برطانوی حکومت نے تارکین وطن کیلیے سخت پالیسیوں کا اعلان کردیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT
برطانوی حکومت نے تارکین وطن کے حوالے سے سخت پالیسیوں کے نفاذ کا اعلان کردیا۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی وزارت داخلہ نے پیر کے روز تارکین وطن کیلیے نئی پالیسیوں کے نفاذ کا اعلان کیا۔
وزارت داخلہ کے مطابق برطانیہ میں تارکین وطن کیلیے مستقبل پناہ ختم کردی گئی ہے جبکہ سیاسی پناہ کا دورانیہ پانچ سال سے کم کر کے ڈھائی سال کردیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق اپنے ملک محفوظ واپسی تک عارضی پناہ ملے گی جبکہ تارکین وطن 20 سال کے بعد طویل المدتی رہائش کیلیے درخواست دے سکے گا۔
اعلامیے کے مطابق تارکین کو درخواست کی منظوری کے بعد برطانیہ میں 30 ماہ رہائش کی اجازت دی جائے گی اور اس کے لیے انہیں درخواست دینا ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق اس سے قبل طویل المدتی رہائش کیلیے 5 سال کی شرط تھی جسے اب بڑھا کر بیس سال کیا گیا ہے جبکہ پناہ گزین کے اسٹیٹس کی مدت کو کم کر کے 30 ماہ کردیا جائے گا۔
برطانوی وزیر داخلہ شبانہ محمود نے کہا کہ پناہ گزینوں کیلیے گولڈ ٹکٹ ختم ہوگا، حکومتی اقدامات کا مقصد غیر قانونی طور پر برطانیہ آنے والوں کی تعداد میں کمی کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد کو مزید کم کرنے کیلیے انہیں واپس بھیجا جائے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تارکین وطن کی کے مطابق
پڑھیں:
برطانیہ ،اسائلم سسٹم میں بڑی تبدیلی: مستقل رہائش کیلئے 20 سال انتظار لازم
برطانیہ (ویب ڈیسک)نے پناہ گزینوں کے لیے پالیسی میں اہم تبدیلی کی ہے جس کے تحت پناہ گزینوں کا درجہ عارضی کیا جائے گا اور مستقل رہائش کے حصول کے لیے انتظار کی مدت کو چار گنا بڑھا کر 20 سال کر دیا جائے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق حکومت اپنی امیگریشن پالیسیوں کو سخت کر رہی ہے، خاص طور پر فرانس سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر آنے والوں کے خلاف، تاکہ ریفارم یوکے جیسی مقبول جماعت کی بڑھتی ہوئی پذیرائی کو روک سکے، جو امیگریشن کے بیانیے کی قیادت کر رہی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈنمارک کے طریقۂ کار سے رہنمائی لے رہی ہے — جو یورپ میں سخت ترین پالیسیوں میں شمار ہوتا ہے — جہاں کئی ممالک میں تارکین وطن مخالف جذبات بڑھنے سے پابندیاں مزید سخت ہوئی ہیں، جس پر حقوقِ انسانی کے گروہوں نے سخت تنقید کی ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ نے ہفتہ کی شب جاری کردہ بیان میں کہا کہ تبدیلیوں کے حصے کے طور پر کچھ پناہ گزینوں کو معاونت فراہم کرنے کی قانونی ذمہ داری — جس میں رہائش اور ہفتہ وار الاؤنس شامل ہیں — ختم کر دی جائے گی۔
وزیر داخلہ شبانہ محمود کی سربراہی میں چلنے والے محکمے نے کہا کہ یہ اقدامات اُن پناہ گزینوں پر لاگو ہوں گے جو کام کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں، اور ان پر بھی جنہوں نے قانون توڑا ہو۔ وزارت نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے فراہم کی جانے والی مدد اُن افراد کو ترجیحی بنیادوں پر دی جائے گی جو معیشت اور مقامی کمیونیٹیز میں کردار ادا کرتے ہیں۔
وزارتِ داخلہ نے یہ بھی کہا کہ پناہ گزینوں کو تحفظ اب “عارضی ہوگا، باقاعدگی سے اس کا جائزہ لیا جائے گا، اور اگر اُن کا وطن محفوظ قرار پایا تو درجہ منسوخ کر دیا جائے گا۔”
وزیر داخلہ شبانہ محمود نے اتوار کو اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، “ہمارا نظام دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں خاصا فراخدل ہے، جہاں پانچ سال بعد آپ کو مؤثر طور پر خودکار طور پر مستقل رہائش مل جاتی ہے۔ ہم اس میں تبدیلی لائیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ان تبدیلیوں کے تحت پناہ گزین کا درجہ ہر ڈھائی سال بعد پرکھا جائے گا، جبکہ مستقل رہائش تک پہنچنے کا راستہ اب “20 سال کا کہیں زیادہ طویل مرحلہ” ہوگا۔
شبانہ محمود نے کہا کہ وہ پیر کو ان تبدیلیوں کی مزید تفصیلات فراہم کریں گی، جن میں یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کے آرٹیکل 8 سے متعلق اعلان بھی شامل ہوگا۔
حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ ECHR میں رہنا چاہتی ہے مگر آرٹیکل 8 — جو خاندان کی یکجائی کے حق سے متعلق ہے — کی تشریح تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
شبانہ محمود نے کہا کہ اس آرٹیکل کو “اس انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے جس کا مقصد اُن افراد کی ملک بدری کو روکنا ہے جو ہمارے امیگریشن قوانین کے مطابق اس ملک میں رہنے کا حق نہیں رکھتے۔”
برطانوی حکومت کے سخت اقدامات کو تنقید کا سامنا ہے۔ 100 سے زائد برطانوی فلاحی تنظیموں نے شبانہ محمود کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ وہ “مہاجرین کو موردِ الزام ٹھہرانے اور دکھاوے کی پالیسیوں” کو ختم کریں، جو نفرت اور تشدد میں اضافہ کر رہی ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں میں ظاہر ہوا ہے کہ امیگریشن برطانوی ووٹرز کے لیے معیشت سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ گرمیوں میں اُن ہوٹلوں کے باہر احتجاج ہوئے جہاں پناہ گزینوں کو سرکاری خرچے پر ٹھہرایا گیا تھا۔
مارچ 2025 تک کے سال میں مجموعی طور پر 109,343 افراد نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دی — جو پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ اور 2002 کی بلند ترین سطح سے 6 فیصد زیادہ ہے۔
شبانہ محمود نے کہا کہ حکومت مزید “محفوظ اور قانونی” راستے کھولنے کی کوشش کرے گی، کیونکہ ان کے مطابق برطانیہ کو مشکلات سے بھاگنے والوں کی مدد میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔