Express News:
2025-12-12@23:13:56 GMT

غزہ، امن کا منظر نامہ دھندلا رہا ہے

اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT

غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد 62 ویں دن شدید موسم اور بارش نے خیموں میں قیام پذیر فلسطینیوں کی مصیبتیں مزید بڑھا دیں۔ المواصی میں پانی خیموں میں داخل ہوگیا، انسانی حالات مزید ابتر ہوگئے۔ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے آغاز کو موخرکردیا اورکہا کہ ’’ غزہ امن بورڈ‘‘ کا اعلان فی الحال روک دیا گیا ہے۔ میڈیا کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج نے 29 فلسطینی صحافیوں کو قتل کیا جو کہ اس سال دنیا بھر میں قتل ہونے والے صحافیوں کے مجموعی اعداد و شمار کا 43 فیصد بنتا ہے۔

غزہ کی سرزمین اس وقت انسانی المیے کی ایسی گواہ بن چکی ہے جس کی مثال جدید تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کو دو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، مگر جس امن کی امید اس وقفے سے وابستہ کی گئی تھی وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید دھندلا رہا ہے۔ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ جنگ کے شعلوں سے بچ کر خیموں میں پناہ لینے والے فلسطینی اب بارش، سردی، بیماری اور بھوک کے دوسرے جہنم میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ المواصی جیسے نسبتاً محفوظ سمجھے جانے والے علاقوں میں بارش کا پانی خیموں میں داخل ہو چکا ہے، جس نے نہ صرف رہائش کو ناممکن بنا دیا ہے بلکہ خوراک اور ادویات کی بچی کھچی فراہمی کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ غزہ کے لاکھوں بے گھر افراد کے لیے یہ موسم محض ایک موسمی تبدیلی نہیں بلکہ موت کا دوسرا چہرہ بن کر ابھرا ہے۔ شدید سردی، آلودہ پانی، دلدلی زمین، بیماریوں کے تیز رفتار پھیلاؤ اور خوراک کی کمی نے انسانی بحران کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ عالمی ادارے اسے ’’ ناقابلِ تصور‘‘ اور ’’ناقابلِ قبول‘‘ قرار دے رہے ہیں۔

 جنگ بندی کے دعوئوں کے باوجود اسرائیلی فوج کی کارروائیاں رکی نہیں۔ معاہدے کے 62 ویں دن بھی مزید چار فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا، اور مجموعی طور پر اس وقفے کے دوران 386 سے زیادہ افراد اپنی جان سے گئے۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ جس چیز کو جنگ بندی کہا جا رہا ہے وہ در حقیقت ایک خطرناک فریب ہے۔ ہتھیاروں کی آواز بظاہر دھیمی پڑی ہے مگر فلسطینیوں کی قبروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ اس تضاد کو سمجھے اور اسے ایک ’’سیاسی اصطلاح‘‘ کے بجائے ’’انسانی تباہی‘‘ کے تناظر میں دیکھے۔دراصل فلسطینیوں کی زندگیوں کا معاملہ عالمی سیاست کے بڑے کھیل میں ایک قابلِ استعمال مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔

اقوامِ متحدہ میں امریکا کی سفیر کا یہ کہنا کہ ’’ٹرمپ کی سربراہی میں امن کونسل معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی‘‘ دراصل ایک ایسا بیان ہے جس کی بنیاد پر کوئی فریق بھی حقیقی اطمینان محسوس نہیں کر سکتا۔ پچھلے کئی عشروں نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا کی ’’نگرانی‘‘ اکثر طاقت کے پلڑے کو مزید جھکا دیتی ہے، نہ کہ انصاف کے توازن کو۔ عالمی برادری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ امن صرف نعرے اور بریفنگ کی زبان میں قائم نہیں ہوتا، بلکہ عملی غیر جانب داری اور انسانی وقار کی پاسداری سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔اسی پس منظر میں اسرائیل نہ صرف جنگ کے قوانین بلکہ اطلاعات کی آزادی اور صحافت کے بنیادی اصولوں کو بھی مسلسل پامال کر رہا ہے۔

یہ حقیقت بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ غزہ پر اسرائیلی یلغار کے آغاز یعنی اکتوبر 2023 سے اب تک تقریباً 220 صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔ یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب اسرائیل دنیا کے لیے سب سے خطرناک ملک ثابت ہوا ہے، جہاں صحافیوں کا قتل محض ’’حادثہ‘‘ نہیں بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ عالمی میڈیا اور حقوقِ انسانی کی تنظیمیں بارہا یہ مطالبہ کر چکی ہیں کہ صحافیوں کو جنگی نشانہ بنانے کو جنگی جرم قرار دیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے طاقتور ملکوں کے سیاسی مفادات نے ہمیشہ انصاف کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے رہنے کا کردار ادا کیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے قتل پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرایا جانا ضروری ہے، اگر دنیا اس قتلِ حقیقت پر بھی خاموش رہے تو آنے والی نسلیں اس عصر کو ایک ایسے دور کے طور پر یاد کریں گی جہاں طاقت نے سچ کو شکست دینے کی کوشش کی اور دنیا نے تماشائی بن کر یہ ظلم دیکھا۔

غزہ کے اسپتالوں اور رہائشی علاقوں پر حملے محض عسکری تنصیبات ’’سمجھنے‘‘ کی غلطی نہیں بلکہ گہری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق رواں سال 25 اگست کو جنوبی غزہ کے ایک اسپتال پر کیا جانے والا حملہ ’’سب سے خوفناک واقعہ‘‘ تھا جس میں پانچ صحافی ایک ہی دن میں جاں بحق ہوگئے۔ اس تمام منظر نامے میں اسرائیل کی جانب سے مسلسل یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ ’’حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا۔‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگی جرائم، محاصروں، بھوک، بیماری اور مسموم حالات نے جس نسل کی پرورش کی ہے، وہ ہتھیاروں سے زیادہ مظلومیت کی تاریخ رکھتی ہے۔ دنیا کی طاقتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مزاحمت کا خاتمہ بمباری سے نہیں بلکہ انصاف سے ہوتا ہے۔ اور جب انصاف مسلسل غیر حاضر ہو تو مزاحمت نہ ختم ہوتی ہے نہ اس کی مثالیں مٹتی ہیں۔

غزہ کی موجودہ نسل نے اپنی زندگی صرف بمباری، محاصروں، بھوک، خوف اور بے گھر ہونے میں گزاری ہے۔ وہ دنیا کی ان پالیسیوں کو اچھی طرح سمجھتی ہے جن میں طاقتور ملکوں کے سیاسی اور معاشی مفادات انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہیں۔ جب ایک پوری نسل اپنے اردگرد صرف ملبہ، جنازے اور ظلم دیکھتی ہے تو وہ بے حسی کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اپنی شناخت دوبارہ تعمیر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی نوجوان مزاحمت کی نئی شکلیں اختیار کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت عالمی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت صرف اسلحہ نہیں بلکہ شعور، کلمہ سچ اور مسلسل جدوجہد سے بھی پروان چڑھتی ہے۔

دنیا کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں انسانی ضمیر کا امتحان لیا گیا، مگر گزشتہ برسوں میں اور بالخصوص حالیہ مہینوں میں غزہ میں جاری تباہی نے اس امتحان کو ایک ایسے موڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں اب خاموشی بھی جرم ہے اور لاتعلقی بھی ظلم کا ساتھ تصور ہوتی ہے۔ غزہ کے بچے، عورتیں، مرد، صحافی، معلم، ڈاکٹر اور عام شہری مسلسل بمباری، محاصرے، بھوک، پیاس اور بے گھر ہونے کے اذیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں۔ مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم کا شکار صرف انسان نہیں بلکہ سچائی، انصاف، صحافت اور عالمی ضمیر بھی اس بربریت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔غزہ کا مسئلہ محض فلسطینیوں تک محدود نہیں، یہ وہ آئینہ ہے جس میں پوری دنیا کی اخلاقی سمت، سیاسی ترجیحات اور انسانی قدریں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ روزانہ مرنے والے بچوں کا سوال صرف فلسطین کا سوال نہیں، بلکہ یہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر کا سوال ہے۔

کیا دنیا اپنی آنکھوں کے سامنے انسانیت کے قتلِ عام پر خاموش رہے گی؟ کیا عالمی ادارے، اقوامِ متحدہ سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں تک، اپنی بے بسی یا بے عملی کو ’’غیر جانبداری‘‘ کا نام دیتے رہیں گے؟ یا پھر دنیا قومیت، نسل، مذہب اور جغرافیے سے بالاتر ہو کر انسان کی بنیادی حرمت کو مقدم رکھے گی؟

غزہ کا مسئلہ سب سے پہلے انصاف کا مسئلہ ہے۔ انصاف کا اصول یہ ہے کہ طاقتور اور کمزور دونوں کو یکساں حق دیا جائے، مگر زمین پر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دنیا کا نظام اُس وقت تلخ سچائی بیان کرتا ہے جب عالمی عدالتیں صرف کمزور ممالک یا غیر ہم نوا ریاستوں کے خلاف تو سرگرم دکھائی دیتی ہیں، مگر جب ایک ایسی طاقت ظلم ڈھائے جو بڑی قوتوں کی حلیف ہو، اُس کے خلاف زبانیں گنگ اور قلم مفلوج ہوجاتے ہیں۔ غزہ میں لاکھوں انسانوں کو اجتماعی سزا دینا، بنیادی ضرورتوں کا محاصرہ، پانی اور خوراک کی بندش، اسپتالوں کی تباہی، پناہ گاہوں پر حملے، یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزیاں ہیں، مگر انصاف کے علمبردار اداروں کی خاموشی خود ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔

یہ معاملہ انسانیت کا بھی ہے۔ دنیا میں اگر کہیں بھی کوئی بچہ بھوک سے مرتا ہے، کوئی عورت ملبے تلے سسک رہی ہے، کوئی بیمار دوا کے بغیر جان دے رہا ہے، تو انسانیت کا دعویٰ رکھنے والی دنیا کو اُس کا دکھ محسوس کرنا چاہیے، لیکن غزہ کے معاملے میں دنیا کی اکثریت نے بچوں کی چیخوں کو پس منظر کا شور سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ بعض ممالک نے تو یہ بے حسی اختیار کی کہ جنگی مشینری کو مزید ایندھن فراہم کرنے لگے۔ انسانیت کی حرمت کا تقاضا تھا کہ دنیا متحد ہو کر ظلم کو روکتی، مگر افسوس کہ اکثر طاقتیں سیاسی مفادات کی غلام بن کر رہ گئیں۔

غزہ کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، یہ انصاف، انسانیت، صحافت، سچائی اور عالمی امن کا مسئلہ ہے۔ دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف کھڑی ہے۔ مظلوم کے ساتھ یا طاقت کے نشے میں بدمست جارحیت کے ساتھ؟ اگر عالمی ضمیر نے اب بھی جاگنے سے انکار کیا تو تاریخ کے صفحات پر اس دور کی قیادت کے لیے صرف ایک ہی جملہ لکھا جائے گا:’’انھوں نے ظلم دیکھا، مگر خاموش رہے۔‘‘
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ سے زیادہ کا مسئلہ کے ساتھ دنیا کی رہے ہیں کے لیے ہیں کہ رہا ہے غزہ کے دیا ہے

پڑھیں:

یورپ کی سڑکوں پر فلسطین کی پکار؛ عالمی ضمیر کی بیداری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251213-03-7

 

میر بابر مشتاق

یورپ کے مختلف ممالک میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد کا سڑکوں پر نکل آنا، دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی شعور کا ایک ایسا اظہار ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ گزشتہ کئی ماہ سے غزہ مسلسل اسرائیلی بمباری کی لپیٹ میں ہے، اور ماؤں، بچوں، بوڑھوں اور عام شہریوں کی لاشیں ملبے تلے سے اُٹھ رہی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر عالمی ادارے، طاقتور ممالک اور اثرو رسوخ رکھنے والی حکومتیں عملی اقدام کے بجائے صرف تشویش، افسوس اور ’سنجیدہ نوٹس‘ جیسے بے معنی بیانات پر اکتفا کر رہی ہیں۔ ایسے میں یورپ کی شاہراہوں، پلوں، چوراہوں اور مرکزی اسکوائرز میں اٹھنے والی انسانی آوازیں اُمید کا ایک روشن چراغ بن کر سامنے آئی ہیں۔ لندن، پیرس، میونخ، ایمسٹرڈیم، برسلز، اوسلو، میلان اور بارسلونا… یہ وہ شہر ہیں جو شام اور ہفتہ وار چھٹیوں کے دنوں میں عام طور پر پْرسکون تفریحی ماحول کے لیے مشہور ہیں۔ مگر اب ان سڑکوں پر فلسطینی پرچموں کی لہر، احتجاجی نعروں کی بازگشت اور انسانی حقوق کے مطالبات کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ہزاروں لوگ صرف کسی سیاسی جماعت، کسی نظریاتی گروہ یا مذہبی وابستگی کے تحت نہیں نکلے بلکہ انسانی تکلیف، معصوم بچوں کی چیخوں اور انسانیت کے نام پر نکلے ہیں۔

بینرز پر لکھے الفاظ “Stop the Genocide”, “Free Palestine, “Ceasefire Now”, “Justice for Gaza”  صرف سادہ نعرے نہیں بلکہ دنیا کے اجتماعی شعور کی نمائندگی بن چکے ہیں۔ یہ وہ آواز ہے جو نہ صرف غزہ کے لیے اْٹھی ہے بلکہ ان عالمی اداروں کے لیے بھی ایک واضح انتباہ ہے جو اپنی خاموشی کے باعث انسانی تاریخ کے تاریک ترین واقعات میں شریک ِ جرم بنتے جا رہے ہیں۔

یورپ کی سڑکوں پر نکلنے والے عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ فلسطین صرف عرب دنیا یا مسلم دنیا کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ پوری انسانیت کا درد بن چکا ہے۔ مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں نوجوان، طلبہ، اساتذہ، مزدور، یہودی امن پسند، مسیحی رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، صحافی، خواتین اور بچے شریک تھے۔ اس ملے جلے ہجوم نے ایک اصولی بات پر یکجہتی اختیار کی: انسانیت کو قتل ہونے سے بچایا جائے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری حملے انسانی اصولوں کے خلاف ہیں، اور دنیا کا کوئی قانون چاہے وہ جنیوا کنونشن ہو یا انسانی حقوق کا عالمی چارٹر، بے گناہوں کے اجتماعی قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر اس کے باوجود اسرائیلی حملے جاری ہیں، ہلاکتوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، اور ایک پوری نسل اپنے مستقبل کے ساتھ مٹتی جا رہی ہے۔

یہ سوال آج ہر یورپی ریلی کا مرکزی نعرہ بن چکا ہے کہ عالمی برادری عملی قدم کیوں نہیں اٹھا رہی؟ یورپی مظاہرین واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کی مسلسل فوجی کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں، اور ان پر بین الاقوامی عدالت (ICC) اور اقوام متحدہ کی جانب سے فوری تحقیقات ہونی چاہیے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف آج کی جنگ نہیں۔ اس کی جڑیں بیسویں صدی کی اوائل میں برطانوی مینڈیٹ اور قومی ریاستوں کے قیام کے پیچیدہ عمل میں پیوست ہیں۔ 1948 کے بعد سے ہونے والی جنگوں اور علاقائی کنٹرول کے تنازعات نے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس میں اسرائیل؛ اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین کی نظر میں مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم میں ’’قابض فوج‘‘ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

آج، عالمی طاقتیں اپنی جغرافیائی سیاست، اسلحہ جاتی مفادات اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنی موجودگی کے توازن کے باعث اس تاریخی الجھن میں عملی اقدام سے گریزاں ہیں۔ جب عالمی ادارے سیاسی دباؤ کے سامنے بے بس ہو جائیں، تو عوامی تحریکیں ہی وہ واحد قوت بنتی ہیں جو دنیا کو راستہ دکھاتی ہیں اور یہی قوت یورپ کے گلی کوچوں میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔

رہنماؤں نے اپنی تقریروں میں صرف جذباتی اپیلیں نہیں کیں بلکہ اعداد و شمار، رپورٹوں اور عینی شواہد کے حوالے سے دنیا کو جھنجھوڑا ہے۔ غزہ میں 70 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ ہزاروں عمارتیں، اسکول، مساجد، چرچ، اسپتال اور پناہ گاہیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ یورپ کے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں: اگر اتنے ہی ہلاکتیں کسی یورپی شہر میں ہوتیں تو کیا دنیا کا ردعمل ایسا ہی ہوتا؟ کیا پھر بھی اقوام متحدہ محض ’نوٹس‘ لیتی؟ کیا پھر بھی اسی طرح کی خاموشی ہوتی؟ یہ سوال صرف فلسطین کے لیے نہیں بلکہ عالمی انصاف کے معیار کے حوالے سے بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

یورپ میں ہونے والے مظاہروں کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ احتجاج وقتی نہیں، بلکہ ایک مستقل عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ ہر ہفتے لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ چھاؤنیاں قائم ہیں۔ بہت سی جامعات نے اسرائیل کے ساتھ مالی تعاون کے خلاف قراردادیں منظور کر لی ہیں۔ متعدد یورپی پارلیمانوں میں جنگ بندی کی قراردادیں پیش ہو چکی ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے: ’’جب تک غزہ میں انصاف نہیں ملتا، ہم آواز اُٹھاتے رہیں گے‘‘۔ یعنی یہ احتجاج ایک عالمی ضمیر کی مہم بن چکا ہے، جسے روکنا اب کسی طاقت کے ہاتھ میں نہیں۔

ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مظاہروں میں بڑی تعداد میں یہودی تنظیمیں، ربی حضرات اور اسرائیلی نژاد یورپی شہری بھی شریک ہیں۔ ان کا مؤقف بہت واضح ہے: ’’اسرائیل کی جارحیت ہمارے مذہب، ہماری تاریخ اور ہماری اخلاقیات کے خلاف ہے‘‘۔ یہ منظر پوری دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ فلسطین کے لیے آواز اٹھانا کسی قوم، کسی مذہب کے خلاف نہیں بلکہ ظلم کے خلاف ہے۔ اور ظلم ہمیشہ انسانیت کا مشترکہ دشمن ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی، اگرچہ تعداد میں کم، لیکن کچھ آوازیں اسی طرح کے اخلاقی احتجاج کو بلند کر رہی ہیں۔

یورپ میں عوامی احتجاج نے مین اسٹریم میڈیا کو بھی اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ رپورٹیں جو پہلے نظر انداز ہو رہی تھیں، اب نمایاں جگہ پا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے ماہرین، سیاسی تجزیہ کار، اور جنگی رپورٹرز کھل کر اسرائیلی پالیسیوں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ میڈیا کے اس دباؤ نے کئی ممالک کی حکومتوں کو سخت سوالات کا سامنا کروایا ہے۔ اب یورپی سیاست میں ایک نئی بحث جنم لے چکی ہے کہ آیا اسرائیل کو غیر مشروط حمایت جاری رکھنا اخلاقی اور جمہوری طور پر درست ہے یا نہیں۔ یورپ میں ہونے والی لاکھوں افراد کی ریلیوں نے دنیا کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ فلسطین اب کوئی ’تنازع‘ نہیں یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ اور جب انسانیت خطرے میں ہو، تو سرحدیں اور قومیتیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے گلی کوچوں میں گونجنے والی آوازیں صرف فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی اٹھ رہی ہیں۔ اس بحران میں، اقوام متحدہ کی عدالتوں میں اسرائیل کی قانونی ذمے داریوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، اور انسانی امداد کے بحران نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ یورپ میں اٹھنے والی انسانیت کی یہ آوازیں آنے والے دنوں میں مزید مضبوط ہوں گی۔ دنیا بدل رہی ہے، اور عوام کا اخلاقی دباؤ اب عالمی سیاست کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ احتجاج ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اندھیری راتوں میں بھی امید کے چراغ جلتے رہتے ہیں۔ اور جب لاکھوں لوگ ظلم کے خلاف کھڑے ہو جائیں، تو تاریخ کا پہیہ بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ فلسطین کا مسئلہ صرف سیاست نہیں؛ انسانیت کا امتحان ہے۔ اور یورپ کے یہ احتجاج ثابت کر رہے ہیں کہ انسانیت اب بیدار ہو چکی ہے۔ جب تک غزہ میں انصاف نہیں ملتا، دنیا بھر کی سڑکیں خاموش نہیں ہوں گی۔

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • یورپ کی سڑکوں پر فلسطین کی پکار؛ عالمی ضمیر کی بیداری
  • موسمیاتی اقدامات اب اختیار کا نہیں بلکہ بقا کا تقاضا بن چکے ہیں: مصدق ملک
  • میرٹ کی جنگ میں کراچی کے طلبہ تنہا؛ کیا کوئی سنے گا؟
  • جب خاموشی محفوظ لگنے لگے!
  • رنگین روایات کی دنیا؛ کیلاش سے سائبیریا تک زندہ ثقافتیں
  • رنویر پر جنسی حملے کی کوشش: دھرندھر کا وہ سین جس پر سب خاموش
  • پی پی کسی سیاسی جماعت پر پابندی کی حامی نہیں نہ کسی کو غدار سمجھتی ہے، شرجیل میمن
  • سیاسی جماعت پر پابندی کے حامی نہ کسی کو غدار سمجھتے ہیں، شرجیل میمن
  • دنیا امن و استحکام کیلئے انسانی حقوق کا احترام کرے، ڈاکٹر طاہر القادری