آکسفورڈ سمیت عالمی جامعات سے ڈگری یافتہ چینی شہری فوڈ ڈیلیوری کا کام کرنے پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیجنگ: آکسفورڈ سمیت دنیا کی کئی ممتاز جامعات سے تعلیم حاصل کرنے والے 39 سالہ چینی شہری ڈِنگ یوانژاؤ ان دنوں بیجنگ میں ایک فوڈ ڈیلیوری ورکر کے طور پر کام کر رہے ہیں، جس کے بعد سوشل میڈیا پر اعلیٰ تعلیم کی افادیت اور بے روزگاری کے بڑھتے رجحان پر شدید بحث چھڑ گئی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق ڈِنگ کا تعلق چین کے جنوب مشرقی صوبے فوجیان سے ہے، انہوں نے 2004 میں چین کا معروف قومی داخلہ امتحان “گاؤکاؤ” تقریباً 700 نمبروں کے ساتھ پاس کیا، جس پر انہیں چین کی صفِ اول کی جامعہ، تسِنگھوا یونیورسٹی میں داخلہ ملا، جہاں سے انہوں نے کیمسٹری میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔
بعد ازاں انہوں نے بیجنگ یونیورسٹی سے توانائی انجینئرنگ میں ماسٹرز، نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی سنگاپور سے حیاتیات میں پی ایچ ڈی اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے بائیوڈائیورسٹی میں ایک اور ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
تحقیق کے شعبے میں خدمات انجام دینے کے بعد ان کا پوسٹ ڈاکٹریٹ کا معاہدہ گزشتہ سال مارچ میں سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی میں ختم ہو گیا، جس کے بعد انہوں نے ملازمت کے لیے درجنوں درخواستیں دیں اور کئی انٹرویوز میں شرکت کی، مگر کسی موزوں ملازمت کے حصول میں ناکام رہے۔
بے روزگاری کے باعث، انہوں نے سنگاپور میں فوڈ ڈیلیوری کا کام شروع کیا، جہاں وہ روزانہ 10 گھنٹے کام کر کے تقریباً 700 سنگاپور ڈالر (تقریباً 550 امریکی ڈالر) ہفتہ وار کماتے تھے۔
ڈِنگ نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہ ایک مستحکم کام ہے، میں اپنی آمدن سے خاندان کی کفالت کر سکتا ہوں، اگر محنت کی جائے تو اچھی کمائی ممکن ہے، یہ کوئی بُرا کام نہیں ہے۔
انہوں نے پرائیویٹ ٹیوشن دینے سے گریز کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں گاہک تلاش کرنے میں جھجک محسوس کرتا ہوں، کچھ مہینے بعد وہ چین واپس آ گئے اور اب بیجنگ میں “میٹوان” کمپنی کے لیے فوڈ ڈیلیوری کا کام کر رہے ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے گاؤکاؤ امتحان مکمل کرنے والے طلبہ کے لیے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جو وائرل ہو گیا، ویڈیو میں انہوں نے کہا،اگر نتائج اچھے نہیں آئے تو مایوس نہ ہوں اور اگر اچھے ہیں، تو یاد رکھیں کہ زیادہ تر لوگوں کا کام مجموعی طور پر دنیا پر کوئی بڑا فرق نہیں ڈالتا۔
خیال رہےکہ چین میں مسلسل تیسرے سال تقریباً 1 کروڑ 30 لاکھ طلبہ گاؤکاؤ امتحان میں شرکت کر چکے ہیں، جب کہ بیروزگاری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ مئی میں 16 سے 24 سال کے شہری نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 14.
ڈِنگ یوانژاؤ کی داستان نہ صرف تعلیمی نظام پر سوالات اٹھا رہی ہے بلکہ یہ بھی یاد دہانی ہے کہ صرف ڈگریاں ملازمت کی ضمانت نہیں ہوتیں، خصوصاً ایک دباؤ زدہ معاشی نظام میں جہاں قابلیت اور مواقع کا توازن بگڑ چکا ہو۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فوڈ ڈیلیوری کام کر کا کام
پڑھیں:
آٹھ قسم کے مینیجر، جو اچھے ٹیلنٹ کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں
بڑی بڑی کمپنیوں میں ٹیلنٹ کی کمی اکثر کمپنی کلچر پر نہیں بلکہ قیادت کے انداز پر منحصر ہوتی ہے۔ اور یہی بات بھارت کی مشہور کمپنی ”ماما ارتھ“ (Mamaearth) کی شریک بانی غزل الگھ نے ایک وائرل لنکڈ ان پوسٹ میں واضح کی کہ ’لوگ نوکری نہیں چھوڑتے، وہ مینیجر چھوڑتے ہیں۔‘
غزل الگھ کے مطابق، ایک ملازم کی روزمرہ مینیجر سے بات چیت ہی طے کرتی ہے کہ وہ کمپنی میں ٹھہرے گا، ترقی کرے گا یا مایوس ہو کر چلا جائے گا۔ اور کمپنی کلچر کے علاوہ مینیجر ہی دوسری بڑہ وجہ ہوتا ہے جو کو اچھے ٹیلنٹ سے محروم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
انہوں نے 8 ایسے مینیجرز کی اقسام کی نشاندہی کی ہے جو اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے ملازمین کو خاموشی سے دروازے کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔
1۔ مائیکرو مینیجر
یہ مینیجر ہر کام پر قابو رکھتا ہے، یعنی ہر چھوٹے کام میں دخل اندازی کرتا ہے اور اعتماد کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔
2 ۔ کریڈٹ چور مینیجر
یہ مینیجر کامیابی کا جشن تو مناتا ہے، لیکن کریڈٹ دینا بھول جاتا ہے۔ یا خود اس کام کا کریڈٹ لے لیتا ہے۔
3 ۔ بھوتیا (غائب) مینیجر
یہ مینیجر رابطے میں نہیں رہتا، نہ رہنمائی دیتا ہے نہ حوصلہ افزائی۔
4 ۔ غصے والا مینیجر
اس طرح کے مینیجر کے مزاج کی شدت اور بات بات پر غصہ ٹیم کے استحکام کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
5 ۔ معلومات چھپانے والا
یہ مینیجر اہم معلومات اور اسکلز خود تک محدود رکھتا ہے، اور دوسروں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
6 ۔ کبھی خوش نہ ہونے والا
یہ ہمیشہ مزید کارکردگی چاہتا ہے لیکن پہلے سے حاصل شدہ کارکردگی کو سراہتا نہیں۔
7 ۔ من پسند پرست مینیجر
یہ مینیجر چند افراد کو ترجیح دے کر باقی ٹیم کو نظر انداز کرتا ہے۔
8 ۔ خطرہ نہ اٹھانے والا مینیجر
ایسا شخص نئے خیالات اور آئیڈیاز سے خوفزدہ ہوتا ہے، اور جدت کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
غزل الگھ کا کہنا ہے کہ، ’قیادت صرف پالیسیز یا سہولتوں کا نام نہیں، بلکہ ہر دن اعتماد اور عزت پر مبنی ماحول بنانے کا نام ہے۔‘
انہوں نے آخر میں ایک اہم سوال اٹھایا، ’آپ نے ذاتی طور پر کیسی قیادت دیکھی ہے جس نے آپ کو متاثر کیا یا مجبور کیا کہ آپ آگے بڑھ جائیں؟‘
ان کی پوسٹ پر ہزاروں ردعمل آئے، جن میں کئی لوگوں نے اپنے تجربات شیئر کیے۔
ایک صارف نے لکھا، ’وہی لیڈر مجھے روکے رکھ سکے، جنہوں نے دل سے سنا اور ساتھ دیا۔ چھوڑنے پر مجبور کیا تو غلط رویے اور ایگو نے۔‘
ایک اور رائے میں کہا گیا کہ، ’ٹیم کو روزانہ کی بنیاد پر عزت، اعتماد اور جذبہ دینے والا مینیجر ہی دراصل کلچر بناتا ہے۔‘
ایک اور صارف نے مزید کہا، ’بالکل! ملازمین ہمدردی، تعریف اور تعلق چاہتے ہیں۔ اگر یہ نہیں ہے، تو کوئی فائدہ انہیں جانے سے نہیں روک سکتا۔‘
یہ یاد دہانی ہے کہ قیادت عہدوں کا نہیں، رویوں کا کھیل ہے۔
Post Views: 3