برطانیہ میں اسائلم کے نئے قوانین متعارف، پاکستانی پناہ گزینوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
برطانوی حکومت نے ملک کے پناہ گزینی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متعارف کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ موجودہ اسائلم نظام جو پہلے سے دباؤ کا شکار ہے، اسے مزید سخت اور مؤثر بنایا جا رہا ہے۔
حکومت کے مطابق نئے اصولوں کا مقصد غیر ضروری درخواستوں کو کم کرنا اور نظام میں شفافیت پیدا کرنا ہے۔ نئے اقدامات کے تحت اب پناہ کا درجہ مستقل نہیں رہے گا بلکہ اسے عارضی بنا دیا جائے گا۔ پناہ لینے والے افراد کو ہر ڈھائی سال بعد اپنے اسٹیٹس کی دوبارہ جانچ کرانی ہوگی تاکہ حکومت یہ طے کر سکے کہ انہیں مزید رہنے دیا جائے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری، اب تک کتنے پناہ گزین واپس جا چکے؟
اگر ان کے ملک کے حالات بہتر ہو جائیں اور اسے محفوظ قرار دے دیا جائے، تو ان کا اسٹیٹس ختم کیا جا سکتا ہے اور انہیں اپنے وطن واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ پناہ گزینوں کو مستقل رہائش دینے کے قوانین بھی سخت کیے گئے ہیں۔
پہلے پناہ حاصل کرنے والا شخص 5 سال بعد مستقل رہائش کے لیے درخواست دے سکتا تھا، لیکن نئے منصوبے کے مطابق یہ مدت بڑھا کر 20 سال تک کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس فیصلے سے مستقل طور پر برطانیہ میں بسنے کے خواہشمند پناہ گزینوں کے لیے راستہ پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو جائے گا۔
سرکاری مالی مدد، جیسے مفت رہائش اور ہفتہ وار الاونس، اب خودکار طور پر ہر پناہ گزین کو نہیں ملے گی۔ حکومت صرف ان افراد کو سہولت دے گی جنہیں واقعی ضرورت ثابت ہوگی۔ جن لوگوں کے پاس قیمتی زیورات یا مہنگی اشیا ہوں، ان کا سامان ضبط کر کے انہی پیسوں سے ان کی رہائش یا خوراک کا انتظام کیا جائے گا۔ البتہ جذباتی اہمیت رکھنے والی اشیا، جیسے شادی کی انگوٹھی، بیشتر صورتوں میں ضبط نہیں کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے: اسائلم کیسے لیا جاتا ہے، پاکستانی شہری اس کے سب سے زیادہ خواہاں کیوں؟
حکومت نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اسائیلم کیسز اور اپیلوں کے فیصلے اب تیزی سے کیے جائیں گے۔ ایک نیا نظام متعارف کروایا جائے گا جس کے تحت کمزور اور غیر مضبوط کیسز جلد نمٹا دیے جائیں گے۔ اس اقدام کا مقصد سسٹم میں موجود ہزاروں زیرِ التوا درخواستوں کو جلد نمٹانا ہے۔
ان تبدیلیوں سے بنیادی طور پر وہ لوگ متاثر ہوں گے جو پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں یا جنہوں نے پناہ لے رکھی ہے مگر ابھی مستقل رہائش حاصل نہیں کی۔ دوسری جانب وہ افراد جو اسٹوڈنٹ، ورک یا فیملی ویزا پر برطانیہ میں مقیم ہیں، یا جن کے پاس پہلے سے مستقل رہائش یا برطانوی شہریت ہے، ان پر ان قوانین کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات عوامی مفاد، ٹیکس دہندگان کے تحفظ اور امیگریشن نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پالیسیوں پر تشویش اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدامات پناہ گزینوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پوپ لیو کی صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں پر تنقید، تارکین وطن سے سلوک کو غیرانسانی قرار دیدیا
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے دو سال قبل برطانیہ میں پناہ حاصل کرنے والے پاکستانی نوجوان محمد علی کا کہنا تھا کہ ئے سخت اسائیلم قوانین یقینا جو شخص اسائیلم لے چکے ہیں یا لینے کا سوچ رہے ہیں، بری طرح متاثر ہوں گے۔
علی کے مطابق، اب ہر 2 سال بعد میرا اسٹیٹس دوبارہ چیک ہوگا، اور اگر حکومت میرے ملک کو محفوظ قرار دے دے تو مجھے واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ اسائیلم بہت سی بنیادوں پر لوگ لیتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک عرصہ گزارنے کے بعد اس ماحول میں ایڈجسٹ ہو جانے، اور یہاں مستقبل کی پلاننگ کرنے کے بعد اب یہ سوچ کر میں بہت پریشان ہوں کیوں کہ میری زندگی، تعلیم اور دوست سب کچھ غیر یقینی کا شکار ہوچکے ہیں، میں یہاں بہت مشکل سے بس گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: اٹلی: کشتی کے ڈوبنے سے کم از کم 26 غیر قانونی تارکین وطن ہلاک، مزید کی تلاش جاری
انہوں نے مزید کہا، مستقل رہائش کے لیے انتظار کی مدت بھی 20 سال ہو گئی ہے، اس کا مطلب ہے کہ میں اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ سرکاری مدد اور رہائش بھی اب لازمی نہیں، اس سے روزمرہ زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔ 2 سال اتنی مشکل سے گزارے تھے، اب آکر یہاں کی عادت بھی ہو گئی تھی، اب سوچنے لگا تجا کہ 3 سال بعد پی آر بھی مل جائے گی، لیکن بدقسمتی سے اب ایسا نہیںہو سکتا۔ واپس اپنے وطن آکر بھی اب سب کچھ صفر سے شروع کرنا پڑے گا۔
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عرصے دراز سے رہنے والے تارکین وطن کو بھی خاصہ متاثر کرے گا اور وہ افراد جو ابھی برطانیہ کے اسائیلم کے حوالے سے سوچ۔رہے ہیں انہیں بالکل بھی نہیں سوچنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسائلم برطانیہ پناہ گزین تارکین وطن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانیہ پناہ گزین تارکین وطن مستقل رہائش پناہ گزینوں برطانیہ میں تارکین وطن جائے گا سال بعد کے لیے
پڑھیں:
’طلحہ انجم کو گرفتار کیا جائے‘ کانسرٹ کے دوران بھارتی پرچم لہرانے پر پاکستانی گلوکار تنقید کی زد میں
پاکستانی ریپرز طلحہٰ انجم اور طلحہٰ یونس نیپال میں ہونے والے اپنے حالیہ کنسرٹ کے بعد سوشل میڈیا پر شدید بحث کا مرکز بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کنسرٹ کے دوران طلحہٰ انجم بھارتی پرچم ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہیں جبکہ ان کے ساتھ اسٹیج پر موجود طلحہٰ یونس نے نیپالی پرچم تھام رکھا ہے۔
Talha Anjum, the famous Pakistani rapper from Karachi whose Spotify and YouTube are blocked in India, waves the Indian flag at his Nepal concert. pic.twitter.com/sJi6GEsu1b
— Murtaza Ali Shah (@MurtazaViews) November 16, 2025
ویڈیو سامنے آتے ہی متعدد سوشل میڈیا صارفین نے اس اقدام پر سخت ردِعمل کا اظہار کیا اور طلحہٰ انجم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ صارفین کا کہنا ہے کہ انڈیا کا کوئی بھی گلوکار ایسی حرکت کبھی نہیں کرے گا جیسی طلحہ انجم نے بھارتی پرچم لہرا کر کی ہے۔ جبکہ کئی صارفین کا کہنا تھا کہ گلوکار کے سوشل میڈیا چینلز انڈیا میں بند کر دیے ہیں اس لیے وہ ایسی حرکتیں کر رہے ہیں تاکہ ان کے چینلز کا ان بلاک کر دیا جائے۔
طلحہ انجم جو پاکستان کے مشہور ریپر گلوکار ہیں اور کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور جنکے گانے بھارت نے اسپاٹی فائی اور یوٹیوب پر اپنے ملک میں بلاک کر رکھے ہیں اسی طلحہ انجم نے نیپال کے اپنے کنسرٹ میں بھارتی پرچم لہرا دیا بولو ماشااللہ???? pic.twitter.com/aH5hGsuXgS
— Sadia Khalid (@SadiasOfficial) November 16, 2025
طلحہ انجم نے خود پر ہونے والی تنقید کے بعد ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے دل میں نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ میرے آرٹ کی کوئی سرحدیں نہیں ہیں۔ اگر میرے بھارتی پرچم اٹھانے سے تنازع کھڑا ہوتا ہے، تو ہونے دو۔ میں یہ دوبارہ بھی کروں گا۔ مجھے میڈیا، جنگ کو ہوا دینے والی حکومتوں اور ان کی پروپیگنڈا پالیسیوں کی کبھی پروا نہیں رہی۔ اُردو ریپ سرحدوں میں قید تھا نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا۔
My heart has no place for hate. My art has no borders. If me raising an Indian flag sparks controversy so be it. I’ll do it again.. will never care about the media, the war mongering governments and their propagandas. Urdu Rap is and will always be borderless.. ???????? ???????? ????????
— Talha Anjum (@talhahanjum) November 16, 2025
ایک سوشل میڈیا صارف نےطلحہ انجم کی وضاحت پر انہیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ آرٹ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، لیکن اپنے ملک سے وفاداری کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ پاکستان کا نام ساتھ لیے کسی دوسرے ملک کا پرچم لہرانا ’امن‘ نہیں بلکہ بے حسی ہے۔ اتحاد کو فروغ دیں، مگر اپنی جڑیں مت بھولیں۔
Art may be borderless, but loyalty to your country isn’t. Raising another nation’s flag while carrying Pakistan’s name isn’t ‘peace’, it’s insensitivity. Promote unity, but don’t forget your own roots.
— Mairy Rajput (@mairyrajput) November 16, 2025
ایک صارف کا کہنا تھا کہ ڈکی بھائی کو ریلیز کر کے طلحہ انجم کو قید کر دیا جائے۔
Ducky ko release kar ka isay andar kar do bahi @OfficialDGISPR https://t.co/dve4G1POCY
— Hamza Farooq (@hamz4545) November 17, 2025
کئی صارفین کا کہنا تھا کہ یہ مشہور ہونے کے لیے کچھ بھی کریں گے جبکہ چند صارفین نے مطالبہ کیا کہ اس حرکت کے بعد طلحہ انجم کا بائیکاٹ کر دیا جائے اور کئی صارفین نے کہا کہ انہیں وطن واپسی پر گرفتار کر لیا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارتی پرچم طلحہ انجم طلحہ یونس نیپال کنسرٹ