مریخ پر زندگی کی تلاش: ناسا کے تازہ ترین انکشافات کی کہانی
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائنس کی دنیا میں مریخ پر زندگی کے امکان پر ہونے والی بحث نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ ناسا کے حالیہ تحقیقی نتائج نے سرخ سیارے کے بارے میں کئی دیرینہ سوالات کے جواب دیے ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے سائنسدان ڈاکٹر ایڈون کائٹ کی قیادت میں کی گئی اس تحقیق نے مریخ کے ماضی اور موجودہ حالات کے بارے میں اہم انکشافات کیے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مریخ نے اپنے ارتقائی سفر میں مختصر مدتی نمی کے دورانیے ضرور دیکھے ہیں، لیکن یہ سیارہ بنیادی طور پر ایک خشک اور زندگی کےلیے بنجر دنیا رہا ہے۔ ڈاکٹر کائٹ کے مطابق ’’مریخ پر پانی کے وجود کے ثبوت تو موجود ہیں، لیکن یہ کبھی بھی زمین جیسا مستقل اور پائیدار آبی ماحول نہیں رہا‘‘۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں مریخ کی چٹانوں کے نمونوں اور زمینی ماڈلز کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق مریخ پر پانی کے بہاؤ کے شواہد ضرور ملتے ہیں، لیکن یہ واقعات وقتی اور مقامی نوعیت کے تھے۔ ڈاکٹر کائٹ اس کا موازنہ صحرا میں کسی نخلستان سے کرتے ہیں جو ایک محدود اور عارضی کیفیت ہوتی ہے۔
زمین اور مریخ کے ماحولیاتی نظاموں میں بنیادی فرق کو واضح کرتے ہوئے ماہرین نے بتایا کہ جہاں زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا توازن برقرار رہتا ہے، وہیں مریخ پر یہ نظام کبھی بھی مستحکم نہیں ہوسکا۔ مریخ کے آتش فشانی نظام کے کمزور ہونے سے یہاں کا درجہ حرارت ہمیشہ کم رہا، جس کے نتیجے میں پانی طویل عرصے تک سطح پر موجود نہ رہ سکا۔
حالیہ برسوں میں ناسا کے کیوروسٹی روور اور دیگر مشنز نے مریخ کی سطح پر کاربونیٹ معدنیات کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے۔ یہ معدنیات زمین پر چونے کے پتھروں کی طرح فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتی ہیں۔ اس دریافت نے سائنسدانوں میں اس خیال کو تقویت دی ہے کہ شاید ماضی میں مریخ کا ماحول زندگی کےلیے زیادہ موزوں رہا ہو۔
فلکیاتی تحقیق کے موجودہ دور میں مریخ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر کائٹ کہتے ہیں کہ ’’مریخ ہمارے لیے ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ زمین کے قریب ترین سیارہ ہے جہاں سے ہم نمونے لے کر ان کا زمین پر تجزیہ کرسکتے ہیں‘‘۔
اگرچہ اب تک کی تحقیق سے مریخ کی سطح پر زندگی کے موجودہ یا ماضی کے ثبوت نہیں ملے ہیں، لیکن سائنسدان زیر زمین پانی کے ذخائر میں زندگی کے آثار کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر کائٹ کے مطابق ’’اگر ہم مریخ سے نمونے زمین پر لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو ہم اس بنیادی سوال کا جواب دے سکیں گے کہ کیا زمین کے علاوہ کسی اور جگہ زندگی موجود ہے‘‘۔
یہ تحقیق نہ صرف مریخ کے ماضی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی، بلکہ یہ ہمیں یہ جاننے میں بھی معاون ہوگی کہ کائنات میں زندگی کا ظہور ایک عام واقعہ ہے یا پھر ایک نایاب اور منفرد عمل۔ جیسے جیسے ہماری تحقیق آگے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے ہم کائنات اور اس میں زندگی کے مقام کو بہتر طور پر سمجھ پا رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر کائٹ زندگی کے مریخ کی مریخ کے
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔