Express News:
2025-12-12@23:14:03 GMT

تھرپارکر کے ہاریوں کی صدا

اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT

تھر پارکرکا شمار ملک کے سب سے زیادہ پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ تھر پارکر ایک وسیع العریض صحرا ہے جس کی سرحدیں پاکستان سے بھارت تک پھیلی ہوئی ہیں۔ تھرپارکر کا ہیڈ کوارٹر مٹھی ہے، جو ایک چھوٹا شہر ہے اور یہ 6 تعلقوں مٹھی، ننگر پارکر، چھاچھرو، اسلام کوٹ، ڈاھلی، ڈیپلو اور کلوئی اور 60 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ تھرپارکرکی کل آبادی 12 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ تھرپارکر کا صرف 8.

12 فیصد حصہ شہری اور بقیہ دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔ تھرپارکر میں خواندگی کا تناسب 36.39 فیصد بتایا جاتا ہے۔ خواندگی سے متعلق اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہی واضح ہوتا ہے کہ مردوں میں خواندگی کا تناسب 48.50 فیصد اور خواتین میں یہ تناسب 23.49 فیصد ہے۔ تھرپارکر کے شہریوں کا بنیادی پیشہ زراعت ہے یا بہت سے لوگوں کا گزارہ زراعت سے ملحقہ کاموں سے ہوتا ہے۔

تھرپارکر میں زراعت کے لیے پانی کا دار و مدار برساتی پانی پر ہوتا ہے۔ جب مہینوں بارش نہیں ہوتی تو پھر قحط کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ ہزاروں افراد زندگی بچانے کے لیے دیگر علاقوں میں ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں۔ آبادی کا بہت معمولی حصہ سرکاری محکموں میں ملازمت کرتا ہے۔ کچھ لوگ تجارت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ اس علاقے کی آبادی کا 77.64 فیصد حصہ مال مویشیوں کی پیدائش اور خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تھرپارکر کے لوگوں کے لیے اونٹ کی بڑی اہمیت ہے۔ اونٹ بار برداری اور سواری کے لیے سب سے اچھا جانور سمجھا جاتا ہے۔ 

ایک رپورٹ کے مطابق تھرپارکر قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تھرپارکر میں کوئلہ کے 185.175 بلین کے ذخائر موجود ہیں۔ چند سال قبل چین سے ہونے والے سی پیک معاہدے کے تحت چین نے تھرپارکر میں کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کا ہیوی پلانٹ لگایا ہے۔ اس پلانٹ نے برسوں پہلے بجلی بنانی شروع کردی تھی مگر یہ بجلی تھرپارکر کے عوام کو فراہم نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ تھرپارکر کے عوام سولر بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ تھرپارکر کے ایک مکین سینئر صحافی سہیل سانگی نے لکھا ہے کہ تھرپارکر کا بیشتر علاقہ 2025میں بھی بجلی کی نعمت سے محروم ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارہ UNDP کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ تھرپارکر کی 87 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، یوں تھرپارکر ضلع میں زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ 

ایک یونیورسٹی کے سروے کے مطابق تھرپارکر میں 90 فیصد خواتین کم غذائیت کے مرض کا شکار ہیں۔ تھرپارکر میں روزگار کی صورتحال خاصی خراب ہے۔ وہاں کی مشہور فصلوں میں باجرہ ،گوار، مونگ ، موٹھ تل وغیرہ کی فصل ہوتی ہے۔ بارشوں سے زرعی زمین آباد ہوتی ہے اور پیدا شدہ اجناس مارکیٹ میں فروخت کر کے ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں۔ محکمہ ریوینو کے اعداد شمار کے موجب تھرپارکر میں 6 لاکھ 24 ہزار 42 کاشتکارکھاتیدار ہیں جن کے پاس 2 ایکڑ سے لے کر 200 ایکڑ زرعی زمین کے کھاتے ہیں۔ اس ایگریکلچر لینڈ سے 7 ہزار 6 سو 74 ایکڑ بیراجی زمین ہے جب کہ 6لاکھ 57 ہزار ایکڑ بارانی زمین ہے، جس کی کاشت بارشوں پر منحصر ہوتی ہے۔

 تھرکے معروف ادیب معصوم تھری کے مطابق تھر کی بارانی زمین میں موسمی مطلوبہ بارشیں ہونے کی صورت میں ایک ایکڑ سے ایک ٹن پیداوار ممکن ہے لیکن گزشتہ کئی برسوں سے مطلوبہ موسمی بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایوریج 20سے 30 فیصد رہ گیا ہے، جب کہ فی ایکڑ لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ کاشتکار /کسان کی ایک ایکڑ پرکم از کم ایک لاکھ روپے لاگت ہوتی ہے اور ایک خاندان کے 4 سے5 فرد 5 سے 6 ماہ دیگر محنت مزدوری چھوڑ کرکاشتکاری سے جڑے رہتے ہیں، اگر مطلوبہ بارشیں نہ ہوں تو مجموعی طور پر بیج اور دوسرے اخراجات کی مد لگائے گئے 4 سے 5 ارب روپے ڈوب جاتے ہیں اورکاشت کار کسان شدید مالی بحران کا شکار ہوکر کسمپرسی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور یہ صورت حال ہر دوسرے، تیسرے سال پیش آتی ہے۔ سرکاری ملازمتوں سے وابستہ ایماندار ملازمین کا تنخواہ پرگزارہ نہیں ہوتا تو وہ بھی ان سود خوروں سے رابطہ پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اس سارے ماجرے میں گزشتہ 10 سے 15 برسوں سے سود خور تاجروں نے تو غریب کسان کاشتکار کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ کسان کاشتکار کے پاس مون سون کی موسم آتے ہی کاشتکاری کی تیاری کے سلسلے میں بیج اور دیگر اخراجات کے لیے مقامی سود خور بیوپاری کے یہاں چل کر جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ اب سود خور بیوپاری کیا کرتا ہے کہ اول تو وہ بیج مہنگے دام پر دیتا ہے جو بیج 3 ہزار روپے فی من فروخت کرتا ہے، وہی فصل مارکیٹ میں آنے پر اسی کسان سے 1500 روپے میں خرید کرنے کا معاہدہ کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ماہانہ پانچ فیصد سود بھی وصول کرتا ہے۔

یہ کاروبار مٹھی، چھاچھرو، ننگرپارکر، اسلام کوٹ اور دیگر شہروں میں کھلم کھلا جاری و ساری ہے۔ پہلے یہ گھناؤنا کاروبار مقامی سود خور کرتے تھے لیکن تھر کے مذکورہ شہروں میں افغانی پٹھانون نے بھی ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور اب یہ کاروبار سیزنل نہیں رہا بلکہ روزمرہ کا کاروبار بن کر رہ گیا ہے جس کی چنگل میں تھر کے غریب اور پسے ہوئے کسانوں اور مزدوروں کے ہزاروں خاندان پھنسے ہوئے ہیں اور زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔کمیونسٹ پارٹی سندھ کے سیکریٹری کامریڈ اقبال جو ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کر رہے ہیں، ان کا بیانیہ ہے کہ یہ غیر قانونی سود خور حضرات نہایت ظالمانہ شرحِ سود وصول کر رہے ہیں، مقروض افراد کے سونے کے زیورات، چیک بُک، اے ٹی ایم کارڈز اور دیگر ضمانتیں اپنے قبضے میں رکھتے ہیں اور بعض صورتوں میں مکمل ادائیگی کے باوجود رہن رکھی ہوئی اشیاء واپس کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔

یہ طرزِ عمل فوجداری ضابطہ پاکستان کی دفعات 406، 420، اور 384 کے تحت قابلِ سزا جرائم ہیں اور آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 4، 9، اور 23 میں دیے گئے شہریوں کے جان، مال، عزت اور تحفظ کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ مزید یہ کہ غریب اور ناخواندہ تھری عوام ان غیر قانونی کارروائیوں کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔ مالی مجبوری کے باعث وہ چھوٹی رقمیں زبانی معاہدوں کے تحت قرض لیتے ہیں، جنھیں یہ سود خور حضرات ناجائز فائدہ اٹھا کر دگنا تگنا سود لگا کر لوٹتے ہیں، اور ان کے زیورات و ضمانتیں مستقل طور پر اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ کامریڈ اقبال نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک قرض دینے والے شخص نے متعدد مقامی قرض داروں کے تقریباً 90 لاکھ روپے مالیت کے سونے کے زیورات غیر قانونی طور پر اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تمام لین دین زبانی طور پر کیے گئے تھے، جن کی کوئی قانونی دستاویزات موجود نہیں، جس سے دھوکہ دہی اور خیانت کو فروغ ملا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان افراد کے خلاف ان قوانین کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے جن میں دفعہ 3 اور 4، پرائیویٹ لون ایکٹ 2023 (بغیر لائسنس قرض دینے اور سود وصول کرنے پر ممانعت)، دفعہ 406 اور 420 پاکستان پینل کوڈ (خیانتِ مجرمانہ اور دھوکہ دہی)، دفعہ 384 پاکستان پینل کوڈ (زبر دستی اور بھتہ خوری) اوردفعہ 506 پاکستان پینل کوڈ (دھمکی اور خوفزدہ کرنے کے جرائم ) شامل ہیں۔ علاقہ کے لوگوں نے سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس سے اپیل کی ہے کہ ان سود خوروں سے ان کا قیمتی سونا اور سامان واپس کرایا جائے اور ایسی اسکیم شروع کی جائے کہ غریب لوگ ان سود خوروں کے جھانسے میں نہ آئیں۔
 تھرپارکر کے منتخب اراکین کا تعلق ہمیشہ پیپلز پارٹی سے رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی ذمے داری ہے کہ ان غریب لوگوں کو سود خوروں سے بچانے کے لیے کوئی ایسی اسکیم شروع کرے کہ عام آدمی کو بغیر سود کے قرضہ مل سکے۔ 
 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تھرپارکر میں کے مطابق تھر کہ تھرپارکر تھرپارکر کے ہیں اور ہوتا ہے کرتا ہے ہوتی ہے ہے اور کے لیے کے تحت

پڑھیں:

ملک میں دوسرے ہفتے بھی ہفتہ وار مہنگائی میں کمی

اسلام آباد:

ملک میں دوسرے ہفتے بھی ہفتہ وار مہنگائی میں 0.03 فیصد کمی واقع ہوگئی ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی سے متعلق ہفتہ وار رپورٹ جاری کردی جس کے مطابق سالانہ بنیاد پر بھی مہنگائی 3.90 فیصد پر آگئی، حالیہ ہفتے 12 اشیائے ضروریہ مہنگی، 10 کے نرخوں میں کمی ریکارڈ کی گئی، 293 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام رہا۔

 رپورٹ کے مطابق ٹماٹر 16.18 فیصد، پیاز 4.08 فیصد، آلو 1.71 فیصد، گڑ 0.08 فیصد، چینی 4.91 فیصد، ایل پی جی 0.08 فیصد، دال چنا 0.36 فیصد، دال مسور 0.10 فیصد اور کیلے 1.01 فیصد تک سستے ہوئے۔

چکن کی قیمتوں میں 6.019 فیصد، انڈوں کی قیمتوں میں 0.93 فیصد، کوکنگ آئل کی قیمتوں میں 0.72 فیصد، ویجیٹیبل گھی کی قیمتوں میں 0.70 فیصد، خشک پاوڈر دودھ کی قیمتوں میں 0.39 فیصد، چائے کی پتی کی قیمتوں میں 0.56 فیصد، آٹے کی قیمتوں میں 2.88 فیصد اوردال مونگ کی قیمتوں میں0.37 فیصد اضافہ ہوا۔

متعلقہ مضامین

  • پیٹرولیم ڈیلرز کا ملک بھر میں  پمپس بند کرنے کا عندیہ
  • ڈیلر مارجن میں اضافے کا مطالبہ مسترد: پیٹرول پمپس بند کرنے کی دھمکی
  • پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز کا ملک بھر میں پمپس بند کرنے کا عندیہ
  • پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کا ملک بھر میں پمپس بند کرنے کا عندیہ
  • ملک میں دوسرے ہفتے بھی ہفتہ وار مہنگائی میں کمی
  • پاکستان نے آئی ایم ایف کو 18 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی یقین دہانی کرادی
  • پانی کے تنازع پر میکسیکو کو نئے ٹیریف کی امریکی دھمکی
  • آئی ایم ایف نے پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کردیا
  • کوہاٹ، OGDCLنشپا بلاک سے تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت