اسرائیلی سپریم کورٹ کا حکم: فلسطینی قیدیوں کو 3 وقت کھانا دیا جائے
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
اسرائیلی سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کو دن میں تین وقت کھانا فراہم کیا جائے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ قیدیوں کو بنیادی خوراک سے محروم رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ تین رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت فلسطینی قیدیوں کو معیاری اور وافر خوراک دینے کی پابند ہے۔
یہ فیصلہ دو اسرائیلی انسانی حقوق تنظیموں کی درخواست پر سنایا گیا جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ قیدی خوراک کی کمی کے باعث بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔
فلسطینی حکام کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک ہزاروں فلسطینی بغیر کسی الزام کے قید کیے گئے اور رہائی پانے والوں نے اذیت ناک حالات بیان کیے ہیں، جن میں ناکافی خوراک اور طبی سہولتوں کی کمی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق اب تک 61 فلسطینی اسرائیلی قید میں جان سے جا چکے ہیں، جن میں ایک 17 سالہ قیدی بھی شامل ہے جو مبینہ طور پر بھوک اور غذائی قلت سے ہلاک ہوا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قیدیوں کو
پڑھیں:
وقف قانون پر سپریم کورٹ کی متوازن مداخلت خوش آئند ہے، مسلم راشٹریہ منچ
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے متنازعہ شقوں پر عارضی پابندی عائد کی ہے، جن پر وسیع پیمانے پر اعتراضات سامنے آئے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی قانون 2025 پر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے نے سیاسی اور سماجی حلقوں میں وسیع بحث کو جنم دیا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) نے اس حکم کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا اور اسے ملک اور معاشرے کے مفاد میں ایک متوازن اور تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ فورم کے قومی رابطہ کار شاہد سعید اور خواتین ونگ کی قومی سربراہ ڈاکٹر شالینی علی نے اسے ایسا اقدام قرار دیا جو ملک میں بھائی چارہ، اتحاد اور منصفانہ ماحول کو مزید مضبوط کرے گا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے متنازعہ شقوں پر عارضی پابندی عائد کی ہے، جن پر وسیع پیمانے پر اعتراضات سامنے آئے تھے۔ ان میں مسلمانوں کے لئے اسلام کی پانچ سال تک پیروی کی شرط، کلکٹر کو وقف کی جائیدادوں کے تعین کا اختیار اور وقف کی جائیدادوں سے متعلق فیصلے کرنے کی انتظامی طاقت شامل ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ان شقوں پر تفصیلی سماعت کے بعد ہی حتمی فیصلہ ہوگا۔
ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ قانون کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں، یعنی باقی قانون لاگو رہے گا جب کہ متنازعہ شقوں پر عدالت حتمی فیصلہ سنائے گی۔ مسلم راشٹریہ منچ کے قومی رابطہ کار شاہد سعید نے سپریم کورٹ کے حکم کو ہر طبقے کے لئے قابل احترام اور قابل قبول قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ قومی اتحاد اور سالمیت کو مزید مضبوط کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ متوازن اور دل کو سکون دینے والا ہے، اس نے مسلمانوں میں پیدا شدہ الجھن کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ عدالت نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد ریلیف دیا، جس سے یہ یقین مضبوط ہوتا ہے کہ عدلیہ عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور غیر جانبدارانہ فیصلے کرتی ہے، یہ حکم بھارت کی جمہوری روایت کو مکمل طور پر مضبوط کرتا ہے۔
مسلم راشٹریہ منچ کے خواتین ونگ کی قومی سربراہ ڈاکٹر شالینی علی نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالتی غیر جانبداری اور بھارتی جمہوریت کی مضبوطی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ عدلیہ نہ صرف غیر جانبدار ہے بلکہ ہر طبقے، ہر کمیونٹی اور ہر حصے کے جذبات کا مکمل احترام بھی کرتی ہے۔ اس حکم نے نہ صرف وقف ترمیمی قانون سے متعلق شبہات دور کیے ہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والی الجھن کو بھی ختم کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ معاشرتی ہم آہنگی، بھائی چارہ اور ہم نصابی تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ اس کا دل سے خیرمقدم کرتا ہے۔
مسلم راشٹریہ منچ نے اس حکم کو بھارتی آئین میں درج بنیادی حقوق سے منسلک کیا۔ تنظیم کے مطابق یہ فیصلہ آرٹیکل 14 (برابری کا حق)، آرٹیکل 25 (مذہبی آزادی) اور آرٹیکل 300A (جائیداد کا حق) کی عملی تشریح کی نمائندگی کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ بھارت میں کسی مخصوص مذہب پر من مانے پابندیاں عائد نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی حکومت انتظامی طاقت کے ذریعے جائیداد کے حقوق کو محدود کر سکتی ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کا ماننا ہے کہ یہ حکم صرف ایک تکنیکی قانونی معاملہ نہیں بلکہ سماجی انصاف اور آئینی اخلاقیات کی بحالی ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد اصل چیلنج یہ ہے کہ وقف کی جائیدادوں کا فائدہ صحیح مستحقین تک پہنچے۔