سندھ میں سرکاری اسپتالوں کی جانب سے کم معیاد ادویات کی خریداری جاری
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 جولائی2025ء)سندھ میں ادویات کی خریداری اور کم معیاد والی دواں کی خریداری کے حوالے سے موجود قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری اسپتالوں میں کم مدت معیاد والی دواں کی خریداری کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ کم معیاد والی دواں کی قیمتیں زیادہ معیاد والی ادویات کے مقابلے میں بہت سستی ملتی ہیں۔
سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خریداری میں مبینہ گھپلوں کی اطلاعات ہر سال موصول ہوتی رہتی ہے، اربوں روپے کی ادویات کی خریداری کا معاملہ ہمیشہ سے متنازع بنتا ہے، سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خریداری اور کم میعاد کی ادویات کے حوالے سے متعلق قواعد و ضوابط موجود ہیں لیکن اس کے باوجود سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں خریدی جانے والی ادویات nearest expiry لی جاتی ہے۔(جاری ہے)
ماہر علم الادویہ نے کہا کہ کم ایکسپائری والی دوا اور زیادہ ایکسپائری والی دوا کی قیمتوں میں واضع فرق ہوتا ہے، کم مدت معیاد والی ادویات عام طور پر سستی مل جاتی ہیں۔ اربوں روپے کی خریدی جانے والی ان ادویات کی خریداری نہایت منظم اور تکنیکی انداز سے کی جاتی ہے کہ جس کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خریداری کے لیے سینٹرل پروکیومنٹ کمیٹی قائم ہیں، یہ کمیٹی سرکاری اسپتالوں کی ڈیمانڈ کے مطابق 75 فیصد ادویات کی خریداری کرتی ہے اور یہ کمیٹی ادویات کی قیمتوں کا تعین بھی کرتی ہے جبکہ 25 فیصد ادویات لوکل پرچیزنگ کے اختیار دے کر اسپتال اور ضلعی ہیلتھ آفس والے خود کرتے ہیں۔ماہر علم الادویہ نے کہا کہ ان ادویات کی خریداری کے لیے ٹینڈر جاری کیے جاتے ہیں، یہ ٹینڈر سینٹرل پروکیومنٹ کمیٹی کے تحت جاری کیے جاتے ہیں اور یہ کمیٹی کسی بھی ٹینڈر منظور یا نہ منظور کرنے کا اختیار رکھتی ہے، یہ کمیٹی 26 ارکین پر مشتمل ہوتی ہے، اس کمیٹی کے ماتحت ادویات کی قیمتوں کا بھی تعین کیا جاتا ہے۔محکمہ صحت کے تحت سرکاری اسپتالوں میں خریدی جانے والی ادویات جرنک نام (فارمولیشن/ کیمیکل) کے نام سے ٹینڈر کیے جاتے ہیں جس کمپنی کی ادویات کی قیمتیں کم ریٹ پر ہوتی ہیں اس کمپنی سے ادویات خریدی جاتی ہیں، لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں غیر معروف کمپنیوں کی جانب سے تیار کی جانے والی ادویات کو فارمولیشن کے نام سے خریدی جاتی ہے۔ ان ادویات کی خریداری کے دوران ادویات کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے اور پھر دیگر اسپتالوں میں خریدی جانے والی ادویات کو بھی اسی فارمولیشن اور اسی قیمت پر ٹینڈر کے ذریعے خریدنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ادویات کی خریداری فارمولیشن کے نام سے کی جاتی ہے جبکہ مارکیٹ میں ادویات ٹریڈ نام سے فروخت کی جارہی ہیں۔ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی کی پالیسی کے مطابق جو ادویات اسپتالوں کو فراہم کی جاتی ہیں، ان کی کم از کم میعاد 6 ماہ یا بعض اوقات میں ایک سال کی ہونی چاہیے یعنی اگر کسی دوا کی ایکسپائری اگلے 2 سے 3 ماہ میں ہو رہی ہو تو وہ ادویات نہیں خریدی جانی چاہیے لیکن سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خریداری کے لیے کوئی مکینزم موجود نہیں۔پاکستان ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی کے تحت ایکسپائرڈ دواں کے حوالے سے قوانین اور ضوابط نہایت واضح ہیں تاکہ عوام کو محفوظ ادویات فراہم کی جا سکیں۔ ڈرگ ایکٹ 1976 اور ڈریپ ایکٹ 2012 کے تحت اگر کوئی فرد یا ادارہ ایکسپائرڈ دوا فروخت کرتا پکڑا جائے تواسے 5 سال تک قید اور بھاری جرمانہ اداکرنا ہوگا جبکہ اسکا ڈرگ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا اور عدالتی کارروائی کا سامنا کر نا ہوگا۔دوسری جانب ملک میں ادویات سے متعلق آج تک فارماکوپیا (Pharmacopoeia) بھی موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں مجموعی طور پر 900 ادویات کی فارمولیشن رجسٹرڈ ہیں، ان میں 400 فارمولیشن جان بچانے والی (Essential) جبکہ 500 فارمولیشن (Non-Essential) رجسٹرڈ ہیں۔پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سندھ آپریشن کے سربراہ ڈاکٹر عبید علی نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ کم ایکسپائری والی دوا اور زیادہ ایکسپائری والی دوا کی قیمتوں میں واضع فرق ہوتا ہے، وہ دوا جس کی مدت معیاد چند ماہ میں ختم ہونے والی ہوتی ہے۔ اس دوا کی قیمت زیادہ مدت معیاد والی دوا سے بہت کم ہوتی ہے اس لیے سرکاری اسپتالوں میں کم مدت معیاد والی دوا خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دوا کی افادیت تین سال تک برقرار رہتی ہے، دوا جس دن بنی ہے اس وقت اس کی افادیت اور زہریت الگ ہوتی ہے اور جب دوا ایکسپائری ہونے والی ہوتی ہے اس کے افادیت کم ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کم ایکسپائری والی دوا سستی مل جاتی ہے۔ڈاکٹر عبید علی نے کہا کہ وہ دوا جو ایکسپائر نہیں ہوئی ہے وہ safely استعمال کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ کم ایکسپائری والی دوا اور زیادہ ایکسپائری والی دوا کی قیمتوں نمایاں فرق ہوتا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خریداری ادویات کی خریداری کے جانے والی ادویات خریدی جانے والی معیاد والی دوا مدت معیاد والی ان ادویات کی کی قیمتوں نے کہا کہ یہ کمیٹی ہوتا ہے کی جاتی ہوتی ہے جاتی ہے دوا کی کے تحت
پڑھیں:
پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ جگر کی 1000 پیوندکاریاں کر کے دنیا کے صف اول کے اسپتالوں میں شامل
پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) نے جگر کے 1000 کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل کر کے خود کو دنیا کے بڑے ٹرانسپلانٹ مراکز کی صف میں شامل کر لیا ہے، یہ کامیابی پاکستان کے شعبہ صحت کیلیے اہم سنگ میل ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق 2017 میں موجودہ وزیراعظم اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے اس ادارے کا خواب دیکھا اور سنگ بنیاد رکھا، جہاں عوام کو جگر اور گردے کے امراض کا عالمی معیاری علاج فراہم کیا جاتا ہے۔
شہباز شریف کا 9 سال قبل دیکھا گیا خواب آج حقیقت بن گیا جہاں ہزاروں مریضوں کا اعلیٰ معیاری علاج کر کے زندگیاں بچائی جا چکی ہیں۔
ترجمان پی کے ایل آئی کے مطابق اب تک جگر کے 1000 ٹرانسپلانٹس کے ساتھ ساتھ 1100 گردے اور 14 بون میرو ٹرانسپلانٹس مکمل کیے جا چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 40 لاکھ سے زائد مریض علاج کی سہولیات سے مستفید ہو چکے ہیں جبکہ اس وقت تقریباً 80 فیصد مریضوں کو عالمی معیار کے مطابق بالکل مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔
’استطاعت رکھنے والے مریضوں کے لیے علاج کے اخراجات تقریباً 60 لاکھ روپے ہیں، جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔‘
ترجمان نے بتایا کہ بدقسمتی سے پی کے ایل آئی کو تحریک انصاف کی سابق حکومت کے دور میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور فنڈز منجمد کیے گئے جبکہ انتظامیہ کو غیر ضروری تحقیقات میں الجھایا گیا اور عالمی معیار کے ٹرانسپلانٹ سینٹر کو کووڈ اسپتال میں تبدیل کر دیا گیا، جس کے باعث 2019 میں صرف چار جگر کے ٹرانسپلانٹ ممکن ہو سکے۔
تاہم، 2022 میں وزیراعظم شہباز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ادارے کو بحال کیا گیا، فنڈز فراہم کیے گئے اور پی کے ایل آئی کو اپنے اصل مقصد کی جانب دوبارہ گامزن کیا گیا۔
اس کے نتیجے میں 2022 میں 211، 2023 میں 213، 2024 میں 259 اور 2025 میں اب تک 200 سے زائد کامیاب جگر کے ٹرانسپلانٹس مکمل کیے جا چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بیرونِ ملک جگر کے ٹرانسپلانٹ پر اوسطاً 70 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر خرچ آتا ہے، جب کہ ماضی میں سالانہ 500 کے قریب پاکستانی مریض علاج کے لیے بھارت جاتے تھے اور نہ صرف بھاری اخراجات برداشت کرتے بلکہ غیر انسانی رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔
پی کے ایل آئی نے ان تمام مشکلات کا خاتمہ کر دیا ہے، علاج کے دروازے ملک کے اندر کھول دیے ہیں اور اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچایا ہے۔ ادارہ اب صرف ٹرانسپلانٹ تک محدود نہیں بلکہ یورالوجی، گیسٹروانٹرولوجی، نیفرو لوجی، انٹروینشنل ریڈیالوجی، ایڈوانس اینڈوسکوپی اور روبوٹک سرجریز کے شعبے بھی عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔
ترجمان نے کہا ہک وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی سرپرستی اور مسلسل تعاون سے پی کے ایل آئی تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور یہ ادارہ اب محض ایک اسپتال نہیں بلکہ قومی وقار، خود انحصاری اور انسانیت کی خدمت کی علامت بن چکا ہے۔
وزیراعظم کا سنگ میل عبور کرنے پر اظہار تشکر
وزیراعظم شہباز شریف نے اظہار تشکر کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے جو پودا 2017 میں لگایا تھا وہ آج تناور درخت بن گیا جس سے اب تک 40 لاکھ مریض مستفید ہو چکے، ماضی میں پی کے ایل آئی کو تباہ کرنے کی مزموم سازشیں ہوتی رہیں، اسکے بورڈ آف گورنرز کو ختم کیا گیا اور ادارے کو غیر فعال کردیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 2022 میں خادم پاکستان کی ذمہ داری سنبھالی تو پی کے ایل آئی کی ازسر نو بحالی پر کام شروع کیا، وزیرِ اعلی پنجاب مریم نواز نے موجودہ دور حکومت میں انسانیت کی خدمت کیلئے قائم اس ادارے کو اپنی بھرپور استعداد پر دوبارہ لانے کیلئے بھرپور محنت کی، جو قابل ستائش ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی کے ایل آئی 80 فیصد مریضوں کا علاج مفت کرتا ہے جس سے غریب عوام بین الاقوامی معیار کی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں، پی کے ایل آئی کے قیام اور اس کے آپریشنز کو ازسر نو شروع کرکے دوبارہ سے اپنی بھرپور استعداد پر لانے کیلئے محنت کرنے والی ٹیم لائق تحسین ہے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ دکھی انسانیت کی خدمت اور زندگیاں بچانے میں پی کے ایل آئی نے جو کردار ادا کیا یے، اس کے لئے ڈاکٹر سعید اختر اور انکی پوری ٹیم خراج تحسین کی مستحق ہے۔