6گھنٹے میں سوا کروڑ روپے کے ای چالان ، شہریوں کا شدید غم و غصے کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) شہر قائد میں28 اکتوبر 2025ء سے ای چالان سسٹم نے ا پنا کام شروع کردیا ہے ،کراچی کی خوبصورت ترین سڑک پر اب ای چالان ہوگا جو 15000 سے 20,000 روپے تک ہے ۔سڑکیں ٹوٹی پھوٹی، چالان یورپ والے، کراچی میں ای چالان پر عوام کا شدید ردعمل۔ ای چالان کا یہ نظام صرف ریڈ زون سے گزرنے والوں کو ہی پکڑ سکے گا، شہر قائد کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے ای چالان جاری کرنے شروع کردیے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سسٹم فعال ہونے کے ابتدائی چھے گھنٹوں میں شہریوں کو سوا کروڑ روپے کے چالان بھیج دیے گئے ہیں، جس پر شہریوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔جہاں کچھ شہری اس نظام کو جدید، شفاف اور وقت بچانے والا کہہ رہے ہیں، وہیں کچھ اسے سندھ حکومت کا نیا ریونیو پلان قرار دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ایک صارف ناصر منصور کے مطابق یہ شہریوں کی سہولت کے لیے شاندار اقدام ہے۔ زہیر حیدر نے طنزیہ لکھا کہ کراچی کی اس خوبصورت اور حسین ترین جدید سڑک پر اب چالان ہوگا وہ بھی 15000 سے 20,000 روپے کا۔ صحافی عاطف حسین نے لکھا ہے کہ ای چالان کے لیے سیف سٹی کا جو انفرا اسٹرکچر درکار ہے وہ اب تک صرف ریڈ زون کے علاقوں میں ہی نصب کیا گیا ہے۔ یوں ای چالان کا یہ نظام صرف ریڈ زون سے گزرنے والوں کو ہی پکڑ سکے گا۔ دوم ٹریفک پولیس کے جتنے افسران سے بات ہوئی وہ اس نظام کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں جبکہ دانش قریشی کا کہنا ہے واہ، یہ ہوئی نا ترقی! اب سندھ حکومت کو عوام سے پیسے لینے کا باقاعدہ سرکاری لائسنس مل گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مزاح بھی اپنے عروج پر ہے۔ ایک صارف سْکھ چین نے کہا: ای چالان سسٹم! اللہ کے بعد اب کراچی والوں کے محافظ ہیکرز ہیں۔ ڈیٹا ہی غائب ہو جائے گا۔ ہمیں تو چالان ملے گا ہی نہیں کیونکہ ہماری کاواساکی تو آج بھی مرحوم نور دین کاٹھیاواڑی کے نام ہے! ایک اور شہری حاجی عابد نے گلہ کیا: سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں، مگر چالان یورپ والے لگاتے ہیں۔ یہ سراسر ظلم ہے۔ البتہ محمد شہزاد نے حقیقت پسندانہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کراچی کے نوجوان مر رہے ہیں کیونکہ ہم ٹریفک قوانین کو مذاق سمجھتے ہیں۔ چالان کی رقم اتنی ہونی چاہیے کہ مجرم کے پسینے چھوٹ جائیں۔ کم از کم اب کیمرے کو رشوت نہیں دی جا سکتی۔ کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، تباہ حال انفرا اسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی، فضائی آلودگی کے سبب مختلف امراض میں تشویش ناک اضافہ ہو گیا ہے۔ سڑک کے نام پر صرف کھڈے اور گڑھے، بڑی شاہراہیں ہوں یا اندرونی گلیاں ہر جگہ تباہی ہی تباہی، گڑھوں اور بے ہنگم پتھروں پر گاڑیاں ایسے ہچکولے کھاتی ہیں، جیسے رولر کوسٹر پر سفر ہو رہا ہو۔ شہر میں جاری کبھی نہ مکمل ہونے والے ترقیاتی کاموں میں مسلسل تاخیر اور سڑکیں نہ بننے سے دھول، مٹی، گرد و غبار سفر کرنے والوں کا مقدر بن چکا ہے، بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی میں سانس لینا محال جب کہ شہری مختلف امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ جھٹکوں کی وجہ سے کمر دکھنا معمول بن چکا ہے، پہاڑ جیسے کٹیلے راستوں پر چل کر مہنگی گاڑیاں بھی خراب ہوتی جا رہی ہیں۔ شہری کہتے ہیں محکمہ بلدیات اور اس کے ماتحت اداروں کی نااہلی کے باعث شہر کھڈوں کا قبرستان بن چکا ہے اور حکمرانوں کو عوام کی حالت زار سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ٹریفک پولیس کی رپورٹ کے مطابق، ای چالان سسٹم کے آغاز کے چند گھنٹے بعد ہی شہریوں پر 2 ہزار 662 چالان کی بجلیاں گرائی گئیں۔ ان میں سب سے زیادہ 1535 چالان سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر ہوئے۔ اسی طرح اوور اسپیڈنگ کے 419، ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلانے کے 507، ریڈ لائٹ کراس کرنے کے 166 اور لین توڑنے کے صرف 3 چالان ہوئے۔ ٹریفک پولیس کے مطابق، رانگ وے پر گاڑی چلانے والوں کے 4، کالے شیشوں کے 7، موبائل فون کے استعمال کے 32 اور غلط پارکنگ کے 5 چالان کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، غلط سمت چلنے والے 3 حضرات کو بھی یادگار ای میل موصول ہوئی۔ وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے وضاحت کی ہے کہ اگر کسی شہری کو لگے کہ چالان غلط ہوا ہے تو وہ اپیلٹ اتھارٹی سے رجوع کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب شہریوں کو تھانوں کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے۔ کراچی میں ای چالان سسٹم کا آغاز بلاشبہ جدید دور کا قدم ہے مگر عوام کاکہنا ہے کہ ’’پہلے سڑکیں ٹھیک کرائو، پھر کیمرے لگاؤ۔‘‘
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: چالان سسٹم ٹوٹی پھوٹی کے مطابق رہے ہیں
پڑھیں:
حیدرآباد:انتظامیہ کی نااہلی اورغفلت کے باعث شہر کی ایک مصروف سڑک ناقابل استعمال ہوچکی ہے، شہریوں کو گزرنے میں شدید پریشانی کاسامنا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251211-2-20