بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی، قرضوں کی تنظیم نو میں تاخیر
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی میں تاخیر کی بڑی وجوہات میں عدالتی عمل کی سست روی اور نئے مالی وسائل کی عدم دستیابی کو قرار دیا ہے، جس کے باعث یہ صنعتیں مزید مالی بحران میں ڈوبتی جا رہی ہیں۔
بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی کیلیے مرکزی بینک نے وفاقی حکومت کو رپورٹ پیش کی ہے، جس میں قرضوں کی تنظیم نو کو درپیش اہم چیلنجز کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق عدالتی عمل نہایت سست اور وقت طلب ہے، جو بیمار صنعتی یونٹس کو مزید دباؤ میں لانے کا سبب بن رہا ہے، بینک عموماً ایسے اداروںکو مزید قرضے دینے سے گریز کرتے ہیں جو مالی دباؤ کا شکار ہوں۔
مزید برآں بینکوں کو قرض معاف کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ اپنے بیلنس شیٹ کی صفائی میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ 2024 میں نان پرفارمنگ لونز کے تناسب میں معمولی بہتری آئی لیکن خراب قرضوں کی مجموعی رقم اب بھی تاریخی سطح پر موجود ہے، 2006 سے 2015 کے دوران پاکستان میں این پی ایل کی مقدار اور تناسب میں مسلسل اضافہ ہوا، 2006 میں یہ رقم 177 ارب روپے تھی، جو 2012 میں بڑھ کر 618 ارب روپے تک پہنچ گئی۔
بعد ازاں یہ قدرے کم ہو کر 2014 اور 2015 میں 605 ارب روپے پر مستحکم ہوئی۔ اس عرصے میں کراچی انٹر بینک آفرڈ ریٹ میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا، جو 2008 میں 14.
اسٹیٹ بینک کی جانب سے تجویز کردہ گائیڈ لائنز کے تحت ملک میں کام کرنیوالے تمام بینکوں اور ترقیاتی مالیاتی اداروں کو بیمار صنعتی یونٹس کیلیے فنانسنگ کی اجازت دی جائے گی، ان گائیڈ لائنز کے ذریعے بینکوں کو بیمار صنعتی یونٹس کی قرضوں کی تنظیمِ نو، اصل رقم میں کمی اور نیا شیڈیول دینے کی سہولت دی جائے گی تاکہ وہ دوبارہ سرگرمیاں شروع کر سکیں۔
یہ اقدامات نہ صرف صنعتی صلاحیت کو دوبارہ متحرک کریں گے بلکہ سرکاری بینکوں کو بیلنس شیٹس کی صفائی اور قرض دہی کے نظام کی بہتری میں بھی مدد فراہم کرینگے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بیمار صنعتی یونٹس کی قرضوں کی
پڑھیں:
روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔