دنیا کا نایاب ترین نیا بلڈ گروپ دریافت؛ نام جانیے
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کیریبین کے جزیرے گواڈیلوپ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون میں خون کی ایک نئی اور دنیا کی نایاب ترین قسم دریافت ہوئی ہے، جسے “گواڈا نیگیٹو” (Gwada Negative) کا نام دیا گیا ہے۔ اس انکشاف کا اعلان فرانس کی قومی بلڈ سپلائی ایجنسی ای ایف ایس (EFS) نے کیا، جس نے اس دریافت کو عالمی طبی میدان میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔
ای ایف ایس نے ایک بیان میں بتایا کہ اس نے دنیا کا 48واں بلڈ گروپ سسٹم دریافت کیا ہے۔ یہ انقلابی دریافت تقریباً 15 سالہ تحقیق کے بعد سامنے آئی، جس کا آغاز 2011 میں اس وقت ہوا جب ایک خاتون مریضہ، جو سرجری سے قبل معمول کے ٹیسٹ کروا رہی تھیں، کے خون میں ایک غیر معمولی اینٹی باڈی دیکھی گئی۔
ابتدائی طور پر تحقیق وسائل کی کمی کے باعث سست روی کا شکار رہی، تاہم 2019 میں جدید ڈی این اے ٹیکنالوجی کی مدد سے اس منفرد خون کی نوعیت کو مکمل طور پر سمجھا گیا۔ تحقیق کی قیادت کرنے والے ماہر تھیری پیراڈ کے مطابق یہ خاتون دنیا میں اس خون کی واحد معلوم حاملہ ہیں — اور اپنے خون کے لیے خود ہی واحد ممکنہ عطیہ دہندہ بھی۔
“گواڈا نیگیٹو” نہ صرف اس نایاب بلڈ گروپ کی شناخت ظاہر کرتا ہے بلکہ مریضہ کے آبائی علاقے گواڈیلوپ کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ نام سادہ، موزوں اور عالمی سطح پر قابل قبول ہے۔ یہ خون خاتون کو وراثتی طور پر والدین سے منتقل ہوا، جن دونوں میں ایک خاص جینیاتی تبدیلی موجود تھی۔
یہ نایاب دریافت جون 2025 میں میلان، اٹلی میں ہونے والی انٹرنیشنل سوسائٹی آف بلڈ ٹرانسفیوژن (ISBT) کی کانفرنس میں باضابطہ طور پر تسلیم کر لی گئی۔ اس سے قبل دنیا بھر میں صرف 47 بلڈ گروپ سسٹمز کو تسلیم کیا جاتا تھا، جبکہ “گواڈا نیگیٹو” کو 48ویں بلڈ گروپ کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
ای ایف ایس کے مطابق نایاب خون کی اقسام کی شناخت، ایسے مریضوں کے علاج میں نہایت اہم سنگِ میل ہے جن کے لیے عام بلڈ گروپ دستیاب نہ ہوں۔ ماہرین اب اس نایاب بلڈ گروپ کے ممکنہ دیگر حاملین کی تلاش میں ہیں تاکہ مستقبل میں خون کی فراہمی اور منتقلی کے نظام کو مزید مؤثر اور محفوظ بنایا جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
‘بوچا ویچس’، روس سے لڑنے والا یوکرینی خواتین کا یہ گروپ کون ہے اور کیسے وجود میں آیا؟
KYIV:روس اور یوکرین کی جنگ کو تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس جنگ میں اب تک لاکھوں افراد متاثر اور ہزاروں ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور اسی طرح زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اس دوران یوکرین سے لاکھوں افراد دوسرے ممالک منتقل ہوگئے ہیں یا اپنے ہی دیس میں بے گھر ہوچکے ہیں لیکن جنگ تاحال جاری ہے۔
روس اور یوکرین کی جنگ کے دوران کئی شہریوں کی جانب سے اپنے دفاع کی کئی مثالیں بھی سامنے آچکی ہیں اور حال ہی میں غیرملکی میڈیا نے یوکرین میں خواتین کے گروپ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے، جس کو ‘بوچا ویچس’ کا نام دیا گیا ہے جو رضاکارانہ طور پر روس کے خلاف یوکرین کی فوج کی مدد کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بوچا ویچس یوکرین کی خواتین کا پہلا ایئرڈیفنس یونٹ ہے، جس کو روسی ڈرونز گرانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے، اس گروپ کی اکثر خواتین وہ ہیں جن کا روس اور یوکرین کی جنگ میں ناقابل تلافی ذاتی نقصان ہوا ہے۔
بوچا ویچس کی رضاکار خواتین کا تعلق یوکرین کے دارالحکومت کیف کے مضافات بوچا سے ہے، جو جنگ کے شروع میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ تھا جہاں رپورٹس کے مطابق روسی فوج نے مبینہ طور پر 450 سے زائد شہریوں کو ہلاک کیا، جن میں مرد، خواتین، بچے اور بزرگ بھی شامل تھے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ روسی فوج نے بوچا میں 33 روز تک قبضہ برقرار رکھا اور اس دوران ہزاروں افراد پر تشدد کیا، اس کے علاوہ ریپ اور لوٹ مار کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔
بوچا میں ان واقعات کے بعد وہاں کی خواتین کے ایک بڑے گروپ نے روس کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے ‘ویچس آف بوچا’ کے نام سے گروپ تشکیل دیا اور یہ گروپ یوکرین کی ویمن ایئرڈیفنس یونٹ بن گیا اور انہوں نے اعلان کیا اب وہ روس کی جارحیت کے خلاف اپنے گھروں اور لوگوں کی حفاظت کریں گی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بوچا ویچس میں ہر عمر کی خواتین شامل ہیں، جن میں 19 سال سے لے کر 60 سال کی خواتین بھی ہیں اور انہیں روسی ڈرونز گرانے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور خاص طور پر ایرانی ساختہ اور روسی گیران ڈرونز گرانے کا کام سونپ دیا گیا ہے۔
مذکورہ گروپ میں شامل خواتین میں سے کوئی پروفیشنل فوجی نہیں ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کی اکثریت نے یوکرینی فون کی سروس میں شمولیت کے لیے تحریری طور پر لکھ کر دیا ہے۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں 51 سالہ خاتون ویلنٹینا کا حوالہ دیا گیا ہے، جو بوچا ویچس کی سرگرم رکن ہیں، انہوں نے کہا کہ میری والدہ میرے اس کام سے بہت خوش ہیں اور یہاں پر موجود تمام ہمارے دوست، ساتھی، بھائی اور بہنیں ایک ہیں اور ہمارا ایک مقصد ہے کہ ہم فتح کی رفتار میں اضافہ کریں اور جس طرح حاصل ہو فتح حاصل کی جائے۔
ویلنٹینا کے تین بچے ہیں اور تقریباً خواتین پر مشتمل مذکورہ یونٹ کا فعال رکن ہیں اور وہ ماسکو کے خطرناک ڈرونز کا مقابلہ کرتی ہیں۔
یوکرینی خواتین کے اس یونٹ کی تربیت کہاں ہوئی، اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کسی بھی خاتون نے کبھی فوجی تربیت حاصل نہیں کی، اسی لیے انہیں گوریلا تربیت کے لیے مورڈور بھیجا جا رہا ہے اور ان خواتین کو سابق فوجی تربیت دے رہے ہیں اور انہیں جسمانی اور نفسیاتی حوالے سے تیار کر رہے ہیں۔
بوچا ویچس کو فوجی تربیت دینے والے ایک انسٹرکٹر کرنل اینڈری ویرلیٹی نے تربیتی گروپ کو تاکید کی کہ جب آپ وردی پہنتے ہیں تو آپ مرد یا خاتون نہیں ہوتے بلکہ آپ ایک دفاع کرنے والے جنگجو کہلاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق خواتین رضاکاروں کو تربیت کے دوران 20 ویں صدی کی میکسم ایم 1910 مشین گن کا استعمال سکھایا گیا اور اب 150 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے اڑنے والے ڈرونز نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جو عام طور پر 50 کلوگرام تک دھماکا خیز مواد سے بھرے ہوتے ہیں اور یہ ڈرونز جب بڑی تعداد میں اڑ رہے ہوں تو نشانہ بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔
خاتون رضاکار ویلنٹینا نے اس حوالے سے کہا کہ ڈرون خوف ناک بلکہ بہت خوف ناک ہوتے ہیں۔
بوچا ویچس کی تشکیل کے مقاصد کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ روس سے جنگ کے دوران یوکرینی فوج میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت تقریباً 65 ہزار خواتین فوج کا حصہ ہے اور 4 ہزار خواتین لڑاکا یونٹ میں شامل ہیں۔
یوکرینی فوج میں شامل خواتین میں بوچا ویچس بھی شامل ہیں، جن میں اکثر وہ خواتین ہیں جو گھریلو، پروفیشنلز اور جنگ سے متاثرہ ہیں اور وہ روس کی فوج کے خلاف اپنے گھروں کے دفاع کے لیے میدان میں آگئی ہیں۔
کیف میں آرٹ گیلری کی مالک خواتین کیٹریانہ نے تسلیم کیا کہ وہ پریشان تھیں اور انہوں نے اس سے پہلے کبھی بندوق کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا لیکن انہوں نے دیگر کئی خواتین کی طرح اس نئی حقیقت کو تسلیم کیا اور اپنے ملک کے دفاع کے لیے میدان میں آگئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ نتالیا بھی ان خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے بوچا سے اپنے بچوں کے ساتھ نقل مکانی کرکے جان بچائی لیکن بعد میں بدلہ لینے کے لیے واپس گئیں اور ان کا کہنا تھا کہ باہر سے دیکھنے کے بجائے جنگ میں حصہ لینا بہتر ہے۔
ایک اور خاتون اولینا نے بتایا کہ میرا مقصد لوگوں کو محفوظ رکھنا اور انہیں پرامن طریقے سے زندگی گزارنے کا موقع دینا ہے۔