Express News:
2025-07-08@01:46:56 GMT

ایک سیاسی کارکن کی ’’ سیاسی وصیت‘‘

اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT

پاکستان میں بہت کم ایسے اہل سیاست ہیں جو لکھنے ،پڑھنے اور علمی و فکری صلاحیتوں میں اپنا منفرد نام رکھتے ہیں ۔معروف سیاسی و سماجی دانشور، مصنف اور کالم نگارقیوم نظامی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے پیپلز پارٹی میں بھی ایک فعال کردار ادا کیا اور علمی و فکری میدان میں بھی لوگوں کی راہنمائی کی ہے۔

ان کی سیاست کا دور نظریاتی یا دائیں اور بائیں بازو کی سیاست سے جڑی نظریاتی کشمکش کا دور تھا جہاں ان سمیت بہت سے سیاسی کارکنوں نے سیاسی اور جمہوری حقوق سمیت آئین کی بالادستی و حکمرانی کو یقینی بنانے اور ملک کی جمہوری خطوط پر عملی تشکیل میں ایک بڑا اور موثر کردار ادا کیا۔ پاکستان میں آج جو کچھ بھی جمہوریت کی کمزور سی شکل ہے یا یہاں جمہوری آزادیوں پر بات کی جاتی ہے تو ان میں قیوم نظامی سمیت کئی ہزاروں سیاسی کارکنوں کی جدوجہد بھی شامل ہے۔

قیوم نظامی کی نئی تصنیف ’’ سیاسی وصیت … سماجی سیاسی آپ بیتی‘‘ سامنے آئی ہے جو ان کی سیاسی اور سماجی زندگی کی جہاں آپ بیتی ہے وہیں اپنی جدوجہد کی کہانی کا سیاسی نچوڑ بھی ہے ۔ ان کی اس کہانی میں ہمیں مختلف سیاسی ادوار کے اتار چڑھاؤ کی کہانی بھی ملتی ہے اور ان گزرے حالات کے مختلف واقعات کی گواہیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔

اسی کتاب میں ان کی سیاسی و سماجی آپ بیتی کی بنیاد پر ہمیں مصنف کی طرف سے ایک بطور سیاسی راہنما،کارکن ،دانشور اور مصنف کی سیاسی وصیت کی ایک تصویر بھی سننے یا پڑھنے کو ملتی ہے جو بہت سے لوگوں کے لیے مستقبل کے تناظر میں راہنمائی کے نئے دروازے یا دریچے بھی کھولتی ہے یا ہمیں مستقبل کی سیاست کو مضبوط بنانے میں ’’ مسائل اور حل ،نیا نظام حکومت ‘‘ کا خاکہ کا فریم ورک بھی سمجھنے کو ملتا ہے۔

قیوم نظامی پہلے بھی کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کی اہم کتابوں میں معاملات رسول،قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل،زندہ اقبال ، جو دیکھا جو سنا، جرنیل اور سیاست دان تاریخ کی عدالت میں، آزادی سے غلامی تک، خفیہ پیپرز سمیت بچوں کے لیے سیرت پر مبنی پندرہ کتب کا سیٹ بھی شامل ہے جو بچوں کی تربیت اور اصلاح پر ان کی اہم تحریریں ہیں۔

عمومی طور پر خود نوشت قوموں کے عروج و زوال کی داستان عبرت یا داستان حیرت ، داستان درس گاہ ہوا کرتی ہے اور قیوم نظامی کی اس داستان میں ہمیں بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی ،جمہوری اور آئینی و قانونی تاریخ کیا ہے اور آج جہاں یہ ملک کھڑا ہے اس کی سیاسی و ریاستی وجوہات کیا ہیں ۔مختصر سی یہ جامع کتاب پاکستان کے بنیادی مسائل کا احاطہ کرتی ہے اور یہ وہ مسائل ہیں جن کا تعلق موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں سمیت پاکستان کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے۔

قیوم نظامی نے اپنی اس کتاب میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو سے گورنر ہاؤس میں ہونے والی اپنی ملاقات کی ایک روداد بھی لکھی جو پانچ منٹ کی طے شدہ ملاقات تیس منٹ پر ختم ہوئی اور قیوم نظامی کے بقول انھوں نے اس ملاقات کے لیے بھٹو صاحب کو بس ایک ٹیلی گرام کیا تھا جس پر ان کی ملاقات طے ہوئی اور بھٹو صاحب نے ان کی گفتگو تحمل سے سنی اور پارٹی راہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کے درمیان جو خلیج ہے اسے ختم کرنے کے لیے فوری احکامات بھی جاری کیے۔

اسی طرح اس کتاب میں ہمیں قیوم نظامی سمیت پیپلزپارٹی کے ان سیاسی کارکنوں کی داستانیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں جنھوں نے پارٹی ،جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور مارشل لا کے خلاف مزاحمت کرنے پر سختیاںجھیلیں، جیل کاٹی، کوڑے کھائے۔ شاہی قلعہ میں قید رہے، ذہنی اور جسمانی ٹارچر کا سامنا کیا اور اس کہانی کا ایک کردار خود قیوم نظامی بھی تھے جنھوں نے سب سے پہلے کوڑے کھائے اور اپنی سیاسی فکر سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

قیوم نظامی ان لوگوں میں سے ہیں جو اس ملک میں سیاسی،جمہوری اور فلاحی ریاست کے تصور کے حامی ہیں ۔ان کے بقول پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو افہام و تفہیم سے سول اور ملٹری تعلقات کو متوازن بنانا ہوگا تاکہ ریاست کے تمام ادارے اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے فعال کردار ادا کرسکیں۔ کیونکہ مضبوط دفاع، مستحکم سیاسی،جمہوری، عدالتی، انتظامی ادارے اور خوشحال مقتدر عوام ہی پاکستان کی ترقی اور سلامتی کے ضامن بن سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی کارکنوں قیوم نظامی پڑھنے کو کی سیاسی کے لیے ہے اور

پڑھیں:

چاہا، ان چاہا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سیاست میں تحریک انصاف کا وجود بیک وقت چاہا اور ان چاہا لگتا ہے۔ ہر سایہ کسی وجود کی پر چھائیں ہوتا ہے۔ تحریک انصاف جس وجود کی پر چھائیں ہے اس کا نام ہے عمران خان۔ یہ وجود بہت ان چاہا سا لگتا ہے جب اپنی سیاسی بے بصیرتی اور اپنے ہی پائوں پر کلہاڑے مارنے کی متواتر روش کے نتیجے میں اپریل 2022 میں حکومت گنوانے کے بعد سیاسی، فکری اور جمہوری راستہ اختیار کرنے، اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے اور صرف دو وٹوں کی اکثریت سے قائم ہونے والی بادلوں جیسی بے ثبات شہباز حکومت کا ناطقہ بند کرنے اور اسے گرانے کے بجائے سائفر جیسے نامانوس لفظ سے امریکا کو کھرونچنا شروع کردیتا ہے، اپنی حکومت کی تبدیلی کو عالمی سازش سے ڈیڈی کیٹ کرتا ہے اور امریکا اور جنرل باجوہ کو اس تبدیلی کا مرکز قرار دینے لگتا ہے۔ جنرل باجوہ کو میر جعفر، میر صادق، جانور اور نہ جانے کیا کچھ کہتا ہے لیکن پھر انہی کی دہلیز پر سجدہ بجا لاتے ان کے پائوں دھوتے، معافی کی عرضی پیش کرتا ہے اور اقتدار ملنے کے عوض تا حیات توسیع کی پیشکش کرتا ہے۔ ان ڈھلوانوں اور پستیوں کے باوجود عمران خان پھر بھی نہ جانے کیوں چاہا چاہا سالگتا ہے۔ وہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے، جھوٹے عقیدے کی طرح لیکن پھر بھی اس کا نام دل میں سکون سا پیدا کرتا ہے۔
عمران خان وہ ہیں جنہوں نے دنیا کا حسن بھی دیکھا اور شباب بھی برتا لیکن وہ اپنی حکومت کو حسن سے چلاسکے اور نہ پا کستان کی معیشت کو شباب آشنا کرسکے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کو تہہ نشین کرنے، کرنٹ اکائونٹ خسارے کو 17 ارب ڈالر سے زائد تک پہنچانے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ میں تیزی لانے، بے تحاشا قرضوں کا بوجھ بڑھانے، 2019 میں بصد منت ترلے حاصل ہونے والے آئی ایم ایف کے پروگرام کو بار بار معطل کرنے، اعتماد کو مجروح کرنے، سرمایہ کاری، اسٹاک مارکیٹ اور بیرونی امداد کے دروازے بند کیے جانے کے نتیجے میں ان کے دور حکومت میں پاکستان پہلی مرتبہ دیوالیہ ہونے کے حقیقی خطرے سے دوچار ہوا۔ جب ان کے بعد آنے والی شہاز حکومت اس جسم میں حدت پیدا کرنے کی اتھاہ حسر ت میں ہاتھ پائوں مار رہی تھی، آئی ایم ایف سے ایک اور پروگرام لینے کے لیے اسے قائل کرنے کے لیے کوشش کررہی تھی یہ عمران خان کے وزیر خزانہ شوکت ترین تھے جو خیبر پختوان خوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو تلقین کررہے تھے کہ وہ آئی ایم ایف کو عدم تعاون کے لیے خط لکھیں۔ 23 مئی 2024 کو عمران خان نے اڈیالہ جیل سے ایک طویل خط میں آئی ایم ایف کے ارادے کو توڑنے اور پاکستان کی طرف اس کے پھیلی ہوئی بانہوں کو سمیٹنے کے لیے تجویزدی کہ وہ پہلے انتخابات کا آڈٹ کرے پھر قرض دے۔ سنک اور دیوانگی کے اسی عالم میں 15 مارچ کو تحریک انصاف نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ جنوری 2024 میں عمران خان نے سمندر پار پا کستانیوں سے پرزور اپیل کی کہ وہ اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجیں۔ عمران خان کے پھینکے ہوئے ان کنکروں اور پتھروں سے پاکستان کے دریاکی روانی میں کوئی فرق آیا اور نہ عمران خان کی جان لیتی محبت میں جو دل کے تہہ خانے میں بند چلہ کاٹتی مرنے پر بضد ہے۔ آب گوں آنکھوں سے عمران خان کی رہائی کے لیے چلہ کاٹتی۔
چند دن پہلے 2 جولائی کو تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پارٹی رہنمائوں نے اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت سے بات کرنے پر اصرار کیا۔ اسیر رہنمائوں شاہ محمود قریشی کا خط بھی زیر بحث آیا۔ پارٹی رہنمائوں نے ہر صورت مذاکرات پر زور دیا۔ مذاکرات پر زور دیتے ہوئے پارٹی رہنما یہ بھول گئے کہ وہ جس وجود کا سایہ ہیں وہ سیاسی قیادت کو ایسی
کھڈیں اور خلیجیں سمجھتا ہے جو پستی میں پڑی رہنے کی خوگر ہوں۔ ایسے گھٹیا لوگ جن کے ساتھ قطار میں کھڑا نہیں ہوا جاسکتا۔ یہ وجود صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ عمران خان خود کو ایک ایسی سرزمین سمجھتے ہیں جس پر سنہری رنگ پھیلے ہوں جو دیگر بدرنگ سیاسی زمینوں سے ممتاز حیثیت رکھتا ہو۔ صرف اسٹیبلشمنٹ کو دیکھ کر ہی اس عظیم دیوتا کے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہر دوسری سانس میں وہ یہ کہتا نظر آتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست اور اقتدار کی راہداریوں سے دور رہنا چاہیے۔ ایک یونانی گیت میں پیدائش اور موت ایک ہی منہ کے کہے ہوئے دولفظ ہیں۔ اپنے باب میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے منہ سے صرف اقتدار کی پیدائش کا لفظ سننا چاہتے ہیں اور دوسرے ارباب سیاست کے لیے موت کا یا پھر جیل کی کال کوٹھڑیوں کا۔ لیکن ان سب باتوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں۔ عمران خان کے چاہنے والوں کے دل کی مٹی پر کیسا ہی پانی گرے وہ پتھر نہیں ہوتی بلکہ ہردم ان کی چاہ میں مہکتی ہی رہتی ہے۔
عمران خان کے نزدیک اہل سیاست صرف وہ ہیں جو تحریک انصاف میں ہیں۔ جو ان کا سایہ ہیں۔ باقی نہ اہل سیاست ہیں، نہ بات کرنے کے قابل اور نہ ان کے ساتھ مل کر جمہوری جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ اپنی پارٹی کے اہل سیاست کو بار بار آزماکر دیکھ رہے ہیں نتیجہ ان کے سامنے ہے۔ عمران خان کے لیے دو ہی افراد کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر یا شہباز شریف۔ سوال یہ ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کوئی کردار ادا کیوں کریں جب کہ انہیں اور فوج کو وہ طاقت کے کھیل سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے دور اقتدار میں جنرل عاصم منیر کے باب میں وہ یہ کردار ادا کر بھی چکے ہیں۔ رہے شہباز شریف انہیں عمران خان بات چیت کے جوگا نہیں سمجھتے۔ تو پھر کیا باقی بچتا ہے سوائے اپنے آپ کو مستقل طور پر بند گلی میں بند رکھنے کے۔
باتیں سننے میں آرہی ہیں کہ نواز شریف اڈیالہ جیل میں عمران خان سے مل کر انہیں سمجھائیں اور کوئی راستہ نکالیں۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف اس جھاڑ پو نچھ کا حصہ کیوں بنیں جب کہ گرد، ن لیگ کی حکومت پر ہی گرے گی۔ پھر عمران خان نے اپنے اقتدار میں میاں صاحب اور ان کے خاندان کے افراد کے ساتھ جس عداوت اور ظلم کا سلوک کیا وہ ایسا نہیں تھا جسے فراموش کردیا جائے۔ عمران خان نرگسیت کے مریض ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ سیاسی جدوجہد میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی میں اگر کچھ رہنمائوں نے اس راستے کی نشاندہی کی ہے تو یہ سیاسی بصیرت پر دلالت کرتا ہے لیکن ہر سیاسی قوت جو یہ سمجھتی تھی کہ عمران خان ایک ڈیمو کریٹک آدمی ہیں آخرکار انہیں مایوسی ہی ہوئی۔
عمران خان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سیاست نہیں دشمنی کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر سب ہی تنقید کرتے ہیں۔ مقصد اصلاح ہوتا ہے نہ کہ دشمنی۔ تنقید کو دشمنی میں نہیں بدلا جاتا۔ وہ سیاسی جماعتیں جو فوج کی سخت ناقد ہیں پاک بھارت جنگ چھڑی تو فوج کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑی ہو گئیں۔ جماعت اسلامی اس کی بہت اعلیٰ مثال ہے۔ کون سا موقع ہے جب جماعت اسٹیبلشمنٹ کے رویوں کی کوتاہی کو نشانہ نہ بناتی ہو لیکن چار روزہ جنگ میں پاک فوج کی کامیابی کا سب سے زیادہ جشن بھی جماعت نے منایا۔ شہر شہر کوچہ کوچہ فوج کے حق میں نعرے لگائے لیکن تحریک انصاف نے اسے منافقت اور دوغلے پن سے تعبیر کیا۔ لیکن جن دلوں میں عمران خان کی چاہ کا سرنامہ ہے ان کے عشق کے ٹھٹھرتے بدن سدا عمران خان کے لیے گیتوں کے پیراہن سیتے رہیں گے۔ چاہ چیز ہی ایسی ہے۔ چاہ کا بیج ایک مرتبہ خون اور گوشت میں اُگ جائے پھر کیسی ہی آندھیاں چلیں یہ پیڑ سلامت رہتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں ہائبرڈ ماڈل مکمل فعال، طاقتور حلقے پس پردہ نہیں رہے
  • چاہا، ان چاہا
  • ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی صدر کی گرفتاری سیاسی انتقام ہے، بلاول بھٹو
  • دو طرفہ فوجی تصادم میں دیگر ملکوں کو شامل کرنا بھارت کی ناقص سیاسی کوشش ہے: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر
  • گروک: مصنوعی ذہانت کے ذریعے پاکستانی سیاست میں نئی جنگ
  • برطانیہ، فلسطین ایکشن گروپ کے 20 سے زائد کارکن گرفتار
  • برطانیہ؛ فلسطین ایکشن گروپ کے 20 سے زائد کارکن گرفتار
  • 5 جولائی 1977 کو جمہوریت پر شب خون مارا گیا، یہ دن پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المناک باب ہے، گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی
  • ہاتھوں میں ہاتھ، چہروں پر مسکراہٹیں، پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کی سیاسی قیادت کی تصاویر وائرل، چہل قدمی بھی کی