امت کو حسینی کردار اپنانا ہوگا!
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آج ساری امت، یوم حسینؓ منا رہی ہے۔ ہر زبان پر ایک ہی صدا ہے کہ سیدنا امام حسینؓ نے دین ِ اسلام کی بنیادوں کو بچانے کے لیے بے مثال قربانی دی۔ اس پر سب کا اجماع ہے کہ امام نے محض ذاتی مفاد یا اقتدار کی خاطر نہیں، بلکہ خلافت ِ راشدہ کو ملوکیت میں بدلنے کی سازش کو روکنے کے لیے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ مگر افسوس! آج دین کی وہی بنیادیں جسے امام نے بچایا تھا، ایک ایک کر کے ڈھائی جا رہی ہیں۔ مسلم حکمران طاغوت کے غلام بنے بیٹھے ہیں۔ سودی معیشت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں، مغرب کے نظام کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ خلافت کے تصور کو فرسودہ کہا جا رہا ہے، اور ملوکیت جمہوریت کے نام پر خاندانی سیاست کی شکل میں ہمارے سامنے ناچ رہی ہے۔ عرب دنیا ہو یا برصغیر، سب جگہ اقتدار چند خاندانوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ فلسطین، کشمیر اور بھارت کے مسلمان بدترین مظالم کا شکار ہیں۔ قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ پر وحشیانہ جنگ مسلط کر رکھی ہے جس میں قتل، بھوک، تباہی اور جبری ہجرت جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ قتل عام امریکا کی پشت پناہی میں ہورہا ہے۔ اس ہولناک نسل کشی میں اب تک 92 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جبکہ 10 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں اور لاکھوں فلسطینی جبری طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ بدترین قحط نے بچوں سمیت بے شمار جانیں نگل لی ہیں۔ لیکن ان مظالم کے خلاف اٹھنے والی آوازیں موجود لیکن مدھم ہیں۔ مسلم حکمرانوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ظلم کا ہر پیکر اْن میں جھلکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ امت مسلمہ نے اپنا اپنا ’’حسین‘‘ تراش لیا ہے۔ ہم نے نواسۂ رسول کو بھلا دیا ہے، اْن کی قربانی کے مقصد کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ امام حسینؓ نے جو شہادت دی کیا وہ کسی فرقے، قبیلے یا خاندان کے لیے تھی؟، ناکہ پوری امت اور انسانیت کے لیے تھی۔ مگر آج ہم ہر سچ کو تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں، ہر مخالف کو ’’یزید‘‘ قرار دے کر خود کو ’حسین‘‘ ثابت کرنے پر تْلے ہوئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ: ’’قتل ِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘ امام حسینؓ کی شہادت، حق و باطل کے معرکے میں راہِ حق پر چلنے والوں کے لیے مشعل ِ راہ ہے۔ خانوادۂ رسول نے شہادت کو گلے لگا کر بتا دیا کہ دین کی سربلندی کے لیے ہر قربانی ناگزیر ہے۔ لیکن آج امت مسلمہ اْس اسوۂ حسینی سے انحراف کر چکی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ باطل طاقتیں ہم پر غالب آ چکی ہیں۔ فلسطین میں انسانیت سسک رہی ہے، مگر مسلم حکمران مفادات کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں۔ امام حسینؓ کا فلسفہ ٔ شہادت ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ظلم پر خاموشی اختیار کرنا بذاتِ خود ایک بڑا جرم ہے۔ امت کو ہر ظلم کے خلاف اٹھنا ہوگا، آواز بلند کرنا ہوگی۔ آج امت، وسائل اور عددی طاقت کے باوجود ذلت کا شکار ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ ہمارے اندر وہ حسینی کردار نہیں رہا، جو ظلم کے خلاف ڈٹ جائے۔ بدترین ظلم یہ ہے کہ امام حسینؓ ہی کے نام کو استعمال کر کے ظلم کو جائز قرار دیا جا رہا ہے، اور انہی کے نام پر امت کے راستے بند کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ راستے تو ان کے بند ہونے چاہئیں جو ظلم کے نمائندے بنے بیٹھے ہیں۔ آج کا باطل بہت شاطر ہے، وہ حق کا لباس پہن کر آتا ہے، خوشنما الفاظ میں لپٹا ہوتا ہے۔ جب تک ہم اسے پہچان نہیں لیں گے، اس سے نجات ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حسینی کردار کو سمجھیں، اس کا مطالعہ کریں، اس کی روح کو اپنے اندر اْتاریں، اور اس راہ پر عملی طور پر چلیں۔ ہمیں ظلم کی ہر علامت کو مٹانا ہوگا، ہر باطل سوچ، نظام اور عمل کو مسترد کرنا ہوگا۔ تبھی امت اٹھے گی، تبھی بیت المقدس آزاد ہوگا، تبھی کربلا کا پیغام زندہ ہوگا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بیٹھے ہیں کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی
ممبئی(شوبز ڈیسک) بھارتی ٹی وی کی مشہور اداکارہ دیشا وکانی نےمعروف ڈرامہ ”تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ“ میں دیا بین کا یادگار کردار نبھایا تھا لیکن وہ پچھلے سات سال سے شو سے غائب ہیں۔ان کے چہرے کے شرارتی تاثرات، منفرد لہجہ، دلچسپ گیربا ڈانس اور زبردست کامیڈی ٹائمنگ نے انہیں لاکھوں مداحوں کے دلوں میں بسا دیا۔
مداح کئی سالوں سے دیا بین کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں لیکن اب ان کے بھائی اور شو میں بھی ان کے بھائی کا کردار نبھانے والے اداکار مایور وکانی (سندر لال) نے خاموشی توڑ دی ہے اور بتایا ہے کہ دیشا اب اس ڈرامے میں واپس نہیں آئیں گی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق مایور وکانی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ،’میں دیشا سے دو سال بڑا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ اس نے کتنی محنت اور ایمانداری سے کام کیا۔ اسی لیے لوگ اسے اتنا پسند کرتے ہیں۔ اب وہ اپنی فیملی کو وقت دے رہی ہیں اور اسی کردار کو پوری لگن سے نبھا رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے والد ہمیشہ سکھاتے تھے کہ زندگی میں بھی ہم اداکار ہی ہیں اور جو بھی کردار ملے، اسے دیانتداری سے نبھانا چاہیے۔ دیشا اب حقیقی زندگی میں ماں کا کردار ادا کر رہی ہیں اور وہ اسے بھی اسی لگن اور محنت سے نبھا رہی ہیں جس طرح وہ اداکاری کرتی تھیں۔‘
مایور نے مزید بتایا کہ ان کے والد ہی نے دیشا کو بچپن سے اداکاری کی طرف راغب کیا۔ ’میں نے دیشا کی پہلی اسٹیج پرفارمنس دیکھی تھی جب وہ صرف پانچ سال کی تھیں اور بچوں کے شِبِر میں 90 سالہ خاتون کا کردار نبھا کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ تب ہی ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے اندر کچھ خاص ہے۔‘
مایور کا کہنا تھا کہ دیشا نے دیا بین کا کردار ایسے نبھایا کہ وہ گھر گھر کی پہچان بن گئیں اور ان کے والد کے لیے یہ کسی خواب کی تکمیل جیسا لمحہ تھا۔ لیکن اب دیشا سمجھتی ہیں کہ ماں کا کردار ان کی زندگی کا سب سے قیمتی کردار ہے۔
دیشا وکانی 2018 میں زچگی کی چھٹی پر گئی تھیں اور اس کے بعد واپس نہیں آئیں۔ شو کے پروڈیوسر اسِت مودی نے بھی مان لیا ہے کہ اب ان کے لیے شو میں واپس آنا مشکل ہے کیونکہ شادی کے بعد خواتین کی زندگی بدل جاتی ہے اور چھوٹے بچوں کے ساتھ شوٹنگ کرنا آسان نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر دیشا واپس نہ آئیں تو انہیں کسی اور اداکارہ کو دیا بین کے کردار کے لیے لینا پڑے گا۔
اگرچہ دیشا وکانی کی غیر موجودگی مداحوں کو محسوس ہوتی ہے، لیکن تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ اب بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔
یہ شو 17 سال سے نشر ہو رہا ہے اور اب تک 4500 سے زائد اقساط مکمل کر چکا ہے۔
اب کہانی صرف ایک کردار پر نہیں بلکہ گوکلدھم سوسائٹی کے تمام رہائشیوں کی زندگیوں اور مسائل کے گرد بھی گھومتی ہے جو ڈرامہ کو نیا رنگ اور تازگی بخش رہا ہے۔
Post Views: 5