غزہ میں پاکستانی فوج تعینات کی جاسکتی ہے:اسرائیلی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
اسرائیلی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ غزہ میں دو سالہ جنگ کے بعد استحکام قائم کرنے کے لیے تجویز کردہ عالمی امن فورس میں پاکستان کا فوجی دستہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔اسرائیلی خبر رساں اداروں ”وائی نیٹ نیوز“ اور ”ٹائمز آف اسرائیل“ نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ اس فورس میں انڈونیشیا، آذربائیجان اور ممکنہ طور پر پاکستان کے فوجی شامل ہوں گے، جبکہ انڈونیشیا پہلے ہی اس مشن کے لیے فوج بھیجنے کی پیشکش کر چکا ہے اور آذربائیجان نے بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔رپورٹس کے مطابق اسرائیلی کابینہ کی خارجہ و دفاعی امور کمیٹی کو بند کمرہ بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس فورس کا مقصد غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم کو منظم کرنا، مقامی پولیس فورسز کی تربیت کرنا اور مستقبل میں تشدد کے دوبارہ ابھرنے کو روکنا ہے۔تاہم اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ اس فورس میں شامل افواج کا انتخاب اسرائیل ہی کرے گا اور اس میں شریک ممالک کے حوالے سے اسرائیل کی اپنی ترجیحات ہوں گی۔ مثال کے طور پر ترک فوجیوں کی شرکت مسترد کی گئی ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی رانا ثنا اللہ نے نجی ٹی وی پروگرام میں کہا کہ اگر غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے اور فلسطینیوں کی مدد کے لیے پاکستان کو واقعی کوئی کردار ملے تو وہ اس سے بہتر بات نہیں سمجھتے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ اُن کی ذاتی رائے ہے اور اُن کے علم میں نہیں کہ حکومتِ پاکستان کو باضابطہ طور پر کوئی پیشکش ہوئی ہے یا نہیں۔رانا ثنا نے کہا کہ پاکستان اُن آٹھ ممالک میں شامل ہے.
ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
شاہ عبداللہ: غزہ میں امن نافذ کرنے والی فورس میں کوئی ملک شامل نہیں ہوگا
اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوم نے کہا ہے کہ اگر غزہ میں بھیجی جانے والی فورس کا مقصد امن نافذ کرنا (Peace Enforcing) ہو تو کوئی بھی ملک اس میں شامل نہیں ہوگا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں شاہ عبداللہ نے وضاحت کی کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے کے تحت غزہ میں بھیجی جانے والی فورس کو “امن نافذ کرنے” کی ذمہ داری دی گئی، تو ممالک اس میں حصہ لینے سے انکار کر دیں گے۔
بادشاہ نے کہا:اہم سوال یہ ہے کہ غزہ میں بھیجی جانے والی سکیورٹی فورسز کا مینڈیٹ کیا ہوگا؟ ہمیں امید ہے کہ یہ فورسیں امن برقرار رکھنے (Peacekeeping) کے لیے ہوں گی، کیونکہ اگر مقصد امن نافذ کرنا ہوگا، تو کوئی ملک حصہ لینے کو تیار نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ امن برقرار رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ مقامی پولیس یا فلسطینی فورسز کی مدد کی جائے، اور اس کام کے لیے اردن اور مصر تربیت دینے کو تیار ہیں۔ لیکن اگر مقصد یہ ہو کہ فورسیں ہتھیار اٹھا کر غزہ میں گشت کریں، تو کوئی بھی ملک شامل نہیں ہونا چاہے گا۔
بی بی سی کے مطابق، شاہ عبداللہ کا یہ بیان امریکا اور دیگر ممالک کی اس تشویش کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ حماس اور اسرائیل کے درمیان براہ راست تصادم میں نہ پھنس جائیں۔
بادشاہ نے یہ بھی کہا کہ اردن اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا، کیونکہ ملک اس تنازعے سے سیاسی طور پر بہت قریب ہے۔ اردن کی نصف سے زیادہ آبادی فلسطینی نژاد ہے، اور ماضی میں اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں سے آنے والے 23 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کو اردن نے محفوظ رکھا ہوا ہے، جو خطے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔