Juraat:
2025-11-02@08:18:15 GMT

ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران

اشاعت کی تاریخ: 2nd, November 2025 GMT

ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران

میری بات/روہیل اکبر

ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان میں سب سے زیادہ عدم مساوات ایشیا میں ممالک میں آمدنی کا میں یہ

پڑھیں:

گوگل نے تاریخ رقم کردی، ایک سہ ماہی میں 100 بلین ڈالر سے زائد آمدنی

گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ نے تیسری سہ ماہی میں اپنی تاریخ کا سب سے بڑا مالی ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔ کمپنی نے اس عرصے کے دوران تقریباً 102.35 بلین ڈالر کی آمدنی حاصل کی، یہ پہلا موقع ہے کہ گوگل کی آمدنی ایک ہی سہ ماہی میں 100 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔

کمپنی کے سی ای او سندر پچائی نے نتائج جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ کامیابی گوگل کی فل اسٹیک اے آئی حکمتِ عملی، کلاؤڈ سروسز اور اشتہارات کے شعبے میں مضبوط کارکردگی کا نتیجہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوگل نے نیا کوانٹم کمپیوٹنگ الگورتھم تیار کرلیا، آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں انقلاب بپا کرنے کا اعلان

سندر پچائی کا کہنا ہے کہ گوگل نے گزشتہ 4 سالوں میں اپنی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو ہر سطح پر لاگو کیا ہے، جس کے مثبت اثرات اب نمایاں ہورہے ہیں۔

گوگل کے اشتہاراتی بزنس نے بدستور اپنی قیادت برقرار رکھی ہے اور یوٹیوب سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح گوگل کلاؤڈ یونٹ نے بھی 34 فیصد سالانہ ترقی کے ساتھ تقریباً 15.16 بلین ڈالر کی آمدنی حاصل کی، جو کمپنی کی مجموعی کارکردگی میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: محض ایک ٹوئٹ نے گوگل کو 100 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا دیا، مگر کیسے؟

الفابیٹ نے 2025 کے دوران اپنے سرمایہ کاری کے تخمینے کو بڑھا کر 91 سے 93 بلین ڈالر تک کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد ڈیٹا سینٹرز اور اے آئی ڈھانچے کو مزید وسعت دینا ہے۔ اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنی مستقبل میں مصنوعی ذہانت اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے میدان میں اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔

اس ریکارڈ کامیابی پر دنیا بھر میں مثبت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ ایلون مسک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر سندر پچائی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ’نائس ورک‘ جس کے جواب میں پچائی نے تحریر کیا’ تھینکس ایکسائیٹنگ‘۔ یہ تبادلہ الفابیٹ کی بڑھتی ہوئی کامیابی پر ٹیکنالوجی انڈسٹری کی توجہ کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوگل نے ریموٹ ورک پالیسی سخت کردی، ملازمین کے لیے نئی شرائط عائد

ماہرین کے مطابق گوگل کی یہ غیر معمولی کارکردگی عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کی بڑھتی ہوئی طلب، ڈیجیٹل اشتہارات کے پھیلاؤ اور کلاؤڈ انفراسٹرکچر کی تیز رفتار ترقی کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم مستقبل میں کمپنی کو سخت مسابقت، ریگولیٹری دباؤ اور اشتہاراتی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ جیسے چیلنجز کا سامنا بھی رہے گا۔

دوسری جانب سرمایہ کاروں نے گوگل کے نتائج کو ایک مثبت اشارہ قرار دیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں الفابیٹ کے شیئرز میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر کمپنی اپنی موجودہ رفتار برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تو مصنوعی ذہانت اور کلاؤڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں گوگل کا غلبہ مزید مستحکم ہو جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news الفابیٹ انکم گوگل

متعلقہ مضامین

  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • وزارت خزانہ کے اہم معاشی اہداف، معاشی شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا امکان
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان معدنیات کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • ایشیا کپ رائزنگ اسٹارز: پاکستان اور بھارت کی ایمرجنگ ٹیمیں 16 نومبر کو آمنے سامنے
  • مہنگائی میں کمی اور شرح سود میں تاریخی کمی سے معیشت میں بہتری، عالمی اعتماد بحال، شزا فاطمہ
  • پاک بھارت ٹیمیں ایک بار پھر مد مقابل آنے کو تیار
  • پاکستان کاموجودہ اقتصادی ماڈل طاقتوراشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے،برطانوی ادارہ
  • سعودی عرب اور یو ای اے کا پیسہ کیسے بحران پیدا کر رہا ہے؟!
  • گوگل نے تاریخ رقم کردی، ایک سہ ماہی میں 100 بلین ڈالر سے زائد آمدنی