عالمی برادری کشمیریوں پر مظالم روکنے، قیدیوں کی رہائی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے، علی رضا سید
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
یوم عاشورہ کی مناسبت سے برسلز سے جاری ایک بیان میں کہا کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین (ع) کی قربانی تمام آزادی پسندوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیریوں پر مظالم بند کروائے، کشمیری قیدیوں کی رہائی اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ ذرائع کے مطابق علی رضا سید نے یوم عاشورہ کی مناسبت سے برسلز سے جاری ایک بیان میں کہا کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین (ع) کی قربانی تمام آزادی پسندوں کے لیے مشعل راہ ہے۔انہوں نے کہا کہ یوم عاشورہ ہمیں حضرت امام حسین (ع) کی عظیم قربانی اور حق و انصاف کے لیے ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے۔ آج کشمیری بھی اسی جذبے کے ساتھ بھارتی ظلم و جبر کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام نے کربلا سے سیکھا ہے کہ حق کی راہ میں قربانیاں دینا پڑتی ہیں، ابتک بڑی تعداد میں کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، بڑی تعداد جبری طور پر لاپتہ اور قید ہے۔ علی رضا سید نے کہا کہ امام عالی مقام نے عظیم قربانی دے کر انسانی اقدار کی حفاظت کی ہے۔ واقعہ کربلا ہمیں انسانی اقدار کے تحفظ اور انسانی حقوق کا خیال رکھنے کا درس دیتا ہے۔ کربلا ظلم کے خلاف جدوجہد کا نام اور درس حریت ہے۔
علی رضا سید نے کہا کہ آج جموں و کشمیر کے عوام کربلا کے عظیم پیغام سے متاثر ہو کر اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جس پر بھارتی فوج قابض ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام نے جو طویل مدت سے بھارتی محاصرے، تشدد، ظلم و ستم اور گرفتاریوں کا سامنا کر رہے ہیں، کربلا کے عظیم سانحہ سے درس حاصل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصے پر بھارتی فوج کے قبضے اور بے پناہ مظالم کے باوجود کشمیری عوام اپنے حقِ خودارادیت کے لیے بے خوف ہو کر جدوجہد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نامور حریت رہنما اور جموں و کشمیر ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک اور انسانی حقوق کے معروف علمبردار خرم پرویز ان نظربندوں میں شامل ہیں جو اس وقت بھی بھارتی جیلوں کی زینت بنے ہوئے ہیں، خاص طور پر شبیر احمد شاہ شدید علیل ہیں اور ہم عالمی برادری خاص طور پر یورپی یونین اور اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ شبیر احمد شاہ اور دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے بھارت پر دبائو ڈالیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ علی رضا سید نے کشمیر کے کے لیے
پڑھیں:
کربلا میں خواتین کا بے نظیر کردار
اﷲ تعالی نے عورت کو عزت و احترام کا وہ بلند مقام بخشا جو اس کی اصل اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ عورت وہ افضل و برتر وجود ہے جو خود اور پورے معاشرے کو سعادت اور نیک نامی کے ساتھ عظمت و نیک بختی کی سعادت کے راستے پر گام زن کرسکتی ہے۔
یہ عورت ہی ہے جس نے کربلا میں امام حسینؓ کے ساتھ مل کر چراغ انسانیت کو تاقیامت روشن کردیا ہے۔ تاریخ اسلام کا اہم، منفرد اور بے مثل واقعہ جس نے انسانیت کو حقیقت اسلام سے روشناس کرایا اور تاریخ اسلام کو حیات ابدی کا جامہ پہنایا وہ نواسہ رسول کریمؐ حضرت امام حسینؓ کا قیام ہے۔ یہ قیام مرد و زن دونوں کی فدا کاریوں اور جاں نثاریوں پر مشتمل ہے جو انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور مشعل راہ ہیں۔
واقعہ کربلا صبر، استقامت، شجاعت، پرہیزگاری، عقیدہ، اخلاق اور طرز زندگی کے ابواب پر مشتمل ہے۔ اس واقعہ میں خواتین اور مرد، چھوٹے اور بڑے سب شامل ہیں اور ہر ایک کا اپنا ایک الگ کردار ہے۔ درحقیقت کربلا میں کام آنے والے بہادر اپنی ماؤں کے لیے ایک انمول سرمایہ تھے۔
کربلا کے واقعہ کو ابدی حیات بخشنے میں حضرت زینبؓ، حضرت ام کلثومؓ، حضرت سکینہؓ، اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہدا ء کی بیویوں اور ماؤں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی تحریک کا پیغام لوگوں تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کا پیغام، کربلا کی اسیر خواتین نے عوام تک پہنچایا ہے۔ جناب زینبؓ کے بے نظیر کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا کامل نظر آتی ہے۔ حضرت زینبؓ نے روز عاشورہ میں ہی نہیں بل کہ امام حسینؓ کی شہادت کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردار ادا کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی تحریک کو مستحکم بنانے کے لیے خواتین کا کردار اہم ہوتا ہے۔ کربلا کے واقعہ کے بعد عورتوں میں وہ جرأت پیدا ہوگئی اور دنیا میں ہونے والی تمام تحریکوں میں خواتین کا اہم کردار نظر آیا ہے۔
کربلا کا واقعہ حضرت زینبؓ کے بغیر نامکمل ہے۔ حضرت زینبؓ کے علاوہ اور بھی خواتین کربلا کے میدان میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ان میں حضرت ام کلثومؓ، حضرت رقیہ بنت الحسینؓ، حضرت سکینہ بنت الحسینؓ، حضرت فضہؓ، جناب ربابؓ، جناب رملہؓ، جناب ام لیلیؓ، جناب ام وہبؓ، جناب بحریہ بنتِ مسعودؓ، جناب خزرجیہؓ، جناب ہانیہؓ اور حضرت وہب کی منکوحہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ کربلا کی خواتین کے اعمالِ حسنہ اور جدوجہد حق پسند خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
عاشوراء، کربلا کی سر زمین پر ہونے والے واقعہ کا نام نہیں ہے بل کہ ایک تحریک اور مقصد کا نام ہے کیوں کہ امام حسینؓ کی اس عظیم تحریک کا آغاز 28 رجب المرجب 60 ھ سے شروع ہو ا اور یہ تحریک عصر عاشور پر ختم نہیں ہوئی بل کہ ام المصائب حضرت زینبؓ اور امام زین العابدینؓ کی سربراہی میں کوفہ اور شام کے فاسق، جابر اور ظالم حکم رانوں کے درباروں تک پہنچنے کے ساتھ اس انقلاب کی آواز مشرق و مغرب اور عرب و عجم میں بھی سنائی دی۔
حضرت زینبؓ کے خطبات سے کربلا کی تحریک کو قیامت تک اسی احساس کے ساتھ یاد رکھا جائے گا جیسے وہ صدیوں کی بات نہیں بل کہ کل ہی کا واقعہ ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد حضرت زینبؓ نے چند اہم ذمے داریوں کو بہت احسن طریق سے کام یابی کے ساتھ نبھایا۔ جن میں سب سے بڑی ذمے داری امام زین العابدینؓ کی دیکھ بھال اور دشمن سے ان کی حفاظت، دوسری ذمے داری شہداء کی خواتین اور بچوں کی حفاظت۔ تیسری اور اہم ترین ذمے داری امام حسینؓ کی تحریک کو زندہ رکھنا اور کربلا کے پیغام کو دنیا کے ہر گوشے تک پہنچانا تھا۔
جہالت اور خوف میں دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جو مشن امام حسینؓ مدینہ سے لے کر نکلے تھے اس کو حضرت زینبؓ کے کردار اور ان کی گفتار نے انجام تک پہنچایا۔ جناب سیّدہ زینبؓ کی سربراہی میں حضرت امام حسینؓ کے اہل حرم نے کوفہ و شام کی گلی کوچوں میں اپنے خطبوں کے ذریعے یزیدیت کے ظلم کا پردہ چاک کردیا۔ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کے ساتھیوں کو ان کی ماؤں، بیویوں اور بیٹیوں نے ہمت اور حوصلہ دیتے ہوئے کہا: ’’تمہارے ہوتے ہوئے دشمن حضرت امام حسینؓ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے ورنہ روز محشر دختر رسول حضرت زہراؓؓ کو کیا منہ دکھائیں گے۔‘‘
میدان کربلا میں یزیدی ظلم کے خلاف ناصرف یہ کہ خاندان رسالتؐ نے قربانیاں پیش کیں بل کہ اس گھرانے کی کنیزوں اور انصارِ حسینی کی خواتین نے بھی اپنے ایثار اور قربانیوں کے جوہر دکھائے۔ جہاں حضرت زینبؓ اور ام لیلیؓ نے اپنی قربانیاں پیش کیں تو وہیں جناب ام وہبؓ، جناب بحریہ بنتِ مسعودؓ اور جناب خزرجیہؓ نے بھی اپنی قربانیوں کا ہدیہ پیش کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ عظیم خواتین ناصرف اپنی نسلوں کی تربیت کرنے میں باکمال تھیں بل کہ میدان عمل میں بھی ان کی کوئی مثال نہ تھی۔ خواتین نے واقعہ کربلا کو بے نظیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کی مثال آج تک تاریخ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ کربلا کی عورتوں کا کردار ہر زمانے کی خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔