کراچی: خستہ حال عمارتوں کو گرانے کا فیصلہ، کمشنر کو سروے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سندھ حکومت نے شہر قائد میں شدید بوسیدہ اور خطرناک عمارتوں کو فوری طور پر مسمار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مزید انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے، یہ فیصلہ لیاری میں پانچ منزلہ عمارت کے المناک حادثے کے بعد سامنے آیا، جس میں اب تک 27 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن، وزیر بلدیات سعید غنی اور وزیر داخلہ ضیا لنجار نے کراچی میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران اس حوالے سے اہم اعلانات کیے۔
وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ انسانی جانوں کے نقصان کا کوئی ازالہ ممکن نہیں، تاہم سندھ حکومت متاثرہ خاندانوں کو مالی امداد فراہم کرے گی، حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر متاثرہ خاندان کو 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ لیاری واقعے کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کے اس وقت کے ڈائریکٹر لیول افسران کو معطل کر دیا گیا ہے، جبکہ 2022 میں عمارت کو مخدوش قرار دینے کے دوران تعینات افسران کے کردار کا بھی تعین کیا جا رہا ہے۔
سعید غنی نے انکشاف کیا کہ کراچی میں فی الوقت 51 عمارتیں انتہائی خستہ حالت میں ہیں اور فوری خطرے کا باعث بن سکتی ہیں، ہم نے کمشنر کراچی کو ہدایت دی ہے کہ 24 گھنٹوں میں ان عمارتوں میں رہنے والے یونٹس اور مکینوں کی تفصیل فراہم کریں تاکہ مسماری کا عمل شروع کیا جا سکے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شہر میں مجموعی طور پر 588 عمارتیں خطرناک قرار دی گئی ہیں۔ ’’ان کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا تاکہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کون سی عمارتیں مرمت کے قابل ہیں اور کون سی ناقابلِ رہائش ہوچکی ہیں۔
عوام سے اپیل کرتے ہوئے وزیر بلدیات نے کہا کہ شہری جب فلیٹ یا پلاٹ خریدیں تو یہ لازمی چیک کریں کہ اس منصوبے کے لیے متعلقہ اداروں سے تمام منظوریوں کا حصول ہوا ہے یا نہیں۔
پریس کانفرنس میں شرجیل انعام میمن نے کہا کہ لیاری کا واقعہ سندھ کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ ’’پورے صوبے میں 740 عمارتیں ایسی ہیں جو خطرناک قرار دی جاچکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آج سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی کو بھی معطل کر دیا گیا ہے اور ہم اس بات کی چھان بین کر رہے ہیں کہ سابق ڈی جیز نے ان معاملات میں کس حد تک غفلت برتی۔‘‘
وزراء نے واضح کیا کہ حکومت اب اس معاملے پر کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرے گی اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
کراچی: نالہ متاثرین کو حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کامطالبہ
کراچی:گجر، اورنگی اور محمود آباد کے نالہ متاثرین نے حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر حربے آزمانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے گجر، اورنگی، محمود آباد کے نالہ متاثرین نے کہا کہ پلاٹ کی الاٹمنٹ تک ہر خاندان کو 30 ہزار روپے ماہانہ بطور عارضی کرایہ فوری طور پر ادا کیا جائے اور ہر متاثرہ خاندان کو 30 لاکھ روپے تعمیراتی رقم دی جائے تاکہ کم از کم ایک معیاری گھر تعمیر ہوسکے ۔
نالہ متاثرین نے متاثرین نے سپریم کورٹ سے عدالتی حکم کے باوجود حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ نہ دینے، تعمیراتی رقم میں اضافے اور پلاٹ کی الاٹمنٹ تک کرائے کی ادائیگی کے مطالبات کردیے اور کہا کہ انہیں اب تک ان کا حق نہیں دیا گیا اور حکومت کی غفلت، افسران کی بدعنوانی اور انصاف کی نفی کے خلاف عدالت عظمیٰ سےنوٹس لینے کی اپیل کردی۔
کراچی بچاؤ تحریک کے تحت خرم علی نیئر، عارف شاہ اور دیگر نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پانچ سال قبل 2020 کی تباہ کن بارشوں اور سیلاب کے بعد کراچی کو جو نقصان پہنچا، اس کا گزشتہ برسوں کے دوران سارا ملبہ کچی آبادیوں پر ڈالا گیا، 2021 میں گجر، اورنگی اور محمودآباد نالوں کے اطراف کے ہزاروں مکان مسمار کیے گئے اور تقربیاً 9 ہزار سے زائد گھروں کی تباہی سے 50 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گجر نالے کے عوام کے بھرپور احتجاج کی وجہ سے کم سے کم عدالت نے ان متاثرین کو دوبارہ آباد کرنے کا فیصلہ دیا اور جب تک انہیں آباد نہیں کیا جاتا انہیں کرایہ فراہم کرنے کا حکم جاری کیا تھا مگر متاثرین کو فقط دسمبر 2023 تک کرائے جاری کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے آخری حکم نامے میں ہر متاثرہ خاندان کو ہر مسمار مکان کے عوض 80 گز کا پلاٹ اور تعمیراتی رقم جاری کرنے کا حکم دیا گیا تھا مگر حکومت سندھ نے محض معمولی تعمیراتی رقم جاری کی، جس سے ایک کمرہ بنوانا مشکل تھا جبکہ پلاٹ 2027 تک دینے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
متاثرین نے مطالبہ کیا کہ فی خاندان30 ہزار روپے ماہانہ بطور عارضی کرایہ فوری طور پر ادا کیا جائے، جب تک پلاٹ الاٹ اور تعمیر ممکن نہ ہو اس وقت تک ہر متاثرہ خاندان کو 30 لاکھ روپے تعمیراتی رقم دی جائے تاکہ کم از کم ایک معیاری گھر تعمیر ہو سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو دو ہزار سے زائد شکایات خارج کی گئیں ان کا فوری اندراج کیا جائے اور اندراج کا عمل مکمل طور پر شفاف اور عوامی نگرانی میں ہو، نیز پلاٹس 90 دن کے اندر الاٹ کیے جائیں اور متبادل اراضی فراہم کی جائے۔
متاثرین نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کا فوری نفاذ یقینی بنایا جائے، عدالت نے جو 80 گز پلاٹ اور تعمیراتی معاوضہ طے کیا تھا، اس میں کسی قسم کی تاخیر یا من مانی قبول نہیں ہوگی۔
مزید کہا کہ جو لوگ بے گھر ہونے کے نتیجے میں دل کے دورے پڑنے یا حادثات میں ہلاک ہوئے، ان کے لواحقین کو مناسب معاوضہ اور سرکاری امداد دی جائے اور تمام چیک کا اجرا، پلاٹ الاٹمنٹ اور اندراج کا عمل آن لائن شفاف ریکارڈ میں ڈال دیا جائے اور متاثرین اور سول سوسائٹی کی مستقل نگرانی ممکن بنائی جائے۔
متاثرین نے کہا کہ اگر ان مطالبات کو ایک ہفتے تک پورا نہیں کیا گیا تو کراچی بچاؤ تحریک متعلقہ قانونی راستوں کے ساتھ ساتھ پر امن مگر سخت عوامی احتجاج، دھرنے اور سڑکوں پر مؤثر تحریک شروع کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم عدالت عظمیٰ کے سامنے بھی اپیل کریں گے کہ وہ فوری طور پر عملی اقدام کرے اور حکومت اور بیوروکریسی کو نوٹس جاری کرے۔