چین میں مقیم پاکستانی شہری کا سیلاب کے وقت شاندار دوستی کا عملی مظاہرہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
چین میں مقیم پاکستانی شہری کا سیلاب کے وقت شاندار دوستی کا عملی مظاہرہ WhatsAppFacebookTwitter 0 7 July, 2025 سب نیوز
گوئی یانگ(شِنہوا)چین کے جنوب مغربی صوبے گوئی ژو کی رونگ جیانگ کاؤنٹی میں شدید سیلاب کے بارے میں جان کر پاکستان سے تعلق رکھنے والے خرم شہزاد نے فوراً کاؤنٹی کے لئے ایک ٹرک امدادی سامان بھیجا۔یہ کاؤنٹی ویلیج سپر لیگ کی جائے آغاز ہے۔
جون کے آخر میں رونگ جیانگ مسلسل بارشوں کی وجہ سے شدید سیلاب کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ سیلاب پر قابو پانے اور خشک سالی سے نجات کے مقامی ہیڈ کوارٹرز نے ملک کے 4درجاتی موسمیاتی انتباہی نظام میں سیلاب سے نمٹنے کے سب سے اعلیٰ سطح یعنی اول درجے کا ہنگامی ردعمل نافذ کر دیا تھا۔
کاؤنٹی کی دولیو دریا میں ایک موقع پر 253.
سیلاب کے پانی کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد مقامی حکام اور رہائشی مٹی صاف کرنے اور بتدریج پیداواری اور روزمرہ کی زندگی کو بحال کرنے میں مصروف ہیں۔
28 جون کو شہزاد نے دویین پر سیلاب کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں، گاڑیاں بہہ گئی تھیں اور گھروں میں پانی داخل ہوا تھا۔ یہ مناظر دیکھ کر تقریباً 20سال سے چین میں مقیم شہزاد مدد کرنے کے لئے بےچین ہوگیا۔
خرم شہزاد نے کہا کہ جب پاکستان کو مشکلات پیش آتی ہیں تو چین ہمیشہ مدد کے لئے آگے آتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے انہوں نے رونگ جیانگ جانے کا فیصلہ کرلیا جو ویلیج سپر لیگ کے لئے مشہور چھوٹی پہاڑی کاؤنٹی ہے اور اب 50برسوں میں بدترین سیلاب کا سامنا کر رہا ہے۔
گوئی ژو پہنچ کر انہوں نے فوری طور پر سامان جمع کیا۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے وہ سب کچھ لیا جو رونگ جیانگ کو درکار تھا۔ فوری نوڈلز، خالص دودھ، تولیے اور ٹشو، یہ روزمرہ کی اشیاء دویون شہر کی ایک سپرمارکیٹ کے گودام سے ٹرک پر لادی گئیں جو رونگ جیانگ جا رہا تھا۔
یہاں پہنچ کر جب انہوں نے دیکھا کہ سڑکیں صاف کی جا رہی ہیں تو انہوں نے ابتدائی طور پر سوچا کہ وہ کس طرح مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن مقامی حکام، رہائشیوں اور ریسکیو ٹیموں کو ایک ساتھ کام کرتے دیکھ کر وہ چین کی آفت میں امداد کی کارکردگی اور ملک کی یکجہتی پر دنگ رہ گئے۔
شہزاد پہلی بار 2006 میں چین آئے تاکہ چین کے مشرقی صوبے ژےجیانگ صوبے کے یی وو شہر میں چھوٹے سامان کا کاروبار کریں۔ انہوں نے چینی سامان پاکستان میں بیچا اور بعد میں چینی صارفین کے لئے انڈونیشیا اور تھائی لینڈ سے عود درآمد کی۔
خرم شہزاد نے کہا کہ بہت سے چینی مجھ پر اعتماد کرتے ہیں کیونکہ میں پاکستانی ہوں۔ ہماری دوستی باہمی ہے۔
2008 میں ایک دوست کے تعارف کرانے پر ان کی ملاقات دویون کی ایک لڑکی سے ہوئی۔ اب ان کے 3بچے چین میں بڑے ہو چکے ہیں۔ یی وو میں تقریباً 2سال گزارنے کے بعد وہ چین کو اپنا دوسرا گھر سمجھنے لگے ہیں۔
وہ اکثر تنہا رہنے والے بزرگوں اور پیچھے رہ جانے والے بچوں کو عطیات دیتے ہیں، جب پاکستان میں سیلاب آئے تو واپس نہ جا سکنے کے باوجود انہوں نے فوری طور پر رقم عطیہ کی۔ اس بار انہوں نے خاص طور پر اپنے سٹور کو چند دنوں کے لئے بند کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ وہاں مدد کی ضرورت تھی۔ جو کچھ ہم نے کیا وہ کچھ خاص نہیں تھا۔سامان اتارنے کے بعد وہ مدد کے لئے مزید رکناچاہتے تھے لیکن اپنے بچے کی بیماری کی وجہ سے واپس جانا پڑا۔
واپس روانگی سے قبل مقامی لوگوں نے انہیں دعوت دی کہ جب شہربحال ہو جائے تو ویلیج سپر لیگ دیکھنے آئیں۔
“پاکستانی بھائی رونگ جیانگ کی مدد کر رہے ہیں” کے عنوان سے سوشل میڈیا ویڈیو کے نیچے “چین-پاکستان دوستی ہمیشہ قائم رہے گی” جیسے تبصرے آ رہے ہیں۔ یی وو سے رونگ جیانگ تک شہزاد نے چین اور پاکستان کے درمیان دوستی کی داستان لکھی جو ان کے سٹور کی عود کی طرح وقت کے ساتھ مزید خوشبو دار اور پائیدار ہوگئی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرحکومت اور اسٹیٹ بینک کے سخت فیصلوں سے معیشت بحال ہوئی، گورنر اسٹیٹ بینک حوالدار لالک جان شہید:کسی بھی محاذ پر آخری لمحے تک بہادری و دفاع کی اعلیٰ ترین مثال جسٹس سردار سرفراز ڈوگر 8 جولائی کو بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عہدے کا حلف اٹھائیں گے پنجاب میں بارش کا رواں اسپیل کب تک جاری رہے گا؟ پی ڈی ایم اے نے بتا دیا سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے نئے ضوابط 2025ء کا اجرا یہ وقت خاموشی کا نہیں،بیداری کا ہے،نئے پاکستان کے لیے آواز اٹھائیں،محمد عارف کراچی: لیاری میں عمارت گرنےکے بعد ریسکیو آپریشن تیسرے روز بھی جاری، جاں بحق افرادکی تعداد 27 ہوگئیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور(اے اے سید) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے جسارت کے اجتماع عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، تاہم اگر ہم اپنے بیانیے کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو اس سے ضرور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا پہلا دور 1996ء سے 2001ء تک اور دوسرا دور 2021ء سے جاری ہے۔ پہلے دور میں طالبان کی جماعت اسلامی کی سخت مخالفت تھی، مگر اب ان کے رویّے میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ‘‘پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے، لیکن اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم کے مطابق امیرالمؤمنین ملا ہبۃ اللہ اور ان کے قریب ترین حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں باقی ہیں، جس کی ایک مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی 2 روزہ بندش کو قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے آخر میں پورے افغانستان میں انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا گیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہے، لیکن دو دن بعد طالبان حکومت نے خود اس فیصلے کو واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت بہرحال ایک بڑی تبدیلی ہے اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے گہرے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ ‘‘آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘‘ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی۔ وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ ‘اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی’ بے وقوفی کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف پہلے یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے، اور ماضی میں انہوں نے محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے کر تاریخ اور دین دونوں سے ناواقفیت ظاہر کی۔انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اس بیان پر بھی سخت ردعمل دیا کہ ‘‘ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے۔پروفیسر ابراہیم نے کہا یہ ناسمجھ نہیں جانتا کہ تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا جس نے خود امریکا کو شکست دی۔ طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ حکومت میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، نادانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت، احترام اور باہمی اعتماد کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، کیونکہ یہی خطے کے امن اور استحکام کی واحد ضمانت ہے۔