پشاور:

پشاور ہائیکورٹ نے کوہستان کرپشن اسکینڈل میں ملوث محمد ایوب کی پلی بارگین درخواست پر سماعت کرتے ہوئے نیب کو اس معاملے پر غور کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جسٹس صاحبزادہ اسداللہ اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل بینچ نے یہ سماعت کی۔ عدالت میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب محمد علی اور اسپیشل پراسیکیوٹر نیب ارباب کلیم اللہ پیش ہوئے۔ درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر شعیب رزاق نے عدالت کو بتایا کہ ان کا موکل نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنا چاہتا ہے۔

وکیل درخواست گزار نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ نیب کو پلی بارگین شروع کرنے کی ہدایت کرے۔ تاہم جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے واضح کیا کہ ’’یہ ہمارا کام نہیں ہے، یہ نیب اور آپ کا آپس کا معاملہ ہے۔ پلی بارگین کے لیے ہم نیب کو کیسے ہدایت دے سکتے ہیں؟ کوئی قانون دکھائیں۔‘‘

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب محمد علی نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار پر کوہستان کرپشن اسکینڈل میں تین ارب 40 کروڑ روپے کی کرپشن کا الزام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس نے پہلے ایبٹ آباد ہائیکورٹ اور پھر اسلام آباد ہائیکورٹ میں عبوری ضمانت کے لیے درخواستیں دائر کی تھیں جو خارج ہوئی تھیں۔‘‘

درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر شعیب رزاق نے کہا کہ ’’میں نیب میں پیش ہو رہا ہوں، مجھے قانون کے مطابق ٹریٹ کیا جائے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’250 ملین روپے ہم نے نیب کورٹ میں جمع کروائے ہیں۔‘‘

جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے ڈی پی جی نیب سے استفسار کیا کہ ’’کیا نیب پلی بارگین کرنا چاہتی ہے؟‘‘ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ ’’انہوں نے 2 جولائی کو چیئرمین نیب کو خط لکھا ہے۔ اگرچہ چیئرمین نیب کے پاس یہ درخواست پہنچ بھی گئی ہو تو یہ ان کی صوابدید ہے۔‘‘

عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے سرنڈر کیا اور نیب کے ساتھ بات کی ہے پلی بارگین کےلیے، تو پھر نیب کیوں جذباتی ہوجاتی ہے؟‘‘ ڈی پی جی نیب نے بتایا کہ ’’انہوں نے عبوری ضمانت کی درخواست احتساب عدالت میں بھی دائر کی ہے۔ یہاں کوئی آرڈر آئے گا تو اس کا اس کیس پر اثر پڑے گا۔‘‘

آخر میں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اس درخواست کو نمٹا دیتے ہیں۔ نیب اس کو دیکھیں اور قانون کے مطابق پلی بارگین درخواست سنیں۔‘‘ اس کے بعد عدالت نے درخواست نمٹا دی۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان درخواست گزار پلی بارگین انہوں نے بتایا کہ کہا کہ نیب کو

پڑھیں:

جعلی ڈگری کیس، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام سے روک دیا گیا

اسلام آباد: جعلی ڈگری کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج فرائض انجام دینے سے عارضی طور پر روک دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت تک نافذ العمل رہے گا جب تک سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے پر اپنا حتمی فیصلہ نہیں سنا دیتی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ حکم جاری کیا۔ عدالت نے معروف قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر اوصاف علی کو عدالتی معاون مقرر کیا، جبکہ اٹارنی جنرل سے درخواست کی سماعت کے قابل ہونے پر قانونی معاونت طلب کی گئی ہے۔

یہ فیصلہ ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے دائر کردہ کو وارنٹو رٹ پٹیشن پر دیا گیا۔ تاہم، کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار عدالت میں پیش نہ ہو سکے۔ ان کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ میڈیکل ایمرجنسی کی وجہ سے غیر حاضر ہیں اور سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔

دورانِ سماعت اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد بار کونسل کے نمائندگان روسٹرم پر آ گئے اور اس درخواست پر تحفظات کا اظہار کیا۔ وکلا نمائندگان نے پٹیشن کو ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فی الوقت عدالت صرف ابتدائی اعتراضات کا جائزہ لے رہی ہے، اور ابھی نہ تو جج صاحب کو اور نہ ہی کسی دوسرے فریق کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ جب تک سپریم جوڈیشل کونسل کوئی فیصلہ نہیں دیتی، یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا۔

عدالت اس اہم آئینی سوال پر غور کر رہی ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہو، تو کیا ایسی صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے؟

اسلام آباد بار کونسل کے رکن راجہ علیم عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ ججز کے خلاف شکایات کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو حاصل ہے، اور اگر عدالتیں اس نوعیت کی پٹیشنز کو سماعت کے لیے منظور کرتی رہیں تو یہ عدلیہ کے وقار کے لیے نقصان دہ ہو گا۔

عدالت نے بار کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ آیا وہ اس کیس میں فریق ہیں؟ ساتھ ہی کہا کہ اگر نوٹس جاری کیا گیا تو تمام متعلقہ فریقین کو سنا جائے گا۔ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم علی گجر نے کہا کہ بار اس معاملے میں ایک اسٹیک ہولڈر ہے اور ان کا مؤقف ہے کہ یہ درخواست قابلِ سماعت نہیں۔

چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ بار کا آئینی مؤقف قابلِ قدر ہے، تاہم اس وقت عدالت صرف ابتدائی قانونی اعتراضات پر غور کر رہی ہے۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس: بانیٔ پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے بجائے عدالت میں پیش کرنے کی درخواست منظور
  • ماہ رنگ بلوچ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست منتقل کرنیکی استدعا
  • سربراہ سی سی ڈی سہیل ظفر چٹھہ کی برطرفی کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی اے کو ہٹانے کا حکم، فیصلہ چیلنج
  • بلوچستان ہائیکورٹ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت
  • اے پی پی میگا کرپشن کیس، 13 ملزمان کی ضمانت خارج، 7 ملزمان احاطہ عدالت سے گرفتار
  • جعلی ڈگری کیس، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام سے روک دیا گیا
  • حسان نیازی کو ملٹری کی تحویل میں دینے کیخلاف درخواست، وکلا کو اعتراض دور کرنے کی ہدایت
  • کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی کی درخواست پر سماعت
  • رجب بٹ اور دوستوں کے خلاف زیادتی کیس میں اہم پیش رفت