Jasarat News:
2025-07-08@01:34:09 GMT

چاہا، ان چاہا

اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سیاست میں تحریک انصاف کا وجود بیک وقت چاہا اور ان چاہا لگتا ہے۔ ہر سایہ کسی وجود کی پر چھائیں ہوتا ہے۔ تحریک انصاف جس وجود کی پر چھائیں ہے اس کا نام ہے عمران خان۔ یہ وجود بہت ان چاہا سا لگتا ہے جب اپنی سیاسی بے بصیرتی اور اپنے ہی پائوں پر کلہاڑے مارنے کی متواتر روش کے نتیجے میں اپریل 2022 میں حکومت گنوانے کے بعد سیاسی، فکری اور جمہوری راستہ اختیار کرنے، اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے اور صرف دو وٹوں کی اکثریت سے قائم ہونے والی بادلوں جیسی بے ثبات شہباز حکومت کا ناطقہ بند کرنے اور اسے گرانے کے بجائے سائفر جیسے نامانوس لفظ سے امریکا کو کھرونچنا شروع کردیتا ہے، اپنی حکومت کی تبدیلی کو عالمی سازش سے ڈیڈی کیٹ کرتا ہے اور امریکا اور جنرل باجوہ کو اس تبدیلی کا مرکز قرار دینے لگتا ہے۔ جنرل باجوہ کو میر جعفر، میر صادق، جانور اور نہ جانے کیا کچھ کہتا ہے لیکن پھر انہی کی دہلیز پر سجدہ بجا لاتے ان کے پائوں دھوتے، معافی کی عرضی پیش کرتا ہے اور اقتدار ملنے کے عوض تا حیات توسیع کی پیشکش کرتا ہے۔ ان ڈھلوانوں اور پستیوں کے باوجود عمران خان پھر بھی نہ جانے کیوں چاہا چاہا سالگتا ہے۔ وہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے، جھوٹے عقیدے کی طرح لیکن پھر بھی اس کا نام دل میں سکون سا پیدا کرتا ہے۔
عمران خان وہ ہیں جنہوں نے دنیا کا حسن بھی دیکھا اور شباب بھی برتا لیکن وہ اپنی حکومت کو حسن سے چلاسکے اور نہ پا کستان کی معیشت کو شباب آشنا کرسکے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کو تہہ نشین کرنے، کرنٹ اکائونٹ خسارے کو 17 ارب ڈالر سے زائد تک پہنچانے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ میں تیزی لانے، بے تحاشا قرضوں کا بوجھ بڑھانے، 2019 میں بصد منت ترلے حاصل ہونے والے آئی ایم ایف کے پروگرام کو بار بار معطل کرنے، اعتماد کو مجروح کرنے، سرمایہ کاری، اسٹاک مارکیٹ اور بیرونی امداد کے دروازے بند کیے جانے کے نتیجے میں ان کے دور حکومت میں پاکستان پہلی مرتبہ دیوالیہ ہونے کے حقیقی خطرے سے دوچار ہوا۔ جب ان کے بعد آنے والی شہاز حکومت اس جسم میں حدت پیدا کرنے کی اتھاہ حسر ت میں ہاتھ پائوں مار رہی تھی، آئی ایم ایف سے ایک اور پروگرام لینے کے لیے اسے قائل کرنے کے لیے کوشش کررہی تھی یہ عمران خان کے وزیر خزانہ شوکت ترین تھے جو خیبر پختوان خوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو تلقین کررہے تھے کہ وہ آئی ایم ایف کو عدم تعاون کے لیے خط لکھیں۔ 23 مئی 2024 کو عمران خان نے اڈیالہ جیل سے ایک طویل خط میں آئی ایم ایف کے ارادے کو توڑنے اور پاکستان کی طرف اس کے پھیلی ہوئی بانہوں کو سمیٹنے کے لیے تجویزدی کہ وہ پہلے انتخابات کا آڈٹ کرے پھر قرض دے۔ سنک اور دیوانگی کے اسی عالم میں 15 مارچ کو تحریک انصاف نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ جنوری 2024 میں عمران خان نے سمندر پار پا کستانیوں سے پرزور اپیل کی کہ وہ اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجیں۔ عمران خان کے پھینکے ہوئے ان کنکروں اور پتھروں سے پاکستان کے دریاکی روانی میں کوئی فرق آیا اور نہ عمران خان کی جان لیتی محبت میں جو دل کے تہہ خانے میں بند چلہ کاٹتی مرنے پر بضد ہے۔ آب گوں آنکھوں سے عمران خان کی رہائی کے لیے چلہ کاٹتی۔
چند دن پہلے 2 جولائی کو تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پارٹی رہنمائوں نے اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت سے بات کرنے پر اصرار کیا۔ اسیر رہنمائوں شاہ محمود قریشی کا خط بھی زیر بحث آیا۔ پارٹی رہنمائوں نے ہر صورت مذاکرات پر زور دیا۔ مذاکرات پر زور دیتے ہوئے پارٹی رہنما یہ بھول گئے کہ وہ جس وجود کا سایہ ہیں وہ سیاسی قیادت کو ایسی
کھڈیں اور خلیجیں سمجھتا ہے جو پستی میں پڑی رہنے کی خوگر ہوں۔ ایسے گھٹیا لوگ جن کے ساتھ قطار میں کھڑا نہیں ہوا جاسکتا۔ یہ وجود صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ عمران خان خود کو ایک ایسی سرزمین سمجھتے ہیں جس پر سنہری رنگ پھیلے ہوں جو دیگر بدرنگ سیاسی زمینوں سے ممتاز حیثیت رکھتا ہو۔ صرف اسٹیبلشمنٹ کو دیکھ کر ہی اس عظیم دیوتا کے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہر دوسری سانس میں وہ یہ کہتا نظر آتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست اور اقتدار کی راہداریوں سے دور رہنا چاہیے۔ ایک یونانی گیت میں پیدائش اور موت ایک ہی منہ کے کہے ہوئے دولفظ ہیں۔ اپنے باب میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے منہ سے صرف اقتدار کی پیدائش کا لفظ سننا چاہتے ہیں اور دوسرے ارباب سیاست کے لیے موت کا یا پھر جیل کی کال کوٹھڑیوں کا۔ لیکن ان سب باتوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں۔ عمران خان کے چاہنے والوں کے دل کی مٹی پر کیسا ہی پانی گرے وہ پتھر نہیں ہوتی بلکہ ہردم ان کی چاہ میں مہکتی ہی رہتی ہے۔
عمران خان کے نزدیک اہل سیاست صرف وہ ہیں جو تحریک انصاف میں ہیں۔ جو ان کا سایہ ہیں۔ باقی نہ اہل سیاست ہیں، نہ بات کرنے کے قابل اور نہ ان کے ساتھ مل کر جمہوری جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ اپنی پارٹی کے اہل سیاست کو بار بار آزماکر دیکھ رہے ہیں نتیجہ ان کے سامنے ہے۔ عمران خان کے لیے دو ہی افراد کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر یا شہباز شریف۔ سوال یہ ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کوئی کردار ادا کیوں کریں جب کہ انہیں اور فوج کو وہ طاقت کے کھیل سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے دور اقتدار میں جنرل عاصم منیر کے باب میں وہ یہ کردار ادا کر بھی چکے ہیں۔ رہے شہباز شریف انہیں عمران خان بات چیت کے جوگا نہیں سمجھتے۔ تو پھر کیا باقی بچتا ہے سوائے اپنے آپ کو مستقل طور پر بند گلی میں بند رکھنے کے۔
باتیں سننے میں آرہی ہیں کہ نواز شریف اڈیالہ جیل میں عمران خان سے مل کر انہیں سمجھائیں اور کوئی راستہ نکالیں۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف اس جھاڑ پو نچھ کا حصہ کیوں بنیں جب کہ گرد، ن لیگ کی حکومت پر ہی گرے گی۔ پھر عمران خان نے اپنے اقتدار میں میاں صاحب اور ان کے خاندان کے افراد کے ساتھ جس عداوت اور ظلم کا سلوک کیا وہ ایسا نہیں تھا جسے فراموش کردیا جائے۔ عمران خان نرگسیت کے مریض ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ سیاسی جدوجہد میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی میں اگر کچھ رہنمائوں نے اس راستے کی نشاندہی کی ہے تو یہ سیاسی بصیرت پر دلالت کرتا ہے لیکن ہر سیاسی قوت جو یہ سمجھتی تھی کہ عمران خان ایک ڈیمو کریٹک آدمی ہیں آخرکار انہیں مایوسی ہی ہوئی۔
عمران خان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سیاست نہیں دشمنی کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر سب ہی تنقید کرتے ہیں۔ مقصد اصلاح ہوتا ہے نہ کہ دشمنی۔ تنقید کو دشمنی میں نہیں بدلا جاتا۔ وہ سیاسی جماعتیں جو فوج کی سخت ناقد ہیں پاک بھارت جنگ چھڑی تو فوج کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑی ہو گئیں۔ جماعت اسلامی اس کی بہت اعلیٰ مثال ہے۔ کون سا موقع ہے جب جماعت اسٹیبلشمنٹ کے رویوں کی کوتاہی کو نشانہ نہ بناتی ہو لیکن چار روزہ جنگ میں پاک فوج کی کامیابی کا سب سے زیادہ جشن بھی جماعت نے منایا۔ شہر شہر کوچہ کوچہ فوج کے حق میں نعرے لگائے لیکن تحریک انصاف نے اسے منافقت اور دوغلے پن سے تعبیر کیا۔ لیکن جن دلوں میں عمران خان کی چاہ کا سرنامہ ہے ان کے عشق کے ٹھٹھرتے بدن سدا عمران خان کے لیے گیتوں کے پیراہن سیتے رہیں گے۔ چاہ چیز ہی ایسی ہے۔ چاہ کا بیج ایک مرتبہ خون اور گوشت میں اُگ جائے پھر کیسی ہی آندھیاں چلیں یہ پیڑ سلامت رہتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عمران خان کے تحریک انصاف ا ئی ایم ایف کرتا ہے اور نہ کے لیے

پڑھیں:

سارڈو بمقابلہ وائٹ سلائسڈ بریڈ: صحت کے لحاظ سے بہترین انتخاب کیا ہے؟

روزمرہ خوراک میں بریڈ ایک بنیادی جزو ہے، لیکن جب ہم سپر مارکیٹ میں بریڈ خریدنے جاتے ہیں تو اس کی درجنوں اقسام ہمیں الجھا دیتی ہیں۔ صحت کے حوالے سے سب سے زیادہ موازنہ سارڈو بریڈ اور وائٹ سلائسڈ بریڈ کے درمیان ہوتا ہے۔ دونوں کے فوائد اور نقصانات ہیں، مگر انتخاب کرتے وقت ذاتی ترجیحات، قیمت اور سہولت کے ساتھ ساتھ صحت پر پڑنے والے اثرات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

سارڈو بریڈ: قدرتی خمیر اور غذائیت سے بھرپور انتخاب

سارڈو بریڈ قدرتی طریقے سے بنائی جاتی ہے، جس میں آٹا، نمک، پانی اور ایک خاص “سٹارٹر” استعمال ہوتا ہے۔ یہ سٹارٹر خمیر اور بیکٹیریا کا قدرتی امتزاج ہوتا ہے جو آٹے کو اُبھارتا ہے اور بریڈ میں خاص ذائقہ پیدا کرتا ہے۔ سارڈو کا خمیر بننے کا عمل سست ہوتا ہے، لیکن یہی سست رفتاری اسے غذائیت سے بھرپور اور آسانی سے ہضم ہونے والی بریڈ بناتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوشت کے پکوان میں مصالحہ جات کی افادیت

یہ بریڈ نہ صرف فائبر اور پولی فینولز فراہم کرتی ہے بلکہ آنتوں کی صحت بہتر بنانے، بلڈ شوگر کو متوازن رکھنے اور بھوک کم کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ گھریلو طور پر بنائی جانے والی سارڈو بریڈ اضافی چکنائی، نمک یا مصنوعی کیمیکل سے پاک ہوتی ہے، لیکن ہر کسی کے لیے اسے روز بنانا ممکن نہیں ہوتا، اور آرٹیزن سارڈو کی قیمت بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

چورلی ووڈ طریقہ اور وائٹ سلائسڈ بریڈ کا پس منظر

اس کے برعکس، وائٹ سلائسڈ بریڈ صنعتی سطح پر چورلی ووڈ طریقے سے تیار کی جاتی ہے، جو 1950 کی دہائی میں برطانیہ میں متعارف ہوا۔ اس طریقے میں سخت چکنائی، اضافی خمیر، کیمیکلز، انزائمز اور ایملسیفائرز شامل کیے جاتے ہیں تاکہ بریڈ جلدی تیار ہو اور اس کی شیلف لائف بڑھے۔

یہ بریڈ نرم ہوتی ہے اور سستی بھی، لیکن اس میں غذائیت کی کمی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ (یو پی ایف) میں شمار ہوتی ہے، اس لیے اس کے مسلسل استعمال سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ بعض ممالک میں ایسی بریڈز میں پوٹاشیم برومیٹ جیسے خطرناک اجزا بھی شامل کیے جاتے ہیں جن پر کینسر کے خطرے کے شواہد موجود ہیں۔

ہول گرین بریڈ: فائبر اور وٹامنز سے بھرپور متبادل

اگرچہ وائٹ بریڈ کا ذائقہ بہت سے لوگوں کو پسند ہوتا ہے، لیکن غذائیت کے لحاظ سے یہ ہول گرین بریڈ سے بہت پیچھے ہے۔ ہول گرین بریڈ گندم کے تمام حصوں سے بنتی ہے، جس میں جراثیم، چوکر اور اینڈوسپرم شامل ہوتے ہیں۔ اس میں فائبر، وٹامن ای، فولک ایسڈ، میگنیشیم اور صحت مند چکنائیاں موجود ہوتی ہیں جو دل، معدے اور عمومی صحت کے لیے مفید ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وہ غذائیں جو آپ کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں

ہول گرین بریڈ آہستہ ہضم ہوتی ہے، جس سے بلڈ شوگر لیول متوازن رہتا ہے اور بھوک دیر سے لگتی ہے۔

نئی تحقیق: سفید بریڈ جیسی دکھنے والی صحت مند بریڈ

حال ہی میں سائنسدان ایک نئی قسم کی بریڈ تیار کرنے میں مصروف ہیں جو دیکھنے اور چکھنے میں تو وائٹ بریڈ جیسی ہو، لیکن غذائیت میں ہول میل کے برابر ہو۔ اس میں مٹر، پھلیاں، کوئنوآ اور سورغم جیسے اجزا شامل کیے جا رہے ہیں تاکہ اس کی غذائیت بہتر بنائی جا سکے۔ یہ بریڈ ابھی تحقیق کے مراحل میں ہے اور متوقع ہے کہ اگلے چند برسوں میں مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔

خریداری کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھیں؟

صحت مند انتخاب کا انحصار فرد کی ذاتی ترجیح، سہولت اور بجٹ پر ہے۔ اگر مہنگی سارڈو بریڈ خریدنا ممکن نہ ہو تو سپر مارکیٹ میں دستیاب ایسی بریڈ کا انتخاب کیا جا سکتا ہے جس میں کم اجزا شامل ہوں اور وہ کم پروسیسڈ ہو۔

اجزا کی فہرست پڑھنا ایک بنیادی اصول ہونا چاہیے۔ اگر بریڈ میں پانچ سے زائد اجزا ہوں اور وہ آپ کے باورچی خانے میں عام نہ ہوں، تو بہتر ہے کہ کسی دوسرے متبادل پر غور کیا جائے۔ بریڈ کو فریج میں محفوظ رکھ کر اس کی تازگی بھی برقرار رکھی جا سکتی ہے۔

سوچ سمجھ کر بریڈ کا انتخاب کریں

اگرچہ وائٹ بریڈ بہت عام ہے، لیکن اگر آپ اسے ترجیح دیتے ہیں تو اپنی غذا میں براؤن چاول، ہول گرین پاستا یا دالوں جیسی دوسری غذائیں شامل کر کے مجموعی غذائیت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اصل اہمیت توازن کی ہے۔ روزمرہ کی بریڈ ہماری صحت کی بنیاد ہے، اس لیے اس کا انتخاب دانشمندی سے کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news انسانی صحت سارڈو بریڈ سلائسڈ بریڈ غذا

متعلقہ مضامین

  • سول انتظامی اداروں کی نا اہلی کا نوحہ
  • سارڈو بمقابلہ وائٹ سلائسڈ بریڈ: صحت کے لحاظ سے بہترین انتخاب کیا ہے؟
  • دو طرفہ فوجی تصادم میں دیگر ملکوں کو شامل کرنا بھارت کی ناقص سیاسی کوشش ہے: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر
  • تیسری سیاسی جماعت کا اعلان احمقانہ ، ایلون مسک پٹڑی سے اتر گئے ہیں ، ڈونلڈ ٹرمپ
  • خدا کے ماننے والے، بھگوان کے پوجنے والے
  • ایلون مسک نے نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا اعلان کر دیا
  • میرا ملک میری عزت
  • ترکیے اور چین ہمارے دوست ممالک ہیں لیکن جنگ پاکستان نے خود لڑی: وزیردفاع
  • شہبازشریف بیوروکریٹک حکومت چلاتے ہیں لیکن کل ناکام ہوئے تو ناکام سیاستدان ہوں گے: سہیل وڑائچ