Juraat:
2025-10-04@20:16:33 GMT

پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان تحریک انصاف کے لیے دن بدن مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں26اراکین کی معطلی کے بعد بلوچستان میں پارٹی پر پابندی کی قرارداد کی منظوری اور سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد پارٹی مشکلات کے بھنور میں پھنستی جارہی ہے، ابھی آنے والے وقت میں نہ جانے کیا کیا اور ہوگا۔حالانکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حالیہ برسوں میں پاکستان کی سب سے بڑی اور مؤثر سیاسی جماعتوں میں سے ایک کے طور پر ابھرکرسامنے آئی ہے۔ تاہم 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد سے پارٹی کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے ۔9 مئی کے واقعات کے بعد پنجاب سے کئی اہم پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارٹی چھوڑ دی ہے جس سے پارٹی کی صوبائی تنظیمیںکمزور ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو متعدد قانونی مقدمات کا سامنابھی ہے جس سے پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں محدود ہوئی ہیں جس نے اس کی سیاسی حیثیت کو چاروں صوبوں میں مختلف طریقوں سے متاثر کیا ہے۔ آئندہ دنوں میں پی ٹی آئی کو ان چیلنجز سے نمٹنے اور اپنی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے سخت جدوجہد کا سامنا کرناہوگا ۔اس وقت ملک بھر میں پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہے ؟
بات پنجاب سے سے شروع کرتے ہیںپنجاب جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور قومی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے 2022 کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کو شکست دے کر پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی تھی جو مختصر مدت کے لیے تھی۔ 2024 کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی (جو سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحادی تھی) نے اگرچہ پنجاب میں بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کیں لیکن حکومت بنانے میں ناکام رہی جسکے بعد مسلم لیگ ن نے حکومت بنا لی اور پی ٹی آئی نے مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ ابھی حالیہ بجٹ کے بعد میں پی ٹی آئی کے26اراکین کی معطلی کے بعد اپوزیشن کو نہ صرف عددی نقصان کا سامنا ہے بلکہ اسمبلی اجلاس بلانے کا آئینی اختیار بھی محدود ہو گیا ہے۔ اسمبلی قواعد کے مطابق اجلاس بلانے کے لیے اپوزیشن کو کم از کم 93 اراکین کے دستخط درکار ہوتے ہیں ۔معطلی کے بعد اب اپوزیشن کے پاس صرف 79 اراکین رہ گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی کل تعداد 105 تھی، جب تک معطل اراکین کو بحال نہیں کیا جاتاتب تک اپوزیشن کسی بھی قسم کی ریکوزیشن جمع نہیں کرا سکتی جس سے ایوان میں حکومت پر دبا ڈالنے کی حکمت عملی بھی متاثر ہو گی۔ یہ ساری صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب وزیراعلیٰ مریم نواز کی تقریر کے دوران ایوان میں ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کی گئی۔ حالانکہ یہ اسمبلیوں میں معمول کی بات سمجھی جاتی رہی ہے لیکن اس بارا سپیکر ملک محمد احمد خان نے اراکین کی معطلی کے ساتھ 10 پی ٹی آئی ارکان پر اسمبلی میں توڑ پھوڑ اور مائیکروفون کو نقصان پہنچانے پر 20 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ ان تمام واقعات نے پنجاب میں پی ٹی آئی کی سیاسی قوت کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے جبکہ قیادت کے انخلا، ارکان کی معطلی اور مخصوص نشستوں سے محرومی نے پارٹی کو مزید مشکلات سے دوچار کردیاہے ۔اسی طرح پی ٹی آئی کو ایک اور بڑادھچکا سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے بھی پہنچا ہے جس میں 2024 کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ جولائی 2024 کے سابقہ حکم کو کالعدم قرار دیتا ہے جس میں پی ٹی آئی کو پارلیمانی جماعت کے طور پر بحال کیا گیا تھا اور اسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کا دعویٰ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں تقریباً 80 مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑیگا۔پنجاب کے بعد بلوچستان میں میں پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے کمزور ہے۔ 2024 کے عام انتخابات میں بلوچستان میں پی ٹی آئی کی کارکردگی نمایاں نہیں رہی۔ وہاں سیاسی منظر نامہ مختلف علاقائی اور قوم پرست جماعتوں کے درمیان منقسم ہے جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نمایاں ہیں۔ چونکہ پی ٹی آئی نے بلوچستان میں کوئی براہ راست نشست نہیں جیتی تھی ۔اس لیے اسے وہاں مخصوص نشستیں بھی نہیں مل سکیں ۔بلوچستان میں پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی نسبتاً کمزور ہے اور اس کی عوامی حمایت بھی محدود ہے وہاں حکومتی سطح پر بلوچستان عوامی پارٹی، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کا اتحاد زیادہ مضبوط ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد بھی منظور کی جا چکی ہے جو پارٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ صوبہ سندھ کی بات کریں تو وہاں پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی مضبوط گرفت ہے اور پی ٹی آئی کی حیثیت وہاں قدرے کمزور ہے۔ 2024 کے انتخابات کے بعد سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی موجودگی محدود ہے جس سے پی پی پی کو صوبے میں "ون پارٹی رول” جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کی حمایت زیادہ تر کراچی اور حیدرآباد جیسے شہری مراکز تک محدود ہے جبکہ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ مشکل ہے ۔تین صوبوں کے بعد چوتھے صوبے خیبر پختون خوا ہ(کے پی کے) کوپی ٹی آئی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور یہ واحد صوبہ ہے جہاں 2024 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہے۔ اس وقت بھی پی ٹی آئی حکومت کو صوبہ میں مضبوط عوامی حمایت حاصل ہے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں پارٹی صوبے کے معاملات چلا رہی ہے۔ اگرچہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے لیکن اسے مرکز سے قانونی اور سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف کو 9 مئی کے واقعات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی کریک ڈاؤن کے بعد شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔پارٹی کو اس وقت قیادت کے انخلا، قانونی مقدمات اور مخصوص نشستوں کے خاتمے جیسے مسائل کا سامنا ہے جس نے اس کی ملک گیر سیاسی حیثیت کو متاثر کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے مستقبل میں اپنی سیاسی قوت کو دوبارہ مستحکم کرنا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: انتخابات کے بعد میں پی ٹی آئی کی بلوچستان میں مخصوص نشستوں پی ٹی آئی کے پی ٹی آئی کو کا سامنا ہے اسمبلی میں کی معطلی معطلی کے کی سیاسی کیا ہے ہے اور

پڑھیں:

سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان کب تک، پی پی اور ن لیگ کا پاور شیئرنگ فارمولا کیا ہے؟

 بلوچستان کی مخلوط حکومت میں وزیراعلیٰ کی مدت کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے بیانیے میں تضاد کھل کر سامنے آگیا ہے جو آگے چل کر اختلافات کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان حکومت کا شفافیت کے فروغ اور بجٹ میں 14 ارب روپے کی بچت کا دعویٰ

ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی علی مدد جتک نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی 5 سالہ مدت پوری کریں گے اور اتحادی جماعتوں سمیت سب ان کے ساتھ ہیں جبکہ دوسری جانب صوبائی وزیر نور محمد دمڑ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پہلے سے طے شدہ معاہدے کے تحت وزیراعلیٰ کا منصب ڈھائی، ڈھائی سال کے لیے تقسیم کیا گیا ہے۔

علی مدد جتک نے کہا کہ ’میں یقین سے کہتا ہوں کہ پورے 5 سال وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی ہی رہیں گے اور پیپلز پارٹی، ن لیگ اور دیگر اتحادی سب اس پر متفق ہیں‘۔

ان کے بقول پیپلز پارٹی اپنی پوری قوت کے ساتھ وزیراعلیٰ کے پیچھے کھڑی ہے اور اس حوالے سے کسی بھی طرح کا ابہام پیدا کرنے کی کوشش محض افواہیں ہیں۔

تاہم صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ڈھائی، ڈھائی سالہ اقتدار کی تقسیم کا معاہدہ پہلے ہی طے پا چکا ہے اور یہ محض سیاسی وعدہ نہیں بلکہ ایک دستاویزی شکل میں موجود ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ فیصلہ ہماری پارٹی قیادت نے کیا ہے اور وقت آنے پر ن لگ کا وزیراعلیٰ سامنے آئے گا‘۔

مزید پڑھیے: بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات، سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ خطرے میں؟

بلوچستان میں مخلوط حکومتیں ہمیشہ سے سیاسی معاہدوں اور پاور شیئرنگ فارمولوں پر چلتی آئی ہیں۔ سب سے نمایاں مثال سنہ 2013 کی ہے جب  ن لیگ اور نیشنل پارٹی نے ڈھائی، ڈھائی سال کے لیے وزیراعلیٰ کا عہدہ بانٹنے پر اتفاق کیا تھا۔

اس فارمولے کے تحت پہلے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنایا گیا جنہوں نے اپنی نصف مدت پوری کی۔ اس کے بعد معاہدے کے مطابق وزارتِ اعلیٰ ن لیگ کے نواب ثناء اللہ زہری کو منتقل کی گئی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کا لیویز فورس میں اصلاحات کا اعلان، پرانے نوٹیفکیشنز منسوخ

اس سے قبل بلوچستان میں حکومت سازی کے دوران بھی یہ سننے میں آیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈھائی ڈھائی سالہ پاور شئیرنگ کا معاملہ پا گیا ہے جس پر اس وقت گورنر بلوچستان اور مسلم لیگ ن بلوچستان کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان وزیر اعلیٰ کے منصب کے لیے ڈھائی ڈھائی سال کا معاہدہ ہے جس پر پی پی پی کے سینیئر رہنما میر عبد القدوس بزنجو نے ایسے کسی بھی معاہدے کی تردید کی تھی۔

اگرچہ اس پاور شیئرنگ ماڈل کے نتیجے میں حکومت نے آئینی مدت تو مکمل کی لیکن درمیان میں سیاسی کشیدگی بھی سامنے آئی خصوصاً جب نواب ثناء اللہ زہری کو اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی تحریک عدم اعتماد کے دباؤ پر مستعفی ہونا پڑا۔ اس مثال نے یہ واضح کیا کہ بلوچستان میں پاور شیئرنگ فارمولے وقتی استحکام تو فراہم کرتے ہیں لیکن طویل المدت سیاسی استحکام کی ضمانت نہیں دے پاتے۔

یہ بھی پڑھیے: بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے منصب پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں لیکن اب یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آیا موجودہ حکومت بھی سنہ 2013 والے ’پاور شیئرنگ ماڈل‘ پر چل رہی ہے یا نہیں۔ اگر واقعی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تحریری معاہدہ موجود ہے تو مستقبل قریب میں اقتدار کی منتقلی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر علی مدد جتک کا دعویٰ درست ہے اور پیپلز پارٹی اپنی مدت پوری کرنے پر اصرار کرتی ہے تو یہ اتحادیوں کے درمیان تناؤ کو جنم دے سکتا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر حکومتیں مرکز صوبہ کشیدگی یا اتحادی اختلافات کے باعث اپنی مدت پوری نہیں کر سکیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں پاور شیئرنگ فارمولوں نے سیاسی استحکام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کا بینک آف بلوچستان کے قیام کا اعلان

اس پس منظر میں دیکھیں تو نور محمد دمڑ کا بیان زیادہ حقیقت پسندانہ معلوم ہوتا ہے لیکن فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی 5 سالہ مدت پوری کر پاتے ہیں یا ڈھائی سال بعد اقتدار ن لیگ کو منتقل ہو جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان بلوچستان مخلوط حکومت وزیراعلیٰ بلوچستان کی مدت

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن نے سیاستی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات میں نگرانی اختیار مانگ لیا
  • بی این پی نے بلوچستان اسمبلی میں اپنے واحد ایم پی اے کی رکنیت معطل کر دی
  • سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان کب تک، پی پی اور ن لیگ کا پاور شیئرنگ فارمولا کیا ہے؟
  • بلوچستان حکومت پر اڑھائی کا فارمولہ طے ہوا ہے، نور محمد دمڑ کا دعویٰ
  • یوسف رضا گیلانی کی پیپلز پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین سے ملاقات،صوبہ کی سیاسی صورتحال پرگفتگو
  • بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟
  • سندھ میں پیپلز پارٹی کے 17 سالہ دور میں 17 منصوبے گنوا کر دکھائیں‘ عظمیٰ بخاری کا چیلنج
  • وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کو نون لیگ کی مکمل حمایت حاصل ہے، سلیم کھوسہ
  • کرپشن دہشتگردی سے بڑا چیلنج، افسران کو بدعنوانی کے خاتمے اور عام آدمی کے مسائل کے حل کا تہیہ کرنا ہوگا ، وزیراعلیٰ بلوچستان کا نیپا میں زیر تربیت افسران سے خطاب
  • سندھ میں پیپلز پارٹی کے 17 سالہ دور میں 17 منصوبے گنوا کر دکھائیں‘عظمیٰ بخاری کا شرمیلا فاروقی کو مناظرے کا چیلنج