KYIV:

روس اور یوکرین کی جنگ کو تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس جنگ میں اب تک لاکھوں افراد متاثر اور ہزاروں ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور اسی طرح زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اس دوران یوکرین سے لاکھوں افراد دوسرے ممالک منتقل ہوگئے ہیں یا اپنے ہی دیس میں بے گھر ہوچکے ہیں لیکن جنگ تاحال جاری ہے۔

روس اور یوکرین کی جنگ کے دوران کئی شہریوں کی جانب سے اپنے دفاع کی کئی مثالیں بھی سامنے آچکی ہیں اور حال ہی میں غیرملکی میڈیا نے یوکرین میں خواتین کے گروپ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے، جس کو ‘بوچا ویچس’ کا نام دیا گیا ہے جو رضاکارانہ طور پر روس کے خلاف یوکرین کی فوج کی مدد کر رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بوچا ویچس یوکرین کی خواتین کا پہلا ایئرڈیفنس یونٹ ہے، جس کو روسی ڈرونز گرانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے، اس گروپ کی اکثر خواتین وہ ہیں جن کا روس اور یوکرین کی جنگ میں ناقابل تلافی ذاتی نقصان ہوا ہے۔

بوچا ویچس کی رضاکار خواتین کا تعلق یوکرین کے دارالحکومت کیف کے مضافات بوچا سے ہے، جو جنگ کے شروع میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ تھا جہاں رپورٹس کے مطابق روسی فوج نے مبینہ طور پر 450 سے زائد شہریوں کو ہلاک کیا، جن میں مرد، خواتین، بچے اور بزرگ بھی شامل تھے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ روسی فوج نے بوچا میں 33 روز تک قبضہ برقرار رکھا اور اس دوران ہزاروں افراد پر تشدد کیا، اس کے علاوہ ریپ اور لوٹ مار کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

بوچا میں ان واقعات کے بعد وہاں کی خواتین کے ایک بڑے گروپ نے روس کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے ‘ویچس آف بوچا’ کے نام سے گروپ تشکیل دیا اور یہ گروپ یوکرین کی ویمن ایئرڈیفنس یونٹ بن گیا اور انہوں نے اعلان کیا اب وہ روس کی جارحیت کے خلاف اپنے گھروں اور لوگوں کی حفاظت کریں گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بوچا ویچس میں ہر عمر کی خواتین شامل ہیں، جن میں 19 سال سے لے کر 60 سال کی خواتین بھی ہیں اور انہیں روسی ڈرونز گرانے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور خاص طور پر ایرانی ساختہ اور روسی گیران ڈرونز گرانے کا کام سونپ دیا گیا ہے۔

مذکورہ گروپ میں شامل خواتین میں سے کوئی پروفیشنل فوجی نہیں ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کی اکثریت نے یوکرینی فون کی سروس میں شمولیت کے لیے تحریری طور پر لکھ کر دیا ہے۔

الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں 51 سالہ خاتون ویلنٹینا کا حوالہ دیا گیا ہے، جو بوچا ویچس کی سرگرم رکن ہیں، انہوں نے کہا کہ میری والدہ میرے اس کام سے بہت خوش ہیں اور یہاں پر موجود تمام ہمارے دوست، ساتھی، بھائی اور بہنیں ایک ہیں اور ہمارا ایک مقصد ہے کہ ہم فتح کی رفتار میں اضافہ کریں اور جس طرح حاصل ہو فتح حاصل کی جائے۔

ویلنٹینا کے تین بچے ہیں اور تقریباً خواتین پر مشتمل مذکورہ یونٹ کا فعال رکن ہیں اور وہ ماسکو کے خطرناک ڈرونز کا مقابلہ کرتی ہیں۔

یوکرینی خواتین کے اس یونٹ کی تربیت کہاں ہوئی، اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کسی بھی خاتون نے کبھی فوجی تربیت حاصل نہیں کی، اسی لیے انہیں گوریلا تربیت کے لیے مورڈور بھیجا جا رہا ہے اور ان خواتین کو سابق فوجی تربیت دے رہے ہیں اور انہیں جسمانی اور نفسیاتی حوالے سے تیار کر رہے ہیں۔

بوچا ویچس کو فوجی تربیت دینے والے ایک انسٹرکٹر کرنل اینڈری ویرلیٹی نے تربیتی گروپ کو تاکید کی کہ جب آپ وردی پہنتے ہیں تو آپ مرد یا خاتون نہیں ہوتے بلکہ آپ ایک دفاع کرنے والے جنگجو کہلاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق خواتین رضاکاروں کو تربیت کے دوران 20 ویں صدی کی میکسم ایم 1910 مشین گن کا استعمال سکھایا گیا اور اب 150 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے اڑنے والے ڈرونز نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جو عام طور پر 50 کلوگرام تک دھماکا خیز مواد سے بھرے ہوتے ہیں اور یہ ڈرونز جب بڑی تعداد میں اڑ رہے ہوں تو نشانہ بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔

خاتون رضاکار ویلنٹینا نے اس حوالے سے کہا کہ ڈرون خوف ناک بلکہ بہت خوف ناک ہوتے ہیں۔

بوچا ویچس کی تشکیل کے مقاصد کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ روس سے جنگ کے دوران یوکرینی فوج میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت تقریباً 65 ہزار خواتین فوج کا حصہ ہے اور 4 ہزار خواتین لڑاکا یونٹ میں شامل ہیں۔

یوکرینی فوج میں شامل خواتین میں بوچا ویچس بھی شامل ہیں، جن میں اکثر وہ خواتین ہیں جو گھریلو، پروفیشنلز اور جنگ سے متاثرہ ہیں اور وہ روس کی فوج کے خلاف اپنے گھروں کے دفاع کے لیے میدان میں آگئی ہیں۔

کیف میں آرٹ گیلری کی مالک خواتین کیٹریانہ نے تسلیم کیا کہ وہ پریشان تھیں اور انہوں نے اس سے پہلے کبھی بندوق کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا لیکن انہوں نے دیگر کئی خواتین کی طرح اس نئی حقیقت کو تسلیم کیا اور اپنے ملک کے دفاع کے لیے میدان میں آگئی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نتالیا بھی ان خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے بوچا سے اپنے بچوں کے ساتھ نقل مکانی کرکے جان بچائی لیکن بعد میں بدلہ لینے کے لیے واپس گئیں اور ان کا کہنا تھا کہ باہر سے دیکھنے کے بجائے جنگ میں حصہ لینا بہتر ہے۔

ایک اور خاتون اولینا نے بتایا کہ میرا مقصد لوگوں کو محفوظ رکھنا اور انہیں پرامن طریقے سے زندگی گزارنے کا موقع دینا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رپورٹ میں بتایا گیا بتایا گیا کہ یوکرین کی کی خواتین کے مطابق حوالے سے انہوں نے شامل ہیں کے خلاف ہیں اور کے لیے گیا ہے ہے اور اور ان

پڑھیں:

خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟

      اگرچہ آج کا انسان سائنسی ترقی اور مادی وسائل میں بے پناہ اضافہ دیکھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود دل بے چین، ذہن پریشان اور زندگی بے سکون نظر آتی ہے۔

جدید معاشرہ روحانی، معاشرتی اور اخلاقی توازن سے محروم ہو چکا ہے۔ تعلقات کی کمزوری، اقدار کی پامالی اور دینی شعور کی کمی نے معاشرے کو فکری اور جذباتی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایسے میں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر امن، عدل، شکر اور سادگی پر مبنی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو اپنے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 13)۔ ارشادِ نبوی ؐ ہے: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 1924)۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ہمیں اپنے اندر احسان، محبت، رواداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم ایک پرامن اور فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد تحفظ اور سکون محسوس کرے۔ ایک خوشحال معاشرہ دراصل امن کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، اور اسلام نے قرآن اور رسول اللہ ؐ کی سنت کے ذریعے ایک ایسا نظام عطا کیا ہے جو نہ صرف انفرادی سکون بلکہ اجتماعی فلاح کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ایک خوبصورت معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ ہر انسان کو انصاف، رحم، محبت، اور بھائی چارے کے ساتھ رکھا جائے۔ قرآن و حدیث میں انسانیت کی عظمت اور سب انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید کی گئی ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔

’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نرمی اور انصاف کرو جو تم سے دین کی وجہ سے لڑائی نہ کریں اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالیں۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ (60:8)

’’ان سے حسن سلوک کے ساتھ بات کرو۔ شاید اللہ ان میں سے کوئی ہدایت یافتہ کرے یا وہ خوف سے ڈریں۔‘‘ (سورۃ النحل 16:125)

نبی ؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔‘‘

یقیناً! ایک خوبصورت معاشرے کی بنیاد معافی، درگزر، نرم دلی، اور باہمی احترام پر قائم ہوتی ہے۔ قرآن و سنت نے ہمیں واضح طور پر بتایا ہے کہ اگر ہم ایک پرامن اور خوبصورت معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنا، برداشت کرنا اور اصلاح کی نیت سے خیرخواہی کرنا سیکھنا ہوگا۔

’’اور برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہے، مگر جو معاف کر دے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

(سورۃ الشوریٰ 42:40)

معاف کرنا نہ صرف اخلاقی برتری ہے، بلکہ اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا اجر ہے۔

’’اور تم میں سے جو صاحبِ فضل اور کشادگی والے ہیں، وہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابت داروں، مسکینوں اور مہاجرین کو کچھ نہیں دیں گے۔ بلکہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟‘‘

(سورۃ النور 24:22)

جو لوگ دوسروں کو معاف کرتے ہیں، وہی اللہ سے معافی کے حق دار بنتے ہیں۔

جب طائف کے لوگوں نے نبی ؐ کو پتھر مارے اور زخمی کر دیا، تو فرشتے نے عرض کی کہ ان پر پہاڑ گرا دوں؟ نبی ؐ نے فرمایا: ’’نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے۔‘‘ (صحیح مسلم: حدیث 1759)

ایک مثالی معاشرے کی قیادت وہی کرتا ہے جو درگزر کو اپنی طاقت بناتا ہے۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ظلم کے نظام کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ حدیث میں ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 2442)۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’مظلوم کی دعا سے ڈرو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح بخاری: حدیث 2448 / صحیح مسلم: حدیث 19)

انسانی جان کا تقدس اسلام میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے، سوائے حق کے‘‘ (سورۃ الاسراء ، آیت: 33)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’جو شخص کسی نفس کو ناحق قتل کرے گا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت: 32)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 10)۔ اللہ تعالیٰ نے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 93)۔ ان آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں ناحق قتل کو بدترین جرائم میں شمار کیا گیا ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت میں شدید بتائی گئی ہے۔

غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا اسلام کا بنیادی حکم ہے اور یہیں سے ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی خوشنودی کے لیے جو مال تم خرچ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں کیا جائے گا‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 272)۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’جو لوگ اپنا مال اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جس کے لیے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 261)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی دنیاوی مشکل کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مشکلات کو دور فرمائے گا‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2699) غریبوں کی مدد سے معاشرے میں محبت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ یہ عمل معاشرتی تفریق ختم کر کے انسانی مساوات قائم کرتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد دوسرے کے درد کو محسوس کرے، غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرے، اور ضرورت مندوں کی مدد کرے، وہی حقیقی خوبصورت معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔ کھانا کھلانا اسلام میں ایک عظیم عمل اور خوبصورت معاشرے کی بنیاد ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور وہ کھانا کھلاتے ہیں باوجود خواہش کے کہ خود انہیں بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ (سورۃ الانسان، آیت: 8)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو کھانا کھلائے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5081)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے بھوکے کو کھانا کھلایا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5545)۔ ایک اور حدیث میں ہے: ’’اے اللہ کے رسولؐ! کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر جان پہچان والے اور نا جاننے والے کو سلام کرنا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6236)۔

رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو (سورۃ النسآء، آیت: 1)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’اور رشتہ دار اپنے حق میں ایک دوسرے پر (دوسروں سے) زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘ (سورۃ الانفال، آیت: 75)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا رزق کشادہ کیا جائے اور اس کی عمر میں برکت دی جائے، وہ صلہ رحمی کرے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1961)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چکا دے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو قطع تعلقی کرنے کے باوجود تعلق جوڑے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5991)۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 3895)۔ جب ہم رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں گے، خاندانی نظام کو مضبوط کریں گے، اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں گے تو یقیناً ہمارا معاشرہ پرسکون اور خوبصورت بنے گا۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد محفوظ اور خوش ہو، وہی حقیقی اسلامی معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔

ہمارے قریب رہنے والا اور دفتر میں ساتھ کام کرنے والا دونوں ہی ہمارے پڑوسی ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب کے پڑوسی، دور کے پڑوسی، ساتھ بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ بھلائی کرو‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 36)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کو بارہا واضح فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص مسلمان نہیں جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1125)۔ ’’خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! کون؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کا پڑوسی اس کی اذیتوں (اور شر) سے محفوظ نہ رہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید پڑوسی کو وارث بنا دیں گے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5665)۔

اگر ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں پر عمل کریں تو ہم ایک ایسا پرامن، خوشحال اور متوازن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو بے چینی، اضطراب، ذہنی دباؤ اور انتشار سے پاک ہو۔ یہ اعمال درحقیقت ہمارے دل کو نرم کرتے ہیں، ہمیں انسانی ہمدردی سکھاتے ہیں، اور معاشرے میں امن و سکون قائم کرتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کے دکھ بانٹتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں ایک خاص قسم کی تسلی اور سکون نازل فرماتے ہیں جو دنیاوی comforts سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ یہی وہ روحانی سکون ہے جو ہمیں حقیقی خوشی عطا کرتا ہے۔

ایلن مسک، بل گیٹس، مارک زکربرگ اور دیگر ارب پتی افراد انسانیت کی بہتری کے لیے کام کرکے ایک قسم کا ذہنی سکون حاصل کر رہے ہیں۔ ایلن مسک خلائی ٹیکنالوجی اور پائیدار توانائی کے ذریعے، بل گیٹس صحت اور تعلیم کے شعبوں میں، اور مارک زکربرگ طبی تحقیق اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب انسانیت کی خدمت کے ذریعے اطمینانِ قلب کی تلاش میں ہیں۔ بلاشبہ دولت، شہرت اور عیش و آرام کی فراوانی ذہنی سکون کے حصول کے لیے ناکافی ہیں، کیونکہ یہ سب فانی اور عارضی ہیں۔ خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے اگر مندرجہ بالااصولوں پر عمل کیا جائے، تو ایک خوبصورت اور فلاحی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جو سکون قلب سے بھی مالا مال ہو۔

(مصنف کا تعارف: ڈاکٹر محمد زاہد رضا جامعہ پنجاب (لاہور) سے منسلک ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ تحقیقی جرائد میں ان کے کئی تحقیقاتی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ اخبارات کے لیے مضامین بھی لکھتے ہیں۔)

متعلقہ مضامین

  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • کراچی میں مجبور خواتین سے پیسوں کے لالچ پر فحاشی کروانے والا گروہ پکڑا گیا، سرغنہ خاتون بھی گرفتار
  • خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • بین الاقوامی نظام انصاف میں ’تاریخی مثال‘، جنگی جرائم میں ملوث روسی اہلکار لتھوانیا کے حوالے
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟
  • میڈیا پابندی شکست کا کھلا اعتراف ہے، روس کا یوکرین پر طنز
  • موضوع: حضرت زینب ّمعاصر دنیا کی رول ماڈل کیوں اور کیسے
  • ایک ہی رات میں 130 یوکرینی ڈرونز مار گرا دیئے گئے
  • سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے.