data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقام بندگی دیگر مقام عاشقی دیگر
زنوری سجدہ می خواہی زخاکی بیش ازاں خواہی
چناں خودرانگہ داری کہ باایں بے نیازی ہا
شہادت بر وجودِ خود زخون دوستاں خواہی
محرم الحرام ہر سال آتا ہے صدیوں سے یہ مہینہ کیلنڈر میں موجود ہے اپنے وقت پر شروع ہوجاتا ہے اور پھر ختم بھی ہوجاتاہے۔ حرمت والے چار مہینوں میں محرم بھی شامل ہے دس محرم کو حضور اکرمؐ روزہ رکھتے تھے اور یہ سلسلہ ان سے پہلے والی اْمتوں میں بھی تھا۔ اس لیے فرمایا کہ آئندہ سال اگر زندگی ہوگی تو دس محرم کے ساتھ ایک روزہ مزید رکھوں گا تاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ ہو۔ چنانچہ اب بھی بہت سے لوگ نویں دسویں یا دسویں گیارہویں کا روزہ رکھتے ہیں۔ روز و شب کا سلسلہ جاری تھا کہ تاریخ کے کینوس پر نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول، فرزند اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب امام حسینؓ نمایاں ہو کر نظر آئے۔
واقعہ کربلا کی ایک تاریخی حیثیت ہے اس کی ایک حیثیت یہ ہے کہ یہ ایک لوک داستان کی حیثیت سے بہت سے ملکوں اور معاشروں میں زندہ و جاوید ہو گئی ہے۔ عرب و عجم کے جس حصے میں اس داستان کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس حصے کے رسم و رواج داستان سرائی کے لیے اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کا مقصد درد و الم اور ظلم وستم کی بدرجہ اتم تصویر کشی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آہستہ آہستہ عاشورہ محرم میں ایک تہوار کا رنگ نمایاں ہوگیا ہے۔ مرثیہ لکھا جائے، مجلس پڑھی جائے، جلوس نکالا جائے، نیاز دلائی جائے، کیا یہ کافی ہے اور کیا ان کاموں کے لیے امام عالیٰ مقامؓ نے اپنے اہل و عیال اور قریبی ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش فرمایا۔ یہ جنگ کوئی دو فوجوں کی لڑائی نہیں تھی بلکہ ایک طرف ایک ریاست کی فوج تھی دوسری طرف چند مسافر تھے جن کو گھیر کر نہایت مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا اور بدخصلت ظالموں نے بچ جانے والی خواتین اور بچوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہ کیا۔ یہ کون لوگ تھے یہ امامؓ کے نانا کے اْمتی اور کلمہ گو مسلمان تھے مگر یہ چیز ان کو ظلم و ستم سے نہ روک سکی۔
آخر وہ کیا مقصد تھا جس کے لیے سیدنا امام حسینؓ اتنی عظیم قربانی دینے کے لیے تیار ہوئے۔ یہ کہناصحیح نہیں ہے کہ وہ حصول اقتدار کے لیے نکلے تھے اور جن لوگوں پر انہوں نے بھروسہ کیا انہوں نے ان کو دھوکا دیا۔ تاریخ کی تعبیر کرتے وقت ان شخصیات کی زندگی کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے جو کسی واقعے میں بڑے کردار ہوتے ہیں۔ واقعہ کربلا میں سیدنا امام حسینؓ اور یزید بن معاویہ دو بڑے فریق ہیں ان کی زندگی کا گہرا مطالعہ صحیح نتیجے پر پہنچنے میں بہت مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ شہادت حسینؓ پر غور کرتے وقت اس بات کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ خلافت راشدہ کے پورے دور اور اس کے بعد امیر معاویہؓ کے زمانے تک بھی حضرت امام حسینؓ کا خاندان کبھی کشت وخون پر آمادہ نہیں ہوا اس لیے اس کو محض اقتدار کی جنگ سمجھنا سخت ناانصافی اور غلطی ہوگی۔ تو پھر کیا نئی بات سامنے آئی جس کے لیے امام حسینؓ کو کھڑے ہونا پڑا۔ یزید کا کردار ایک ضمنی بات ہوسکتی ہے مگر لوگ مرتد تو نہیں ہوگئے تھے۔ ارکان اسلام موجود تھے اور لوگ ان پر عمل پیرا بھی تھے عدالتوں میں فیصلے اسلامی قانون کے مطابق ہی ہو رہے ہیں۔
ان حالات میں ایک عام آدمی کے لیے تو شاید اس کا ادراک بھی ممکن نہ تھا کہ گاڑی راستہ بدل رہی ہے اور کچھ ہی دیر میں اس کی منزل ہی اور ہوجائے گی اور وہ بہرحال اسلام کی مطلوبہ منزل مقصود نہیں ہوگی۔ اس فرق کو امام عالی مقامؓ جیسا صاحبِ نظر ہی محسوس کرسکتا تھا۔ اسلام کا اصل نظام خلافت کا نظام ہے جس میں خلیفہ وقت عامۃ المسلمین کی رائے سے چْنا جاتا ہے اس چناؤ کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں مگر اس کی روح یہی ہے کہ جمہور مسلمانوں کی مرضی معلوم کی جائے۔ خلافت راشدہ میں یہ خصوصیت موجود تھی۔ خلیفہ اول کا نام سیدنا عمرؓ نے تجویز کیا، وہ ان کے صلبی رشتے دار نہیں تھے مگر اْن کی نظر میں اہل ترین فرد تھے اور یہی رائے جمہور مسلمانوں کی تھی۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا عمرؓ کو نامزد کیا تو وہ بھی اہلیت کی بنیاد پر ہی تھا چنانچہ اس کو شرف قبولیت حاصل ہوا۔ سیدنا عمرؓ نے اپنے بعد ایک اور طریقہ اختیار کیا اور اس میں چھ نمایاں ترین اور اہل ترین افراد کو نامزد کیا کہ ان کے بارے میں رائے لے لی جائے اور جس کو اکثریت پسند کرے اس کو خلیفہ بنالیا جائے۔ اسی طرح سیدنا عثمان غنیؓ اور ان کے بعد سیدنا علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے۔ اس کے بعد امیرمعاویہؓ کی خلافت میں وہ بات نہ تھی مگر سیدنا امام حسنؓ نے اْمت میں افتراق ختم کرنے کے لیے صلح کی اور حضورؐ کے فرمان کو سچ ثابت کیا جس میں انہوں نے امام حسنؓ کے بارے میں فرمایا تھا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اس کے ذریعے سے اللہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان جھگڑا ختم کرائے گا۔
سیدنا امیر معاویہؓ کے بعد یزید کی نامزدگی اور اس کے لیے بیعت طلبی ایک ایسی بنیادی تبدیلی تھی جس سے اسلام کا نظام حکومت خلافت الٰہیہ کے بجائے شخصی حکومت میں تبدیل ہورہا تھا۔ اس تبدیلی کو اگر امام حسینؓ جیسا شخص بھی ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیتا تو اسلامی حکومت کا تصور ہی ختم ہوجاتا۔ امام حسینؓ کی شہادت ایک نہ ختم ہونے والا معاملہ ہے اور ہر دور میں لوگوں نے اس علم کو بلند رکھا اور قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتے رہے۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے برصغیرمیں مجدد الف ثانیؒ اور سید احمد شہیدؒ تک پہنچا اور آج بھی جاری و ساری ہے۔ آج دنیائے اسلام میں احیائے اسلام کی تحریکیں کامیاب ہوتی نظر آتی ہیں تو یہ بھی سیدنا امام حسینؓ کی قربانی کے ثمرات ہیں۔ ان شاء اللہ پاکستان بھی ان کی برکات سے مشرف ہوگا اور یہاں بھی حق کا پھریرا لہرائے گا۔ آج کے دور میں امام حسینؓ کے راستے پر چلنے کے خواہشمند لوگوں یا ان کے نام لیواؤں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ امام حسینؓ نے جس اعلیٰ مقصد کے لیے عظیم ترین قربانی پیش کی ان سب کو اسی طرح کی قربانی اسی مقصد کے لیے پیش کرنے کو تیار رہنا چاہیے اگر یہ کام ہوجائے تو دنیا میں اْمت مسلمہ ساری دنیا کی سردار ہوگی اور آخرت کی کامیابی تو بالکل طے شدہ امر ہے۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہیں اسماعیلؑ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تھے اور اور اس کے بعد ہے اور کے لیے
پڑھیں:
امت کو حسینی کردار اپنانا ہوگا!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آج ساری امت، یوم حسینؓ منا رہی ہے۔ ہر زبان پر ایک ہی صدا ہے کہ سیدنا امام حسینؓ نے دین ِ اسلام کی بنیادوں کو بچانے کے لیے بے مثال قربانی دی۔ اس پر سب کا اجماع ہے کہ امام نے محض ذاتی مفاد یا اقتدار کی خاطر نہیں، بلکہ خلافت ِ راشدہ کو ملوکیت میں بدلنے کی سازش کو روکنے کے لیے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ مگر افسوس! آج دین کی وہی بنیادیں جسے امام نے بچایا تھا، ایک ایک کر کے ڈھائی جا رہی ہیں۔ مسلم حکمران طاغوت کے غلام بنے بیٹھے ہیں۔ سودی معیشت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں، مغرب کے نظام کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ خلافت کے تصور کو فرسودہ کہا جا رہا ہے، اور ملوکیت جمہوریت کے نام پر خاندانی سیاست کی شکل میں ہمارے سامنے ناچ رہی ہے۔ عرب دنیا ہو یا برصغیر، سب جگہ اقتدار چند خاندانوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ فلسطین، کشمیر اور بھارت کے مسلمان بدترین مظالم کا شکار ہیں۔ قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ پر وحشیانہ جنگ مسلط کر رکھی ہے جس میں قتل، بھوک، تباہی اور جبری ہجرت جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ قتل عام امریکا کی پشت پناہی میں ہورہا ہے۔ اس ہولناک نسل کشی میں اب تک 92 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جبکہ 10 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں اور لاکھوں فلسطینی جبری طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ بدترین قحط نے بچوں سمیت بے شمار جانیں نگل لی ہیں۔ لیکن ان مظالم کے خلاف اٹھنے والی آوازیں موجود لیکن مدھم ہیں۔ مسلم حکمرانوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ظلم کا ہر پیکر اْن میں جھلکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ امت مسلمہ نے اپنا اپنا ’’حسین‘‘ تراش لیا ہے۔ ہم نے نواسۂ رسول کو بھلا دیا ہے، اْن کی قربانی کے مقصد کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ امام حسینؓ نے جو شہادت دی کیا وہ کسی فرقے، قبیلے یا خاندان کے لیے تھی؟، ناکہ پوری امت اور انسانیت کے لیے تھی۔ مگر آج ہم ہر سچ کو تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں، ہر مخالف کو ’’یزید‘‘ قرار دے کر خود کو ’حسین‘‘ ثابت کرنے پر تْلے ہوئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ: ’’قتل ِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘ امام حسینؓ کی شہادت، حق و باطل کے معرکے میں راہِ حق پر چلنے والوں کے لیے مشعل ِ راہ ہے۔ خانوادۂ رسول نے شہادت کو گلے لگا کر بتا دیا کہ دین کی سربلندی کے لیے ہر قربانی ناگزیر ہے۔ لیکن آج امت مسلمہ اْس اسوۂ حسینی سے انحراف کر چکی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ باطل طاقتیں ہم پر غالب آ چکی ہیں۔ فلسطین میں انسانیت سسک رہی ہے، مگر مسلم حکمران مفادات کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں۔ امام حسینؓ کا فلسفہ ٔ شہادت ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ظلم پر خاموشی اختیار کرنا بذاتِ خود ایک بڑا جرم ہے۔ امت کو ہر ظلم کے خلاف اٹھنا ہوگا، آواز بلند کرنا ہوگی۔ آج امت، وسائل اور عددی طاقت کے باوجود ذلت کا شکار ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ ہمارے اندر وہ حسینی کردار نہیں رہا، جو ظلم کے خلاف ڈٹ جائے۔ بدترین ظلم یہ ہے کہ امام حسینؓ ہی کے نام کو استعمال کر کے ظلم کو جائز قرار دیا جا رہا ہے، اور انہی کے نام پر امت کے راستے بند کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ راستے تو ان کے بند ہونے چاہئیں جو ظلم کے نمائندے بنے بیٹھے ہیں۔ آج کا باطل بہت شاطر ہے، وہ حق کا لباس پہن کر آتا ہے، خوشنما الفاظ میں لپٹا ہوتا ہے۔ جب تک ہم اسے پہچان نہیں لیں گے، اس سے نجات ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حسینی کردار کو سمجھیں، اس کا مطالعہ کریں، اس کی روح کو اپنے اندر اْتاریں، اور اس راہ پر عملی طور پر چلیں۔ ہمیں ظلم کی ہر علامت کو مٹانا ہوگا، ہر باطل سوچ، نظام اور عمل کو مسترد کرنا ہوگا۔ تبھی امت اٹھے گی، تبھی بیت المقدس آزاد ہوگا، تبھی کربلا کا پیغام زندہ ہوگا۔