Jasarat News:
2025-09-18@20:42:54 GMT

شہادت امام حسینؓ

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مقام بندگی دیگر مقام عاشقی دیگر
زنوری سجدہ می خواہی زخاکی بیش ازاں خواہی
چناں خودرانگہ داری کہ باایں بے نیازی ہا
شہادت بر وجودِ خود زخون دوستاں خواہی
محرم الحرام ہر سال آتا ہے صدیوں سے یہ مہینہ کیلنڈر میں موجود ہے اپنے وقت پر شروع ہوجاتا ہے اور پھر ختم بھی ہوجاتاہے۔ حرمت والے چار مہینوں میں محرم بھی شامل ہے دس محرم کو حضور اکرمؐ روزہ رکھتے تھے اور یہ سلسلہ ان سے پہلے والی اْمتوں میں بھی تھا۔ اس لیے فرمایا کہ آئندہ سال اگر زندگی ہوگی تو دس محرم کے ساتھ ایک روزہ مزید رکھوں گا تاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ ہو۔ چنانچہ اب بھی بہت سے لوگ نویں دسویں یا دسویں گیارہویں کا روزہ رکھتے ہیں۔ روز و شب کا سلسلہ جاری تھا کہ تاریخ کے کینوس پر نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول، فرزند اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب امام حسینؓ نمایاں ہو کر نظر آئے۔

واقعہ کربلا کی ایک تاریخی حیثیت ہے اس کی ایک حیثیت یہ ہے کہ یہ ایک لوک داستان کی حیثیت سے بہت سے ملکوں اور معاشروں میں زندہ و جاوید ہو گئی ہے۔ عرب و عجم کے جس حصے میں اس داستان کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس حصے کے رسم و رواج داستان سرائی کے لیے اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کا مقصد درد و الم اور ظلم وستم کی بدرجہ اتم تصویر کشی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آہستہ آہستہ عاشورہ محرم میں ایک تہوار کا رنگ نمایاں ہوگیا ہے۔ مرثیہ لکھا جائے، مجلس پڑھی جائے، جلوس نکالا جائے، نیاز دلائی جائے، کیا یہ کافی ہے اور کیا ان کاموں کے لیے امام عالیٰ مقامؓ نے اپنے اہل و عیال اور قریبی ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش فرمایا۔ یہ جنگ کوئی دو فوجوں کی لڑائی نہیں تھی بلکہ ایک طرف ایک ریاست کی فوج تھی دوسری طرف چند مسافر تھے جن کو گھیر کر نہایت مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا اور بدخصلت ظالموں نے بچ جانے والی خواتین اور بچوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہ کیا۔ یہ کون لوگ تھے یہ امامؓ کے نانا کے اْمتی اور کلمہ گو مسلمان تھے مگر یہ چیز ان کو ظلم و ستم سے نہ روک سکی۔

آخر وہ کیا مقصد تھا جس کے لیے سیدنا امام حسینؓ اتنی عظیم قربانی دینے کے لیے تیار ہوئے۔ یہ کہناصحیح نہیں ہے کہ وہ حصول اقتدار کے لیے نکلے تھے اور جن لوگوں پر انہوں نے بھروسہ کیا انہوں نے ان کو دھوکا دیا۔ تاریخ کی تعبیر کرتے وقت ان شخصیات کی زندگی کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے جو کسی واقعے میں بڑے کردار ہوتے ہیں۔ واقعہ کربلا میں سیدنا امام حسینؓ اور یزید بن معاویہ دو بڑے فریق ہیں ان کی زندگی کا گہرا مطالعہ صحیح نتیجے پر پہنچنے میں بہت مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ شہادت حسینؓ پر غور کرتے وقت اس بات کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ خلافت راشدہ کے پورے دور اور اس کے بعد امیر معاویہؓ کے زمانے تک بھی حضرت امام حسینؓ کا خاندان کبھی کشت وخون پر آمادہ نہیں ہوا اس لیے اس کو محض اقتدار کی جنگ سمجھنا سخت ناانصافی اور غلطی ہوگی۔ تو پھر کیا نئی بات سامنے آئی جس کے لیے امام حسینؓ کو کھڑے ہونا پڑا۔ یزید کا کردار ایک ضمنی بات ہوسکتی ہے مگر لوگ مرتد تو نہیں ہوگئے تھے۔ ارکان اسلام موجود تھے اور لوگ ان پر عمل پیرا بھی تھے عدالتوں میں فیصلے اسلامی قانون کے مطابق ہی ہو رہے ہیں۔

ان حالات میں ایک عام آدمی کے لیے تو شاید اس کا ادراک بھی ممکن نہ تھا کہ گاڑی راستہ بدل رہی ہے اور کچھ ہی دیر میں اس کی منزل ہی اور ہوجائے گی اور وہ بہرحال اسلام کی مطلوبہ منزل مقصود نہیں ہوگی۔ اس فرق کو امام عالی مقامؓ جیسا صاحبِ نظر ہی محسوس کرسکتا تھا۔ اسلام کا اصل نظام خلافت کا نظام ہے جس میں خلیفہ وقت عامۃ المسلمین کی رائے سے چْنا جاتا ہے اس چناؤ کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں مگر اس کی روح یہی ہے کہ جمہور مسلمانوں کی مرضی معلوم کی جائے۔ خلافت راشدہ میں یہ خصوصیت موجود تھی۔ خلیفہ اول کا نام سیدنا عمرؓ نے تجویز کیا، وہ ان کے صلبی رشتے دار نہیں تھے مگر اْن کی نظر میں اہل ترین فرد تھے اور یہی رائے جمہور مسلمانوں کی تھی۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا عمرؓ کو نامزد کیا تو وہ بھی اہلیت کی بنیاد پر ہی تھا چنانچہ اس کو شرف قبولیت حاصل ہوا۔ سیدنا عمرؓ نے اپنے بعد ایک اور طریقہ اختیار کیا اور اس میں چھ نمایاں ترین اور اہل ترین افراد کو نامزد کیا کہ ان کے بارے میں رائے لے لی جائے اور جس کو اکثریت پسند کرے اس کو خلیفہ بنالیا جائے۔ اسی طرح سیدنا عثمان غنیؓ اور ان کے بعد سیدنا علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے۔ اس کے بعد امیرمعاویہؓ کی خلافت میں وہ بات نہ تھی مگر سیدنا امام حسنؓ نے اْمت میں افتراق ختم کرنے کے لیے صلح کی اور حضورؐ کے فرمان کو سچ ثابت کیا جس میں انہوں نے امام حسنؓ کے بارے میں فرمایا تھا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اس کے ذریعے سے اللہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان جھگڑا ختم کرائے گا۔

سیدنا امیر معاویہؓ کے بعد یزید کی نامزدگی اور اس کے لیے بیعت طلبی ایک ایسی بنیادی تبدیلی تھی جس سے اسلام کا نظام حکومت خلافت الٰہیہ کے بجائے شخصی حکومت میں تبدیل ہورہا تھا۔ اس تبدیلی کو اگر امام حسینؓ جیسا شخص بھی ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیتا تو اسلامی حکومت کا تصور ہی ختم ہوجاتا۔ امام حسینؓ کی شہادت ایک نہ ختم ہونے والا معاملہ ہے اور ہر دور میں لوگوں نے اس علم کو بلند رکھا اور قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتے رہے۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے برصغیرمیں مجدد الف ثانیؒ اور سید احمد شہیدؒ تک پہنچا اور آج بھی جاری و ساری ہے۔ آج دنیائے اسلام میں احیائے اسلام کی تحریکیں کامیاب ہوتی نظر آتی ہیں تو یہ بھی سیدنا امام حسینؓ کی قربانی کے ثمرات ہیں۔ ان شاء اللہ پاکستان بھی ان کی برکات سے مشرف ہوگا اور یہاں بھی حق کا پھریرا لہرائے گا۔ آج کے دور میں امام حسینؓ کے راستے پر چلنے کے خواہشمند لوگوں یا ان کے نام لیواؤں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ امام حسینؓ نے جس اعلیٰ مقصد کے لیے عظیم ترین قربانی پیش کی ان سب کو اسی طرح کی قربانی اسی مقصد کے لیے پیش کرنے کو تیار رہنا چاہیے اگر یہ کام ہوجائے تو دنیا میں اْمت مسلمہ ساری دنیا کی سردار ہوگی اور آخرت کی کامیابی تو بالکل طے شدہ امر ہے۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہیں اسماعیلؑ

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تھے اور اور اس کے بعد ہے اور کے لیے

پڑھیں:

امکان ہے کہ پاکستان اب سعودی پیسوں سے امریکی ہتھیار خرید سکے گاجس کی اسے ضرورت ہے: حسین حقانی


واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے کہاہے کہ " امکان ہے کہ پاکستان اب سعودی پیسوں سے امریکی ہتھیار خرید سکے گاجس کی اسے ضرورت ہے، ٹرمپ انتظامیہ بیچنے پر بھی آمادہ نظر آتی ہے"۔
سوشل میڈیا پر اپنے موقف کے حق میں دلیل دیتے ہوئے انہوں نے مزید لکھا کہ اسی طرح کی خریداری پاکستان نے  1970 کی دہائی میں بھی کی تھی جب امریکی کانگریس پاکستان کے لیے فارن ملٹری فنڈنگ ​​(FMF) کے تحت قرضوں کی منظوری دینے کے لیے آمادہ نہ تھی۔
یادرہےکہ سابق سفیر کایہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دارالحکومت ریاض میں باہمی تاریخی  دفاعی معاہدہ ہواہے،سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین "سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدےپر دستخط کیے ہیں۔

لاہور بورڈ نے انٹرمیڈیٹ پارٹ 2 کے نتائج کا اعلان کردیا

Most likely, Pakistan will now be able to buy U.S. weapons it needs, with Saudi money, which Trump administration seems willing to sell. Similar purchases occurred in the 1970s when U.S. Congress was unwilling to approve loans under Foreign Military Funding (FMF) for Pakistan.

— Husain Haqqani (@husainhaqqani) September 18, 2025


 یہ معاہدہ جو دونوں ممالک کی اپنی سلامتی کے اقدامات کو بڑھانے اور خطے اور دنیا میں سلامتی اور امن کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع اور تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔

حفیظ الرحمان چیئرمین پی ٹی اے کے عہدے پر بحال، سنگل بنچ کا فیصلہ معطل 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • پشاور، آئی ایس او کے زیراہتمام سالانہ یومِ مصطفیٰ (ص) کا انعقاد
  • پاکستان ریلوے نے 3 ٹرینیں منسوخ کر دیں، مسافر پریشانی کا شکار
  • امکان ہے کہ پاکستان اب سعودی پیسوں سے امریکی ہتھیار خرید سکے گاجس کی اسے ضرورت ہے: حسین حقانی
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ بھارت کیلئے سرپرائز تھا: مشاہد حسین
  • نارویجین فٹبالر پاکستان فٹبال ٹیم کی نمائندگی کیلیے اہل قرار
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • گوجرانوالہ: نوائے وقت کے نیوز ایجنٹ اقبال پرویز وفات پا گئے‘ ختم قل کل ہو گا
  • وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا ضلع کیچ میں جام شہادت نوش کرنے والے کیپٹن وقار احمد اور جوانوں کو خراج عقیدت
  • 16 ستمبر اور جنرل ضیاءالحق
  • محسن نقوی کا جام شہادت نوش کرنے والے کیپٹن وقار اور 4 جوانوں کو خراج عقیدت