Express News:
2025-07-07@01:58:59 GMT

خربوزہ

اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT

واہ کینٹ:

ڈاکٹر شاہد مسیح (واہ کینٹ)

خربوزے کا نباتاتی نام (Cucumis Melo) ہے۔

تاریخی پس منظر: خربوزہ موسم گرما کا پھل ہے جس کی خاص مہک اور ذائقہ ہے۔ یہ پانی سے بھرپور ہے۔ اس پھل کو استعمال کرنے سے طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے۔ زیادہ تر خربوزے میٹھے، خوشبودار، خوش ذائقہ اور لذیذ ہوتے ہیں۔ البتہ کچھ اقسام کڑوی بھی ہیں۔ اس پھل کو بطور سلاد، آئس کریم اور جوس اور مشروبات کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی جلد موٹی اور سخت ہوتی ہے۔ اس کا چھلکا کھانے سے پہلے اتار دیا جاتا ہے۔ اس میں بیج کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ بیج کی تعداد کچھ خربوزوں میں کم اور بعض میں زیادہ ہوتی ہے۔ بیج کا تعین نسل اور قسموں پر منحصر ہے۔ چوںکہ یہ موسم گرم کا پھل ہے جو گرمی کی شدت سے بچاتا ہے۔ پانی کی کمی پوری کرتا ہے۔ غذائیت سے بھرپور ہے۔ یہ وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹ کا موثر ذریعہ ہے۔ یہ جسم کو ہائیڈریٹ رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نظام ہاضمہ، جلد، بالوں کی صحت اور ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول رکھنے میں موثر ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق خربوزے کی کاشت تقریباً چار ہزار سال سے کی جا رہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ خربوزے کی ابتدا افریقہ سے ہوئی۔ تاہم حالیہ مطالعے سے پتا چلا ہے کہ یہ جنوب مغربی ایشیائی پھل ہے۔ وہاں سے یہ آہستہ آہستہ براعظم یورپ میں منتقل ہوگیا۔ تاریخ کے مطابق 1350 اور 1120 قبل از مسیح کے درمیان نور گگ کو ایک مقدس کنویں میں خربوزے کے بیج کے ثبوت ملے تھے۔ بعد ازآں نور گگ اسے یورپ میں لایا تھا۔ خربوزہ پرانی دنیا میں پائے جانے والے ابتدائی پودوں میں سے تھا۔ مغربی لوگوں کی طرف سے نئی دنیا میں لائی جانے والی فصل کی انواع میں اس کی پہلی قسم شامل تھی۔ تقریبا 1600 کی دہائی میں یہ یورپی آبادیوں میں بکثرت پیدا ہونے لگا تھا۔ میکسیکو میں بہت سے امریکی قبائل بشمول رکوما، کوجیٹی، اسلیٹا، ناورجو، سانڈ، ڈومنگو، سون فلیپ خربوزے کی فصل اگانے کی روایت برقرار رکھتے ہیں۔ خربوزہ وسطی ایشیا کا پودا ہے۔ یہ گرم مرطوب علاقوں میں وسیع پیمانے پر پیدا ہوتا ہے۔ تجارتی لحاظ سے خربوزہ اہم پھل ہے۔ تازہ کھایا جاتا ہے۔ یہ مختلف قسم کی اقسام، سائز، شکل اور رنگت کے ہوتے ہیں۔ ان کا وزن ایک سے چار کلو گرام یہ دو سے نو پاؤنڈ تک گنا گیا ہے۔

اقسام: خربوزء کی 40 اقسام ہیں جو سب کھانے کے قابل ہیں۔ ذیل میں چند اقسام کے نام اور خصوصیت درج ذیل ہے۔

ہنی ڈیو ملین: یہ قسم ذائقے کے اعتبار سے ہلکی میٹھی ہوتی ہے۔ جون سے اکتوبر تک مل سکتی ہے۔ اس کا چھلکا کریمی پیلے رنگ کا ہوتا ہے۔ جلد نرم و ملائم اور آسانی سے اتر جاتی ہے۔ اس کی خاص مہک ہوتی ہے جو دل کو بھاتی ہے۔

کاسبا میلن: یہ قسم قدرے میٹھی اور خوشبودار ہے۔ کاسبا کا اصل نام قصابہ ہے جو ترکی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس قسم کو بطور پھل، جوس، شربت اور ناشتے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پرسین میلن: یہ کستوری خربوزے کے خاندان کی قسم ہے۔ اس کی جلد پیلے رنگ کی پٹی نما ہوتی ہے۔ گودا نارنجی ہوتا ہے۔ یہ قسم لمبی اور ہموار ہوتی ہے۔ اس کا بڑا سائز اسے ذائقے میں ہلکا بناتا ہے۔

گالیا میلن: یہ قسم ذائقے میں میٹھی اور رس دار ہوتی ہے۔ اسے 1970 کی دہائی میں اسرائیل میں کاشت کیا گیا۔ اس کی جلد جالی دار ہوتی ہے۔ اسے ونیلا آئس کریم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے کھانے سے تراوٹ اور تازگی کا احساس حاصل ہوتا ہے۔ یہ قسم بطور سلاد اور پھل دونوں طرح زیراستعمال لائی جا سکتی ہے۔

کنیری میلن: یہ قسم بھی اپنے ذائقے میں میٹھی اور رس دار ہوتی ہے۔ جلد پیلی ہوتی ہے۔ اس قسم کا ذائقہ شہد کی طرح ہوتا ہے۔ شکل ناشپاتی سے ملتی جلتی ہے۔ اسے ایشیا اور جنوبی امریکا میں کاشت کیا جاتا ہے۔ اس قسم کو بھی بطور سلاد پھل اور کچا کھایا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھنے میں تازہ لیموں کی طرح خوشنما دکھائی دیتا ہے۔

کرین شاہ میلن: یہ بھی ذائقے دار اور میٹھی قسم ہے۔ یہ دیکھنے میں خوش نما، ساخت میں نرم اور گودے کے اعتبار سے رس دار ہے۔ اس قسم کو بھی بطور پھل اور سلاد استعمال کیا جاتا ہے۔

سانتا کلاز میلن: یہ قسم بھی اپنے ذائقے میں ہلکی میٹھی ہے۔ اس کا آبائی وطن اسپین ہے۔ اس قسم کو پیل ڈی ساپو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہد کی طرح میٹھی ہوتی ہے۔ جلد گہری سبز اور اس پر سبز دھاریاں ہوتی ہیں۔ یہ قسم سردیوں کے آخر میں پک کر تیار ہوتی ہے۔

انناس میلن: یہ قسم بھی ذائقے میں میٹھی اور شان دار ہے۔ یہ موروثی خربوزہ تقریباً 1800 دہائی کا ہے۔ یہ قسم قدیم  فرانسیسی ہے، چوںکہ یہ بناوٹ کے لحاظ سے انناس سے ملتی جلتی ہے، لہٰذا اس کا نام انناس رکھا گیا ہے۔ یہ رس دار اور گودے سے بھرا ہوتا ہے۔ یہ گودا اندر سے سفید اور پیلا نظر آتا ہے۔ اس کی جلد بھی جالی دار ہوتی ہے۔ جلد پیلی ہونے کے ساتھ ساتھ خوش نما بھی ہوتی ہے۔ اس قسم کو بطور سلاد اور پھل دونوں طرح سے کھایا جا سکتا ہے۔

امبروسیا میلن: یہ قسم بھی رس دار اور میٹھی ہوتی ہے۔ یہ بہت زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔ اس کی جلد پر سفید داریاں ہوتی ہیں۔ اس میں بیچ کم ہوتے ہیں۔ اسے نمکین پنیر، گوشت اور سلاد کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قسم کو چٹنی، سوپ اور مشروبات کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ہنی گلوب میلن:یہ قسم بھی میٹھی رس دار اور ذائقہ سے بھرپور ہے۔ یہ قسم سب سے میٹھے خربوزوں کی نسل سے ہے۔ اس کا گودا گھنا، سفید اور سبزدھاری پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کی شکل گلوب سے ملتی جلتی ہے۔ اس کی خاص مہک ہے۔

مجموعی پیداوار: فوسٹ (FOAST) کے مطابق خربوزے کی مجموعی پیداوار 27 ملین ٹن ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین کے پاس پیداوار کا کل حصہ 46 فی صد ہے، جب کہ ترکی، ایران اور ہندوستان جیسے ممالک میں خربوزے کی سالانہ پیداوار 10 لاکھ ٹن سے زیادہ ہے۔ خربوزے کی پیداوار میں سرفہرست ممالک مندرجہ ذیل ہیں:

چین … 13.

83،ترکی… 1.72، ہندوستان … 1.33، ایران … 1.28، افغانستان … 0.79 ، ریاست ہائے متحدہ امریکا… 0.69 ، گوئٹے مالا…  0.65، برازیل … 0.61

غذائی حقائق: یو ایس ڈی اے ( USDA) یونائٹڈ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف ایگریکلچر کے مطابق خربوزے کے غذائی حقائق مندرجہ ذیل ہیں۔

دفائی مرکبات: خربوزے میں مندرجہ ذیل دفاعی مرکبات پائے جاتے ہیں۔ چند کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

٭   phenolic Acids، ٭   Flavonoids،

٭   Carotenoids،      ٭   Tannins ،

٭   Polyphenols، ٭   Ortho-diphenols

طبی فوائد، خربوزے کے چند طبی فوائد مندرجہ ذیل ہیں

ہائی بلڈ پریشر:خربوزے کو بھی تربوز کی طرح مختلف بیماریوں میں مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس میں موجود وٹامنز اور معدنیات امراض قلب اور بلڈ پریشر جیسے عارضہ سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ایسی غذا جس میں سوڈیم کم اور پوٹاشیم زیادہ مقدار میں ہو۔ ہائی بلڈ پریشر مریضوں کے لیے رحمت ایزدی ہے۔ خربوزہ ایسی غذا کا بہترین متبادل ہے جو ہائی بلڈ پریشر کو اعتدال میں رکھتا ہے۔ اگر آپ پوٹاشیم سے بھرپور غذائیں کھاتے ہیں تو ان میں ایک بہترین پھل خربوزہ ہے جس کے باقاعدہ استعمال سے جسم کو پوٹاشیم کی مطلوبہ مقدار کا 12 فی صد حصہ مل جاتا ہے۔

چہرے کی تازگی: موسم گرما میں اکثر دھوپ تیز پڑتی ہے۔ گرم ہوائیں چلتی ہیں۔ گرمی کے باعث جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔ چہرے کی رونق پھیکی پڑ جاتی ہے۔ حسن و جمال میں کمی آجاتی ہے۔ کسی حد تک رنگت میں تبدیلی بھی آجاتی ہے۔ ایسے موسم میں چہرے کی رعنائی برقرار رکھنے کے لیے خربوزہ بہترین پھل ہے۔ اس میں موجود پانی کی زیادہ مقدار کے باعث چہرے پر رونق آنا شروع ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں اس میں موجود پروٹین جلد کی خوب صورتی میں خاطرخواہ اضافہ کرتی ہے۔ چھلکوں کے مساج سے چہرے میں خوب صورتی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس کے گودے کو بھی چہرے پر لگانے سے نکھار پیدا کیا جا سکتا ہے۔

ہڈیوں کی مضبوطی: جسم میں فولییٹ اور مگنیشیم کے باعث ہڈیاں بھربھرے پن کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ہڈیوں کے ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ آسٹیو پروسیس جیسے عوارض پیدا ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ہڈیوں کو صحت مند رکھنے کے لیے خربوزہ ایک بہترین غذا ہے۔ اس کے استعمال سے ہڈیوں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اس میں موجود فولییٹ ، وٹامن کے اور مگنیشیم جیسے مفید اجزاء پائے جاتے ہیں جو نہ صرف ہڈیوں کو بہتر بلکہ مضبوط بھی بناتے ہیں۔

کینسر سے بچاؤ: خربوزے میں کیروٹنائڈ نامی ایک اہم جز پایا جاتا ہے جو کینسر سے بچانے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر خربوزے کو باقاعدگی کے ساتھ اپنی غذا میں شامل کیا جائے تو پھیپھڑوں کے کینسر میں واضح طور پر کمی آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خربوزہ پراسٹیٹ کینسر، آنتوں کے کینسر اور لبلبے کے کینسر سے بھی تحفظ دیتا ہے۔ یہ جز جراثیم کش بھی ہے جو جراثیموں کے خاتمے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ انسان پر اکثر جراثیم بڑھاپے میں زیادہ حملہ آور ہوتے ہیں، لہٰذا ان جراثیم سے لڑنے کے لیے خربوزہ ایک بہترین غذا اور دوا کے طور پر مفید ہے۔

تیزابیت کی شکایت:جو لوگ روز مرہ زندگی میں مسالے دار چیزیں کھانے، تمباکو نوشی اور الکوحل کے عادی ہیں۔ وہ اکثر معدے کی تیزابیت اور سینے کی جلن کا شکار رہتے ہیں۔ اکثر مریضوں کو کھانے کے بعد پیٹ کے درد، گیس کی زیادتی، ڈھول کی طرح پیٹ پھول جانے، گندے اور کھٹے ڈکار آنے کی شکایت ہوجاتی ہے۔ ان تمام وجوہ کے بنیادی اسباب تیزابیت ہے جو روز بروز مریض کی علامات میں اضافہ کرتی ہے۔ خربوزے میں 95 فی صد پانی پایا جاتا ہے، یہ پانی تیزابیت اور سینے کی جلن دونوں کو کم کرتا ہے۔ خربوزے کے باقاعدہ استعمال سے کھائی جانے والی غذا آسانی سے ہضم ہوجاتی ہے۔ انسان قبض کا شکار نہیں ہوتا کیوںکہ قبض بہت سی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔

بلڈ شوگر کنٹرول: طبی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر پھلوں کو روزمرہ زندگی کا باقاعدہ حصہ بنا لیا جائے تو بلڈ شوگر کی سطح میں کافی حد تک بہتری آجاتی ہے۔ تاہم خربوزے میں کاربوہائیڈریٹ بھی پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے عارضی طور پر بلڈ شوگر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس میں موجود فائبر اور دیگر غذائی اجزاء بلڈ شوگر کو کنٹرول رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

گردوں میں پتھری سے تحفظ: غیرمتوازن غذا کے باعث بہت سے لوگ گردوں کے امراض کا شکار ہوتے ہیں، جو لوگ پانی کم پیتے ہیں اکثر ان کے گردوں میں پتھری بننے کا امکان بڑھ جاتا ہے، چوںکہ خربوزے میں پانی کی مقدار کافی زیادہ پائی جاتی ہے جو پتھری بننے کے عمل کو روک دیتا ہے۔

قلبی امراض سے چھٹکارا: بعض اوقات خون کے سیلز جمنے کی وجہ سے دل کے دائمی اور پیچیدہ مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ خربوزے میں اڈینو سین نامی ایک جز پایا جاتا ہے جو خون کو جمنے سے روکتا ہے۔ اس جز کی بدولت خون نالیوں میں رواں دواں رہتا ہے۔ اگر خون کی روانی متاثر نہ ہو تو بلڈپریشر جیسے عارضے سے لڑا جا سکتا ہے۔ ہارٹ اٹیک سے بچا جا سکتا ہے۔ یوں خربوزے کا استعمال دل کے امراض سے تحفظ دیتا ہے۔

قوت مدافعت بڑھانے کے لیے:وٹامن سی کو مدافعتی نظام کی مضبوطی کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے، چوںکہ خربوزے میں وٹامن سی کافی مقدار میں پایا جاتا ہے جو انفیکشنز اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ طبی تحقیق سے اس بات کا پتا چلا ہے کہ وٹامن سی کی وجہ سے سانس کی نالی کے انفیکشن کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

فوری توانائی کا متبادل: خربوزے میں وٹامن سی کے علاوہ کئی اہم منرلز اور معدنیات پائی جاتی ہیں جو جسم کو فوری طور پر توانائی فراہم کرتی ہیں۔ مثلاً تھکاوٹ سے بچاتی ہیں۔ کھوئی ہوئی توانائی فوری طور پر بحال ہوجاتی ہے۔ سستی بھاگ جاتی ہے۔ جسم و ذہن حالت صحت میں آجاتے ہیں۔ لہٰذا گرمیوں کے شروع ہوتے ہی ہر انسان کو خربوزے کا استعمال شروع کر دینا چاہیے۔

وزن میں بتدریج کمی:خربوزہ کم کیلوریز اور زیادہ فائبر والا پھل ہے۔ اس کے باقاعدہ استعمال سے وزن میں بتدریج کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا گرمیوں کے موسم میں خربوزے کا استعمال وزن میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

بینائی میں بہتری:چوںکہ خربوزہ وٹامن اے کا اچھا ذریعہ ہے جو بینائی کو بہتر بنانے میں مددگار ہے۔ اس میں بیٹا کیروٹین جیسے اہم اجزا پائے جاتے ہیں جو دھند ، موتیا اور آنکھوں کے کئی پیچیدہ امراض سے بچاتے ہیں۔

ذہنی تناؤ میں کمی:خربوزہ کھانے سے دماغ کی طرف آکسیجن کا دباؤ بڑھتا ہے جس سے دماغی تناؤ میں کافی حد تک کمی آجاتی ہے۔ طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے۔ مریض پُرسکون ہو جاتا ہے۔ اسے چڑچڑے پن سے نجات مل جاتی ہے۔ مزاج میں تبدیلی آ جاتی ہے۔     

احتیاطی تدابیر: طبی ماہرین کے مطابق خربوزہ اگرچہ صحت کے لیے بہت مفید پھل ہے تاہم اسے استعمال کرتے وقت چند احتیاطی تدابیر کو سامنے ضرور رکھنا چاہیے۔

٭  کچا خربوزہ خانے سے ہاضمہ کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ پیٹ میں گیس، تناؤ اور درد کی شکایت پیدا ہوسکتی ہے۔

٭  خربوزے کو شوگر کے مریضوں کو اعتدال کے ساتھ کھانا چاہیے۔

٭  دو سال سے کم عمر کے بچوں کو زیادہ خربوزہ کھلانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

٭  جن لوگوں کو خربوزہ کھانے سے الرجی ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اسے کھانے سے پرہیز کریں۔

٭  خربوزہ زیادہ مقدار میں کھانے سے اسہال یا پیٹ درد ہوسکتا ہے۔اسے کھانے سے پہلے مکمل طور پر پانی سے دھو لیں تاکہ مٹی اور بیکٹیریا اتر جائیں۔

٭  ثابت خربوزے کو فریج میں 15 دن تک اسٹور کیا جا سکتا ہے، لیکن کٹے خربوزے کو تین سے چار دن میں استعمال کر لیں ورنہ بیکٹیریا کے نشوونما شروع ہوجاتی ہے۔

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

محکمہ زکوۃ پنجاب کا لاہور کے 4 بڑے اسپتالوں کو خط

محکمہ زکوٰۃ پنجاب نے زکوۃ فنڈز کے طریقہ استعمال پر لاہور کے 4 بڑے اسپتالوں کو خط لکھ دیا گیا۔

ایڈمنسٹریٹر محکمہ زکوٰۃ پنجاب نے 4 ٹرسٹ اسپتالوں کو خطوط لکھ دیے ہیں، جس میں زکوۃ فنڈ استعمال کے طریقہ کار پر بات کی گئی ہے۔

خط کے متن کے مطابق زکوٰۃ فنڈز سے علاج کےلیے علیحدہ اکاؤنٹس کھولے جائیں، محکمے کا افسر تعینات ہوگا، جس کے دستخط بھی ضروری ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • نفسیاتی ثابت قدمی کا فروغ
  • اسٹیبلشمنٹ کو تشدد کا آئینی اختیار حاصل ہے: سہیل وڑائچ
  • محکمہ زکوۃ پنجاب کا لاہور کے 4 بڑے اسپتالوں کو خط
  • آپ کتنی لمبی اور کتنی صحت مند زندگی جئیں گے؟ جواب خون کی صرف ایک بوند میں
  • بجلی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے درمیان صنعتی شعبے کی سولرائزیشن کی رفتار تیز ہوتی ہے. ویلتھ پاک
  • منہدم ہوتی عمارتیں کراچی کی انفرااسٹرکچر کی خستہ حالی کا ثبوت ہیں
  • مریم نواز کے حکم پر ایم ایس اور سی ای او ہیلتھ پاکپتن گرفتار، ’سوشل میڈیا نہ ہوتا تو کلین چٹ مل گئی ہوتی‘
  • نوازشریف کے تو کھانے گھر سے آتے تھے، سو سو بندہ ملنے جاتا تھا، بانی پی ٹی آئی کی تمام جیل سہولیات ختم کردی گئیں ،علیمہ خان
  • نوبیل امن انعام اکثر ایسے افراد کو دیا جاتا ہے جنہیں عوام جانتے بھی نہیں، صدر ٹرمپ