جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی چیلنجز اور سوشل میڈیا کا کردار
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
پاکستان اور بھارت کا رشتہ تاریخ، تہذیب اور جغرافیہ کے گہرے روابط رکھنے کے باوجود کشیدگی، بداعتمادی اور تنازعات سے عبارت رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدوں پر خار دار دیواریں تو موجود ہیں، لیکن قدرتی مسائل، خاص طور پر موسمیاتی اور ماحولیاتی چیلنجز، ان کے درمیان کسی سرحد کے پابند نہیں۔فضائی آلودگی، پانی کی کمی، ہیٹ ویوز، سمندری طوفان کے خطرات، طوفانی بارشیں اور برفانی گلیشیئرز کے پگھلنے جیسے مسائل دونوں ممالک کے شہریوں کو یکساں اور شدید متاثرکررہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان اور بھارت طویل المدتی موسمیاتی بحران کی لپیٹ میں ہیں، جو ان کے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا ہمیں ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے کہ اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر مشترکہ ماحول دوست مستقبل کی جانب بڑھا جائے۔
اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی رپورٹ ''South Asia Environmental Outlook 2024'' کے مطابق جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی بحران کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ’’بھارت اور پاکستان کے شہری علاقوں میں فضائی آلودگی عالمی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے، جس کے باعث بھارت میں سالانہ 1.
2024 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 467 ملین اور پاکستان میں 71 ملین فعال سوشل میڈیا صارفین موجود ہیں۔ یہ نوجوان صارفین انسٹاگرام، ٹوئٹر، یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعے عالمی و مقامی مسائل پر آواز بلند کر رہے ہیں، اگر ان پلیٹ فارمزکو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ماحولیات کے تحفظ اور خطے میں امن کے فروغ کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔
اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں، مثال کے طور پر ہیش ٹیگ #IndoPakClimateSolidarity کے ذریعے نوجوانوں نے سرحد پار ماحولیاتی یکجہتی کا اظہارکیا۔ یوٹیوب چینلز جیسے India Pakistan Together نے ماحولیاتی موضوعات پر مثبت مکالمے کو فروغ دیا۔ مختلف این جی اوز نے آن لائن کانفرنسز اور وسمینارز کے ذریعے مشترکہ ماحولیاتی حل تلاش کیے۔ عالمی سطح پر بھی دیکھاجائے تو سوشل میڈیا نے متصادم گروہوں کو ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے متحدکیا جیسے فلسطین اور اسرائیل کے نوجوانوں نے EcoPeace Middle East کے ذریعے پانی کے تحفظ پر مل کر کام کیا۔ چین اور بھارت کی ڈیجیٹل مہمات نے سرحدی ماحولیاتی خطرات پر توجہ دی۔ اقوام متحدہ کے Climate Action Now جیسے عالمی پروگراموں نے سوشل میڈیا کو مؤثر ماحولیاتی سفارت کاری کا ذریعہ بنایا۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جہاں مواقع موجود ہوتے ہیں، وہیں چیلنجز بھی ہوتے ہیں۔ بعض گروہ سوشل میڈیا کو تعصب اور دشمنی کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہوئے نفرت انگیز بیانیے کو پروان چڑھاتے ہیں جب کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق جعلی خبریں اور اس حوالے سے سازشی نظریات ماحول دوستی کے لیے کی جانے والی کوششوں کوکمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں، اس کے ساتھ بعض اوقات حکومتیں ریاستی سنسر شپ کے زریعے آن لائن مکالمے پر پابندیاں عائد کردیتی ہیں ۔
ہمارے پالیسی ساز اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے مشترکہ ماحول دوست مستقبل کو پروان چڑھانے کے لیے متعدد اقدامات اٹھا سکتے ہیں جیسے، ماحولیاتی یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور انسٹا ایکٹیوسٹس کو ڈیجیٹل بیداری اور تحقیق پر مبنی تربیت دی جائے۔ پاکستان اور بھارت کے طلبا، محققین اورکارکنان کے درمیان ورچوئل کلائمیٹ کانفرنسز منعقد کی جائیں، دونوں ممالک کے نوجوان فلم ساز ماحولیاتی ڈاکیومنٹریز اور سوشل میڈیا سیریز بنائیں جیسے ’’ سانس ایک، شہر دو‘‘ جامعات ماحولیاتی اور سوشل میڈیا سے متعلق تحقیق کو فروغ دے کر بین الاقوامی تحقیقی گرانٹس حاصل کرسکتی ہیں۔ UNEP،SAARCاور دیگر عالمی ادارے اس ضمن میں سوشل میڈیا بیداری مہمات کو مالی اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کرسکتے ہیں۔
ہمیں جلد از جلد اس امرکا ادراک کرنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا کی ماحولیاتی بقا اب دونوں ممالک کے لیے بقاء کا سوال ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو روایتی سفارتی دروازوں کو کھولے بغیر دلوں کو جوڑ سکتا ہے۔ نوجوانوں کی آوازیں اگر ماحولیاتی انصاف، پانی کی حفاظت اور صاف فضا کے لیے بلند ہوں، تو نہ صرف کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے بلکہ ایک بہتر، مشترکہ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
اب پاکستان اور بھارت کا مستقبل جنگ یا سیاست کے فیصلے نہیں بلکہ مشترکہ ماحولیاتی خطرات طے کریں گے۔ دریاؤں کا پانی،آلودہ فضا،گرم ہوتا موسم اور ختم ہوتی حیاتیاتی تنوع بھی ان مسائل میں شامل ہیں جن کی سرحدیں نہیں ہوتیں، اگر دونوں ملکوں کے نوجوان سوشل میڈیا کو نفرت کے بجائے فہم و فراست کا ذریعہ بنائیں، تو وہ نہ صرف ماحول کو بچا سکتے ہیں بلکہ دشمنی کی برف کو بھی پگھلا سکتے ہیں۔آج ہمیں جنگ کی زبان سے نہیں، ہوا اور پانی کی زبان سے بات کرنی ہے، اور سوشل میڈیا ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم نفرت کے شور میں ماحول کے حق میں ایک نیا نغمہ چھیڑیں۔ سوشل میڈیا، جوکل تک تفریح کا ذریعہ تھا، آج ہمارے ہاتھ میں ایک بااثر ہتھیار ہے، محبت، شعور اور مکالمے کا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت اور سوشل میڈیا دونوں ممالک کے مشترکہ ماحول کے ذریعے سکتے ہیں پانی کی کے لیے
پڑھیں:
باتھ روم میں بند بیٹے کی ویڈیو بنانے پر سوشل میڈیا صارفین برہم
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک ماں اپنے ننھے بیٹے کو باتھ روم میں بند دیکھ کر مدد مانگنے کے بجائے موبائل کیمرہ آن کر لیتی ہے۔ اس واقعے نے انٹرنیٹ صارفین کے درمیان شدید بحث اور غصے کو جنم دیا ہے۔
انسٹاگرام پر بلاگر ممیتا بشٹ نے ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں اُن کا کم عمر بیٹا غلطی سے باتھ روم کے اندر سے دروازہ بند کر لیتا ہے اور باہر نکلنے میں ناکام رہتا ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچہ خوف زدہ ہو کر رونے لگتا ہے جبکہ ماں باہر سے اُسے بار بار ہدایت دیتی ہے کہ لاک کھولو ، مگر وہ ایسا نہیں کر پاتا۔
ویڈیو میں ممیتا بشٹ بتاتی ہیں، ’میرا بیٹا غلطی سے باتھ روم بند کر بیٹھا تھا۔ وہ مسلسل روتا جا رہا تھا، میں خود بھی گھبرا گئی تھی۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کروں، تب میں نے اپنی پڑوسن کو فون کیا۔‘
Mother films son locked in bathroom, slammed for chasing views with the video
In a post on Instagram, blogger #MamtaBisht shared the video, narrating how her son had locked the bathroom door from inside and couldn't open it despite her repeated instructions.…
— IndiaToday (@IndiaToday) October 31, 2025
ویڈیو میں قریب رہنے والی ایک خاتون سیڑھی اور ایک چھڑی لے کر آتی ہیں۔ چونکہ باتھ روم کی کھڑکی چھت کے قریب تھی، وہ وہاں چڑھ کر اندر کی جانب سے چھڑی ڈالتی ہیں اور دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ یوں ماں اور بیٹا بالآخر محفوظ طریقے سے مل جاتے ہیں۔
ممیتا نے ویڈیو کے ساتھ لکھا کہ وہ اسے صرف دوسری ماؤں کو خبردار کرنے کے لیے شیئر کر رہی ہیں تاکہ کوئی اور بچہ ایسے حادثے کا شکار نہ ہو۔
مگر صارفین کی ایک بڑی تعداد نے ان کی نیت پر شک ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ماں نے ہمدردی سے زیادہ “کانٹینٹ” پر توجہ دی۔
کئی صارفین نے تبصرے میں شدید ناراضی کا اظہار کیا:
“بیٹا باتھ روم میں بند ہے، اور آپ کو ویڈیو بنانے کی فکر ہے؟ شرم آنی چاہیے!”
“بچے کو بچانے سے پہلے ریئل بنانا؟ یہ کیسا ماں کا جذبہ ہے؟”
“یہ آگاہی نہیں، خود نمائی ہے۔ بچوں کے خوف کو ویوز کے لیے استعمال کرنا غلط ہے۔”
اگرچہ زیادہ تر لوگوں نے ممیتا کو تنقید کا نشانہ بنایا، کچھ صارفین نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ممیتا کا مقصد صرف آگاہی پھیلانا تھا۔
ایک صارف نے لکھا، “شاید ویڈیو اسی لیے بنائی گئی ہو کہ دوسرے والدین سیکھیں کہ بچوں کو اکیلا باتھ روم کے قریب نہ جانے دیں۔”
چائلڈ سیفٹی ماہرین کے مطابق، چھوٹے بچوں کو ہمیشہ واش روم، کچن یا بالکونی کے قریب نگرانی میں رکھا جانا چاہیے۔
اسی طرح والدین کو چاہیے کہ باتھ روم کے دروازے پر حفاظتی لاک یا باہر سے کھولنے والا ہینڈل ضرور لگوائیں تاکہ ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔
ممیتا بشٹ کا یہ ویڈیو جاں کچھ لوگوں کے لیے سیکھنے کا موقع ثابت ہوا، وہیں زیادہ تر صارفین نے اسے ماں کی حساسیت سے زیادہ شہرت کی خواہش قرار دیا۔