پاک بھارت کشیدہ تعلقات کے دوران 67 پاکستانی قیدی رہا، برسوں بعد وطن واپسی
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
بھارت نے کشیدہ سیاسی ماحول کے باوجود انسانی ہمدردی کے تحت 67 پاکستانی قیدی رہا کر دیے جنہیں واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا۔ ان قیدیوں میں 53 ماہی گیر اور 14 عام شہری شامل ہیں، جو کئی برسوں سے بھارتی جیلوں میں قید تھے۔
کئی سال بعد گھر کی دہلیز پر واپسی
واپس آنیوالے قیدیوں میں زیادہ تر کا تعلق کراچی اور سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں سے ہے۔ یہ ماہی گیر معمول کے مطابق سمندر میں مچھلی پکڑنے گئے تھے، مگر بدقسمتی سے سمندری حدود کی مبینہ خلاف ورزی پر بھارتی فورسز نے گرفتار کر لیا تھا۔
ایک نوجوان ماہی گیر، جسے 19 برس کی عمر میں گرفتار کیا گیا تھا، 15 برس بعد اپنے والد سمیت واپس وطن پہنچا ہے۔ ان کے ساتھ گرفتار 15 میں سے 2 ساتھی بھارتی جیلوں میں ہی جان کی بازی ہار گئے، جبکہ باقی تاحال قید ہیں۔
ہائی کمیشن کی معاونت، قیدیوں کی جلد واپسی کی امید
پاکستانی ہائی کمیشن نئی دہلی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا کہ 7 پاکستانی شہری، جن میں 48 ماہی گیر اور 19 سول قیدی شامل ہیں، اٹاری-واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستان پہنچے۔ دہلی میں پاکستانی مشن کے افسران قیدیوں کی واپسی کے عمل کی نگرانی اور معاونت کے لیے خود موقع پر موجود تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ حکومت پاکستان بھارتی جیلوں میں قید تمام پاکستانیوں کی رہائی کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔
واپسی کے بعد کلیئرنس اور گھروں کو روانگی
سکیورٹی حکام کے مطابق واہگہ بارڈر پر ضروری تفتیش اور سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد تمام قیدیوں کو ان کے گھروں کو بھیج دیا جائے گا تاکہ وہ برسوں بعد اپنے اہل خانہ سے دوبارہ مل سکیں۔
قیدیوں کی فہرست کا تبادلہ بھی ہوا
یہ رہائی ایک ایسے وقت میں عمل میں آئی ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ تاہم، یکم جولائی 2025 کو پاکستان اور بھارت نے قیدیوں کی تازہ فہرست کا تبادلہ کیا تھا۔
بھارت کی جانب سے پاکستان کو دی گئی فہرست کے مطابق 463 پاکستانی قیدی بھارتی جیلوں میں موجود ہیں، جن میں 382 عام شہری 81 ماہی گیر شامل ہیں جبکہ پاکستان میں موجود 246 بھارتی قیدیوں میں 53 سول قیدی ہیں
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بھارتی جیلوں میں قیدیوں کی ماہی گیر
پڑھیں:
مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی سفارت کاروں کو لاجواب کر دیا، من گھڑت بھارتی دعوؤں کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے واضح کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے۔
جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کیے جانے پر بھارتی نمائندے کے ریمارکس کے جواب میں پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری سرفراز احمد گوہر نےجواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بھارت کے بلاجواز دعوؤں کا جواب دینے کے اپنے حقِ جواب (رائٹ آف رپلائی) کا استعمال کر رہا ہوں۔
Right of Reply by First Secretary Sarfaraz Ahmed Gohar
In Response to Remarks of the Indian Delegate
During the General Debate on Presentation of the Report of Human Rights Council
(31 October 2025)
*****
Mr. President,
I am using this right of reply to respond to the India’s… pic.twitter.com/XPO0ZJ6w6q
— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) October 31, 2025
انہوں نے کہا کہ میں بھارتی نمائندے کی جانب سے ایک بار پھر دہرائے گئے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کونسل کے سامنے صرف چند حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔
سرفراز احمد گوہر نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کی یہ متنازع حیثیت اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری دونوں تسلیم کرتے ہیں، اقوامِ متحدہ کے تمام سرکاری نقشوں میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ دکھایا گیا ہے۔
سرفراز گوہر نے کہا کہ بھارت پر اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے اور کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت استعمال کرنے کی اجازت دے۔
انہوں نے کہا کہ بارہا، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنرز، خصوصی نمائندے، سول سوسائٹی تنظیمیں، اور آزاد میڈیا نے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری نے کہا کہ آج کے انتہا پسند اور ناقابلِ برداشت بھارت میں، سیکولرازم کو ہندوتوا نظریے کے بت کے سامنے قربان کر دیا گیا ہے، وہ ہندو بنیاد پرست عناصر جو حکومت میں عہدوں، سرپرستی اور تحفظ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اس کے مرکزی کردار ہیں، انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبات کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جینو سائیڈ واچ نے خبردار کیا ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔
انہوں نے جنرل اسمبلی کے صدر کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریاں پوری کرے، اور بھارتی نمائندے کو مشورہ دیں کہ وہ توجہ ہٹانے کے حربے ترک کرے۔