہے۔ اس میں پھانسیوں کو دیکھنے کے لیے جیل کے نواح میں اخلاق  کے گھر خلقت امنڈ آتی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد  شہر کی سہمی فضا کا بیان ہے۔ ڈائجسٹ کے مدیر کا اسلامی بینکاری کے بارے میں کتاب لکھنے کی تجویز پیش کرنا بدلے ہوئے حالات کا اشارہ ہے اور کرکٹ کے ایک سپر سٹار کا حوالہ بھی ناول میں موجود ہے۔ خاندانی قصے بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس پہلو دار ناول کے جس خاص پہلو پر ہم نے بات کرنی ہے وہ اس المیے کے بارے میں ہے جس نے نہ صرف شہر کے حسن کو گہنا دیا بلکہ شہریوں کے لیے اس کی فضا میں سانس لینا بھی دوبھر کر دیا ہے۔

ناول میں اخلاق  کے مالک مکان کا نام برکت الٰہی ہے۔  یہ آدمی چلتا پرزہ ہے۔ کوٹھی یہ الاٹ کرا چکا ہے۔ انارکلی میں ایک دکان اس کے نام ہے۔ ملتان میں پن چکی بھی چل رہی ہے۔ ادھر چراغ حویلی کا چشم و چراغ اخلاق کرائے کے مکانوں میں دھکے کھاتا ہے  لیکن بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار نہیں ۔

ایک دن مالک مکان بتاتا ہے کہ یہ جگہ کمرشل ایریا بننے والی ہے اور وہ اس کے ایک حصے میں دکانیں بنائے گا  جو سونا اگلیں گی۔ برکت الٰہی کے ارادوں کی بلندی سے اخلاق کو فکر دامن گیر ہوتی ہے جس سے مالک مکان اور کرایے دار میں یہ مکالمہ ہوتا ہے:

‘مگر یہ جو درخت کھڑے ہیں’

‘ان سب کو کٹوا دوں گا ‘

‘کیا؟ ان درختوں کو آپ کٹوا دیں گے’ میں حیران و پریشان اس کا منہ تکنے لگا ۔

‘ہاں اور کیا۔جگہ بیکار کیوں پڑی رہے اور اتنی اچھی جگہ۔’

میں بہت گھبرایا۔ مجھے فوراً ہی مولسری اور پیپل کا خیال آیا جن سے میں اتنا مانوس ہو گیا تھا۔

‘مگر یہ مولسری؟’

‘ہاں جی، اس مولسری نے بہت جگہ گھیر رکھی ہے؟’

میں پھر اس شخص کا منہ تکنے لگا۔

‘مگر یہ پیپل تو بہت پرانا ہے۔’

‘ہاں جی بہت پرانا ہو گیا ہے۔ اسے تو ویسے بھی کٹوا دینا تھا ۔ بس کل پرسوں میں انتظام کرتا ہوں ۔ جنگل بنا ہوا ہے۔ اسے سارے کو صاف کرا دینا ہے۔’

درختوں کے کٹنے کا صدمہ جھیلنے سے پہلے اخلاق اپنا بوریا بستر باندھ لیتا ہے۔ جس دن اسے  گھر چھوڑ کر جانا تھا، برکت الٰہی کے بندے آروں اور کلہاڑیوں کے ساتھ درخت گرانے صبح صبح پہنچ گئے۔ اخلاق کو ضد تھی کہ درخت پر وار ان کے سامنے نہیں ہو گا۔ یہ مطالبہ برکت الٰہی نے مان لیا اور اس کے بارے میں کلہاڑی والوں کا استعجاب یہ کہہ کر دور کیا :

‘یہ بابو کچھ سنکی ہے’

بات تو اس کی ٹھیک ہی تھی اس ملک میں  قبضہ گروپ ٹھہرے سیانے اور درختوں اور پرندوں سے محبت کرنے والے سنکی کہلاتے ہیں۔

اخلاق کے کردار کو جس طرح  اپنے سامنے کٹتے درخت دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہوا اس سے منشا یاد کے افسانے ‘درخت آدمی ‘  کے مالی کرمو کا خیال آتا ہے جو اپنے سامنے درخت کٹنے کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتا تھا، اس نے باغ کو تاراج ہوتے دیکھا اور حالات کے جبر نے اسے درخت کاٹنے پر مجبور کیا تو وہ اس ناتمام کوشش میں پورا ہو گیا :

‘درخت کرمو کی کمزوری تھے۔ وہ کسی بھی قسم کے درخت کو کٹتے یا گرتے نہ دیکھ سکتا تھا … جب کبھی وہ کسی درخت کے کٹنے کی خبر سنتا اسے اتنا ہی صدمہ ہوتا جتنا کسی عزیز کے مرنے پر ہو سکتا تھا ۔’

اب دوبارہ تذکرہ کی طرف مڑتے ہیں جس میں کسی علاقے کے کمرشل ایریا بننے کی آفت کا بیان ہے ۔ اس کی تعریف انتظار حسین نے یوں کی ہے:

‘کمرشل ایریا بھی عجب متعدی شے ہے۔ نئے شہروں میں آکاس بیل کی طرح پھیلتا ہے اور سرسبز علاقوں کو نگلتاچلا جاتا ہے۔”

یہ بیان ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے  عروج سے پہلے کا ہے اور اس زمانے کی داستان سنا رہا ہے جب ہوا کا رخ گلبرگ کی طرف تھا۔  اخلاق کی بیوی ‘آشیانہ’  بک جانے کی صورت میں گلبرگ میں کوٹھی تعمیر کرکے سٹیٹس بلند کرنے کا سوچ رہی ہے۔

اب گلبرگ کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے جو اسے آباد کرنے کے لیے دوسرے علاقوں کے ساتھ ہوا۔ یہ کمرشل ایریا بن گیا۔ بڑے بڑے پلازے بن گئے جن کی فلک شگاف عمارتوں کے بوجھ تلے یہ علاقہ  دب گیا ہے۔ بیچ بیچ میں کوئی کوٹھی اس طرح سے نظر آتی ہے جیسے رضیہ غنڈوں میں گھری ہو۔ اس کی ایک مثال 4k گلبرگ میں معروف سیاست دان اور دانشور ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کا وہ تاریخی گھر ہے جہاں کبھی پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

انتظار صاحب نے ‘تذکرہ’ میں جیل کے نواح میں گھر کو بنیاد بنا کر کہانی اپنے گھر کے گرد ہی بنی ہے  اور جیل روڈ سے بڑھ کر کون سی جگہ ہو گی جو کمرشل ایریا کے قالب میں ڈھلی ہو۔ اس کے بارے میں انتظار حسین کے نان فکشن سے ایک بیان ذرا دیکھیے:

‘میں گھر میں بند بیٹھا ہوں ۔ میرے گھر کے باہر جیل روڈ پر پھاوڑا بج رہا ہے کلہاڑا چل رہا ہے ۔ پرانی سڑک کھد رہی ہے ۔ نئی شاہراہ کا ڈول پڑ رہا ہے۔ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔  پدندے کتنے اس نواح سے اڑ گئے، کتنے اڑ جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔’

اب یہ وہ جیل روڈ ہے جسے اس سے ملحقہ وارث روڈ کی مکین خالدہ حسین نے اپنے افسانے ‘نام رکھنے والے’ میں  بہت صاف ستھری ،چوڑی اور خاموش سڑک لکھا ہے۔

اب ہم اس مسئلے کی طرف آجاتے ہیں جس نے ہمیں قلم اٹھانے پر اکسایا ہے۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک پیغام نظر سے گزرا جس میں لاہور کینال روڈ پر ٹھوکر نیاز بیگ سے ہربنس پورہ تک نئی میٹرو لائن کے  منصوبے کے لیے ممکنہ طور پر بڑی تعداد میں درخت کاٹے جانے پر تشویش ظاہر کی گئی تھی۔

لاہور کی نہر کے گرد ایستادہ درختوں پر پہلے بھی کاری وار ہوتے رہے ہیں۔ 2017  میں  کینال کشادگی پراجیکٹ کے چیف انجینئر نے ہربنس پورہ سے ٹھوکر نیاز بیگ تک 3 ہزار کے قریب درخت کاٹنے کا اعتراف کیا تھا۔ لاہور آخر یوں ہی تو دنیا کے  آلودہ ترین شہر کا درجہ حاصل نہیں کرتا۔ سموگ شہریوں کو جس اذیت میں مبتلا کرتی ہے اس کا احساس حکومت کو ہوتا تو کبھی درخت کاٹنے کا خیال بھی اسے نہ آتا۔ عجب بات   ہے کہ ماحول دوست بسیں درخت کاٹ کر سڑکوں پر دوڑائی جائیں گی۔

مجید امجد نے ساہیوال کی نہر کے کنارے درختوں کے کٹنے پر 1960 میں درد سے معمور  نظم لکھی تھی وہ لاہور نہر کے اردگرد درختوں کی بربادی کے لیے بھی حسب حال ہے:

توسیعِ شہر

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بِک گئے سارے ہرے بھرے اشجار

جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم

گِری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار

آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اِک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پہ بھی اب کاری ضرب اِک اے آدم کی آل

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

ادب افسانہ انتظار حسین درخت فطرت ماحولیات

متعلقہ مضامین

  • درختوں کا قتل
  • صوبائی وزیر زراعت بارش کے بعد نکاسی آب کی صورت حال کا جائزہ لینے حب پہنچ گئے
  • کوٹ لکھ پت سے آنے والا خط
  • اسرائیل کو حماس کی جنگ بندی تجاویز موصول، جائزہ شروع
  • کمشنر اور ڈی سی لاہورکامحکمہ داخلہ کے کنٹرول روم کا دورہ لائیو مانیٹرنگ کا جائزہ
  • ٹرمپ کی پیش کردہ جنگ بندی تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں: حماس
  • چوہدری سالک حسین کی زیرِ صدارت اوورسیز پاکستانیوں کی سہولت کے لیے ٹاسک فورس کا پانچواں اجلاس
  • گلگت، انجمن امامیہ کے وفد کا کنٹرول روم کا دورہ، سکیورٹی اقدامات کا جائزہ لیا
  • جنگ… کل اور آج