‘بوچا ویچس’، روس سے لڑنے والا یوکرینی خواتین کا یہ گروپ کون ہے اور کیسے وجود میں آیا؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
KYIV:
روس اور یوکرین کی جنگ کو تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس جنگ میں اب تک لاکھوں افراد متاثر اور ہزاروں ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور اسی طرح زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اس دوران یوکرین سے لاکھوں افراد دوسرے ممالک منتقل ہوگئے ہیں یا اپنے ہی دیس میں بے گھر ہوچکے ہیں لیکن جنگ تاحال جاری ہے۔
روس اور یوکرین کی جنگ کے دوران کئی شہریوں کی جانب سے اپنے دفاع کی کئی مثالیں بھی سامنے آچکی ہیں اور حال ہی میں غیرملکی میڈیا نے یوکرین میں خواتین کے گروپ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے، جس کو ‘بوچا ویچس’ کا نام دیا گیا ہے جو رضاکارانہ طور پر روس کے خلاف یوکرین کی فوج کی مدد کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بوچا ویچس یوکرین کی خواتین کا پہلا ایئرڈیفنس یونٹ ہے، جس کو روسی ڈرونز گرانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے، اس گروپ کی اکثر خواتین وہ ہیں جن کا روس اور یوکرین کی جنگ میں ناقابل تلافی ذاتی نقصان ہوا ہے۔
بوچا ویچس کی رضاکار خواتین کا تعلق یوکرین کے دارالحکومت کیف کے مضافات بوچا سے ہے، جو جنگ کے شروع میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ تھا جہاں رپورٹس کے مطابق روسی فوج نے مبینہ طور پر 450 سے زائد شہریوں کو ہلاک کیا، جن میں مرد، خواتین، بچے اور بزرگ بھی شامل تھے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ روسی فوج نے بوچا میں 33 روز تک قبضہ برقرار رکھا اور اس دوران ہزاروں افراد پر تشدد کیا، اس کے علاوہ ریپ اور لوٹ مار کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔
بوچا میں ان واقعات کے بعد وہاں کی خواتین کے ایک بڑے گروپ نے روس کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے ‘ویچس آف بوچا’ کے نام سے گروپ تشکیل دیا اور یہ گروپ یوکرین کی ویمن ایئرڈیفنس یونٹ بن گیا اور انہوں نے اعلان کیا اب وہ روس کی جارحیت کے خلاف اپنے گھروں اور لوگوں کی حفاظت کریں گی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بوچا ویچس میں ہر عمر کی خواتین شامل ہیں، جن میں 19 سال سے لے کر 60 سال کی خواتین بھی ہیں اور انہیں روسی ڈرونز گرانے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور خاص طور پر ایرانی ساختہ اور روسی گیران ڈرونز گرانے کا کام سونپ دیا گیا ہے۔
مذکورہ گروپ میں شامل خواتین میں سے کوئی پروفیشنل فوجی نہیں ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کی اکثریت نے یوکرینی فون کی سروس میں شمولیت کے لیے تحریری طور پر لکھ کر دیا ہے۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں 51 سالہ خاتون ویلنٹینا کا حوالہ دیا گیا ہے، جو بوچا ویچس کی سرگرم رکن ہیں، انہوں نے کہا کہ میری والدہ میرے اس کام سے بہت خوش ہیں اور یہاں پر موجود تمام ہمارے دوست، ساتھی، بھائی اور بہنیں ایک ہیں اور ہمارا ایک مقصد ہے کہ ہم فتح کی رفتار میں اضافہ کریں اور جس طرح حاصل ہو فتح حاصل کی جائے۔
ویلنٹینا کے تین بچے ہیں اور تقریباً خواتین پر مشتمل مذکورہ یونٹ کا فعال رکن ہیں اور وہ ماسکو کے خطرناک ڈرونز کا مقابلہ کرتی ہیں۔
یوکرینی خواتین کے اس یونٹ کی تربیت کہاں ہوئی، اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کسی بھی خاتون نے کبھی فوجی تربیت حاصل نہیں کی، اسی لیے انہیں گوریلا تربیت کے لیے مورڈور بھیجا جا رہا ہے اور ان خواتین کو سابق فوجی تربیت دے رہے ہیں اور انہیں جسمانی اور نفسیاتی حوالے سے تیار کر رہے ہیں۔
بوچا ویچس کو فوجی تربیت دینے والے ایک انسٹرکٹر کرنل اینڈری ویرلیٹی نے تربیتی گروپ کو تاکید کی کہ جب آپ وردی پہنتے ہیں تو آپ مرد یا خاتون نہیں ہوتے بلکہ آپ ایک دفاع کرنے والے جنگجو کہلاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق خواتین رضاکاروں کو تربیت کے دوران 20 ویں صدی کی میکسم ایم 1910 مشین گن کا استعمال سکھایا گیا اور اب 150 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے اڑنے والے ڈرونز نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جو عام طور پر 50 کلوگرام تک دھماکا خیز مواد سے بھرے ہوتے ہیں اور یہ ڈرونز جب بڑی تعداد میں اڑ رہے ہوں تو نشانہ بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔
خاتون رضاکار ویلنٹینا نے اس حوالے سے کہا کہ ڈرون خوف ناک بلکہ بہت خوف ناک ہوتے ہیں۔
بوچا ویچس کی تشکیل کے مقاصد کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ روس سے جنگ کے دوران یوکرینی فوج میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت تقریباً 65 ہزار خواتین فوج کا حصہ ہے اور 4 ہزار خواتین لڑاکا یونٹ میں شامل ہیں۔
یوکرینی فوج میں شامل خواتین میں بوچا ویچس بھی شامل ہیں، جن میں اکثر وہ خواتین ہیں جو گھریلو، پروفیشنلز اور جنگ سے متاثرہ ہیں اور وہ روس کی فوج کے خلاف اپنے گھروں کے دفاع کے لیے میدان میں آگئی ہیں۔
کیف میں آرٹ گیلری کی مالک خواتین کیٹریانہ نے تسلیم کیا کہ وہ پریشان تھیں اور انہوں نے اس سے پہلے کبھی بندوق کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا لیکن انہوں نے دیگر کئی خواتین کی طرح اس نئی حقیقت کو تسلیم کیا اور اپنے ملک کے دفاع کے لیے میدان میں آگئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ نتالیا بھی ان خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے بوچا سے اپنے بچوں کے ساتھ نقل مکانی کرکے جان بچائی لیکن بعد میں بدلہ لینے کے لیے واپس گئیں اور ان کا کہنا تھا کہ باہر سے دیکھنے کے بجائے جنگ میں حصہ لینا بہتر ہے۔
ایک اور خاتون اولینا نے بتایا کہ میرا مقصد لوگوں کو محفوظ رکھنا اور انہیں پرامن طریقے سے زندگی گزارنے کا موقع دینا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رپورٹ میں بتایا گیا بتایا گیا کہ یوکرین کی کی خواتین کے مطابق حوالے سے انہوں نے شامل ہیں کے خلاف ہیں اور کے لیے گیا ہے ہے اور اور ان
پڑھیں:
’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!
کیا صرف چند معیاری سوالات آپ کو دوسروں کے قریب لا سکتے ہیں؟ نیدرلینڈز کی یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم کے ماہرین نفسیات نے ایسا ہی ایک تجربہ کیا جس نے حیران کن نتائج دیے۔
یہ بھی پڑھیں: اکثر افراد کو درپیش ’دماغی دھند‘ کیا ہے، قابو کیسے پایا جائے؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ماہر نفسیات ایڈی برومیل مین اور ان کی ٹیم نے 8 سے 13 سال کی عمر کے بچوں اور ان کے والدین پر ایک تجربہ کیا جس میں والدین نے اپنے بچوں سے صرف 14 سوالات پوچھے۔ یہ سوالات عام گفتگو سے ہٹ کر، ذاتی تجربات اور جذبات سے متعلق تھے۔
مثال کے طور پر اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک جا سکتے تو کہاں جاتے اور کیوں؟ اب تک کا سب سے عجیب تجربہ کیا رہا؟ آپ آخری بار کب تنہا محسوس ہوئے اور کیوں؟
9 منٹ کی گفتگواس مختصر بات چیت کے بعد بچوں سے سوالنامہ پر کروایا گیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ وہ اپنے والدین سے کتنا پیار محسوس کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: آوازیں سننا ذہنی بیماری یا روحانی رابطہ؟
صرف 9 منٹ کی گفتگو کے بعد بچوں نے والدین کی محبت اور سپورٹ کا زیادہ احساس ظاہر کیا۔ یعنی گہرے سوالات، گہرے رشتے پیدا کرتے ہیں۔
فااسٹ فرینڈز پروسیجریہ تکنیک اصل میں ’فاسٹ فرینڈز پروسیجر‘ کہلاتی ہے جسے پہلی بار سنہ 1990 کی دہائی میں ماہر نفسیات آرتھر آرن نے تیار کیا تھا۔ اس میں 2 افراد ایک دوسرے سے گہرے اور ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھتے ہیں جیسے کہ آپ کا ایک مثالی دن کیسا ہوگا؟ اگر آپ کو موت سے پہلے صرف ایک چیز بچانے کا موقع ملے تو وہ کیا ہوگی اور کیوں؟
مزید پڑھیں: اگر آپ کو بھی پڑوس کا شور بہت پریشان کرتا ہے تو یہ خبر آپ کے لیے ہے؟
تحقیق سے پتا چلا کہ ایسے سوالات خود انکشاف (سیلف ڈسکلوژر) کو فروغ دیتے ہیں جو انسانی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے خواہ وہ 2 اجنبی، دوست، ساتھی یا والدین و بچے ہوں۔
سائنسدانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جب ہم دل سے بات کرتے ہیں تو ہمارا دماغ قدرتی اینڈورفنز خارج کرتا ہے وہی کیمیکل جو ہمیں خوشی، تعلق اور سکون کا احساس دیتے ہیں۔
یہی ’اوپیئڈ سسٹم‘ منشیات جیسے مورفین پر بھی ردعمل ظاہر کرتا ہے مگر یہاں بات ہے قدرتی، محفوظ اور جذباتی تعلق کی۔
ایک تجربے میں جب شرکا کو ایک دوا دے کر اینڈورفنز کے اثرات کو روکا گیا تو وہ نہ تو گفتگو میں دلچسپی لے پائے اور نہ ہی دوسرے شخص کے قریب محسوس کیا۔
مختلف معاشرتی گروہوں میں بھی مؤثراس طریقے کو مختلف گروہوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ یہ طریقہ آن لائن طلبہ کے درمیان تعلقات بڑھانے کے لیے، مختلف جنسی رجحانات کے افراد کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کے لیے اور نسل، عمر یا ثقافت کے فرق کے باوجود تعلق قائم کرنے کے لیے اپنایا گیا۔
سادہ اصول: سچے سوالات اور کھلا دلماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں زیادہ بہادر ہونے کی ضرورت ہے۔ اکثر لوگ ذاتی باتیں اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں لگتا ہے دوسرا شخص دلچسپی نہیں لے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ لوگ سننا چاہتے ہیں اور تعلق چاہتے ہیں۔
یہ صرف سوالات پوچھنے کا عمل نہیں بلکہ ایک سوچ کی تبدیلی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹوائلٹ میں موبائل کا استعمال کس خطرناک بیماری کا سبب بن سکتا ہے؟
والدین بھی اپنی کہانی سنائیں، بچوں کو سوالات پوچھنے دیں، اور ایک برابری کے ماحول میں گفتگو کریں — تب ہی دل سے دل جڑے گا۔
کیا حال ہے؟اگر آپ اپنے بچوں، شریک حیات، دوست یا کسی اجنبی سے تعلق مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو صرف ’کیا حال ہے‘ سے آگے بڑھیں۔
ان سے پوچھیں کہ ایسا کون سا لمحہ تھا جب آپ نے خود کو سب سے زیادہ تنہا محسوس کیا؟ یا یہ کہ آپ کا سب سے بڑا خواب کیا ہے؟ شاید یہی ایک سوال، ایک زندگی بدل دے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بامعنی سوالات بامعنی گفتگو باہمی تعلقات باہمی محبت دوستی لوگوں کو قریب لائیں