data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اگرچہ ترکیہ اور چین پاکستان کے قریبی اور مخلص دوست ہیں، لیکن پاکستان نے بھارت کے خلاف جنگ خود لڑی۔

نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا، اس کے تمام دعوے خاک میں مل گئے اور اسے بھرپور سیاسی و عسکری ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ خواجہ آصف کے مطابق “سندور اجڑ گیا” یعنی بھارت کی داخلی کیفیت اس کی شکست کی عکاس تھی۔

انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان کو وسیع حمایت حاصل تھی، صرف اسرائیل بھارت کے ساتھ کھڑا تھا۔ انہوں نے بھارت کے حالیہ بیانات کو “اپنی عوام کو تسلی دینے کی کوشش” قرار دیا اور کہا کہ ایسے بیانات بھارت کی سفارتی ناکامی کا نتیجہ ہیں۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پاکستان کی فتح کسی شک و شبہے سے بالاتر تھی، اور ہماری افواج نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ اور چین ہماری حمایت ضرور کر رہے تھے، لیکن میدانِ جنگ میں لڑائی صرف پاکستانی افواج نے لڑی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ہم ان ممالک سے دفاعی سازوسامان خریدتے ہیں، جیسے کہ ہم امریکا سے بھی اسلحہ لیتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ممالک جنگ میں شریک تھے۔

وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے پاس فرانس کے طیارے ہیں اور ہمارے پاس اس کی آبدوزیں، لہٰذا بھارت کا دیگر ممالک پر انگلی اٹھانا بے بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین، ترکیہ، سعودی عرب، ایران اور دیگر ممالک پاکستان کے دوست ہیں اور ہمیں ان کی سفارتی حمایت حاصل رہی ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اگر بھارت نے آئندہ بھی ایسا کوئی اقدام کیا تو اسی طرح کا بھرپور جواب دیا جائے گا، اور بھارت پھر کہے گا کہ فلاں ملک پاکستان کی مدد کو آیا تھا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بھارت کے انہوں نے نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

ہونیاں اور انہونیاں

پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔

پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔

سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔

ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔

حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔

بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

 پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔

لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔

پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔

پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔

اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہونیاں اور انہونیاں
  • اسرائیل ختم ہو جائیگا، شیخ نعیم قاسم
  • امریکہ کی طرف جھکاؤ پاکستان کو چین جیسے دوست سے محروم کر دے گا،علامہ جواد نقوی
  • ہمارے پاس مضبوط افواج، جدید ہتھیار ہیں، حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کرینگے: اسحاق ڈار
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے،اسحق ڈار
  • ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار
  • بھارت؛ فیس بک دوست نے شادی کے مطالبے پر خاتون کو بیدردی سے قتل کردیا
  • ٹک ٹاک سے انقلاب نہیں آتے، اگر آتے تو عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے،علی امین گنڈاپور