ماہرِ امور خارجہ کا پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ماہرخارجہ امور محمد مہدی نے کہا کہ مئی کے حالیہ واقعات نے جنوبی ایشیاء کی سلامتی کے تصورات کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ تصور کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا امکان معدوم ہوچکا ہے، اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور روایتی جنگ میں بالادستی کا تصور بھی اب ختم ہو چکا ہے، بھارت کی بی جے پی حکومت سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ سائوتھ ایشین نیٹ ورک فار پبلک ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام ''جنوبی ایشیائی ممالک اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال'' کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد مہدی نے کہا کہ 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے جوابی دھماکوں کے نتیجے میں دونوں ممالک نے امن کی اہمیت کو سمجھا تھا، مگر مئی کے واقعات نے ثابت کیا کہ خطے کی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کشیدگی کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے موجودہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے سارک اور دیگر علاقائی ڈائیلاگ کے امکانات مفقود ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی تحریک اسی صورتحال کا نتیجہ ہے، جب نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں ملتے تو ان کے ردعمل کے طور پر اس قسم کی تحریکیں ابھرتی ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کو اس تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے امریکہ میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کو حل کیا جو ان کی سیاسی کامیابی کی وجہ بنی۔ محمد مہدی نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بیروزگاری کا بحران تو ہر جگہ موجود ہے، مگر ہر ملک اپنے اپنے طریقے سے اس کا سامنا کر رہا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی بے چینی اور تحریک اسی صورت حال کا آئینہ دار ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بنگلا دیش کی تعلیمی سطح خطے کے کچھ دیگر ممالک سے بہتر سمجھی جاتی ہے مگر وہاں کے معاشی مسائل نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیا۔ دوسری جانب افغانستان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک میں مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، جہاں بے روزگاری کی نوعیت اور شدت مختلف ہے، اس لیے ان ممالک میں بنگلا دیش جیسے حالات کا پیدا ہونا کم امکان ہے۔ انہوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔
 
محمد مہدی نے کہا کہ ایران کا بھارت کیساتھ تعلقات میں بھی سردمہری آئی ہے، خاص طور پر جب بھارت نے ایران کیساتھ تعلقات میں تذبذب کا مظاہرہ کیا تو ایران نے بھارت کے رویے کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ محمد مہدی نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار علاقائی تعاون کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات، بالخصوص مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتے۔ خطے کی بیوروکریسی اور حکومتی سطح پر اصلاحات تب تک ممکن نہیں جب تک جنوبی ایشیاء کے ممالک ایک دوسرے کیساتھ امن و تعاون کے راستے پر نہیں چلتے، اگر یہ ممالک ایک دوسرے کیساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات اور محاذ آرائی کی بجائے ایک دوسرے کیساتھ اقتصادی اور سیاسی تعاون کی سمت میں قدم بڑھائیں تو خطے میں ترقی اور استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔
 
محمد مہدی نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کی عوام کے درمیان بے چینی اور تناؤ کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک گڈ گورننس، شفاف میرٹ اور بہتر معاشی ماڈلز پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس خطے میں پائیدار امن اور ترقی کا خواب دیکھنا محض ایک خام خیالی بن کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر میزان الرحمان سیکرٹری پبلک ایڈمنسٹریشن و  جنوبی ایشیائی نیٹ ورک سیکرٹری حکومت بنگلہ دیش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اور سیاسی چیلنجوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلی، توانائی، اورغربت کے خاتمے جیسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اختر، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے کہا کہ مئی 2025 کا بحران صرف ایک فلیش پوائنٹ نہیں تھا، بلکہ یہ اس بات کا مظہر تھا کہ پلوامہ بالاکوٹ 2019 کے بعد سے پاکستان کی کرائسس گورننس کی صلاحیت کتنی بڑھی ہے۔ 2019 میں، ہم ردعمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ 2025 میں، ہم تیار تھے۔ اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر امجد مگسی اور بنگلہ دیش کی حکومت کے ریٹائرڈ سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر شریف العالم نے بھی خطاب کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے تعلقات میں بہتری محمد مہدی نے کہا کہ کیساتھ توانائی کے اور پاکستان کے سے پاکستان بنگلا دیش پائپ لائن کرتے ہوئے کی وجہ سے انہوں نے بھارت کے کے بعد

پڑھیں:

بند کمروں کے فیصلے مسلط نہیں کیے تو وفاق کیساتھ تعاون کرینگے: سہیل آفریدی

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی—فائل فوٹو

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ مختصر کابینہ جلد تشکیل دی جائےگی اس پر مشاورت ہو گئی ہے، اگر بند کمروں کے فیصلے مسلط نہیں کیے گئے تو وفاق کے ساتھ تعاون کریں گے۔

راولپنڈی میں ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبائی معاملات دیکھ رہا ہوں، کچھ بریفنگ لی ہیں، کچھ رہتی ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ کے پی سہیل آفریدی نے کہا کہ عدالتی احکامات کے مطابق آج بھی ہم بانی سے ملاقات کے لیے آئے ہیں، مگر عدالتی احکامات نہیں مانے جا رہے۔

بانی سے ملاقات، سہیل آفریدی کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی نے بانیٔ پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات نہ کروانے کے معاملے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھ دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم نے وفاقی اور پنجاب حکومت کو خط لکھا اور عدالت بھی گئے، پارٹی لیڈر شپ اب مشاورت کرے گی، کس طرح آگے بڑھنا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں، سینیٹ کے الیکشن پر بھی لیڈر شپ نے مشاورت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آڈیٹر جنرل آفس کرپشن کے کیسز میں ملوث ہے، وفاقی حکومت این ایف سی کے تحت خیبر پختونخوا کو کیوں اس کا حصہ نہیں دے رہی۔

وزیرِ اعلیٰ کے پی سہیل آفریدی نے کہا کہ مسائل کے حل کے لیے نیت کا ٹھیک ہونا ضروری ہے، صوبائی معاملات چلانے کے لیے تجربہ نہیں عوام کی خدمت کا جذبہ ہونا چاہیے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب اور وفاق میں تجربے کار لوگ حکومت کر رہے ہیں، انہوں نے عوام کو کیا دیا ہے؟ 2022ء میں ہمارا جی ڈی پی گروتھ کتنا تھا، آج کتنا ہے؟

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور امریکا کے درمیان معدنیات کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
  • پاکستان کینیڈا تعلقات میں پیش رفت، تجارت و سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق
  • بند کمروں کے فیصلے مسلط نہیں کیے تو وفاق کیساتھ تعاون کرینگے: سہیل آفریدی
  • شمسی توانائی میں پاکستان کی پیش رفت، توانائی کے شعبے میں اہم سنگ میل عبور
  • چین اور امریکا کو بدلہ لینے کےخطرناک چکر میں نہیں پڑنا چاہیے: چینی صدر کا ٹرمپ سے ملاقات کے بعد بیان
  • پاکستان کا تعاون نہیں بھلا سکتے، پزشکیان  محسن نقوی کی ملاقات، افغان وزیر سے بھی ملے 
  • اسحاق ڈار کو الجزائری ہم منصب کا فون، تعلقات، مختلف امور پر تعاون بڑھانے کا عزم 
  • پاک بنگلادیشن:توانائی، تجارت ودیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر متفق