کوہستان کرپشن اسکینڈل؛ عدالت کی نیب کو پلی بارگین درخواست سننے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
پشاور:
پشاور ہائیکورٹ نے کوہستان کرپشن اسکینڈل میں ملوث محمد ایوب کی پلی بارگین درخواست پر سماعت کرتے ہوئے نیب کو اس معاملے پر غور کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جسٹس صاحبزادہ اسداللہ اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل بینچ نے یہ سماعت کی۔ عدالت میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب محمد علی اور اسپیشل پراسیکیوٹر نیب ارباب کلیم اللہ پیش ہوئے۔ درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر شعیب رزاق نے عدالت کو بتایا کہ ان کا موکل نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنا چاہتا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ نیب کو پلی بارگین شروع کرنے کی ہدایت کرے۔ تاہم جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے واضح کیا کہ ’’یہ ہمارا کام نہیں ہے، یہ نیب اور آپ کا آپس کا معاملہ ہے۔ پلی بارگین کے لیے ہم نیب کو کیسے ہدایت دے سکتے ہیں؟ کوئی قانون دکھائیں۔‘‘
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب محمد علی نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار پر کوہستان کرپشن اسکینڈل میں تین ارب 40 کروڑ روپے کی کرپشن کا الزام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس نے پہلے ایبٹ آباد ہائیکورٹ اور پھر اسلام آباد ہائیکورٹ میں عبوری ضمانت کے لیے درخواستیں دائر کی تھیں جو خارج ہوئی تھیں۔‘‘
درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر شعیب رزاق نے کہا کہ ’’میں نیب میں پیش ہو رہا ہوں، مجھے قانون کے مطابق ٹریٹ کیا جائے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’250 ملین روپے ہم نے نیب کورٹ میں جمع کروائے ہیں۔‘‘
جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے ڈی پی جی نیب سے استفسار کیا کہ ’’کیا نیب پلی بارگین کرنا چاہتی ہے؟‘‘ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ ’’انہوں نے 2 جولائی کو چیئرمین نیب کو خط لکھا ہے۔ اگرچہ چیئرمین نیب کے پاس یہ درخواست پہنچ بھی گئی ہو تو یہ ان کی صوابدید ہے۔‘‘
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے سرنڈر کیا اور نیب کے ساتھ بات کی ہے پلی بارگین کےلیے، تو پھر نیب کیوں جذباتی ہوجاتی ہے؟‘‘ ڈی پی جی نیب نے بتایا کہ ’’انہوں نے عبوری ضمانت کی درخواست احتساب عدالت میں بھی دائر کی ہے۔ یہاں کوئی آرڈر آئے گا تو اس کا اس کیس پر اثر پڑے گا۔‘‘
آخر میں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اس درخواست کو نمٹا دیتے ہیں۔ نیب اس کو دیکھیں اور قانون کے مطابق پلی بارگین درخواست سنیں۔‘‘ اس کے بعد عدالت نے درخواست نمٹا دی۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان درخواست گزار پلی بارگین انہوں نے بتایا کہ کہا کہ نیب کو
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔