اصلاحات اور استحکام کے بعد پاکستان امریکا کے لیے اسٹریٹجک شراکت دار کے طور پر ابھرنے لگا
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
پاکستان میں معاشی اصلاحات، پالیسی استحکام اور سیکیورٹی تعاون کے نتیجے میں ملک کو اعلیٰ قدر کے منصوبوں کے لیے ایک قابلِ اعتماد مرکز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس سے امریکا اور پاکستان کے درمیان طویل المدتی سرمایہ کاری، دفاع اور علاقائی سلامتی پر مبنی شراکت داری مزید مضبوط ہونے کی توقع ہے۔
پاکستان اب ایک ایسے مستحکم پالیسی ماحول میں داخل ہو چکا ہے جہاں پیچیدہ اور بلند مالیت کے منصوبے ممکن ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر نایاب اور اہم معدنیات کے شعبے میں امریکا کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاک امریکا تعلقات خطے اور عالمی امن کے لیے انتہائی اہم ہیں، رضوان سعید شیخ
امریکی پالیسی ساز، خصوصاً صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں، اہم معدنیات کو عالمی معاہدوں کا مرکزی نکتہ بنا رہے ہیں، جس کا براہِ راست فائدہ پاکستان کو ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت کی جانے والی مالی اصلاحات کو پاکستان کی قواعد و ضوابط پر مبنی معیشت کی جانب سنجیدہ پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق قوانین پر عمل درآمد اور شفاف اقتصادی فریم ورک اپنانے سے عالمی کاروباری اداروں کا اعتماد بڑھا ہے۔
سیکیورٹی معاہدوں اور دفاعی تعاون کے باعث بین الاقوامی سرمایہ کاری کو لاحق خطرات میں بھی کمی آئی ہے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان دفاعی شراکت داری، خصوصاً ایف-16 طیاروں کی جدید کاری، دونوں ممالک کی فضائی افواج کے درمیان ہم آہنگی کو بہتر بنا رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق، امریکی سرمایہ کاری سے امریکا میں تقریباً 6 ہزار جبکہ بلوچستان میں 7 ہزار 500 نئی ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے، جو دونوں ممالک کے لیے معاشی فوائد کا باعث بنے گی۔
اسی طرح امریکا کی جانب سے پاکستان کے ایکسپورٹ امپورٹ بینک کی حمایت کو روزگار کے مواقع اور سرمایہ کاری کے اعتماد میں اضافے سے جوڑا جا رہا ہے۔
علاقے میں پراکسی جنگوں اور دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کے تناظر میں پاکستان کو امریکا کے لیے ایک اہم اتحادی سمجھا جا رہا ہے، خاص طور پر افغانستان اور بھارت سے ملحقہ علاقوں میں اہم معدنی ذخائر کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان کا کردار کلیدی قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:واشنگٹن پوسٹ نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے دورہ کو پاک امریکا تعلقات میں نئی جہت قرار دیدیا
مبصرین کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے دوران امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، جس کے نتیجے میں سفارتی، دفاعی اور معاشی تعاون کو نئی جہت ملی ہے۔ یہ شراکت داری طویل المدتی بنیادوں پر خطے میں استحکام اور سلامتی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا پاک امریکا پاکستان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا پاک امریکا پاکستان سرمایہ کاری پاکستان کے جا رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
ترقی کا واحد راستہ، محنت اور معاشی استحکام
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کرے گا، عسکری و سیاسی قیادت نے مل کر کام کیا اور ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت دوبارہ پٹری پر آئی، افواج کی قربانیوں کا مذاق اڑائیں گے تو کون پاکستان کی عزت کرے گا؟ ملکی ترقی اور استحکام کے لیے اتحاد و یکجہتی ناگزیر ہے، علمائے کرام کو تفرقہ بازی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔
اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا، جب کہ چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں، بھارت کا وتیرا ہے، ہم دشمن کو چھپ کے نہیں للکار کر مارتے ہیں، انھوں نے ان خیالات کا اظہار قومی علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب امریکا کے ایگزم بینک نے پاکستان کے لیے ایک ارب 25 کروڑ ڈالر کی نئی مالی معاونت کی منظوری دے دی ہے‘ یہ سرمایہ کاری بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں اہم معدنیات کی کانکنی میں مزید پیشرفت کے لیے ہے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی گفتگو نے ایک ایسے وقت میں قومی بیانیے کو مہمیز دی ہے جب ملک ایک جانب معاشی مشکلات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کی مسلسل لہر سیاسی و معاشرتی استحکام کے لیے چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ ملک جادو ٹونے سے نہیں بلکہ محنت سے ترقی کرے گا، محض ایک جملہ نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے میں رائج اس سوچ کی نفی ہے جو مسائل کے حقیقی اسباب کو سمجھنے کے بجائے غیر حقیقی سہولت پسندی اور ماورائی حل تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی قوم جب تک اجتماعی کوشش، منظم پالیسی، مربوط حکمت عملی اور طویل المدت منصوبہ بندی کے ساتھ محنت کو اپنا شعار نہیں بناتی وہ ترقی کے راستے پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وزیراعظم کی اس بات کا اصل تناظر بھی یہی ہے کہ ملک کی معیشت، سیاست، اداروں اور سماجی ڈھانچے کو کسی شارٹ کٹ، کسی کرشمے یا کسی چھپے ہاتھ سے نہیں بلکہ انتھک کام اور اصولوں کے ساتھ جمایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے عسکری و سیاسی قیادت کی مشترکہ کوششوں کا ذکر بھی کیا جن کے نتیجے میں ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لایا گیا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی معیشت ایک ایسے بحران کا شکار ہو چکی تھی جس سے نکلنے کے لیے غیر معمولی اقدامات ضروری تھے۔
چاہے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ مشکل مذاکرات ہوں، دوست ممالک سے مالی معاونت حاصل کرنا ہو، محصولات میں اضافہ ہو، کفایت شعاری کے اقدامات ہوں یا پھر برآمدات و مقامی صنعت کو سہارا دینے کی مساعی۔ یہ تمام اقدامات اسی صورت میں نتیجہ خیز ہوتے ہیں جب سیاسی اور عسکری سطح پر ہم آہنگی موجود ہو۔ ملکوں کی تاریخ گواہ ہے کہ داخلی خلفشار، بے یقینی اور ادارہ جاتی کشمکش معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کی بات ایک مثبت پیغام بھی رکھتی ہے کہ قیادت نے مل کر ملک کو بحران سے نکالا، تاہم یہ شروعات ہیں، منزل ابھی بہت دور ہے۔
وزیراعظم نے افواج پاکستان کی قربانیوں کا مذاق اڑانے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ اگر ہم اپنی فوج کی عزت نہیں کریں گے تو دنیا پاکستان کا احترام کیسے کرے گی؟ یہ سوال بنیادی نوعیت رکھتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں متاثرین اور ہزاروں شہداء دے چکا ہے۔ یہ وہ جنگ تھی جو پاکستان نے کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنی بقا کے لیے لڑی۔ دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ فوج ہو یا پولیس، شہری آبادی ہو یا کمزور اضلاع، کسی میں تمیز نہیں کی گئی۔
ایسے میں ان قربانیوں کو متنازع بنانے یا ان کا مذاق اڑانے کا طرزِ عمل نہ صرف قومی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ دشمن کو تقویت بھی دیتا ہے۔ حساس قومی اداروں اور ان کی قربانیوں کو تضحیک کا نشانہ بنانا کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوتا۔
دہشت گردی اور معاشی ترقی کے باہمی تعلق پر وزیراعظم کی گفتگو بالکل درست سمت کی نشاندہی کرتی ہے۔ دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک ملک جس میں روزانہ دھماکے ہوں، شہری خوف و ہراس میں مبتلا ہوں، پولیس اور سیکیورٹی فورسز نشانہ بن رہی ہوں، صوبے عدم استحکام سے دوچار ہوں اور وہاں سرمایہ کار تحفظ محسوس کریں، صنعتکار اعتماد کے ساتھ سرمایہ لگائیں یا عالمی کمپنیوں کے وفود وہاں آکر بیٹھنے میں آسودگی پائیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے واقعات اس حقیقت کا دردناک چہرہ ہیں کہ دہشت گردی صرف انسانی جانوں کا نقصان نہیں کرتی بلکہ پورے ترقیاتی عمل کو یرغمال بنا دیتی ہے۔
ایک طرف عوام کی زندگی عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہے اور دوسری طرف حکومت پر سیکیورٹی اخراجات بڑھ جاتے ہیں، صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر خرچ ہونے والا پیسہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے دوٹوک انداز میں کہا کہ دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔
علمائے کرام کو فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل بھی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر قائم تفریق نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو توڑتی ہیں بلکہ دہشت گرد عناصر کے لیے غذا بھی فراہم کرتی ہیں۔ اگر علماء کرام منبر و محراب کے ذریعے امن، وحدت، باہمی احترام اور رواداری کا درس دیں، فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن بنائیں اور مذہبی جھگڑوں کا دروازہ بند کریں تو ملک کی داخلی استحکام کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ دور ہو سکتی ہے۔
اسی منظر نامے میں آرمی چیف سید عاصم منیر کے خطاب نے قومی بیانیے کو ایک اور زاویہ فراہم کیا ہے۔ ان کا کہنا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت کا وطیرہ ہے، اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ خطے میں دشمن قوتیں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے بارہا اس بات کے ثبوت پیش کیے ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کو بیرونی معاونت فراہم کی جاتی ہے، انھیں عسکری، مالی اور تکنیکی مدد دی جاتی ہے تاکہ وہ پاکستان کے اندر افراتفری اور خوف کی فضا قائم رکھ سکیں۔ آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ہم دشمن کو للکار کر مارتے ہیں، پاکستان کی عسکری قوت کے اس اعتماد اور صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جو طویل جنگی تجربے اور مسلسل آپریشنز کے نتیجے میں پروان چڑھی ہے۔
پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کو شکست دی بلکہ اپنے علاقوں کو کلیئر کیا، لاکھوں شہریوں کو واپس ان کے گھروں میں آباد کیا اور دنیا کو دکھایا کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو دہشت گردی ناقابل شکست نہیں رہتی۔دوسری جانب امریکی ایگزم بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ارب 25 کروڑ ڈالر کی نئی مالی معاونت کی منظوری ملک میں معدنیات کے شعبے کے لیے امید کی نئی کرن ہے۔ ریکوڈک منصوبہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے معاشی امکانات کا دروازہ ہے۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں امریکا میں چھ ہزار اور بلوچستان میں تقریباً ساڑھے سات ہزار روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ روزگار کے مواقعے میں اضافہ خوشحالی اور معاشی سرگرمی کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔
امریکی سرمایہ کاری کا پاکستان کے لیے ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ اس وقت دنیا خصوصی طور پر معدنیات، توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کر رہی ہے۔ اگر پاکستان شفاف سیاسی ماحول، مضبوط اداروں، مستحکم سیکیورٹی صورتحال اور معیاری قانونی فریم ورک فراہم کرے تو بیرونی سرمایہ کار یقیناً ملک کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ریکوڈک کا منصوبہ ایک ایسی کامیاب مثال بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی بیرونی سرمایہ کاری اپنی نئی راہوں پر چل نکلے گی۔
اگر ہم نے محنت کو اپنا شعار نہ بنایا، اگر ہم نے سیکیورٹی کو مضبوط نہ کیا، اگر ہم نے فرقہ واریت کو جڑ سے نہ اکھاڑا ، اگر ہم نے قومی اداروں کی عزت نہ کی، اگر ہم نے بیرونی سرمایہ کاری کو جذب کرنے کے لیے مربوط پالیسی نہ بنائی تو پھر کوئی جادو، کوئی دعا، کوئی شارٹ کٹ اور کوئی خفیہ طاقت ہمیں ترقی نہیں دلا سکتی۔
وزیراعظم شہباز شریف کا پیغام، آرمی چیف کا عزم، امریکی سرمایہ کاری کی نوید، یہ سب پاکستان کے لیے ایک نئی امید کی علامت بن سکتے ہیں۔ لیکن اس امید کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے اجتماعی طور پر بطور قوم اپنی ذمے داریوں کا احساس۔ یہ پاکستان ہم سب کا ہے، اس کی ترقی ہم سب کی ترقی ہے، اس کا استحکام ہم سب کا استحکام ہے۔ آج وقت ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں، اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈالیں، ملک میں امن و اتحاد کو فروغ دیں اور دنیا کو دکھائیں کہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے جو ہر چیلنج کا مقابلہ کر سکتی ہے۔