ایک سیاسی کارکن کی ’’ سیاسی وصیت‘‘
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
پاکستان میں بہت کم ایسے اہل سیاست ہیں جو لکھنے ،پڑھنے اور علمی و فکری صلاحیتوں میں اپنا منفرد نام رکھتے ہیں ۔معروف سیاسی و سماجی دانشور، مصنف اور کالم نگارقیوم نظامی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے پیپلز پارٹی میں بھی ایک فعال کردار ادا کیا اور علمی و فکری میدان میں بھی لوگوں کی راہنمائی کی ہے۔
ان کی سیاست کا دور نظریاتی یا دائیں اور بائیں بازو کی سیاست سے جڑی نظریاتی کشمکش کا دور تھا جہاں ان سمیت بہت سے سیاسی کارکنوں نے سیاسی اور جمہوری حقوق سمیت آئین کی بالادستی و حکمرانی کو یقینی بنانے اور ملک کی جمہوری خطوط پر عملی تشکیل میں ایک بڑا اور موثر کردار ادا کیا۔ پاکستان میں آج جو کچھ بھی جمہوریت کی کمزور سی شکل ہے یا یہاں جمہوری آزادیوں پر بات کی جاتی ہے تو ان میں قیوم نظامی سمیت کئی ہزاروں سیاسی کارکنوں کی جدوجہد بھی شامل ہے۔
قیوم نظامی کی نئی تصنیف ’’ سیاسی وصیت … سماجی سیاسی آپ بیتی‘‘ سامنے آئی ہے جو ان کی سیاسی اور سماجی زندگی کی جہاں آپ بیتی ہے وہیں اپنی جدوجہد کی کہانی کا سیاسی نچوڑ بھی ہے ۔ ان کی اس کہانی میں ہمیں مختلف سیاسی ادوار کے اتار چڑھاؤ کی کہانی بھی ملتی ہے اور ان گزرے حالات کے مختلف واقعات کی گواہیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔
اسی کتاب میں ان کی سیاسی و سماجی آپ بیتی کی بنیاد پر ہمیں مصنف کی طرف سے ایک بطور سیاسی راہنما،کارکن ،دانشور اور مصنف کی سیاسی وصیت کی ایک تصویر بھی سننے یا پڑھنے کو ملتی ہے جو بہت سے لوگوں کے لیے مستقبل کے تناظر میں راہنمائی کے نئے دروازے یا دریچے بھی کھولتی ہے یا ہمیں مستقبل کی سیاست کو مضبوط بنانے میں ’’ مسائل اور حل ،نیا نظام حکومت ‘‘ کا خاکہ کا فریم ورک بھی سمجھنے کو ملتا ہے۔
قیوم نظامی پہلے بھی کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کی اہم کتابوں میں معاملات رسول،قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل،زندہ اقبال ، جو دیکھا جو سنا، جرنیل اور سیاست دان تاریخ کی عدالت میں، آزادی سے غلامی تک، خفیہ پیپرز سمیت بچوں کے لیے سیرت پر مبنی پندرہ کتب کا سیٹ بھی شامل ہے جو بچوں کی تربیت اور اصلاح پر ان کی اہم تحریریں ہیں۔
عمومی طور پر خود نوشت قوموں کے عروج و زوال کی داستان عبرت یا داستان حیرت ، داستان درس گاہ ہوا کرتی ہے اور قیوم نظامی کی اس داستان میں ہمیں بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی ،جمہوری اور آئینی و قانونی تاریخ کیا ہے اور آج جہاں یہ ملک کھڑا ہے اس کی سیاسی و ریاستی وجوہات کیا ہیں ۔مختصر سی یہ جامع کتاب پاکستان کے بنیادی مسائل کا احاطہ کرتی ہے اور یہ وہ مسائل ہیں جن کا تعلق موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں سمیت پاکستان کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے۔
قیوم نظامی نے اپنی اس کتاب میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو سے گورنر ہاؤس میں ہونے والی اپنی ملاقات کی ایک روداد بھی لکھی جو پانچ منٹ کی طے شدہ ملاقات تیس منٹ پر ختم ہوئی اور قیوم نظامی کے بقول انھوں نے اس ملاقات کے لیے بھٹو صاحب کو بس ایک ٹیلی گرام کیا تھا جس پر ان کی ملاقات طے ہوئی اور بھٹو صاحب نے ان کی گفتگو تحمل سے سنی اور پارٹی راہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کے درمیان جو خلیج ہے اسے ختم کرنے کے لیے فوری احکامات بھی جاری کیے۔
اسی طرح اس کتاب میں ہمیں قیوم نظامی سمیت پیپلزپارٹی کے ان سیاسی کارکنوں کی داستانیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں جنھوں نے پارٹی ،جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور مارشل لا کے خلاف مزاحمت کرنے پر سختیاںجھیلیں، جیل کاٹی، کوڑے کھائے۔ شاہی قلعہ میں قید رہے، ذہنی اور جسمانی ٹارچر کا سامنا کیا اور اس کہانی کا ایک کردار خود قیوم نظامی بھی تھے جنھوں نے سب سے پہلے کوڑے کھائے اور اپنی سیاسی فکر سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
قیوم نظامی ان لوگوں میں سے ہیں جو اس ملک میں سیاسی،جمہوری اور فلاحی ریاست کے تصور کے حامی ہیں ۔ان کے بقول پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو افہام و تفہیم سے سول اور ملٹری تعلقات کو متوازن بنانا ہوگا تاکہ ریاست کے تمام ادارے اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے فعال کردار ادا کرسکیں۔ کیونکہ مضبوط دفاع، مستحکم سیاسی،جمہوری، عدالتی، انتظامی ادارے اور خوشحال مقتدر عوام ہی پاکستان کی ترقی اور سلامتی کے ضامن بن سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیاسی کارکنوں قیوم نظامی پڑھنے کو کی سیاسی کے لیے ہے اور
پڑھیں:
فیلڈ مارشل کو ملنے والا اعزاز پوری پاکستانی قوم کے لیے باعث فخر ہے، جاوید اقبال انصاری
ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جب پاکستان نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی دیوالیہ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان کے دفاع بلکہ معاشی اور خارجہ امور پر عوامی قیادت کو ساتھ ملا کر حالات پر قابو پایا اور اقوام عالم کے سامنے پاکستان کی پوزیشن کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلام ٹائمز۔ سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل پاکستان، سابق ایڈیشنل ڈپٹی پراسٹیکیوٹر جنرل نیب محمد جاوید اقبال انصاری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر نے وطن عزیز پاکستان کی بگڑتی ہوئی معیشت کو سیاسی قیادت کو ساتھ لے کر سنبھالا بلکہ معرکہ حق آپریشن بنیان المرصوص میں بے مثال فتح حاصل کی جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتنہ الخوارج کے خلاف بطور سپہ سالار بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں جس پر ان کی بیش بہا خدمات کو وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سراہا ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
 
  انہوں نے مزید کہا کہ جب پاکستان نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی دیوالیہ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان کے دفاع بلکہ معاشی اور خارجہ امور پر عوامی قیادت کو ساتھ ملا کر حالات پر قابو پایا اور اقوام عالم کے سامنے پاکستان کی پوزیشن کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وزیراعظم پاکستان اور صدر مملکت اصف علی زرداری کی مشاورت کے بعد جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے منصب جلیلہ اور اعزاز سے نوازا گیا جبکہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کو ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر ان کی خدمات کو جاری رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
 
  فیلڈ مارشل کو ملنے والا اعزاز پوری پاکستانی قوم کے لیے خواہ اس کا تعلق کسی بھی طبقہ سے ہو باعث فخر ہے، جبکہ 66 سال قبل 1959 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل ایوب خان کی صدارتی کابینہ نے فیلڈ مارشل کا عہدہ عطا کیا تھا، جنرل سید عاصم منیر دوسرے جمہوری دور کے پہلے مرد آہن فیلڈ مارشل کے عہدہ پر فائض ہوئے ہیں جو پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
 
 یہی وجہ ہے کہ فیلڈ مارشل کی کاوشوں کی بدولت سعودی عرب جیسے اہم ترین ملک میں پاکستان کے دفاعی اور تجارتی معاہدات پر عمل درآمد جاری ہے اور مجھے یہ جان کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آئی ایس پی ار کی جاری کردہ پریس ریلیز میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی جانب سے یہ اعزاز پوری قوم افواج پاکستان خاص طور پر سول اور ملٹری شہدا اور غازیوں کے نام وقف کرتا ہوں جو ان کی جذبہ حب الوطنی اور اعلی قائدانہ صلاحیتوں کا مظہر ہے۔