اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جون 2025ء) عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے غیررجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی ایران سے بڑی تعداد میں واپسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جون میں 256,000 سے زیادہ افغان اپنے ملک واپس آ چکے ہیں۔

ادارے نے کہا ہے کہ پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر واپسی سے افغانستان میں وسائل پر دباؤ میں شدت آ رہی ہے جہاں ایک تہائی آبادی کا انحصار انسانی امداد پر ہے۔

امدادی مالی وسائل کی کمی کے نتیجے میں 'آئی او ایم' اور اس کے شراکت داروں کے لیے ان میں صرف 10 فیصد پناہ گزینوں کو مدد پہنچانا ممکن ہے۔

ادارے کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ نے کہا ہے کہ پاکستان کے بعد ایران سے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی واپسی نے افغانستان کے لیے امدادی نظام کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

واپس آنے والے بہت سے لوگوں کے پاس تن کے کپڑوں کے سوا کوئی مال اسباب ہی نہیں ہوتا۔

وہ تھکے ماندے اور بھوکے ہوتے ہیں اور انہیں طبی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان حالات میں عالمی برادری کی جانب سے مضبوط اور فوری تعاون درکار ہے کیونکہ افغانستان اکیلا اس بحران کو سنبھالنے کی سکت نہیں رکھتا۔

خاندانوں کی ملک بدری

ایران کی حکومت نے 20 مارچ کو ایسے تمام افغانوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا جو وہاں بطور پناہ گزین رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

اپریل میں ملک سے واپس جانے والے افغانوں کی تعداد بڑھ گئی تھی جس میں رواں ماہ ریکارڈ اضافہ ہوا۔ 25 جون کو ہی 28 ہزار سے زیادہ افغانوں نے ایران چھوڑا تھا۔ © UNHCR/Oxygen Empire Media Production

'آئی او ایم' نے بتایا ہے کہ یکم جنوری اور 29 جون کے درمیان مجموعی طور پر 714,572 افغان پناہ گزین ایران سے واپس آ چکے ہیں۔

ان میں 99 فیصد غیررجسٹرڈ تھے اور 70 فیصد کو ملک بدر کیا گیا۔ ان میں بڑی تعداد خاندانوں کی ہے جبکہ گزشتہ مہینوں کے دوران واپس آںے والوں میں اکیلے مردوں کی اکثریت تھی۔

جون میں 23 ہزار سے زیادہ پناہ گزینوں کو ایران۔افغان سرحدی علاقے اسلام قلعہ اور میلاک میں 'آئی او ایم' کے وصولی مراکز میں مدد فراہم کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، صوبہ ہرات اور نیمروز میں بھی دو عبوری مراکز پر انہیں مدد دی جا رہی ہے۔

جانچ پڑتال کے بعد ادارہ اور اس کے شراکت دار ان پناہ گزینوں کو خوراک، عارضی پناہ، نقل و حمل کی سہولت، طبی مدد، نقد امداد اور نفسیاتی مدد فراہم کرتے ہیں۔خدمات تک رسائی کو خطرہ

'آئی او ایم' متواتر خبردار کرتا آیا ہے کہ افغانستان اس قدر بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو سنبھالنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ رواں سال ایران اور پاکستان سے مجموعی طور پر 900,000 سے زیادہ افغان اپنے ملک واپس آئے ہیں جس کے نتیجے میں ناصرف ان لوگوں بلکہ ان کے میزبان علاقوں میں بھی ضروری خدمات تک رسائی کو خطرات لاحق ہیں۔

'آئی او ایم' نے واضح کیا ہے کہ پناہ گزینوں کی واپسی محفوظ، باوقار اور رضاکارانہ ہونی چاہیے اور میزبان علاقوں کو انہیں سنبھالنے کے قابل ہونا چاہیے۔ واپس آنے والے پناہ گزینون کی تعداد بڑھنے کے ساتھ صورتحال انتہائی غیرمستحکم ہوتی جا رہی ہے۔ علاقائی ہم آہنگی اور ہنگامی بنیاد پر مالی وسائل کی فراہم کے بغیر خطے بھر میں عدم استحکام پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

ادارے نے پناہ گزینوں کے آبائی علاقوں اور معاشروں میں انضمام نو میں مدد دینے اور غیرمحفوظ و غیررضاکارانہ مہاجرت میں کمی لانے کے لیے ہنگامی بنیاد پر سرمایہ کاری پر بھی زور دیا ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پناہ گزینوں کو پناہ گزینوں کی آئی او ایم بڑی تعداد سے زیادہ ایران سے

پڑھیں:

اسرائیل فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی کوشش کر رہا ہے، جنوبی افریقا

JOHANNESBURG:

جنوبی افریقا کی حکومت نے اسرائیل سے حالیہ دنوں میں آنے والی دو مشکوک چارٹر پروازوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پر سوار فلسطینیوں کی آمد غزہ اور مغربی کنارے سے فلسطینی آبادی کو صاف کرنے کے ایک واضح اور منظم ایجنڈے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ جمعرات کو 153 فلسطینی ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے جوہانسبرگ پہنچے تھے جن کے پاسپورٹ پر اسرائیلی روانگی کی کوئی مہر موجود نہیں تھی۔

اس سے قبل 28 اکتوبر کو 176 فلسطینیوں کا ایک اور گروپ بھی جنوبی افریقا لایا گیا تھا جس کا انکشاف امدادی تنظیم گِفٹ آف دی گیورز نے کیا۔

جنوبی افریقا کے وزیر خارجہ رونالڈ لامولا نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ سرکاری ادارے ان پروازوں کے طریقہ کار اور پس منظر پر شکوک کا شکار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر سرحدی پولیس نے مسافروں کو 12 گھنٹے طیارے کے اندر ہی روکے رکھا، بعد ازاں صدر سیرل راما پھوسا کی منظوری کے بعد انہیں معمول کے 90 روزہ ویزا استثنیٰ کے تحت ملک میں داخل ہونے دیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق ال-مجد نامی ایک غیر معروف تنظیم ان فلسطینیوں کے سفر کا بندوبست کر رہی تھی۔

 گفٹ آف دی گیورز کے مطابق کچھ افراد کو غلط معلومات فراہم کی گئیں اور انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ انڈونیشیا، ملیشیا یا بھارت جا رہے ہیں۔

متعدد افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے تقریباً  2 ہزار ڈالر فی کس اس تنظیم کو ادا کیے اور انہیں منزل کے بارے میں مکمل معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

آمد کے بعد جب ان فلسطینیوں کو رہائش فراہم کی گئی تو یہ بھی سامنے آیا کہ ان کی رہائش صرف ایک ہفتے کے لیے بک تھیاور وہاں پہنچنے کے بعد ’’ال-مجد‘‘ نامی تنظیم نے ان سے مکمل رابطہ ختم کر دیا۔

جنوبی افریقا میں فلسطینی سفارتخانے نے بھی تصدیق کی کہ دونوں گروپوں کا سفر ایک غیر رجسٹرڈ اور گمراہ کن تنظیم نے منظم کیا جس نے غزہ کے سنگین انسانی بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں سے پیسے بھی وصول کیے۔

وزیر خارجہ لامولا نے واضح کیا کہ جنوبی افریقا مزید ایسی پروازوں کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ یہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے ہٹانے کے ایک بڑے منصوبے کی علامت دکھائی دیتی ہیں۔

 ان کے مطابق حکومت اس پورے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تحقیقات کر رہی ہے جب کہ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ ان افراد کو ایک تیسرے ملک کی منظوری کے بعد غزہ چھوڑنے دیا گیا۔

یاد رہے کہ جنوبی افریقا، جو اس ہفتے جی20 اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے فلسطینی عوام کے بھرپور سیاسی و سفارتی حمایت کنندگان میں شمار ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور طالبان رجیم مذاکرات کے دروازے بند یا کوئی کھڑکی کھلی ہے؟
  • شتگرد پنجاب سے بھاگ کر دوسرے صوبوں میں پناہ لے لیں: عظمیٰ بخاری
  • برطانیہ میں اسائلم کے نئے قوانین متعارف، پاکستانی پناہ گزینوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
  • اسرائیل فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی کوشش کر رہا ہے، جنوبی افریقا
  • برطانیہ، پناہ گزینوں کی حیثیت عارضی کرنے کا فیصلہ
  • غیر قانونی تارکین وطن عالمی سلامتی کیلئے سنگین چیلنج، پاکستان کے موقف کی جیت
  • برطانیہ میں سیاسی پناہ کے بعد مستقل رہائش کیلیے 20 سال انتظار کرنا پڑے گا
  • برطانیہ میں پناہ گزینوں کی پالیسی میں تبدیلی؛ مستقل رہائش کے لئے انتظار کی مدت 20 سال کردی
  • برطانیہ میں پناہ گزینوں کیلئے بُری خبر، پالیسی میں بڑی تبدیلی
  • برطانیہ ،اسائلم سسٹم میں بڑی تبدیلی: مستقل رہائش کیلئے 20 سال انتظار لازم