کراچی سے ٹیکس لیا جاتا ہے تو اس کے مسائل حل کرنے پر بھی توجہ دی جائے، ریحام خان
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
) سینئر صحافی اور سماجی رہنما ریحام خان نے کہا ہے کہ میں حکمراں یا اپوزیشن جماعتوں کی سیاست کا حصہ بنا نہیں چاہتی ہوں، میری سیاست کا مرکز عوام ہے ۔ان کے مسائل اور حقوق کے لیے آواز اٹھاؤں گی۔برنس کمیونٹی کے مسائل کے حل کے لیے ان کے ساتھ مل کر جدوجہد کروں گی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کی شب ناظم آباد میں آل کراچی تاجر الائنس کے سرپرست خواجہ جمال سیٹھی کی جانب سے ان کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر تاجروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔برنس کمیونٹی نے ریحام خان کو اپنے مسائل بیان کیے۔خواجہ جمال سیھٹی نے ریحام خان خوش آمدید کہا۔
ریحام خان نے کہا کہ کراچی کی برنس کمیونٹی کے بہت مسائل ہیں، جن کے حل کے لیے حکومت کو فوری توجہ دینی چاہیے۔ ریحام خان نے کہا کہ مجھے کراچی کی تاجر برادری سے مل کر خوشی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں کراچی میں کئی دورے کرچکی ہوں، کراچی مہمان نوازی کرنے والوں کا شہر ہے، شہرکے باسی جب مجھے ملتے ہیں تو شہر قائد کے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں۔
ریحام خان نے کہا کہ کراچی میں ایک بڑے حصہ پر متوسط طبقہ رہائش پذیر ہے، ان کے اپنے مسائل ہیں، شہر میں انفراسٹرکچر اور دیگر بنیادی مسائل ہیں۔ کراچی کے لوگ سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود شہر ترقی نہیں کررہا ہے۔
ریحام خان نے کہا کہ میں برنس کمیونٹی کے مسائل حل کرنے کے لیے آواز اٹھاؤں گی۔ سماجی رہنما نے کہا کہ کٹی پہاڑی ہو یا لیاقت آباد یا کوئی بھی علاقہ لیکن اس شہر کے کئی علاقوں کے مسائل بہت ہیں۔کراچی پورٹ سٹی ہے۔اس شہر کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میری سیاسی حدود ہے اور میں کسی مخصوص نشست پر آنا نہیں چاہتی ہوں ، میں عوام کے درمیان رہ کر ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔
ریحام خان نے کہا کہ اگر ٹیکس لیا جائے تو کراچی پر توجہ دی جائے۔
عشائیہ سے تاجر رہنمائوں حکیم شاہ، آصف گلفام اور دیگر نے خطاب کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ریحام خان نے کہا کہ برنس کمیونٹی کے مسائل کے لیے
پڑھیں:
شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( تحقیقاتی رپورٹ: محمد علی فاروق )روشنیوں کا شہر آج گڑھوں، ٹوٹ پھوٹ اور ابلتے گٹروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہی شہر جس کے شہریوں نے صرف گاڑیاں سڑک پر چلانے کے لیے گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 60 ارب روپے موٹر وہیکل ٹیکس کی صورت میں ادا کیے، آج بنیادی سفری سہولیات سے محروم ہے۔اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019-20 سے 2024-25 تک سندھ حکومت نے کراچی سمیت صوبے بھر سے موٹر وہیکل ٹیکس کی مد میں بھاری رقم اکٹھی کی۔ 2019- اور 2020 میں 5.94 ارب روپے جبکہ 2020- اور2021: میں 9.52 ارب روپے اسی طرح 2021 اور 2022 میں 12.17 ارب روپے ، علاوہ ازیں 2022- اور 2023 میں 10.36 ارب روپے دریں اثناء 2023 اور-2024: میں 10.83 ارب روپے دیگر میں 2024 اور 2025: میں 13.60 ارب روپے ادا کئے جا چکے ہیں ۔یعنی محض ایک سال میں شہریوں نے 13 ارب 60 کروڑ روپے “سڑک پر گاڑی چلانے کے حق” کے نام پر ادا کیے ہیں مگر سوال وہی ہے کہ وہ سڑکیں کہاں ہیں۔کراچی کے بیشتر علاقوں میں سڑکیں کسی جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کرتی ہیں۔کورنگی، نارتھ کراچی، ماڑی پور، اورنگی، اور شاہ فیصل کالونی کی مرکزی شاہراہوں پر گڑھوں، ملبے، اور بارش کے پانی کے باعث گاڑیاں نہیں، قسمتیں آزمائی جاتی ہیں۔جہاں کبھی ٹریفک بہتا تھا، آج وہاں پانی کے جوہڑ اور کچرے کے ڈھیر ہیں۔چالیس فیصد سے زائد سڑکیںانتہائی خستہ حال قرار دی جا چکی ہیں، جبکہ محکمہ بلدیات اور سندھ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کے مصرف پر خاموشی نے شکوک کو مزید گہرا کر دیا ہے۔کراچی کے شہری ہر سال اربوں روپے اس امید پر ادا کرتے ہیں کہ بدلے میں حکومت انہیں بہتر روڈز، ٹریفک سگنلز، زیبرا کراسنگ، اور اوورہیڈ برج جیسی بنیادی سہولیات دے گی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ شہر کی بیشتر سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس بند، سگنل ناکارہ، اور فٹ پاتھ غائب ہیں۔یونیورسٹی روڈ، سپر ہائی وے، نارتھ ناظم آباد، اور ایم اے جناح روڈ کے اطراف جگہ جگہ ٹوٹی لائنیں، غائب کیٹ آئیز، اور تباہ شدہ یو ٹرن شہریوں کی گاڑیوں کو روزانہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ صوبائی خزانے میں نان ڈیولپمنٹ اخراجات میں ضم ہو جاتا ہے۔یعنی وہ رقم جو سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک سسٹم کی بہتری پر خرچ ہونی تھی، وہ تنخواہوں، ایڈمن اخراجات، اور نئی گاڑیوں کی خریداری میں استعمال ہو رہی ہے۔ٹریفک ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اگر یہ فنڈز شفاف طریقے سے صرف کراچی کی سڑکوں پر لگائے جائیں توصرف دو سال میں پورا شہر ازسرِنو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔شہریوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، مگر بدلے میں ملتا ہے گڑھا، گرد، اور گندہ سیورج ملا پانی کیا یہی ترقی ہے۔ایک شہری کا کہناتھا کہ حکومت نے ٹریفک سگنل تو لگائے نہیں، البتہ گاڑی کے شاکس ضرور بدلوا دیے ہیں۔کراچی کا بنیادی ڈھانچہ اربوں روپے کے ٹیکس کے باوجود زبوں حالی کا شکار ہے۔ اگر اس رقم کے شفاف استعمال کا نظام نہ بنایا گیا تو کراچی صرف ٹریفک حادثوںکا نہیں بلکہ حکومتی بدانتظامی کا استعارہ بن جائے گا۔شہریوں کا مطالبہ صاف ہے کہ ٹیکس ہم نے دیا ، حساب تم دو، اور سڑک ہمیں دو۔