Juraat:
2025-08-15@15:07:16 GMT

پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان تحریک انصاف کے لیے دن بدن مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں26اراکین کی معطلی کے بعد بلوچستان میں پارٹی پر پابندی کی قرارداد کی منظوری اور سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد پارٹی مشکلات کے بھنور میں پھنستی جارہی ہے، ابھی آنے والے وقت میں نہ جانے کیا کیا اور ہوگا۔حالانکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حالیہ برسوں میں پاکستان کی سب سے بڑی اور مؤثر سیاسی جماعتوں میں سے ایک کے طور پر ابھرکرسامنے آئی ہے۔ تاہم 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد سے پارٹی کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے ۔9 مئی کے واقعات کے بعد پنجاب سے کئی اہم پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارٹی چھوڑ دی ہے جس سے پارٹی کی صوبائی تنظیمیںکمزور ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو متعدد قانونی مقدمات کا سامنابھی ہے جس سے پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں محدود ہوئی ہیں جس نے اس کی سیاسی حیثیت کو چاروں صوبوں میں مختلف طریقوں سے متاثر کیا ہے۔ آئندہ دنوں میں پی ٹی آئی کو ان چیلنجز سے نمٹنے اور اپنی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے سخت جدوجہد کا سامنا کرناہوگا ۔اس وقت ملک بھر میں پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہے ؟
بات پنجاب سے سے شروع کرتے ہیںپنجاب جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور قومی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے 2022 کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کو شکست دے کر پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی تھی جو مختصر مدت کے لیے تھی۔ 2024 کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی (جو سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحادی تھی) نے اگرچہ پنجاب میں بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کیں لیکن حکومت بنانے میں ناکام رہی جسکے بعد مسلم لیگ ن نے حکومت بنا لی اور پی ٹی آئی نے مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ ابھی حالیہ بجٹ کے بعد میں پی ٹی آئی کے26اراکین کی معطلی کے بعد اپوزیشن کو نہ صرف عددی نقصان کا سامنا ہے بلکہ اسمبلی اجلاس بلانے کا آئینی اختیار بھی محدود ہو گیا ہے۔ اسمبلی قواعد کے مطابق اجلاس بلانے کے لیے اپوزیشن کو کم از کم 93 اراکین کے دستخط درکار ہوتے ہیں ۔معطلی کے بعد اب اپوزیشن کے پاس صرف 79 اراکین رہ گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی کل تعداد 105 تھی، جب تک معطل اراکین کو بحال نہیں کیا جاتاتب تک اپوزیشن کسی بھی قسم کی ریکوزیشن جمع نہیں کرا سکتی جس سے ایوان میں حکومت پر دبا ڈالنے کی حکمت عملی بھی متاثر ہو گی۔ یہ ساری صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب وزیراعلیٰ مریم نواز کی تقریر کے دوران ایوان میں ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کی گئی۔ حالانکہ یہ اسمبلیوں میں معمول کی بات سمجھی جاتی رہی ہے لیکن اس بارا سپیکر ملک محمد احمد خان نے اراکین کی معطلی کے ساتھ 10 پی ٹی آئی ارکان پر اسمبلی میں توڑ پھوڑ اور مائیکروفون کو نقصان پہنچانے پر 20 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ ان تمام واقعات نے پنجاب میں پی ٹی آئی کی سیاسی قوت کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے جبکہ قیادت کے انخلا، ارکان کی معطلی اور مخصوص نشستوں سے محرومی نے پارٹی کو مزید مشکلات سے دوچار کردیاہے ۔اسی طرح پی ٹی آئی کو ایک اور بڑادھچکا سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے بھی پہنچا ہے جس میں 2024 کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ جولائی 2024 کے سابقہ حکم کو کالعدم قرار دیتا ہے جس میں پی ٹی آئی کو پارلیمانی جماعت کے طور پر بحال کیا گیا تھا اور اسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کا دعویٰ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں تقریباً 80 مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑیگا۔پنجاب کے بعد بلوچستان میں میں پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے کمزور ہے۔ 2024 کے عام انتخابات میں بلوچستان میں پی ٹی آئی کی کارکردگی نمایاں نہیں رہی۔ وہاں سیاسی منظر نامہ مختلف علاقائی اور قوم پرست جماعتوں کے درمیان منقسم ہے جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نمایاں ہیں۔ چونکہ پی ٹی آئی نے بلوچستان میں کوئی براہ راست نشست نہیں جیتی تھی ۔اس لیے اسے وہاں مخصوص نشستیں بھی نہیں مل سکیں ۔بلوچستان میں پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی نسبتاً کمزور ہے اور اس کی عوامی حمایت بھی محدود ہے وہاں حکومتی سطح پر بلوچستان عوامی پارٹی، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کا اتحاد زیادہ مضبوط ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد بھی منظور کی جا چکی ہے جو پارٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ صوبہ سندھ کی بات کریں تو وہاں پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی مضبوط گرفت ہے اور پی ٹی آئی کی حیثیت وہاں قدرے کمزور ہے۔ 2024 کے انتخابات کے بعد سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی موجودگی محدود ہے جس سے پی پی پی کو صوبے میں "ون پارٹی رول” جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کی حمایت زیادہ تر کراچی اور حیدرآباد جیسے شہری مراکز تک محدود ہے جبکہ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ مشکل ہے ۔تین صوبوں کے بعد چوتھے صوبے خیبر پختون خوا ہ(کے پی کے) کوپی ٹی آئی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور یہ واحد صوبہ ہے جہاں 2024 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہے۔ اس وقت بھی پی ٹی آئی حکومت کو صوبہ میں مضبوط عوامی حمایت حاصل ہے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں پارٹی صوبے کے معاملات چلا رہی ہے۔ اگرچہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے لیکن اسے مرکز سے قانونی اور سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف کو 9 مئی کے واقعات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی کریک ڈاؤن کے بعد شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔پارٹی کو اس وقت قیادت کے انخلا، قانونی مقدمات اور مخصوص نشستوں کے خاتمے جیسے مسائل کا سامنا ہے جس نے اس کی ملک گیر سیاسی حیثیت کو متاثر کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے مستقبل میں اپنی سیاسی قوت کو دوبارہ مستحکم کرنا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: انتخابات کے بعد میں پی ٹی آئی کی بلوچستان میں مخصوص نشستوں پی ٹی آئی کے پی ٹی آئی کو کا سامنا ہے اسمبلی میں کی معطلی معطلی کے کی سیاسی کیا ہے ہے اور

پڑھیں:

افواہیں، دریا اور نیا موڑ

پاکستان کی سیاسی فضا میں افواہوں کا راج کوئی نئی بات نہیں۔ ہماری تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں سرگوشیاں، چہ مگوئیاں اور مبینہ اطلاعات وقت کے ساتھ ساتھ حقیقت کا روپ دھارتی چلی گئیں۔ سیانوں کا قول ہے کہ ہر افواہ کے پیچھے کچھ نہ کچھ سچائی ضرور چھپی ہوتی ہے چاہے وہ سچائی پوری تصویر نہ بھی ہو۔ آج کل بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں،اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گلی محلوں تک، چائے خانوں سے لے کر نیوز اسٹوڈیوز تک، ہر جگہ ایک ہی افواہ سنائی دے رہی ہے ،آخر ہونے کیا والا ہے؟

اسلام آباد کی نجی محفلوں میں جاری افواہوں کو سرے سے نظراندازبھی نہیںکیا جا سکتا۔ یہ صرف حکومت کے کیمپ تک محدود نہیں بلکہ اقتدار دینے والے مراکزسے رابطے رکھنے والے بھی محسوس کر رہے ہیں۔ادھر حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات سے یہ اشارہ کہیں نظر نہیں آتا کہ اپوزیشن کے ساتھ کسی بامعنی مکالمے یا مفاہمت کی راہ کھلنے والی ہے۔ تحریکِ انصاف کے صفِ اول کے رہنماؤں اور کارکنوں کو عدالت سے حال ہی میں جوسزائیں سنائی گئی ہیں‘وہ توکچھ اور پیغام دے رہی ہیں ۔

ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد ہم ایک نئے دوراہے پر آن کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک بحران سے نکلتے ہیں تو دوسرا بحران سامنے منہ کھولے کھڑا ہوتا ہے۔ یہ کیفیت بالکل منیر نیازی مرحوم کے اس شعر کی یاد دلاتی ہے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

منیر نیازی کا یہ شعر ہماری اجتماعی سیاسی کہانی کا عکس ہے۔ ہر بار جب ہمیں لگتا ہے کہ اب حالات سدھر جائیں گے، کوئی نیا طوفان اُمڈ آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے دکھ درد بیان کرنے کے لیے شاعری کا سہارا لینا اکثر ناگزیر ہو جاتا ہے ۔فی الحال جو افواہیں گردش کر رہی ہیں ان میں سب سے نمایاں آئین میں متوقع ترامیم کا معاملہ ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ تبدیلیاں سیاسی تنازع کو ہوا دے سکتی ہیں خاص طور پر اس وقت جب ملک میں پہلے ہی سیاسی ہم آہنگی ناپید ہے اور دو صوبے امن و امان کے شدید مسائل سے دوچار ہیں۔ ایسے میں اہلِ دانش یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ مناسب وقت ہے کہ کوئی نیا محاذ کھولا جائے؟

دوسری طرف ایک اور تاثر بھی تیزی سے جنم لے رہا ہے یہ کہ ’ہائیبرڈ حکمرانی ‘کا ماڈل مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔ چنانچہ اس سے نجات حاصل کر کے اقتدار ایسے ہاتھوں میں دیا جائے جو یا تو انتخابی سیاست سے آزاد ہوں یا ایسے سیاسی رہنما ہوں جو عوام میں ذاتی حیثیت سے مقبول ہوں لیکن کسی مخصوص جماعتی ڈسپلن کے اسیر نہ ہوں۔ گویا ایک ’ٹیکنوکریٹ پلس ‘طرز کی حکومت کا تصور زیرِ غور ہے ایسی حکومت جس میں سب جماعتوں کی نمایندگی ہو لیکن جماعتی وابستگی فیصلہ کن نہ ہو۔

یہ تجربہ اپنی نوعیت کا نیا ہو گا مگر سوال یہ ہے کہ عوام اس کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ پاکستان میں ووٹ زیادہ تر شخصیت اور لیڈرشپ کے نام پر ڈالا جاتا ہے نظریات یا پروگرام کی بنیاد پر نہیں۔ ایسے میں کیا لوگ اس نظام کو قبول کریں گے؟ یا یہ بھی ایک اور’نیا دریا‘ثابت ہو گا جسے عبور کرنے کے بعد ہمیں پھر ایک نئے دریا کا سامنا کرنا پڑے گا؟ادھر یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ماضی کی طرح ایک نئی ’چارج شیٹ، تیار کی جا رہی ہے جسے مناسب وقت پر عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس امکان نے حکومتی صفوں میں بھی اضطراب پیدا کر دیا ہے اور اپوزیشن کے کئی حلقے پرجوش نظر آ رہے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض سیاسی رہنماؤں کی نجی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ڈائیلاگ کے لیے تیار ہیںبس اجازت نہیں مل رہی۔یہ صورتحال ایک بڑے تضاد کی عکاسی کرتی ہے۔ بظاہر ہر کوئی جانتا ہے کہ سیاسی مکالمہ ہی مسائل کا حل ہے مگر عملی طور پر کوئی اس طرف قدم بڑھانے کو تیار نہیں۔ اس دوران عوامی مسائل بدستور جوں کے توں ہیں۔ مہنگائی کی لہر رکنے کا نام نہیں لے رہی، چینی اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور عام آدمی کا جینا محال ہو چکا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاست ایک بند گلی میں کھڑی ہے جہاں سے نکلنے کا راستہ صرف باہمی اعتماد ، وسیع دل اور طویل المدت وژن کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ سب چیزیں اس وقت ناپید ہیں۔ ہم نے ماضی میں بارہا دیکھا ہے کہ جب سیاسی قوتیں ایک پیج پر آئیں تو ملک نے معاشی اور سماجی سطح پر ترقی کی لیکن یہ دورانیہ ہمیشہ عارضی رہا۔اگر ہم واقعی اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ماننا ہو گا کہ سیاست میں اختلاف فطری ہے مگر دشمنی زہرِ قاتل۔ اقتدار کے کھیل کو صفر جمع صفر کا کھیل بنانے کے بجائے اسے قومی خدمت کا ذریعہ بنانا ہو گا۔ بصورت دیگر، یہ افواہیں، یہ چہ مگوئیاں، یہ ’نئے دریا‘ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔

اب یہ ہم پر ہے کہ ہم افواہوں کے طوفان میں ڈوبتے ہیں یا بصیرت اور تدبر سے اس کے پار اُترتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے اگر ہم نے وقت پر درست سمت کا تعین نہ کیا تو شاید آنے والے برسوں میں ہم پھر ایک اور دریا کے سامنے کھڑے ہوں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی پائیدار ترقی کے راستے میں سب سے بڑا چیلنج آبادی میں اضافہ، غذائی قلت اور سٹنٹنگ شامل ہے، احسن اقبال
  • پاک چین دوستی کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے خواہاں ہیں: وزیراعظم شہباز شریف
  • وزیراعظم شہباز شریف سے ‘چیلنج فیشن پرائیویٹ لمیٹڈ‘ چین کے وفد کی ملاقات
  • ہماری خواہش ہے کہ چینی صنعتیں پاکستان میں اپنے یونٹس لگائیں، وزیراعظم
  • پی ٹی آئی کا سیاسی گرداب
  • اتحادی حکومت میں ہمیشہ چیلنج ہوتا ہے: رانا احسان افضل
  • پنجاب بنک، چینی کمپنی میں 150ملین ڈالر سرمایہ کاری کا معاہدہ، شراکت داری بلندیوں تک پہنچانا چاہتے ہیں: مریم نواز
  • پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے اتحاد کا مستقبل
  • شیرافضل مروت نے پی ٹی آئی میں واپسی کے لئے 2شرائط رکھ دیں 
  • افواہیں، دریا اور نیا موڑ