اسٹیبلشمنٹ کو تشدد کا آئینی اختیار حاصل ہے: سہیل وڑائچ
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)معروف تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ تشدد سے تشدد ہی جنم لیتا ہے ، اسٹیبلشمنٹ سے بڑی کوئی پر تشدد پارٹی نہیں ہوتی کیونکہ تشدد پر اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری ہے، انہیں تشدد کا آئینی اختیار حاصل ہے۔ نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست کے اندر اور کسی کو تشدد کا آئینی حق حاصل نہیں ہےاور اگر باقی کوئی پر تشدد کارروائی کرے گا تو وہ اس کو کچل دیں گے ، یہی ریاست ہوتی ہے
ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
منہدم ہوتی عمارتیں کراچی کی انفرااسٹرکچر کی خستہ حالی کا ثبوت ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (خصوصی تحقیقاتی رپورٹ \ محمد علی فاروق ) 5 سال میں 55 سے زاید ہلاکتیں اور درجنوں زخمی۔ یہ کراچی میں منہدم ہوتی عمارتوں کی المناک کہانی ہے، جو نہ صرف شہری انفرااسٹرکچر کی خستہ حالی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ متعلقہ سرکاری اداروں کی مجرمانہ غفلت اور کرپشن کی بھیانک تصویر پیش کرتی ہے۔ جمعہ 4 جولائی کولیاری میں ایک اور عمارت گرنے سے 9 قیمتی جانوں کے ضیاع نے ایک بار پھر اس دیرینہ مسئلے کو نمایاں کر دیا ہے، جس پر ماضی میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔اعداد و شمار چیخ چیخ کر سوال کر رہے ہیں،گزشتہ 5 برس کے دوران کراچی کے مختلف علاقوں، خاص طور پر لیاری، میں 4 بڑ ی عمارتیں گرنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق، سال 2020 سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوا، جب عمارتیں منہدم ہونے کے 3 بڑے واقعات رپورٹ ہوئے۔مارچ 2020 میں ایک منزلہ عمارت بارشوں کے باعث گر گئی، جس میں 2 افراد جاں بحق اور5 زخمی ہوئے جبکہ جون 2020 میں ایک 5 منزلہ عمارت زمین بوس ہوئی، جس کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک ہوئے جبکہ جون 2020 ہی میں خداداد مارکیٹ، لیاری میں ایک اور5 منزلہ عمارت گرنے سے 25 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ان واقعات کے علاوہ، پانچ سال کے دوران عمارتوں کے چھجے اور چھتیں گرنے کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے، جن میں55 سے زاید افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ عمارتوں کے کمزور حصوں کے گرنے کے واقعات نے بھی قیمتی جانوں کا زیاں کیا۔بار بار کے ان المناک واقعات کے باوجود، یہ بات واضح ہے کہ متعلقہ سرکاری اداروں کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ کراچی میں ہزاروں پرانی اور خستہ حال عمارتیں موجود ہیں جو کسی بھی وقت بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان عمارتوں میں اکثر قانونی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے غیر قانونی تعمیرات کی گئی ہیں یا ان کی مرمت اور دیکھ بھال پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، جو تعمیراتی قواعد و ضوابط کی پاسداری اور عمارتوں کے معائنے کی ذمے دار ہے، ان حادثات کی بنیادی ذمے دار ہے۔ یہ ادارے بھاری رشوت لے کر غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دیتے ہیں، پرانی اور خستہ حال عمارتوں کو ’خطرناک‘ قرار دینے اور انہیں خالی کرانے میں ناکام رہتے ہیں، اور مبینہ طور پر غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کرنے کے بجائے ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔مقامی حکومتوں کا کردار بھی سوالیہ نشان ہے۔ ان کا کام بھی ایسے علاقوں کی نشاندہی کرنا ہے جہاں عمارتیں خستہ حال ہو چکی ہیں۔ ان تمام واقعات کے باوجود کسی بھی ذمے دار افسر یا اہلکار کے خلاف کوئی بڑی کارروائی یا احتساب نظر نہیں آیا۔ یہ صورتحال اداروں میں کرپشن اور نااہلی کو مزید تقویت دیتی ہے۔لیاری کے حالیہ واقعے نے ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ جب تک اداروں میں شفافیت، احتساب اور فرض شناسی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا، تب تک شہری اسی طرح خستہ حال ڈھانچوں تلے دب کر اپنی جانیں گنواتے رہیں گے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت فوری طور پر ایک جامع حکمت عملی وضع کرے، جس میں پرانی عمارتوں کا سروے، غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سخت کارروائی، اور متعلقہ اداروں میں اصلاحات شامل ہوں۔ بصورت دیگر، کراچی میں منہدم ہوتی عمارتوں کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا اور ہر حادثہ ایک نیا نوحہ رقم کرتا رہے گا۔