کرپشن کے خاتمے کو بیانیہ بنا لیں
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
پی ٹی آئی کے ایک رہنما فیصل چوہدری کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے تین سالوں میں کوئی سیاسی بیانیہ بنا سکی نہ ہی بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کا توڑ کر سکی ہے۔ فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد الزامات کا جواب دینے کے لیے پی ٹی آئی کے پاس کچھ مواد نہیں، انھیں الزامات کا جواب دینا چاہیے تھا، بس انھیں جمہوریت یاد آگئی ہے کہ یہی رویہ رہا تو جمہوریت کی ایسی تیسی ہو جائے گی۔
پی ٹی آئی اپنے وزیر اعظم کی آئینی برطرفی کو درست نہیں سمجھتی بلکہ سازش قرار دیتی آ رہی ہے۔ جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی اس وقت پی ٹی آئی کے پسندیدہ چیف جسٹس پاکستان موجود تھے اور سپریم کورٹ کے حکم پر ہی تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تھا کیونکہ پی ٹی آئی کے ڈپٹی اسپیکر نے مذکورہ اجلاس کو غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کر دیا تھا اور وہاں موجود وزیر اعظم نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے بجائے ڈپٹی اسپیکر کے غیر قانونی اقدام کے بعد اپنے صدر مملکت کو قومی اسمبلی توڑنے کی ہدایت کی تھی جس پر عمل کرتے ہوئے صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کردی تھی جو جمہوریت کے خلاف صدارتی فیصلہ تھا جو سپریم کورٹ نے فوری طور کالعدم قرار دے کر تحریک عدم اعتماد کا اجلاس منعقد کرنے کا حکم دیا تھا جو جمہوری فیصلہ تھا جس پر عمل ہوا تھا اور آئین کے مطابق ہی اجلاس میں وزیر اعظم کے خلاف جمہوری طور پر تحریک عدم اعتماد منظور کی گئی تھی جس کو بانی پی ٹی آئی نے غیر ملکی سازش قرار دیا تھا۔
اگر تحریک عدم اعتماد غیر آئینی تھی تو برطرف ہونے والے وزیر اعظم کو اسے فوری طور سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہیے تھا اور امریکی سائفر کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں ثبوت کے طور پر پیش کرنا تھا۔ تحریک عدم اعتماد اگر غیر آئینی اور امریکی سازش ہوتی تو ممکن تھا کہ ججز وزیر اعظم کو بحال کر دیتے۔ اپنی برطرفی کو درست سمجھ کر ہی برطرف وزیر اعظم بنی گالا چلے گئے تھے اور اپنا سیاسی بیانیہ سائفر اور امریکی سازش کو بنایا تھا جس کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا اور وہ بیانیہ ناکام رہا تھا جس کے بعد برطرف وزیر اعظم نے اپنے صدر کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ ملاقاتوں میں اپنی بحالی کی کوشش کی تھی جو ناکام ثابت ہوئی۔
امریکی سائفر، خفیہ بحالی کی کوشش کی ناکامی کے بعد برطرف وزیر اعظم سخت مشتعل تھے اور انھوں نے نیا بیانیہ بنایا کہ خفیہ قوتوں نے میری حکومت ختم کرائی ہے۔ اپنی بحالی کی ہر کوشش میں ناکامی کے بعد اپنی مرضی کے نئے آرمی چیف کی تقرری کے لیے بانی نے پچاس سے زیادہ جلسے اور راولپنڈی تک لانگ مارچ کیا مگر ان کی خواہشات خاک میں مل گئیں اور نئے حالات نے بانی کو مکمل مایوس کر دیا ہے اور ان کے پاس 2030 تک برداشت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہ بات سو فی صد درست ہے کہ پی ڈی ایم کا نیا وزیر اعظم سولہ ماہ تک رہا جس کے دوران بانی نے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جس میں کامیابی کے لیے انھوں نے اپنی دو حکومتیں بھی ختم کرائیں اور ججز دونوں صوبوں میں حکم دے کر بھی نئے انتخابات نہ کرا سکے جس میں ناکامی کے بعد بانی کو نئے انتخابات کا انتظار کرنا پڑا جو نوے دنوں کے بجائے 6 ماہ کی نگراں حکومت میں منعقد ہوئے تھے۔
سولہ ماہ تک وزیر اعظم رہنے والے شہباز شریف اور ان کی پارٹی اپنا نیا بیانیہ بنانے میں ناکام رہے اور (ن) لیگ وہ انتخابی مہم بھی نہ چلا سکی تھی جس کی توقع تھی کیونکہ (ن) لیگ کے پاس کوئی بیانیہ تھا ہی نہیں اور اس کے سابقہ حلیف بلاول بھٹو نے اپنی انتخابی مہم (ن) لیگ کے خلاف چلائی تھی۔ (ن) لیگ فروری الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت نئی حکومت بنانے پر اس لیے مجبور تھی کہ بانی نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کرکے اپنی پارٹی کی 80 فی صد کامیابی اور زبردست دھاندلی کا نیا بیانیہ بنایا جس کے وہ ماہر ہیں۔
اپنے حامی اینکروں، صحافیوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کے انتہائی موثر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے بانی کے اس بے بنیاد بیانیے کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور انتخابات اب تک متنازع چلے آ رہے ہیں۔ بانی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ اگر دھاندلی سے پی ٹی آئی کو ہروایا گیا تھا تو ایسا کرنے والوں نے پی ٹی آئی کی کے پی میں بھاری اکثریت سے تیسری بار حکومت کیسے قائم ہونے دی۔ دھاندلی تو کے پی میں بھی کرائی جا سکتی تھی جہاں دھاندلی کا جے یو آئی ودیگر بھی الزام لگا رہے ہیں۔
سیاسی بیانیہ میں ناکام مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کو پونے دو سال گزر چکے ہیں جن میں حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کا ضرور ریکارڈ قائم ہوا ہے اور اب بھی (ن) لیگ کے پاس ملکی ترقی کے لیے بیانیہ نہیں ہے مگر حال ہی میں وزیر اعظم نے گوجرانوالہ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ عوامی خدمت سے آیندہ انتخابات بھی جیتیں گے۔ انھوں نے یہ حقیقت بھی تسلیم کی کہ تعمیر و ترقی کا سفر نواز شریف نے شروع کیا تھا جو مریم نواز شریف جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شہباز شریف کی حکومت میں عوامی خدمت یہ ہوئی ہے کہ مہنگائی و بے روزگاری انتہا پر ہے۔ آئی ایم ایف نے (ن) لیگی حکومت میں ہونے والی کرپشن بے نقاب کی ہے مگر حکومت حقیقت تسلیم نہیں کر رہی۔ پنجاب میں جاری تعمیر و ترقی وزیر اعلیٰ کا ریکارڈ بن رہی ہے اس لیے وفاقی حکومت کو آئی ایم ایف کی رپورٹ کو درست مان کر ملک میں کرپشن کے خاتمے کا نیا بیانیہ بنانا چاہیے جس کی ابتدا وزیر اعظم اور وزرا سادگی سے شروع کریں۔ ضرورت سے زائد مراعات واپس کرکے کرپشن کے خاتمے کا آغاز کریں کیونکہ مہنگائی و بے روزگاری کا شکار عوام اب کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تحریک عدم اعتماد پی ٹی آئی کے سپریم کورٹ نیا بیانیہ میں ناکام تھا اور کے بعد کے لیے کے پاس
پڑھیں:
بلغاریہ میں مہنگائی اور کرپشن کیخلاف عوام سڑکوں پر‘ وزیراعظم مستعفی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251212-01-25
صوفیہ(مانیٹر نگ ڈ یسک )بلغاریہ کے وزیراعظم روزن ژیلیازکوف نے اپنے سیاسی اور حکومتی عہدوں سے استعفا دے دیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بلغاریہ کے وزیراعظم نے ملک بھر میں کئی ہفتوں سے جاری حکومت مخالف احتجاج کے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے باعث استعفا دیا۔ عوامی احتجاج اور مظاہرے اس زور پکڑنے لگے تھے جب حکومت نے 2026ء کے بجٹ کی تجاویز پیش کی تھیں جس میں ٹیکس اور سوشل سیکورٹی میں ہوشربا اضافہ
کیا گیا تھا۔عوام اور اپوزیشن جماعتوں کا بھی مطالبہ تھا کہ حکومت عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کے بجائے کرپشن کم کرے۔ جس نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔حکومت مخالفین کا کہنا تھا کہ ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ کرکے کرپشن کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس کے بعد ملک بھر میں حکومت کے خلاف شدید احتجاج اور پْرتشدد مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ حکومت کو بجٹ تجاویز واپس لینا پڑیں۔حکومت کے احتجاجات صرف دارالحکومت تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ درجنوں شہروں میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔جس کے بعد سے وزیراعظم پر عدم اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے دبائو میں اضافہ ہوگیا تھا تاہم اس سے قبل ہی مستعفی ہونے کا اعلان ٹیلی وژن خطاب میں کیا۔بلغاریہ میں گزشتہ 4 برس کے دوران 7 بار الیکشن ہوچکے ہیں اور گزشتہ چند برس میں متعدد غیر مستحکم حکومتیں بنتی رہیں اور تحلیل ہوتی رہی ہیں۔جس کے بعد سے حکومت پر عوام کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے تاہم اس بار بھی امکان ہے کہ جلد نئے انتخابات ہوں گے جب تک کوئی نئی قائم حکومت تشکیل نہیں پاتی۔